عالم اسلا م کے جمہور اہلسنت
والجما عت میں جن چا ر فقہی مکا تب فکر کرشرفِ قبو لیت اور مقا م شہرت نصیب
ہوا ،ان میں ایک مکتب فکر ”فقہ ِ حنبلی“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مکتب
فکر کے بانی امام احمدبن حنبلؒ ہیں، جو ایک ماہر فقیہ ہونے کے ساتھ عظیم
محدث بھی ہیں، بلکہ دیگر ائمہ فقہ کے مقابل آپ پر حدیث کا رنگ ہی زیادہ غا
لب رہا ،اسی لئے عام طورپر آپ کا فقہی مسلک مقبولیت و شہرت میں دیگر فقہی
مکاتب فکر سے کم درجے پر رہا ،یہا ں تک کہ بعض اہل علم نے آپ کے مستقل فقہی
مکتب کا انکا ر کرکے آپ کو صر ف محدثین کی صف میں شما ر کرلیا ،لیکن جمہو
رمحققین نے صا ف کہا ہے کہ اما م احمد بن حنبل ایک جلیل القدر مجتہد
اورماہر فقیہ بھی ہیں ۔شیخ الا سلا م ابن تیمیہ فرما تے ہیں:” اما م احمد
کے مجتہد وفقیہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،البتہ ان پر حدیث کا رنگ غا لب تھا
،انہوں نے محدث جریر بن عبدالحمید سے حدیث سننے کیلئے رَے (ایران ) جا نے
کا بھی ارادہ کیا تھا، لیکن خرچ نہ ہو نے کی وجہ سے نہ جا سکے ،اس بلند
ہمتی ،کثرت ِسفر اور فطری وغیر معمولی حا فظے کا نتیجہ تھا کہ ان کو دس لا
کھ حدیثیں یا د تھیں ۔اس وسعتِ علم اور کثرتِ حفظ کے باوجود اما م شافعی کی
شخصیت سے متا ثر تھے اور کہتے تھے :میری آنکھوں نے ان جیسا با کما ل شخص
نہیں دیکھا ۔انہو ں نے اما م شا فعی سے اجتہا د کے اصول سیکھے اور اس فن
میں مہا رت پید ا کی با لا ٓخر اس وقت کے نا مور مجتہد ین میں شما ر ہوئے
اور ان کی فقہ ابھی تک عا لم اسلا م میں زند ہ ہے“۔
آپ کا نا م احمد ،کنیت ابو عبداللہ ،لقب امام ِاہلسنت اور سلسلہ نسب یہ ہے
:امام احمد بن محمد بن حنبل شیبا نی بغدا دی۔آپ کا قبیلہ شیبا ن خا لص عربی
النسل قبیلہ ہے ،عہد صدیقی کے نامور اسلامی سپہ سا لا ر حضرت مثنیؓ بن حا
رثہ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا ۔آپ بغدا د میں 164ھ میں پید ا ہوئے، تین سا
ل کی عمر کے ہوئے تو والد کا انتقا ل ہو گیا اور آپ مکمل طور پر والدہ کے
زیر تربیت آگئے ۔انہوں نے شروع سے ہی تعلیم و تربیت کی طرف خا ص توجہ کی،اس
کی برکت سے آپ نے بچپن میں قرآن مجید حفظ کرلیا اور پھر زبا ن وادب کی
تعلیم حا صل کی ۔تقوی ونفا ست ، شرافت ودیا نت اور نجا بت و صلا حیت کے آثا
ر ابتداءسے نما یا ں تھے، انہیں نیک آثا ر کو دیکھ کر ایک صا حب نظر نے کہا
تھا :”اگر یہ نوجوا ن زندہ رہا تو اہل زما نہ پر حجت اور دلیل ہو گا “۔
جب علمِ حدیث شروع کیا تو آغا ز میں اما م ابو یوسفؒ کی خد مت میں حا ضر ہو
کر ان سے حدیثیں لکھیں ۔ پھر چار برس تک بغداد میں محدّث ہشیم بن بشیر
الواسطی سے استفا دہ کرتے رہے اور اسی عرصے میں بغداد کے دیگرمحدثین سے بھی
استفا دہ کیا ۔بغدا د سے فا رغ ہو کر کوفہ ،بصرہ ،مکہ ،مدینہ ،یمن ،شا م
اور جزیرہ کا سفر کیا اور ہر جگہ کے نا مور محد ثین سے علم حدیث وفقہ وغیرہ
حاصل کیا ۔علا مہ ابن جوزی نے آپ کے اساتذہ کی تعداد سو سے زائد بتا ئی ہے
،ان میں امام ابو یوسف ،ہشیم بن بشیر ،اما م وکیع ،یحیی بن سعید قطا ن
،سفیا ن بن عیینہ ا ورامام شافعی نمایاں نام ہیں ۔امام شافعی ؒسے دومرتبہ
ملا قا ت ہوئی اور ان سے حد درجہ متا ثر ہوئے اور بھرپور استفا دہ کیا۔امام
شافعی سے پہلی ملا قات حجاز میں، جبکہ دوسری مرتبہ بغداد میں اکھٹے ہوئے
۔آپ خود فرما تے ہیں :ہم کو مجمل و مفسر اورناسخ و منسوخ کا پتہ اس وقت چلا
جب ہم اما م شا فعی کی مجلس میں بیٹھے ۔ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ
نے پوچھاکہ شافعی کون تھے ؟میں دیکھتا ہوں کہ آپ ان کے لئے بہت زیادہ دعا
کرتے ہیں۔امام صاحب نے بتایا کہ بیٹے! امام شافعی دنیا کے لئے آفتاب اور
بدن کے لئے صحت کے مانند تھے، کیا ان دونوں چیزوں کابدل ہوسکتا ہے؟ میں تیس
سال سے امام شافعی کے حق میں دعا اور استغفار کرتاہوں ۔ہر وہ شخص جس کے
ہاتھ میں دوات اورکاغذ ہے اس کی گردن پر امام شافعی کا احسان ہے۔
آپ نے حدیث و فقہ کی تحصیل شروع کی تو اپنی پوری توانائیاں اور توجہ اسی کی
طرف مبذول کردی ،یہاں تک کہ اصحا ب حدیث آپ کو اپنا امام وفقیہ قرار دیتے
ہیں۔ اکا برمحدّثین مثلاًامام بخا ری ،امام مسلم ،اما م ابو داﺅد اور امام
ابو زرعہ نے آپ کے سا منے زانوئے تلمذتہہ کئے ہیں ،علمی وسعت ،معلومات
کااستحضار اور قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ آپ کے اسا تذہ بھی بلاجھجک آپ
سے استفادہ کرتے تھے ۔امام شا فعی ؒ حدیث و فقہ میں مہا رت کے با وجود احا
دیث کی تصحیح و تضعیف اور نقد و جرح میں آپ پر اعتما د فرما تے تھے ،ایک
مرتبہ ان سے کہا :اے ابو عبداللہ !جب کسی حدیث کی صحت آپ کے نزدیک ثا بت ہو
جا ئے تو مجھے بتا دیا کریں تا کہ میں اس پر عمل کرو ں۔آپ کی جلا لت قدراور
اما مت فن کا تما م معا صر اہل علم نے اعتراف کیا ہے ۔ایک موقع پر امام شا
فعی نے فرما یا :جب میں عراق سے نکلا تو اپنے پیچھے احمد بن حنبل سے بڑھ کر
صاحب علم وفضل اور عا بد و زاہد شخص نہیں چھوڑا ۔محدث اسحا ق بن راہویہ
فرما تے ہیں :احمد بن حنبل کا ئنا ت پراللہ تعا لٰی اور اس کے بندوں کے
درمیا ن حجت ہیں ۔ امامِ فن یحیی بن معین فرماتے ہیں :احمد بن حنبل میںجو
اوصا ف تھے ،وہ میں نے کسی عا لم میں نہیں دیکھے ،آپ ایک عظیم محدث ،نہا یت
عا بد و زاہد اور اعلیٰ درجے کے عا لم و عا قل تھے ۔
اما م احمد بن حنبل نے چا لیس سا ل تحصیل وتکمیل علم میں بسرکرنے کے بعد
باقاعدہ مجلس درس قائم کی اور حدیث وفقہ کا درس دینا شروع کیا ،ابتدا ءہی
سے ان کے درس میں سا معین و طا لبین کا اژدھا م ہو تا ،بسا اوقا ت ان کے
درس کے سامعین کی تعداد پانچ پا نچ ہزار ہو تی تھی ،جن میں پا نچ پا نچ سو
صرف لکھنے والے ہوتے تھے ۔جبکہ باقی حاضرین ان سے آداب اورنیک عادات سیکھتے
تھے ۔ان کی یہ مجلس درس بڑی بابرکت، سنجیدہ اور پُر وقا ر ہوتی تھی ۔آپ کی
زندگی علم وفن میں اتنی شہرت ومقبولیت کے با وجود زہد و تقوی اور عبا دت
وتوکل میں یکتا ئے روز گا ر تھی، سلاطین زما نہ اور خلفا ءکا عطیہ کبھی
قبول نہ فرما یا ۔آپ کو اپنی زندگی میں ایک نہا یت مہیب خطرنا ک اور طا
قتور فتنے کا سا منا کرنا پڑا ،اس آزما ئش میں یکے بعد دیگرے تین با د شا
ہوں سے آپ نے ٹکر لی اور ایسی ثا بت قدمی کا مظا ہرہ کیا کہ ایک قدم بھی
اپنے حق موقف سے پیچھے نہ ہٹا یا ،خلیفہ معتصم نے آپ کو سخت کوڑوں کی سزا
دلوائی لیکن آپ کو جھکنے پر مجبور نہ کیا جا سکا ،کمال یہ تھا کہ دوران سزا
جب بھی کوڑا پڑتاآپ خلیفہ وقت اور اس کے تمام حواریوں کو خطا ب کرکے کہتے
:میرے سامنے اللہ کی کتا ب یا اس کے رسول ﷺکی سنت میں سے کوئی دلیل پیش کرو
تا کہ میں تمہا رے موقف کو مان لوں الغرض حکومت وقت آپ کو اپنے موقف کی
قائل نہ کر سکی اور آپ نہا یت جرات مندانہ انداز سے حق کا اعلان کرتے رہے
بالاخر بعدکے خلیفہ نے حق کی آزمائش کا سلسلہ ختم ہوا ،اس موقع پر آپ کی بے
لا گ ترجما نی واستقا مت کیوجہ سے آپ کو امام اہلسنت کے عظیم الشان لقب سے
سرفراز کیا گیا ۔اس آزما ئش میں آپ کو سا ت ما ہ تقریبا قید خا نہ میں رکھا
گیا تھا ۔امام صا حب نے 77سا ل کی عمر پا ئی ،انتقا سے قبل ۹روز بیما ر رہے
۔عیا دت کرنے والوں کا ہجوم رہتا تھا ، خلیفہ وقت کو اطلا ع ہوئی تو ان کے
دروازے اور گلی میں پہرہ لگادیا اور وقا ئع نگا ر متعین کر دیئے کو حالا ت
کی برابر اطلا ع کر تے رہیں، ہجوم اتنا بڑھا کہ گلی بندکر دی گئی ،لوگ
سڑکوں اور مسجد وں میں بھر گئے ،بازاروں میں خرید وفروخت مشکل ہو گئی تھی ،
جمعرات کے دن طبیعت زیا دہ خراب ہو گئی ۔ان کے ایک شا گرد مروزی کہتے ہیں
کہ میں نے ان کو وضوکرا یا تو انہوں نے تکلیف ہی کی حا لت میں مجھے ہد ایت
کی کہ انگلیوں میں خلا ل کراﺅ ، شب جمعہ میں حالت بگڑگئی ،اور اسی رات
12ربیع الاول241ھجہ کو امام اہلسنت نے انتقال کیا ۔خبر پھیلتے ہی سا را شہر
امڈآیا ،شا ہدین کے مطا بق کسی جنا زہ پر ایسا ہجوم میںنہ آیا تھا ،نما ز
جنا زہ پڑھنے والوں کی تعداد کا اندازہ یہ ہے کہ آٹھ لا کھ مرد اور سا ٹھ
ہزار عورتیں تھیں ۔
امام صا حب کی متعدد تصا نیف ذکر کی گئی ہیں ۔چند ایک کے نا م یہ ہیں
:(۱)کتاب الزھد (۲) کتاب الناسخ والمنسوخ(۳)کتاب المنسک الکبیر (۴) کتا ب
المنسک الصغیر (۵)کتا ب فضا ئل الصحا بہ (۶) منا قب صدیق اکبر و حسنین
(۷)تاریخ (۸)تفسیر(۹)کتا ب الاشربة (۰۱) مسندامام احمدبن حنبلؒ۔
آخر الذکر کتا ب ان کی تصنیفا ت میں بڑا علمی کا رنا مہ ہے جو علم حدیث میں
ان کی عظمت کی عمدہ یا د گا ر ہے ۔ذیل میں اس کا تعا رف پیش خد مت ہے ۔اما
م احمد بن حنبل ؒکے دور میں احا دیث مرتب کرنے کا ایک مقبو ل و متعا رف طرز
مسند کہلا تا ہے خود اما م صا حب کی کتا ب اسی طرز پر مرتب کی گئی ہے اس
لئے وہ مسند اما م احمد بن حنبل کہلا تی ہے محدثین کے نزدیک مسند سے مراد
ایسی کتا ب ہے جس میں مولف کتا ب ایک صحا بی کو عنوان بنا کر اس کے تحت اس
صحا بی کی تما م روایا ت و احا دیث جمع کر دیتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ
تمام احا دیث صحیح ہوں یا ضعیف اور ان کا تعلق کسی ایک دینی مسئلے کے ساتھ
ہو یا متعددو مختلف مسا ئل کے سا تھ مشلا حضرت ابو بکر صدیق کے عنوان کے
تحت ان کی تما م روایا ت واحا دیث کو جمع کر دی جا ئیں ۔اس دور میں بہت سی
کتا بیں اسی طرز پر مرتب ہوئیں مگر مسند احمد بن حنبل ان میں نہا یت شہرت و
قبو لیت سے سرفراز ہوئی اور اہل علم نے اس کی بڑی قدر کی مسند نویسی کا
طریقہ کا بہت سے فوائد ومقا صد کے پیش نظر اختیا ر کیا گیا ، اگر چہ اس
طریق کا رمیں کچھ نما یا ںعیوب و نقا ئص بھی ہیں ۔مثلا یہ با ت کہ مسا نید
کا مطا لعہ کرنے وا لا اگر صا حب فن اور علوم حدیث کا ما ہر نہ ہو تو وہ اس
تذبذب میں مبتلا ہو جا تا ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ؟(کیونکہ مسند
میں دونوں قسم کی احادیث جمع ہو تی ہیں )نیز یہ کہ آیااس حدیث سے استدلا ل
کیا جا ئے یا نہ ؟کیوں کی ہر حدیث میں غیر عالم کیلئے صحت و ضعیف دونوں کا
احتما ل ہو گا اور وہ عدم علم کیوجہ سے ترجیح سے قا صررہے گا ۔اس طرز میں
دوسری بڑی دقت یہ ہے کہ اس میں احا دیث فقہی طرز پر مرتب نہیں ہوتیں اس لئے
احا دیث سے دینی احکا م معلوم کرنا بہت مشکل ہو جا تا ہے ۔تا ہم اس میں شبہ
نہیں کہ مسند نویسی کی صورت میں محدثین نے حدیث نبوی کی نہایت جلیل القدر
خدمت انجا م دی ہے انہو ںنے احا دیث نبویہ کو صحا بہ وتا بعین کے اقوا ل و
فتا وی سے الگ کیا اور احادیث و روایا ت کا عظیم ذخیرہ یک جا کر دیا
۔احادیث ضعیفہ کی تالیف و تدوین میں بھی بے شما ر فوائد پیش نظر رہے ہیں
مثلا (۱) بعض دفعہ ایک ضعیف حدیث متعدد مسند وں سے منقول ہونے کیوجہ سے صحت
کے در پر فا ئز ہو جا تی ہے (۲)حدیث ضعیف جب متعدد مسندوں سے بیا ن کی گئی
ہو تو وہ لا ئق استدلا ل ہو جا تی ہے(۳)بعض ضعیف حدیثیں ایسی ہو تی ہیں کہ
ان کی صحت نا قدین حدیث پر بعد میں واضح ہوجا تی ہیں ۔مسند نویسی سے متعلق
جو چند ضرودی با تیں تھیں وہ عرض کر دی گئیں ۔اب جا ننا چا ہئے کہ مسند اما
م احمد بن حنبل ؒحدیث کی بہت مبا رک و مقبول کتا ب ہے قدیم و جدید محدثین
نے اسے حدیث کی جا مع تر کتا ب قرار دیا ہے اگر مکرر احا دیث کو ملاکر شما
ر کیا جا ئے تو مسند احمد چا لیس ہزار احادیث پر مشتمل ہے اور اگر مکرر احا
دیث کو نظر انداز کر دیا جا ئے تو اس میں کل تیس ہزار احا دیث ہیں ۔علا مہ
ابن کثیر ؒکہتے ہیں :کوئی مسند بھی کثرت احا دیث اور حسن تر ترتیب میں مسند
احمد کے برابر نہیں ہے ۔ مسند احمد میں تقریبا تین سو احا دیث ثلاثی ہیں
یعنی ان احا دیث میں اما م احمد اور سول کریم ﷺ کے درمیا ن صرف تین راوی
ہیں ۔
امام احمد اپنی زندگی میں اسکی ترتیب و تدوین نہیں کر سکے تھے ۔آپ اس کی
روایا ت و احادیث کو متفرق اوراق میں جمع کرتے رہے ۔یہاں تک کہ جب آخری وقت
قریب ہوا تو اس مسودے کو اسی حالت میں اپنے چند خا ص عزیزوں کو سنا یا ۔آپ
کے بھتیجے بیا ن کرتے ہیں کہ چچا محترم نے مجھے اور اپنے صا حبزادگان
عبداللہ اور صا لح کو جمع کرکے ہما رے سا منے مسند کی قراءت کی۔ ہما رے سوا
اور کسی نے آپ سے اس کتا ب کو کا مل ومکمل نہیں سنا ہے ۔بعدازاں اس کی
تنفتیح و تہذیب سے پہلے اما م صا حب کا انتقا ل ہو گیا اور کتاب اسی حا ل
میں رہ گئی ۔امام صا حب کی وفا ت کے بعد ان کے صا حبزادے عبداللہ نے اسے
مرتب کیا بلکہ اس میں کچھ اضا فا ت کئے اور آ گئے روایت کیا ،عبداللہ سے
روایت کرنیوالوں امام ابو بکر قطیعی معروف ومشہور ہیں ۔ تاریخ حدیث ومحدثین
کے مصنف استاد محمد محمد ابوزھو لکھتے ہیں :
ہما رے ہا تھوں میں آج جو مسندموجودہے ،وہ سب کی سب امام احمدکے بیٹے
عبداللہ نے اس میں بہت سی احا دیث کا اضا فہ کیا ہے جو انہوں نے اپنے سے
نہیں سنیں ۔اسی طرح عبداللہ بن احمد سے مسند کے روایت کنندہ امام ابوبکر
قطیعی نے بھی مسند میں اضافے کئے ہیں ۔ما ضی قریب کے عظیم عرب محدث شیخ
احمد البنا (شیخ حسن البناءبا نی اخوان المسلمین کے والد نے نہا یت عمدہ
ترتیب و تہذیب کے سا تھ مسند کو نئے انداز میں ڈھا لا ہے ،اس کا نا م انہوں
نے الفتح الربا نی لترتیب مسند الام احمد بن حنبل الشیبا نی رکھا انہوں نے
اس کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ مسند احمد کی احا دیث میں غور کرنے سے
معلوم ہو تا ہے کہ ان کی چھ قسمیں ہیں :
(۱)وہ احا دیث جو محدث عبداللہ نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے سن کر
روایت کیں ،درحقیقت انہی کا نا م مسند امام احمد ہے ۔موجود مسند کی تین
چوتھا ئی احا دیث ایسی ہی ہیں ۔
(۲)دوسری قسم میں وہ احا دیث ہیں جو عبداللہ نے اپنے والد سے بھی سنیں اور
دیگر محد ثین سے بھی سنیں اور دیگر محدثین سے بھی یہ احا دیث بہت کم ہیں۔
(۳)تیسری قسم میں وہ احا دیث ہیں جو عبداللہ نے اپنے والد کے علا وہ دوسروں
سے سنی ہیں ۔محد ثین ان احا دیث کو زوائد عبداللہ کے نا م سے یا د کرتے ہیں
۔
(۴)وہ احا دیث ہیں جو عبداللہ نے اپنے والد اما م احمد کو پڑھ کر سنا
ئیں،خود ان دے سنی نہیں ایسی احا دیث بھی تعداد میں میں کم ہیں ۔
(۵)وہ احا دیث ہیں جو عبداللہ نے نہ اپنے والد سے سنیں ،نہ انہیں پڑھ کر
سنا ئی بلکہ ان احا دیث کو اپنے قلم سے تحریر شدہ دیکھا اور انہیں مسند میں
شا مل کرلیا ۔
(۶)وہ احادیث ہیں جن کو حا فظ ابو بکر قطیعی نے عبداللہ اور ان کے والد
امام احمد بن حنبل ؒکے سوا دیگر امحد ثین سے روایت کیا ہے ان کی تعداد سب
سے کم ہے ۔
یہ چھ قسم کی احا دیث ہیں جو مسند اما م احمد بن حنبل میں پائی جا تی ہیں
۔البتہ تیسری قسم مسند میں شا مل نہیں بلکہ اس کی حیثیت عبداللہ کے زوائد
کی ہے ۔اسی طرح چھٹی قسم کی احا دیث بھی مسند سے خا رج ہیں ان کو زوائد
قطیعی کہا جا تا ہے پہلے ذکر ہو چکا ہے خود امام صا حب کو اس کتا ب کی
ترتیب وتہذیب کا موقع نہ مل سکا تھا ،اس لیے بعد کے بہت سے علما ءو محدثین
نے اس کی ترتیب و تبویب (با ب بندی ) کی کو شش کی (تا کہ استفادے میں سہولت
پیدا ہو )بعض کایہ کا م مکمل ہوا اور بعض کا نا قص رہ گیا ۔موجودہ زما نے
میں دو اہل علم نے اس پر نہا یت عمدہ کا م کیا ہے جو چھپ کر اہل علم میں
مقبول ہو چکا ہے ۔ایک کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ،جوشیخ حسن البنا شہید ؒکے
والد شیخ احمد البنا ءنے الفتح الربانی کے نام سے کیا ہے۔دوسرا کام معروف
عرب محقق شیخ احمد شاکرمرحوم کے قلم سے ہوا ہے اوران کامرتب وتحقیق کردہ
نسخہ بھی چھپ چکاہے۔
آخر میں یہ بات ذکر کرنا بھی خوش خبری سے کم نہ ہوگا کہ حال ہی میں حدیث
نبوی کے اس عظیم،مستند اورجامع ترین انسائیکلوپیڈیا کاآسان ،عام فہم
اورمستند اردوترجمہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر لاہور کے ایک مشہور اشاعتی ادارے
کے زیر اہتمام زیور طبع سے آراستہ ہوچکا ہے اور اب اس سے اردوخواں طبقے کے
لئے استفادہ بہت آسان ہوگیا ہے۔یہ اردوترجمہ جس طرح حدیث نبوی کی ایک بڑی
خدمت ہے اسی طرح اردوزبان وادب پر بھی احسان عظیم ہے۔
الحمدللّٰہ علیٰ ذالک |