یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری
بدایونی کی ایوارڈ یافتہ کتاب خیرآبادیات سے پیش کیا گیا ہے
خانوادۂ خیرآبادکے رجال نے تو علم وفضل کے میدان میں اپنے جھنڈے نصب کیے
ہی ہیں ان کی خواتین نے بھی اس میدان میں اپنی اہمیت اور قابلیت کو منوایا
ہے ، اس خاندان کی بعض خواتین جن کے تذکرے کتابوں میں محفوظ رہ گئے وہ علم
وفضل میں اپنے عہد کی خواتین میں ممتاز نظر آتی ہیں،بقول بی بی ہاجرہ
خیرآبادی( زوجہ مولانا عبدالحق خیرآبادی)’’میر زاہدامور عامہ(فلسفہ و
کلام کی منتہی کتاب) تک تو اس خاندان کی مستورات بھی شُدبُد رکھتی ہیں‘‘-اس
خاندان کی کم از کم تین خواتین کے بارے میں تاریخی شواہد موجود ہیں جن کی
روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ خواتین معقول ومنقول اور علوم ادبیہ
میں خاصا درک رکھتی تھیں،ممکن ہے اس خاندان کی اہل علم وفضل خواتین کی
تعداداس سے زیادہ ہو-
ان ۳؍خواتین کا تذکرہ بھی کہیں تفصیل کے ساتھ نہیں ملتا،ضمناً بعض کتابوں
میں کہیںسرسری تذکرہ آگیاہے،انہی منتشر معلومات کو جمع کرکے ہم یہاں پیش
کررہے ہیں تاکہ ’’خیرآبادیات‘‘کا یہ تابناک باب بھی روشنی میں آسکے-
(۱)بی بی سعید النساء حرماں ؔ خیرآبادی:آپ علامہ فضل حق کی صاحبزادی
تھیں،آپ کا عقد احمد حسین رسواؔکے ساتھ ہوا،منشی افتخار حسین مضطرؔ
خیرآبادی اور محمد حسین۔بسملؔ خیرآبادی آپ ہی کے فرزند تھے، معروف شاعر
جاں نثار اخترآپ کے پوتے اور مضطرؔ خیرآبادی کے بیٹے تھے-
بی بی حرماںؔ خیرآبادی نے درسیات کی تکمیل اپنے والد ماجد ہی سے کی
تھی،درسیات میں ان کی کیسی گہری نظر ہوگی اس کا اندازہ مولانا عبدالحق
خیرآبادی کے اس مشہور جملے سے ہوسکتا ہے جو آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:
اچھا ہوا کہ سعیدالنسا بہن ہوئیں،ورنہ ان کے سامنے ہمیں کون پوچھتا(باغی
ہندوستان ،ص:۳۳۳)
بی بی حرماں ؔخیرآبادی ایک مرتبہ ٹونک تشریف لے گئی تھیں،حکیم برکات احمد
ٹونکی کے صاحبزادے مولانا حکیم سید محمد احمد ٹونکی (م:۱۳۵۲ ھ ؍۱۹۳۲ئ) اپنا
مشاہدہ تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھے یہ عزت حاصل ہے کہ میں نے مجدد الحکمۃ الیونانیہ حضرت علامہ فضل حق
خیرآبادی برداللہ مضجعہ کی صاحبزادی انار اللہ برہانھا کی زیارت کی ہے ،اس
عزت کو میں سرمایہ سعادت سمجھتا ہوں،ہماری انتہائی خوش قسمتی تھی اور
سرزمین ٹونک کو انتہائی فخر کا موقع حاصل ہونا تھاکہ وہ ٹونک تشریف لائیں
تھیں،نواب وزیرالدولہ بہادر جنت آرام گاہ (دوسرے والی ٹونک)کی علم دوستی
نے جہاں ہزاروں اہل کمال کو اطراف ہند سے کھینچاتھاوہاں خیرآباد شریف کے
بھی چند خاندانوں کو ٹونک بلالیا گیا تھا،اس کی برکت سے اخیر اخیر میں مجھے
اور میرے خاندان کو یہ عزت حاصل ہوئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج بھی وہ
تصویر آنکھوں میں پھر رہی ہے کہ استاذالہند مولانا برکات احمد صاحب قبلہ
بی بی صاحبہ کے سامنے گردن جھکائے مؤدب ایک بے علم انسان کی طرح بیٹھے
ہیںاور ان کے جوش تقریر کا یہ عالم ہے کہ کسی موضوع پر نہیں رکتیں،ضعیف
القویٰ تھیں کبیر سن تھیں،اعضا میں رعشہ تھا،مگر معلوم ہوتا تھا تمام قوتیں
قوت ناطقہ میں منجذب ہوگئی ہیں،کیا تقریر تھی،کیا اتار چڑھاؤ تھا،کیاشستگی
تھی،کیا برجستگی تھی،کیسی پُر رعب آواز تھی-‘‘(مولانا حکیم سیدبرکات
احمدسیرت اور علوم:ص۱۰۳،۱۰۴)
حضرت حرماںؔ خیرآبادی کی کسی تصنیف کا پتہ نہیں چلتاالبتہ ان کی اردو اور
فارسی شاعری کے کچھ نمونے مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی نے ’’باغی
ہندوستان‘‘ میں اور مفتی نجم الحسن خیرآبادی نے ’’خیرآباد کی ایک جھلک
‘‘میںمحفوظ کر دیے ہیں-
(۲)حضرت ہاجرہ بی خیرآبادی:آپ مولانا فضل الرحمن بن مولانا فضل امام
خیرآبادی کی صاحبزادی ،علامہ فضل حق خیرآبادی کی بھتیجی اور مولانا
عبدالحق خیرآبادی کی زوجۂ محترمہ ہیں،ان کے علم وفضل کے ثبوت میں یہ
واقعہ کافی ہے کہ جب مولانا برکات احمد ٹونکی مولانا عبدالحق خیرآبادی سے
اخذ علم کررہے تھے توان کو احساس ہوا کہ اب وہ عالم ہوگئے ہیں ان کو واپس
گھر جانا چاہیے،جب اجازت لینے کے لیے بی بی صاحبہ کے پاس گئے تو آپ نے
پوچھا بیٹا کتنا پڑھ لیا؟مولانانے جواب دیا کہ میر زاہد امور عامہ تک پڑھ
لیا،بی بی صاحبہ نے فرمایا کہ میں تم سے امور عامہ کا کوئی سوال پوچھوں؟یہ
سن کر مولانا شرمندہ ہوئے اور واپس جانے کا ارادہ ترک کردیا،یہ پورا واقعہ
خود مولانا حکیم برکات احمد ٹونکی کی زبانی پڑھیے،آپ فرماتے ہیں:
میں نے مروجہ درس نظامی کی تکمیل کر لی تھی،متقدمین حکما کی کتابیں پڑھ رہا
تھا،مگر ناغوں کی کثرت کی وجہ سے ایک بار یاس کا سا عالم طاری ہوگیااور میں
نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب اصل نصاب کی تکمیل ہوچکی ہے ،غیر نصابی کتابیں
بھی نکل جاتیں تو خوب تھامگر ناغوں کی اس کثرت کے ساتھ تو کئی برس درکار
ہیں،ادھر والد ماجد تقاضے فرمارہے تھے کہ جلد آؤ ،اس لیے اب رخت سفر
باندھنا چاہیے مگر علامہ سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس منزل کو تکمیل تصور
فرماکر اجازت (مر حمت ) فرمائیں،اس لیے بیوی صاحبہ (علامہ کی حرم
محترم)رحمۃ اللہ علیہا سے رخصت کرنے کے لیے ڈیوڑھی (زنان خانہ)حاضر ہوا اور
کہلوایا کہ برکات احمد واپس جارہا ہے ،رخصت طلب کرنے اور سلام کرنے حاضر
ہوا ہے ،بیوی صاحبہ نے جب یہ پیغام سنا توعلامہ کی شفقت کے واسطے سے وہ بھی
شفقت فرماتی تھیں،یہ اطلاع پاکر اتنی مضطرب ہوئیں اور پردہ کرواکر خود ہی
ڈیوڑھی پر چلی آئیںاور فرمایا ’’بیٹا مُلا برکت !ہم نے سنا ہے تم جاتے
ہو،اور ماشاء اللہ تکمیل درس کرلی ہے ،اللہ تعالیٰ مبارک کرے مگر بیٹا
مولانا نے ہم سے ذکر نہیں کیاکہ تم فارغ ہوگئے،کیوں بیٹا کہاں تک پڑھ لیا؟
مولانا نے ادب سے عرض کی کہ ’’تمام نصاب درس کی تکمیل کر لی ہے اور میر
زاہد امور عامہ تک پڑھ لیا ہے ‘‘امور عامہ کا نام سن کر ہنستے ہوئے فرمایا
’’بھئی امور عامہ تک پڑھ کر خود کو فارغ اور فاضل سمجھ رہے ہو،کیا میں امور
عامہ کے متعلق کوئی سوال پوچھ سکتی ہوں؟بیٹے!امور عامہ تک تو اس خاندان کی
مستورات بھی شُدبُد رکھتی ہیں۔
مولانا فرماتے تھے کہ’’بیوی صاحبہ کی یہ تقریر سن کر انفعال سے حالت غیر
ہوگئی اورمیں نے بمشکل یہ الفاظ ادا کیے کہ میں اپنے فیصلے پر نادم
ہوں،اپنا فیصلہ فسخ کرتا ہوںآپ سے استقلال کی دعا کی درخواست ہے(مولانا
حکیم سید برکات احمد سیرت اور علوم :ص۱۵۴؍۱۵۵)
جس خاندان میں ۱۲؍۱۳؍سال کے بچے(علامہ فضل حق خیرآ با د ی ) الافق المبین
جیسی منطق کی آخری کتاب پر محققانہ اور ناقدانہ گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے
ہوںاور ۱۴؍ سال کے نوخیز (مولانا عبدالحق خیرآبادی ) قاضی مبارک جیسی دقیق
کتاب پر بر جستہ حاشیہ تحریر کرجاتے ہوں اس خاندان میں اگر خواتین میرزاہد
امور عامہ تک ’’شُد بُد رکھتی ہوں‘‘تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔
(۳) بی بی رقیہ بنت عبدالحق خیرآبادی : علامہ عبدالحق خیرآبادی کی
صاحبزادی بی بی رقیہ خیرآبادی٭ بھی عالمہ اور فاضلہ تھیں ،ان کے علم وفضل
کے ثبوت کے لیے ان کی تفسیر قرآن ہی کافی ہے ،ہم یہاں ان کی تفسیر قرآن
کا مختصر تعارف کروائیں گے۔
اس تفسیر کا نام ’’تفسیر طیبات بینات‘‘ معروف بہ’’ـ صراط مستقیم‘‘ ہے،سرورق
پر لکھا ہے کہ ’’کتاب کا نام مولوی برکات احمد صاحب نے رکھا ہے ‘‘،یہ کتاب
مصنفہ نے اپنی پھوپھی کی فرمائش پرتصنیف فرمائی تھی، سرورق پر جلی قلم سے
مرقوم ہے ’’حسب فرمائش جناب پھوپھی صاحبہ دختر مولانا فضل حق صاحب
خیرآبادی‘‘یہ تفسیر آسان اردو میں خاص طور پر عورتوں کے لیے لکھی گئی
ہے،اس میں آپ نے زیادہ تر آیات احکام کے ترجمہ و تفسیر پر اکتفا کیا ہے
،یہ تفسیرعلامہ برکات احمد ٹونکی (تلمیذ مولانا عبدالحق خیرآبادی)جیسے
استاذ وقت کی تقریظ اور تصدیق سے مزین ہے ،اس پر دوسری تقریظ مولانا
بشیرخان رامپوری (تلمیذ مولانا فضل حق رامپوری ) صدر المدرسین مدرسہ نیازیہ
خیرآباد کی ہے۔
اس تفسیرکا ایک نایاب قلمی نسخہ خانقاہ صمدیہ پھپھوند شریف (یوپی۔انڈیا)کے
کتب خانے میں محفوظ ہے،اسی نسخہ کا عکس کتب خانہ قادریہ بدایوں میں ہے جو
اس وقت ہمارے پیش نظر ہے ،یہ تفسیربڑی تقطیع پر ۱۷۹؍ صفحات پرمشتمل ہے،جلی
خط میں ہر صفحہ پر ۱۵؍سطریں ہیں،اس نسخے کے کاتب نثار احمد خیرآبادی ابن
مشیر احمد ابن بشیر احمد خان بہادر ہیں۔
علامہ برکات احمد ٹونکی اپنی تقریظ میں فرماتے ہیں:
آج تک جتنی تفاسیر اور تراجم عربی،فارسی،اردو میں قرآن پاک کی ہوئی ہیں
گو وہ لا تعد ولاتحصیٰ سہی لیکن یہ تراجم صرف رجال امت کے ساتھ خصوصیت
رکھتے ہیں اب تک کوئی تفسیر یا ترجمہ قرآن پاک کا ایسا نہیں گذرا جو نساے
امت سے تعلق رکھتا ہو،سب سے پہلے ملک ہندستان میں جس نے اس میدان میں قدم
رکھا وہ ملک العلما ، شمس الفضلا،وحید العصر ،فرید الدہر علامہ ٔ زمن
،استاذالکل ،شہسوار میدان تحقیقات علمیہ ،محرر تدقیقات حکمیہ استاذنا
ومولانا مولوی عبدالحق العمری الخیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ مع اساتذتہ رحمۃ
واسعۃ کی صاحبزادی جنابہ رقیہ بی صاحبہ ہیں جنہوں نے عام اردو میں اکثر
آیات احکامیہ کا ترجمہ کیا اور اس کے ذیل میں مفسرین کے اقوال سے اس کے
فوائد بیان کیے ،میں نے اس تفسیر کو اول سے آخر تک دیکھا ہے اس کے جملہ
مضامین صحیح اور قابل عمل ہیں،ترجمہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے کیا گیا ہے
،میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اس تفسیر سے ملک کے افراد کو مستفیض
کرے اور ہر فرد بشر اس سے بہرہ مند ہو ،اور سب کو عمل کی توفیق نصیب
ہو-حررہ ابو محمد برکات احمد کفش بردار حضرت شمس العلما علامہ عبدالحق
خیرآبادی قدس سرہ۔
مولانا بشیرخان رامپوری نے اپنی مختصر تقریظ میںلکھا ہے کہ:
تفسیر بی بی صاحبہ کو میں نے مختلف مقامات سے دیکھا جس کے مضامین کی خو بی
اور ترجمہ کی عمدگی کیا بیان کی جائے جس کی تقریظ علامۂ زمن مولانا ابو
محمد برکات احمد صاحب نے لکھی اور تعریف میںچند کلمات تحریر فرمائے ہیں
دوسرا کیا قلم اٹھا سکتا ہے ،آخر میں دعا کرتا ہو ں کہ اللہ جل شانہ اس
تفسیر سے افراد ملک کو فائدہ بخشے اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق عطا فر
ما ئے ، محمد بشیرغفر لہ صدر المدرسین مدرسہ نیازیہ خیرآباد۔
کتاب کی ابتدا خطبہ کے بعد ان جملوں سے ہوتی ہے :
’’حمد اس خدا کو جو عالم کا پروردگار ہے اور درود اور سلام اس نبی پر جو سب
نبیوں کا سردار ہے ،میں نے قرآن شریف کا ترجمہ دیکھااور تفسیر دیکھی تو
آنکھیں کھل گئیں،دنیا کو دیکھا تو قرآن شریف سے بالکل خلاف چل رہی ہے،بہت
لوگ ہمارے بھائی بند یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ قرآن شریف کیا چیز ہے اور
کیوں اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ،بہت لوگ ایسے ہیں کہ قرآن شریف کے خلاف
ہر بات کرتے ہیں جو جی میں آتا ہے وہ کرتے ہیںاور اگر کوئی بات قرآن شریف
کی کسی سے بیان کی جاتی ہے یا منع کیا جاتا ہے کہ ایسا نہ کروتو یہ جواب
دیتے ہیں’’تم ہی تو جانتی ہو‘‘اور ایک یہ جواب ہے کہ ’’سبھی کرتے ہیں
‘‘،مثالیں دی جاتی ہیں کہ فلاں نے ایسا کیا -میں نے قرآن شریف کے کچھ حکم
مع چند آیتوں کے اور ترجمہ وتفسیر لکھی ہے اردو صاف زبان میں جس کی صحت
مولوی برکات احمد صاحب شاگرد رشید مولانا عبدالحق صاحب خیرآبادی ومولوی
بشیر خان صاحب رامپوری شاگرد رشید مولانا عبدالحق صاحب خیرآبادی کرچکے ہیں
،اب اس میں کسی بات کی غلطی نہیں ہے ،اسے ہر شخص اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے
،پھر جس کو اللہ ہدایت دے گا وہ راہ پر آوے گا اور اس کتاب کا نام رکھا
گیا ’’تفسیر طیبات بینات المعروف بہ صراط مستقیم۔
کتاب کااختتام ان جملوں پر ہوتا ہے:
اللہم بارک فی کتابنا،میں اپنی اس ناچیز کتاب کومندرجہ بالا دعا پر ختم
کرتی ہوں،اور ناظرین سے درخواست ہے کہ خود بھی پڑھیں اوروں کو بھی
سناویں،مؤلفہ خاکپائے علما وخادمہ اہل جہاں رقیہ خاتون بنت وحید العصر
علامۃ الدہر حضرت مولانا عبدالحق صاحب مرحوم ومغفور ابن جناب مولانا فضل حق
صاحب مرحوم ومغفور خیرآبادی مدفون در کالا پانی،ابن مولانا فضل امام صاحب
جعل الجنۃ مثواہ المرقوم ۲۶؍جمادی الاول ۱۳۴۵ ہجری المقدس نبوی ۔
کتاب کی زبان نہایت آسان ہے،ترجمہ بہت سادہ الفاظ میں کیا گیا ہے تاکہ عام
آدمی سمجھ سکے،تفسیر میں کسی قسم کے علمی مباحث کو نہیں چھیڑا گیا ہے،بلکہ
آیت کریمہ سے جو ایک عمومی مفہوم مستفاد ہوتاہے جس کا براہ راست تعلق فرد
یا معاشرے کی اصلاح سے ہے اس کو داعیانہ اور مصلحانہ اسلوب میں بڑی سادگی
سے بیان کردیا گیا ہے،کہیں کہیں اودھ کی عام بول چال کا اسلوب بھی نظر آتا
ہے،اور بعض جگہ ایسا محسوس ہوتا کہ مصنفہ آپ کے روبرو بیٹھ کر گفتگو
فرمارہی ہیں۔
اس تفسیر کا تذکرہ اب تک کسی جگہ میری نظر سے نہیں گزرا،اور نہ ہی اس کے
کسی دوسرے نسخے کا مجھے علم ہے،غالباً پہلی مرتبہ یہ تفسیر روشنی میں آرہی
ہے۔ |