سیاسی خدمات کی بات جائے تو پیر پگاڑا اس
ملک اور تمام سیاسی جماعتوں کے سینئر ترین اور منجھے ہوئے بزرگ سیاستدانوں
میں سے تھے۔ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے
اور آپ کی مفید رائے ضرور لیتے تھے۔پیر پگاڑا پاکستانی سیاست میں ایک اہم
مقام رکھتے تھے اور سینیر ترین سیاست دان ہونے کی بنا پر سیاسی اتار چڑھاﺅ
کی پیشنگوئیوں کے لئے بھی مشہور سمجھے جاتے تھے۔اسی وجہ سے پیر صاحب کو
ماہر سیاسی موسمیات بھی کہا جاتا تھا۔ آخری دنوں میں کی گئی ان کی یہ
پیشگوئی پوری ہوگئی کہ ”میری زندگی میں تو انتخابات نہیں ہوں گے“۔ پیر
پگاڑا کی اکثر باتیں انہونی ہوتی تھیں۔پیر صاحب کی باتیں کافی گہری ہوتی
تھیں بلکہ ان کی باتوں سے کئی کئی مطالب نکالے جا سکتے تھے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں کسی سے خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔چند روز
قبل ہی انہوں نے پیشنگوئیوں کیں کہ بہت جلد اس ملک میں ایسا نظام آئے گا کہ
جس میں آرمی چیف تین تین سالوں کے لئے ملک کے صدر ہوا کریں گے اور یہ کہ اب
سیاست دانوں کو اپنی باری کے لیے 40برس تک انتظار کرنا ہو گا۔ ‘ عدالت کسی
صورت بھی زرداری کو نہیں بچا سکے گی۔ تمام مو لوی بھی ختم ہو جائیں گے اور
وہ صرف نکاح اور جنازے پڑھایا کریں گے ۔ وغیرہ وغیرہ
برصغیر میں جن شخصیات نے انگریز سامراج کے اثر کو قبول نہیں کیا۔ان میں پیر
صاحب کے خاندان کا نام بھی شامل ہے۔۔پیر سید مردان شاہ دوئم عرف پیر پگاڑا
10 جنوری کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔( اِناللہِ وَاِنّااِلیہِ
رَاجِعون)۔ آپکی وفات سے ملک ایک محب وطن سیاستدان سے محروم ہوگیا ہے ان کی
وفات کی خبر سن کر پورے سندھ اور تمام تر سیاسی حلقوں میں غم اور افسوس کی
ایک لہردوڑ گئی۔آپکی موت کے سوگ کے طور پرپورے سندھ میںحکومت کی طرف سے 12
جنوری کو عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا۔
آپ کے انتقال کی خبرملک میں آگ کی طرح پھیل گئی ہر طرف، ماحول سوگوارہو
گیااورتمام بازارکاروباری مراکزکو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔پیر پگاڑا
کافی عرصہ سے بیماری میں مبتلا تھے۔آپ کو24 نومبر کو کراچی میں آغا خان
یونیورسٹی اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں غدود نکالنے کے لیے ان کا آپریشن
کیا گیا۔ مزید علاج کے لیے انہیں 5 جنوری کو لندن لے جایا گیاتھا۔لیکن ان
کی صحت ٹھیک نہ ہو سکی اورآپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پیر پگارا کی وفات پر
سندھ بھر کی مختلف سیاسی، سماجی ومذہبی جماعتوں نے افسوس اور غم کا اظہار
کیا ہے۔ پیر صاحب نہ صرف سندھ بلکہ ملک و قوم کا عظیم سرمایہ سمجھے جاتے
تھے ۔ آپ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ تھے۔آپ پرمزاح انداز میں بڑی اہم باتیں
کرجاتے تھے۔
اب ایک نظرپیر پگاڑصاحب کی ابتدائی زندگی پر بھی ڈالتے ہیں پیر صاحب22
نومبر، 1928 کو پیر جو گوٹھ، سندھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید سکندر
شاہ تھا۔ابتدائی تعلیم پیر جو گوٹھ سندھ سے ہی حاصل کی۔۔پیرپگاڑا نے
1950ءکی دہائی میںمیں اپنی نوعمری میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ ایوب
خان سے شکست کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم لیگ فنکشنل کی تشکیل دی اور
پیر صاحب پگاڑا کو اس کا سربراہ بنایا۔پیر صاحب پگاڑا نے ہمیشہ پاکستان کی
سلامتی اور بقاءکے لئے وطن کی سرحدوں کی دفاع کے لئے پاک افواج کے ساتھ مل
کر کام کیا۔آپ نے 1965اور 1971 کی جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
پیر صاحب1985 ءمیں سندھ سے سینٹ کے رکن منتخب بھی ہوئے تھے۔پیرپگاڑا کی
سیاست میں ایک کمی یہ رہ گئی تھی کی آپ کبھی قومی اسمبلی کے ممبر نہیں بن
سکے تھے لیکن 1985ءمیں جنرل ضیاءالحق مرحوم کی مہربانیوں سے وہ سینیٹر
ضروربنے تھے۔
آپ کا تعلق ان حاندانوں میں سے تھاجنہو ں نے تحریک آزادی میں انگریزوں سے
لڑے۔ان کے والد پیرصبغت اللہ شاہ نے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ ان کو
1943ءمیںانگریزی بغاوت کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی۔آپکو بھی انگریزی
بغاوت کی وجہ سے مئی 1943 تا 1946 انگریز دور میں آپ کو نظر بند رکھا
گیاتھا۔پیر صاحب پہلے ایک پولیس افسیر کی زیر نگرانی علیگڑ ھ یونیورسٹی میں
زیر تعلیم رہے اور پھر پیر صاحب کو انگریزوں نے سزا کے طور پرآپکو لیور پول
لندن روانہ کردیا جہاں سے ا ٓپ نے گریجویشن مکمل کی۔اور یہاں سے آپکو
زبردستی عیسایت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد وزیراعظم
لیاقت علی خان کی درخواست پر واپس اپنے وطن لوٹ آئے اور آپ کی تمام
جائدآپکے سپرد کر دی گئی۔ اس کے بعد آپ نے اپنی گدی سنبھالی۔سجادہ نشینی کے
بعد 24 مئی 1952 ”جامعہ راشدیہ کی بنیادرکھی۔جامعہ راشدیہ کا الحاق شاہ
لطیف یونیورسٹی خیرپور سے تھا۔پیرپگاڑا کوبچپن سے ہی علم اور ادب سے بہت
لگن اور مطالعہ کا شوق تھا۔آپ نے ایک لائبریری بھی قائم کی تھی۔ لائبریری
کے اندرزندگی کے مختلف موضوعات پر 25000 کتابیںموجود ہیں۔ لائبریری کی
عمارت میں ایک میوزیم بھی قائم ہے۔
آپ حروں کے روحانی پیشوا تھے۔ حر وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریز کے ظلم کے
خلاف آواز بغاوت بلند کی اورڈٹ کرمقابلہ کیا۔انگریزی حکومت نے ان کے خلاف
حر ایکٹ پاس کیا، جس کے مطابق حروں کو مجرم قرار دیا گیا اور جان سے مارنے
کا حکم جاری کیا گیا۔آپ کے والد کو انگریزی حکومت نے پھا نسی دے دی لیکن
حروں نے اپنے قائد کی پھانسی کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھی۔پیر پگاڑا جیسی
عظیم ہستی صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں وہ حق گو بے باک سیاسدان اور روحانی
بزرگ تھے، پیر پگارا کے خاندان کی تحریک آزادی اور قیام پاکستان کیلئے
خدمات قابل تحسین ہیں۔ ۔آپ صلح اور امن کے علمبردارتھے اور پیر صاحب نے
ہمیشہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں مصالحت کرانے کی بھر پور جدوجہد
کی۔ پا کستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔آپ بہادر باپ کے نڈر بیٹے
تھی۔
پیرصاحب پگاڑاکےانتقال پر ،صدرزرداری ، وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی
،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ،وزیر
داخلہ سندھ منظور وسان،ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین،مسلم لیگ ن کے
سربراہ میاں نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، ق لیگ کے رہنما چودھری
شجاعت،پرویزالہیٰ۔عوام لیگ کے سربراہ شیخ رشید سمیت دیگر کئی سیاسی رہنماؤں
نے اظہار افسوس کیا ہے۔پیرپگاڑا کے انتقال پر مسلم لیگ فنکشنل نے 40 روزہ
جبکہ سندھ حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ۔
آبائی گاؤں پیر جو گوٹھ میں والد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔پورے ملک میںان
کے بلند درجات کی دعا کی جا رہی ہیں۔۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آپ کا
نام زندہ رہے گاہمیشہ آپکوسنہرے الفاظ مین یاد رکھا جائے گا۔ان کے انتقال
سے سیاست میں ایک خلاءپیدا ہوگیا ہے۔آپ اس وقت ہم سے جدا ہو گئے جب ملک اس
نازک حالات سے گزر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔اور
تمام سیاسی رہنماوں کو آپ جیسی عقل سمجھ،بہادری عطا کرے۔اللہ پاک ہمارے
سیاستدانوںمیں پیر صاحب کی طرح ملک کی حدمت کا جڈبہ شرشار فرمائے۔اور ین
میں بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کی توفیق دے۔ان کو بھی ملکی صورت حال کا
اچھے سے سوچنے کی عقل دے۔آمین |