پیر نصیر الدین نصیر - ایک سورج تہہ خاک

مشہور قول ہے ” مَوتُ العالِم ، موتُ العالَم “ ۔ یہ قول گذشتہ دنوں ہم سے جدا ہونے والی بعض شخصیات پر کماحقہ صادق آتا ہے یوں تو ہر ایک نے اپنے وقت پر اس جہان رنگ وبو کو چھوڑنا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے کسی بھی موت کو بے وقت نہیں کہا جا سکتا اس لیئے کہ ہمارا عقیدہ ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے کہ موت ہمیشہ اپنے وقت پر آتی ہے ۔

البتہ بعض شخصیات ایسی ضرور ہوتی ہیں کہ جن کا جدا ہونا واقعتا ناقابل تلافی خلاءپیدا کر دیتا ہے ۔انہی شخصیات میں سے ایک ایسی شخصیت بھی ہم سے جدا ہوگئی ہے کہ جس کے لئے بلاجھجک یہ کہا جا سکتا ہے ۔ ع تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ۔ میری اور آپ سب کی مرادپیر سید نصیر الدین نصیر مرحوم ہیں ۔ انہیں مرحوم کہتے ہوئے اپنے آپ پر یقین نہیں آتا بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ وہ ہم سے کیسے جدا ہو سکتے ہیں؟ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دینوی معیارات کے مطابق وہ ہم سے جدا ہو چکے ہیں ۔
کُل نفس ذائقة الموت

بہت سے لوگوں نے کہا ع خورشید چھپ گیا ہے ، ستارے اداس ہیں ان کا یہ کہنا درست دکھائی دیتا ہے
پیر نصیر الدین نصیر کو سورج سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ کیوں؟

اس لیئے کہ انہوں نے روایتی خانقاہی نظام سے منسلک رہتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کی ۔ انہیں سورج سے اس لیئے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ ان کی کرنیں ہر سو پڑیں ۔ وہ ایک پیرزادے تھے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اسی نظام میں رہ کر زندگی گذار دیتے ، لیکن انہوں نے سوچا کہ میں پیر تو ہوں لیکن ذرا منفرد انداز کا پیر بننے میں کیا حرج ہے ؟ اس کے لیئے انہوں نے اپنے جدّ امجد پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا ہوگا تو انہوں نے انہیں اپنی راہ کی جانب لازماً رہنمائی کی ہو گی ۔ پیر مہر علی شاہ بھی تو منفرد تھے ۔ پیر مہر علی شاہ نے بھی تو روایتی نظام سے ہٹ کر سفر کیا تھا ۔ انہوں نے بھی تو اپنے وقت کے سب سے بڑے فتنے جس کی زد براہ راست ختم نبوت کے عقیدے پر پڑتی تھی کا بھرپور محاسبہ کیا تھا ۔ پیر مہر علی شاہ نے بھی تو شاعری کا سہارا لیا تھا اور اپنے پیغام کو لافانی بنا دیا تھا اور پیر نصیر الدین نے بھی شعوری طور پر اسی راہ پر سفر کیا ۔ پیر نصیرالدین کی نظر نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ ُان کے زمانے کا ایک فتنہ امت مسلمہ میں افتراق کا ہے ۔ اُن کے زمانے کا دوسرا بڑافتنہ امت کے دلوں سے حب رسول ﷺ کو ختم کرنا ہے ۔

پیر نصیرالدین نے اپنی زندگی انہی دو فتنوں کے سدّباب کیلئے صرف کر دی ۔ انہوں نے اس کے لیئے تقریر و تحریر کا بھر پور استعمال کیا ۔ اللہ تعالٰی نے انہیں جو وجاہت عطا فرمائی تھی ۔ اس کا استعمال کیا اور بھر پور انداز میں امت کے اتحاد کی بات کی ۔ انہوں نے حبّ رسولﷺ کو مزید پختہ کرنے کے لیئے اپنی زبان اور قلم کا خوب خوب استعمال کیا ۔

پیر نصیر الدین نصیرکی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر طرح کے اجتماعات میں چلے جایا کرتے تھے وہ ایسے افراد کے پاس بھی چلے جاتے تھے، جن کے باعث انہیں شدید تنقیدکا سامنا کرناپڑتا تھا ، لیکن مجال ہے کہ انکے جذبے میں کمی آئی ہو ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنجے ۔

پیر نصیر الدین نصیر کا تثیر کا یہ عالم تھا کہ وہ مختلف اجتماعات میں سامعین کے غلط معتقدات پر بھرپور تنقید کیا کرتے تھے، لیکن انداز اتنا دل نشین ہوتا تھا کہ لوگ اجتماعات کے بعد بدمزہ نہیں ہوتے تھے ، بلکہ ان کے ہاتھ چومنے کیلئے دوڑے چلے آتے تھے ۔

پیر نصیر الدین نصیر نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں :۔
(۱)نام و نسب : اس میں نام و نسب اور نسبت کے حوالے سے نازک مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔
(۲)راہ و رسمِ منزل ہا: اس کتاب میں تصّوف کی اہمیّت و ضرورت اور عصری مسائل اور تقاضوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔
(۳)امام ابو حنیفہ اور ان کا طرز استدلال اِس کتاب میں ان کے علمی و فقہی مقام و مرتبے کا سیر حاصل تذکرہ ہے۔
(۴)اعانت و استعانت کی شرعی حیثیت : اس کتاب میں اثبات توحید اور ردّ شرک پر بات کی گئی ہے ۔
(۵)لطمة الغیب علی ازالة الریب میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مقام و مرتبے پر علمی انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔
(۶)رنگ نظام نامی کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اردو رباعیات شامل ہیں ۔
(۷)دیں ہمہ اوست : عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی نعتوں کا گلدستہ ہے ۔
(۸)فیضِ نسبت : اس کتاب میں عربی ، اردو ، فارسی اور پنجابی منقبتیں ہیں ۔
(۹)آغوش حیرت : فارسی رباعیات کا مجموعہ ہے ۔
(10)پیمان شب : اردو غزلیات کا پہلا مجموعہ ہے ۔
(۱۱)دست نظر : اردو غزلیات ہی کا دوسرا مجموعہ ہے ۔
(12)عرش ناز : اس کتاب میں فارسی ، اردو ، پوربی ، پنجابی اور سرائیکی میں متفرق کلام ہے ۔

پیر نصیر الدین نصیر لوگوں میں اپنے مقام و مرتبے کو خدائے بزرگ و برتر کی عطاء جانتے ہوئے ہمیشہ عاجزی و انکساری کا اظہار کیا کرتے تھے ان کی ایک حمد کا مقطع ہے
اہل فکر و نظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے
اے نصیر ! اس کو تو فضل باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

نعتِ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میدان میں ان کا فلسفہ اور بنیادی خیال ہمیشہ اس شعر کے گرد گھومتا تھا
اللہ بڑا ، اس کی رضا بھی ہے بڑی چیز
لیکن شہ بطحا سے وفا بھی ہے بڑی چیز

اور اسی عشق ومحبت میں ڈوبا ایک اور شعر
خورشید سے کچھ کم نہیں وہ چشم بشر میں
ذرّے جو نظر آئے مدینے کے سفر میں

اور ایک رباعی میں اپنے سارے ادبی سفر کا مقصد یوں بیان کیا ہے
سیرت لکھیں کہ شعر تصنیف کریں
ہر رنگ میں اہتمام توصیف کریں
شرح و رفعنا لک ذکرک یہ ہے
محبوب خدا کی کھل کے تعریف کریں

اسی ضمن میں ایک اور شعر بھی ملاحظہ ہو
مرے نسب کو ہے اس ذات پاک سے نسبت
اس اک شرف کا ہمیشہ رہے گا پاس مجھے

پیر نصیر الدین نصر توازن و اعتدال کو بہت اہمیت دیتے تھے ، وہ جہاں ذات خداوندی کو منبع عطاءسمجھتے تھے ، وہیں ذات مصطفی کو مرکز محبت جانتے تھے ۔ وہ نبی اکرم کے ساتھیوں کا بے حد احترام کرتے نظر آتے ہیں اور افراط و تفریط کو قریب نہیں آنے دیتے

بوبکر کا حسنِ صدقِ بیاں عدل عمرؓ آئین قرآن
عثمان غنی میں رنگ حیا حیدر کی سخا سبحان اللہ

کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں
قرآن میں ازواج نبوی امت کی مقدس مائیں ہیں
ابناءوبنات سر آنکھوں پر، شانِ زَہرا سبحان اللہ
ہے چاروں طرف اس دنیا میں شہرت اِنکی ، چرچا اِن کا
بوبکر و عمر و عثمان و علی ؓ ، انکے خُلفَا سبحان اللہ

دل صدیق و عمر ہو کہ بلال و سلماں
وہ نظر خیر سے جس کو بھی نشانہ کر لے
ذکر حق یاد نبی ، وجہ سکون دل ہے
یہ سبق وہ ہے جِسے یاد زمانہ کر لے

توازن و اعتدال کی اسی منہج پر گامزن پیر نصیر الدین کہتے ہیں
امرِ لازم ہے یہ ہر مرد ِمسلماں کے لیئے
عزّت ِآل ِنبی ، حرمتِ اتباعِ رسول
صاف باطن ہے تو بھیج ان پہ درود اور اسلام
ورنہ میں چھیڑوں گا پھر ذکر اُبی ابن سُلول
گرمئی عشقِ بلالِ حبشی پیدا کر
کہ بنے سینہ تیرا مہبطِ انوارِ رسول
میرے نزدیک یہی توشئہ عقبی ہے نصیر
حب ِاصحاب ِنبی ، الفتِ اولادِ بتول ؓ

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ’ موتُ العالِم ، موتُ العالَم ‘ صحیح ہے ۔ تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے بھی درست ہے ،

خورشید چھپ گیا ہے ، ستارے اداس ہیں بھی جذبا ت کی حقیقی ترجمانی ہے ، مگر کیا یہ خورشید چھپ سکتا ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ اپنے افکار و خیالات اور حب رسول ﷺ کے باعث پیر نصیر الدین ایک سورج بن کرتہ خاک روشن رہیں گے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے جدّ امجد پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ آج بھی ہمیں رہ رہ کراپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔
Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 62130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.