روایت ہے کہ اللہ تعالٰی
نے زمین و آسمان بلکہ تمام عالم اور سارے جہان کے پیدا کرنے سے بہت پہلے
اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا اور
اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس نور سے اپنی تمام کائنات کو
شرف وجود سے سرفراز فرمایا جیسا کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ :
اول ما خلق اللہ نوری
“ سب سے پہلے اللہ تعالٰٰی نے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔“
وکل الخلائق من نوری
“ اور تمام مخلوق کو اللہ تعالٰی نے میرے نور سے خلق فرمایا “
وانا من نور اللہ
“ اور میں اللہ کا نور ہوں “
رب سلم علی رسول اللہ
مرحبا مرحبا رسول اللہ
بھیج اے رب میرے درود سلام ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیارے نبی پر بھیج مدام
برسہا برس بلکہ ہزاروں برس تک یہ نور محمدی خداواندقدوس کی تسبیح و تقدیس
میں مشغول و مصروف رہا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو
پیدا فرمایا تو اس مقدس نور کو ان کی پیشانی میں امانت رکھا، اور جب تک
خداوند عالم کو منظور تھا، حضرت آدم علیہ السلام بہشت کے باغوں میں اپنی
بیوی حضرت حوا کے ساتھ سکونت فرامتے تھے یہاں تک کہ جب خداوند عالم کے حکم
سے حضرت آدم و حوا علہماالسلام بہشت بریں سے روئے زمین پر تشریف لائے اور
بال بچوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوا تو نور محمدی جو آپ کی پیشانی میں
جلوہ گر تھا، وہ آپ کے فرزند حجرت شیث علیہ السلام کی پیشانی میں منتقل ہوا
اور سلسلہ بسلسلہ ، درجہ نور محمدی مقدس پیٹھوں سے مبارک شکموں کی طرف
تفویض ہوتا رہا ، اور جن جن مقدس پیشانیوں میں یہ نور چمکتا رہا ہر جگہ
عجیب عجیب معجزات و خوارق عادات کا ظہور ہوتا رہا اور اس نور پاک کی برکتوں
کے فیوض طرح طرح سے ظاہر ہوتے رہے ۔ چناچہ حضرت آدم علیہ السلام کی مقدس
پیشانی میں اس نور محمدی نے یہ جلوہ دکھایا کہ حضرت آدم مسجود ملائکہ ہوگئے
اور تمام فرشتوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا یہی نور جب حضرت نوح علیہ السلام
کو ملا تع طاوفان میں اسی نور کی بدولت ان کی کشتی سلامتی کے ساتھ جودی
پہاڑ پر پہنچ ک ٹھر گئی ۔ اسی نور محمدی کا فیضان تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو جب نمرود کافر نے آگ کے شعلوں میں ڈال دیا تو وہ آگ جس کے بلند
شعلوں کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی نہیں گزر سکتا تھا ایک دم ٹھنڈی اور
سلامتی و راحت کا باغ بن گئی ۔
یہی وجہ کہ تمام انبیاء علیہھم السلام آپ کی تشریف آوری کے مشتاق و منتظر
رہے ۔ اور ہر دور کے مقدس رسولوں کی جماعت آپ کی آمد آمد کے انتظار میں آپ
کی مدح و ثناء کا خطبہ پڑھنے میں مشغون رہی ۔ چناچہ ہر زمانے کے مقدس نبیوں
اور رسولوں کا یہ حال رہا کہ
خلیل اللہ نے جس کے لئے حق سے دعائیں کیں
ذبیح اللہ نے وقت ذبح جس کی التجائیں کیں
جو بن کے روشنی پھر دیدہ یعقوب میں آیا
جسے یوسف نے اپنا حسن کے نیرنگ میں پایا
دل یحٰییی میں ارمان رہ گئے جس کی زیارت کے
لب عیسٰی پہ آئے وعظ جس کی شان رحمت کے
الغرض نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برابر ایک پیشانہی میں منتقل ہوتا
رہا اور اپنے فیوض و برکات کے جلوؤں سے ہر دور کے لوگوں کو نورانیت بخشتا
رہا ، یہاں تک کہ یہ نور پاک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا
حضرت عبدالمطلب کو ملا اسی نور اقدس کے طفیل تھا کہ ابرہہ بادشاہ حبش کا وہ
لشکر جو کعبہ ڈھانے کے لئے چڑھائی کر کے آیا تھا حضرت عبد المطلب کی بدولت
چھوٹے چھوٹے پرندے ابابیلوں کی کنکریوں سے پورا لشکر مع ہاتھیوں کے ہلاک و
برباد ہو گیا اور خدا کا مقدس گھر خانہ کعبہ ایک کافر کے حملوں سے سلامت
رہا۔
سلموا یا قوم بل صلوا علی الصدر الامیں
مصطفٰی ما جاء الا رحمۃ للعلمین
صلی اللہ علی النبی الامی والہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ و سلاما علیک یا
رسول اللہ
حضرت عبد المطلب سے یہ نور پاک منتقل ہو کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے
والد ماجد حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ملا اور حضرت عبد اللہ سے
آپ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو تفویض ہوا، ایام حمل
میں طرح طرح کے فیوض و برکات کا ظہور ہوتا رہا ۔ چناچہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ ہر رات خوب میں ایک فرشتہ آکر مجھے
نبی آخر زمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت و خوشخبری
سناتا رہا ، یہاں تک کہ وہ مقدس وقت قریب سے قریب تر ہوتا رہا کہ خزانہ
قدرت کی سب سے زیادہ انمول دولت روئے زمین کی طرف مروجہ ہو اور خداوند قدوس
کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت کا ظہور ہو چناچہ
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعاؤں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
خدا نے نا خدائی کی خود انسانی سفینے کی کہ
رحمت بن کے چھائی بارھویں شب اس مہینے کی
ربیع الاول کے مبارک مہینے کی بارھویں تاریخ آگئی اس رات میں عجیب عجیب
مناظر قدرت کے جلوے نظر آئے جن کے بیان سے زبان قاصر و عاجز ہے حجرت
جبرائیل علیہ السلام ستر ہزار مقدس فرشتوں کی فوج لے کر آسمان سے حرم کعبہ
میں اتر پڑے ، سبحان اللہ !
یکایک ہوگئی ساری فضا ء تمثال آئینہ
نظر آیا معلق عرش تک اک نور کا زینہ
خدا کی شان رحمت کت فرشتے صف بہ صف اترے
پرے باندھے ہوئے سب دین و دنیا کے شرف اترے
حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں جاکر خداوند قدوس کے
حضور سر بسجود ہو کر دعا مانگتے کہ یا اللہ ! جلد اپنے محبوب کو دنیا میں
بھیج دے ۔ اور ایک مرتبہ کاشانہ نبوت پر حاضر ہو کر بصد ذوق و شوق التجائیں
کرتے کہ
اظھر یا سید المرسلین اظھر یا خاتم النبین اظھر یا شفیع المذنبین
“ اے تمام رسولوں کے سردار ظاہر ہو جائیے اور اے تمام نبیوں کے خاتم تشریف
لائیے اور اے تمام گناہگاران امت کو اپنی شفاعت کے دامن میں چھپانے والے
آقا جلد ظھور پر نور فرمائے “
یہی وہ عالم تھا کہ صبح صادق نمودار ہوئی اور سارے جہاں کی سوئی ہوئی قسمت
بیدار ہوئی کہ :
ابھی جبرئیل اترے بھی نہ تھے کعبہ کے منبر سے
کہ اتنے میں صدا آئی یہ عبد اللہ کے گھر سے
مبارک ہو کہ دور راغت و آرام پہنچا
نجات دائمی کی شکل میں اسلام آ پہنچا
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
جناب رحمۃ للعالمین تشریف لے آئے
بصد انداز یکتائی بغایت شاب زیبائی
امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی
یعنی نبی آخر زماں ختم المرسلیں رحمۃ للعالمیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی اور ہر طرف مبارک باد کی صدائیں بلند ہو رہی
تھیں اور سر زمین حرم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے یوں مترنم ریز تھا کہ :
مبارک ہو وہ شہہ پردے سے باہر آنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گے
کہ سلطان جہاں محتاج پرور آنے والا ہے
چکوروں سے کہو ماہ دل آرا ہے چمکنے کو
خبر ذروں کو دو، مہر منور آنے والا ہے
حسن کہہ اٹھیں سب امتی تعظیم کی خاطر
کہ اپنا پیشوا اپنا پیمبر آنے والا ہے
سلموا یاقوم بل صلوا علی الصدر الامیں
مصطفٰٰی ماجاء الا رحمۃ للعٰلمین
بھیج اے رب میرے درود سلام ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیارے نبی پر بھیج مدام
صلی اللہ علیک وآلک وسلم یا حبیب اللہ
بزم ہستی کے تاجدار آئے ۔۔۔۔۔۔۔ گلشن دہر کی بہار آئے
جس کے دامن میں چھپ سکے دنیا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ رسول کرم شعار آئے
آواز ہو بلند درود وسلام کی ۔۔۔۔۔۔۔ محفل ہے ذکر مولد خیر الانام کی
اللہ کا ۔۔۔ ہے اور قدسیوں کا بھی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا شان ہے رسول علیہ السلام کی
رب سلم علی رسول اللہ
مرحبا مرحبا رسول اللہ |