پیپلز پارٹی کا جذبہ شہادت

ہمارے محترم دوست ملک منذر امیز صاحب اکثر ہمیں آڑے ہاتھوں لیے رہتے ہیں اور ان کی تان اس بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ ہم اپنے کالموں ، مضامین میں بڑے سلیقے کے ساتھ پاک فوج کو بچاتے ہوئے وطن عزیز کی پولیٹیکل جماعتوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور ہمارا نقطہ نظر ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں ہی فوج کو اوورٹیک پر مجبور کر تی ہیں جس کی وجہ سے بادل نخواستہ آرمی کو اقتدار میں آنا پڑتا ہے ، ہمارے یہ ملک صاحب پاکستان پیپلز پارٹی سے شدید متاثر ہیں ، ان کے مطابق سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے مگر پی پی اور اسٹیبلشمنٹ کی آپس میں کبھی نہیں بن سکتی اور فوج کبھی بھی پی پی کوپھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی مگر آج جب کہ مملکت خداداد کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر نازک ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے اور فوج و پولیٹیکل حکومت کے مابین محاذ آرائی میں شدت آگئی ہے ، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب کی بار کون صبر و تحمل کا مظاہر ہ کر رہا ہے اور کون پے درپے الزامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ، باوجود اس کے کہ یہ چند سطور ہمارے ملک صاحب اور کچھ دیگر احباب کو ناگوار گزرتی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ حقائق سے بھی تومنہ نہیں موڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی سچ کو جھوٹ کو پردوں میں چھپاکر پیش کیا جاسکتا ہے ، ان دنوں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے چائنہ اخبار پیپلز ڈیلی آن لائن کو دیے گئے انٹرویو نے اچھاخاصا تہلکہ مچا رکھا ہے جس میں کہا گیا کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ شجاع پاشا کے بیانات جو انہوں نے میمورنڈم کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے وہ قانون اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ انہوں نے ایسا کرنے سے قبل مجاز سول اتھارٹی سے رجوع نہیں کیا ،اس سے پیشتر بھی وزیر اعظم گیلانی آئی ایس آئی کو ”ریاست اندر ریاست“ کہہ کر اس قومی تحفظ کے ضامن ادارے کی تحقیر کر چکے ہیں، مارچ میں جنرل پاشا ریٹائرڈ ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی سینٹ انتخابات بھی مکمل ہو جائیں گے ، اسی ضمن میں وزیر اعظم گیلانی کا یہ بیان بھی ملاحظہ ہو کہ حکومت کو متزلزل کرنے کا افواہوں کا موسم تیسرے مہینے میں ختم ہوجائے گا یعنی اس سے یہ کھلا تاثر ملتا ہے کہ وہ جنرل پاشا کوہی رگید رہے ہیں جو درحقیقت میمو کیس کے میں اہم فریق ہیں اور ان کے مطابق جنرل پاشا کے ریٹائرڈ ہوتے ہی افواہیں دم توڑ جائیں گی ، وزیر اعظم نے لاہو رمیں اجتماعی شادیوں کی ایک تقریب میں بھی برملا کہا تھا کہ ہماری حکومت کےخلاف ”فرشتے“متحرک ہو چکے ہیں ، اہالیان وطن خوب علم رکھتے ہیں کہ فرشتے کون ہیں اور ان کا اشارہ کن کی طرف تھا ؟۔وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالے شخص کے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بعد منظر نامہ مجموعی طورپر تلخی کی جانب بڑھ رہا ہے ، صاحبان اقتدار کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی ہدف تنقید بنا کر مملکت کو تنزلی کی جانب لے جایا جارہا ہے اورحکمرانوں کے اس رویے ، طرز عمل سے یہ بات حقیقت ہوا چاہتی ہے کہ سیاستدان ہی ہمیشہ اپنی نااہلیوں ، نادانیوں کے بل بوتے پر فوج کو اقتدار کی راہیں دکھانے میںممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کم ازکم موجودہ حالات کے تناظر میں اس حکومت کے کارپردازان کی یہ پوری کوشش ہے کہ کسی طورپاک فوج کو برانگیختہ کر کے اوو ر ٹیک پر مجبور کیا جائے تاکہ مارشل لاء لگ جائے ، عوام کی نظر وں میں پی پی پی کی حسب سابق قدر ومنزلت بھی قائم رہ سکے اور اسے ”شہادت“ کا رتبہ عظیم بھی مل جائے ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جی ایچ کیو کے احباب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے اس ”شوق شہادت“اور ”جذبہ جنوں “کو بھانپ چکے ہیں اور وہ پی پی پی کی یہ خواہش پوری کر نے کے لیے کم ازکم خود کوعوام کی نظروں میں گرانا نہیں چاہتے ، یہ بھی پی پی پی کی بدقسمتی ہی گردانیے کہ موجودہ آرمی چیف نہ تو جنرل ضیاءالحق ہیں اور نہ ہی ننگ ملت مشرف کے جس کے ہاتھوں سے پی پی پی جام شہادت پی سکے ، ارباب اقتدار کی لاکھ کوشش بسیار اور جتن کے باوجود بھی ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں نہیں آیا اور یوں پی پی کی فوج کو اشتعال دینے کی پالیسی بظاہر ناکام ہو کر رہ گئی ، وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے کہا کہ جنرل کیانی اور پاشا نے سپریم کورٹ میں بیان ذاتی حیثیت اور محض ایک شہری ہونے کے ناطے جمع کرائے ہیں اپنے سرکاری عہدوں کی حیثیت سے نہیں لہذا نہیں اس صورت میں مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا ضروری نہیں ،میمو کیس پر حکمرانوں کا موقف فوجی قیادت کے موقف کے بالکل برعکس ہے ، صاحبان اقتدار اسے محض کاغذ کا ٹکڑا جب کہ عسکری قیادت اسے حقیقت پر مبنی قرار دے رہی ہے دوسری طرف سیکرٹری دفاع جنرل (ر) خالد نعیم لودھی کوبھی فارغ کر دیا گیا اور نرگس سیٹھی کو نیا سیکرٹری دفاع مقرر کر دیا گیا ، ذرائع کے مطابق نعیم لودھی جنرل کیانی کے قریبی رفقاءمیں تصور کیے جاتے تھے جب کہ نرگس سیٹھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ میں بری طرح کھٹکتی ہیں ، یہ بھی خبر ہے کہ نرگس سیٹھی کی تعیناتی مسلح اداروں کو حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام بھی ہے ،جہاں تک صدر محترم کی بات ہے تووہ ابھی تک کاظمی صاحب کے دکھ سے ہی باہر نہیں نکل پائے اور انہوں نے یہ بے وقت کی راگنی چھیڑ دی کہ حامد سعید کاظمی بے قصور ہیں اور انہیں غلط گرفتار کیا گیا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ بد نام زمانہ حج سکینڈل میں مولا ناکتنے بے قصور ہیں ؟ میمو گیٹ سکینڈل ، این آر او ،سٹیل ملز،رینٹل پاور پلانٹس ،کے ای ایس سی اورا س کے علاوہ جن لاتعداد مسائل و مشکلات نے عوام کو ذہنی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے اب کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسائل پیداکرنے والے خود ہی اپنے بچھا ئے گئے جال میں پھنسنے والے ہیں اور وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں جب قومی تحفظ کے ضامن اداروں پر انگشت نمائی کرکے ریاست کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے والے قانونی شکنجے میں جکڑ دیے جائیں گے اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اس قانونی شکنجے میں پرویز مشرف جیسے پاکستان کے میر جعفر و صادق بھی آجائیں کیونکہ اب جب کہ آزاد عدلیہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ تو پاکستان کے کروڑوں عوام کے دل کی آواز ہے کہ لگے ہاتھوں ذرا اس بزدل جرنیل سے بھی حساب چکتا کر دیا جائے۔ اب اس ڈوبتی ناﺅ کو سہارنے کی خاطر حکمران جماعت کے ارکان قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں ، گزشتہ دنوں سید خورشید شاہ ، نوید قمر ، راجہ پرویز اشرف قائد جمعیت سے ملے ،اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور فوج سیاستدانوں کی بات چیت کا انتظار کرے ، رویوں میں تبدیلی ضروری اور نئے الیکشن ناگزیر ہیں ، طیش ، جذباتی اور اشتعال انگیز ی میں صورتحال خطرناک تر ہو سکتی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کوذمہ دارانہ منصب پر بیٹھ کرعدالتی فیصلے نہ ماننا کا بیان نہیں دیناچاہیے، گرچہ سیاست کی گردن مروڑنے کا ماحول بن چکا تاہم ابھی بھی حکومت کے پاس چھ آپشن ہیں جن میں عقل مند ی کاراستہ نکل سکتا ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ تقریبا ایک سال قبل جب وزیر اعلیٰ پنجاب نے جوڈیشل مارشل لاءاور الطاف حسین ، پیر پگاڑا مرحوم نے جرنیلوں سے مدد مانگی تھی تو اس وقت بھی مولانا فضل الرحمٰن کا موقف تھا کہ فوج کبھی بھی مسائل حل نہیں کر سکتی اور نہ ہی فوجی اقتدار کی حمایت کی جاسکتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے دگرگوں وقت پر اور خراب تر ہوتی صورتحال کو پیش نظر رکھ کرحکمران پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کو بلا چون و چرا مولانا فضل الرحمٰن جیسی فہم و فراست اور سیاسی تدبر و بصیرت رکھنے والی زیر ک شخصیت کی خدمات لینا چاہییں، گو کہ مولاناکی پالیسیوں سے اختلاف کی گنجائش بہر حال نکل سکتی ہے مگر یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ضیاءالحق دور سے لے کر آج تک جمہوریت کی اصل روح کی بحالی کی خاطر کوشاں رہے ہیں ، جمہوری روایات کی پاسداری ہی ان کا نصب العین ٹھہرا اور جب بھی حز ب اقتدار یا اپوزیشن کو کوئی مشکل پیش آئی انہوں نے مولانا کے مفید مشوروں سے ہی فلاح اور اصلا ح و احوال کا راز پایا اور یوں ملکی حالات کو صحیح نہج پر لانے کے لیے ان کی مساعی جمیلہ ہمیشہ بار آور ثابت ہوئیں ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 33210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.