فروری 2008 کے انتخا بات کے وقت
فوج کی جو حالت تھی وہ سب کے سامنے ہے ۔جنرل پرویز مشرف کے مارشل لائی
اقدامات کی وجہ سے فوج کو بڑی تضحیک کا نشانہ بنا یا جا رہاتھا۔ فوجی
جوانوں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ پبلک جگہوں پر وردی پہن کر نہ
جائیں کیونکہ لوگوں نے اس وردی کا احترام کرنا چھوڑ دیا ہے اور سول سوسائٹی
انھیں وردی کے اندر مزید برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہے ۔ایک ایسا ما حو ل
پیدا ہو چکا تھا جس میں فوج سے نفرت کا عنصر بڑا واضح اور غا لب ہو کر ابھر
رہا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی سزا فوجی جوانوں کو بھگتنا پڑ رہی
تھی جو کہ فوج جیسے قومی ادارے کےلئے انتہائی مضر تھا ۔ وکلا تحریک نے عوام
میں اتنا شعور ضرور اجاگر کر دیا تھا کہ وہ سول سوسا ئٹی اور آمرانہ اقتدار
کے درمیان حدِ فاصل قائم کرکے حتمی فیصلہ کر لیں اور عوام کا حتمی فیصلہ
آمرانہ قوتوں کے خلاف تھا ۔جنرل پرویز مشرف کی انتہائی کوشش تھی کہ کسی طرح
ان کا اقتدار بچ جائے لیکن میثاقِ جمہوریت کے تیر نے جنرل پرویز مشرف کے
اقتدار کو زمین بوس کر کے رکھ دیا ۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز
شریف نے باہمی اتحاد سے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا محل اس بے دردی سے
زمین بوس کیا کہ جنرل پرویز مشرف کو ا پنی جان بچانے کےلئے جلا وطنی اختیار
کرنی پڑی ۔ گردشِ دوران تو دیکھئے کہ وہ جنرل پرویز مشرف جو بر ملا اعلان
کیا کرتا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمدنواز شریف کبھی پاکستان
واپس نہیں آسکتے آج کل خود جلا وطنی میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
اقتدار کی خواہش نے ایک دفعہ پھر جنرل پرویز مشرف کے خوابوں میں رنگ بھرنے
شروع کر دئے ہیں اور وہ اپنی اجڑی ہوئی تمناﺅں کے ساتھ تازہ دم ہو کر
اقتدار کےلئے ایک دفعہ پھر قسمت آزمائی کرنے کےلئے پاکستان واپس آنے کے
خواب دیکھ رہا ہے اس کی قسمت اس کی یاوری کرتی ہے یا کہ نہیں ابھی تک با
لکل غیر واضح ہے لیکن اتنا بہر حال طے ہے کہ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام
آمریت کی اس نشانی کو عبرت انگیز انجام سے دوچار کریں گئے۔سب سے اہم سوال
یہ ہے کہ کیا آزاد عدلیہ قانون کو حرکت میں لا کر جنرل پرویز مشرف کو آئین
کی دفعہ چھ (۶)کے تحت زندانوں کے حوالے کرتی ہے اور اسے غداری کا مرتکب
قرار دے کر قرار واقعی سزا دیتی ہے یا اپنی آنکھیں بندکر کے خا موشی اختیار
کر لیتی ہے اور ماضی کی طرح اس کو آزادانہ سرگرمیاں جاری ر کھنے کی اجازت
مرحم فرماتی ہے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ سیاسی منظر ابھی بڑا
دھندلا دھندلا سا ہے اور اسے صاف ہونے میں بہر حال تھوڑا سا وقت مزید لگے
گا ۔ جنرل پرویز مشرف کی واپسی کو حقیقت میں بدلنے دیجئے اور پھر دیکھئے کہ
قانون کا شکنجہ کیا رنگ دکھاتا ہے؟ جنرل پرویز مشرف کی واپسی عدلیہ کے لئے
ایک بڑا چیلنج ہے دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اس کی واپسی پر انصاف کے تقاضے پورے
کرتی ہے یا کہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہے اور اپنی ساری توجہ پی پی پی کی
حکومت کی رخصتی پر ہی مرکوز رکھتی ہے؟
اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں چنداں
دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ پاکستان میں طاقت کا اصل سرچشمہ فوج ہے
اور فوج کی اعانت اور پشت پناہی کے بغیر کسی بھی حکومت کا مستحکم ہو نا
ناممکنات میں سے ہے ۔ فروری 2008 کے انتخا بات کے وقت فوجی جنتا کی جو حالت
تھی اس میں اب بالکل بدلاﺅ آچکا ہے اور اب فوجی جنتا پھر پہلے کی طرح چاک و
چوبند ہے اور اقتدار کے جھولے لینے کے بارے میں بڑی سنجیدہ ہے۔اسے ان قوتوں
کی بھی در پردہ حمائت ہے جو ماضی میں اس کے فطری حلیف رہے ہیں ۔ میڈیا نے
بھی موجودہ حکومت پر کرپشن، نا اہلی اور بد نظمی کے الزامات لگا کر اسے
موردِ الزا م ٹھہرانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔میڈیا تو گلے
پھاڑ پھاڑ کر اس کی رخصتی کی دہائی دے رہا ہے لیکن عمل کا بگل ابھی بجا یا
نہیں جا رہا۔میڈیا نے تو صبح و شام موجودہ حکومت کے خلاف پر و پیگنڈ ے کا
ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھا یا ہوا ہے جس نے موجودہ حکومت کو دفاعی پوزیشن پر
کھڑ ا کر دیا ہے۔ عالمی کساد بازاری کی لہروں میں گھری ہوئی اور دھشت گردی
کی ضر بوں سے لہولہان ہوتی ہوئی معیشت کے درمیان موجودہ حکومت بری طرح سے
پھنسی ہوئی ہے۔ امریکہ سے اس کے خراب تعلقات بھی اس کی کارکردگی کو متا ثر
کر رہے ہیںلیکن اس کے باوجود بھی موجودہ حکومت نے ہر چیلنج کو قبول کرکے
عوام کی خدمت کرنے اور حالات کو بدلنے کا عہد کر رکھا ہے لیکن وہ اس میں
کہاں تک کامیاب ہوتی ہے آنے والا وقت ہی اس کا بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔ بہر
حال ایک جنگ ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کے درمیان جاری ہے اور اس
جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کے سارے کھلاڑی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں اور اسے حکومت
کی بساط لپیٹ دینے کی ہلا شیری دے رہے ہیں ۔عوامی حمائت سے بر سرِ اقتدار
آنے کی راہیں مسدود ہوں تو اسی طرح کا انداز ا پنایا جاتا ہے لہذا سیاسی
اداکاروں کا حکومت کی بساط لپیٹنے کے لئے فوجی جنتا کے قدموں میں گڑ گڑا نا
کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ان کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے اوار وہ اپنی
اس خوئے بد کو بدلنے کے موڈ میں نہیں ہیں کیونکہ اقتدار پر قبضے کا ان کے
پاس یہی ایک آپشن موجود ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہتے۔اپنی سیاسی بقا کےلئے
انھوں نے نے ہمیشہ فوجی جنتا کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے اور اب کی ابار بھی
انھوں نے خود کو فوجی جنتا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے تا کہ اقتدار کے
چند چھیچھڑے ان کی جانب بھی پھینک دئیے جا ئیں اور وہ بھی غیر جمہوری
اقتدار کی مستیوں سے بہرہ ور ہو سکیں۔
اسی پسِ منظر میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے حالیہ انٹر ویو نے بہت سی
افوا ہوں اور قیاس آرائیوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے ۔صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری نے جس جرات سے اپنا موقف پیش کیا ہے اس نے بہت سے لوگوں کو مبہوت کر
کے رکھ دیا ہے۔ سو ئیس عدالتوں کے حوالے سے ان کا موقف وزیرِ اعظم پاکستان
سید یوسف رضا گیلانی کے موقف کا اعا دہ تھا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت
صدرِ پاکستان کو استثناءحاصل ہے لہذا سوئیس عدالتوں کو خط لکھنا ممکن نہیں
ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پارٹی کا وز یرِ اعظم
اپنے ہی صدر کے خلاف غیر ملکی عدالتوں کو اس کے خلاف کرپشن کے مقدمات
دوبارہ کھولنے کے کئے خط لکھے جبکہ اسے آئینی استثناءحاصل ہو۔ صدرِ پاکستان
آصف علی زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنیادی طور پر سو ئیس مقدمات محترمہ
بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف دائر کئے گئے تھے لہذا پی پی پی کبھی بھی اپنی
شہید قائد کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دےگی۔انھوں نے کہا کہ وہ لوگ جو میرا
ٹرائل کرنا چاہتے ہیں وہ گیارہ سال تک پہلے بھی یہ ٹرائل کرتے رہے ہیں اور
چند ماہ کے بعد جب میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز نہیں رہونگا تو وہ یہ
شوق دو بارہ پورا کر سکتے ہیں لیکن فی الحال ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی
جاسکتی کیونکہ آئین صدرِ پاکستان کو استثناءدیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر
مخا لفین گیا رہ سالوں میں اپنے بنائے گئے مقدمات کو اپنے دورِ حکومت میں
ثابت نہیں کرسکے تو اب ان کے پاس کون سی ایسی گیدڑ سنگھی آگئی ہے جو وہ ان
مقد مات کو پی پی پی کی حکومت میں ثابت کر سکیں گئے۔یہ ایک ا یسا سوال ہے
جس کا جواب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے مخالفین کے پاس نہیں ہے۔ انھوں
نے کہا کہ مخالفین کا مقصد صرف افرا تفری پیدا کرنا اور انارکی پھیلا نا ہے
لیکن شور شرابے اور افرا تفری سے حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری نے گیارہ سالوں تک جیلوں کی صعوبتوں میں جس جرات
مند ی کا اظہار کیا تھا اس پر نوائے وقت کے بانی چیرمین مجید نظامی نے
انھیں مردِ حر کے خطاب سے نوازا تھا اور سچ تو یہی ہے کہ وہ اس اعزااز کے
بجا طور پر مستحق ہیں ۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف محاذ گرم کرنے
والے بہت سے چہرے تو ذرا سی سختیوں میں معافی نامے لکھ کر فرار ہو گئے تھے
اس وقت تو انھیں سو ئیس مقدمات یاد نہیں رہے تھے کہ ہم نے عدالتوں سے صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری کو نا اہل قرار دلوا نا ہے اس وقت تو اپنی جان کے
لالے پڑے ہوئے تھے لہذا انھیں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے بارے میں
سوچنے کی فرصت کہاں تھی ۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو جنھوں نے اپنے
دورِ حکومت میں قید و بند میں ڈا لا تھا جب ان پر برا وقت آیا تو وہ جان کی
امان پا کر بھاگ نکلے لیکن آصف علی زرداری پھر بھی قید خانے میںڈٹے رہے اور
جیل سے اپنی بے گناہی کو ثابت کیا تا آنکہ اپریل 2004 میں عدالتوں نے انھیں
تمام مقدمات میں ضمانت پر رہا کر دیا لہذا وہ سر اٹھا کر فخر سے دنیا کو یہ
کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں کیونکہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے
کےلئے انھوں نے اپنی جوانی کا خراج دیا ہے۔
میاں محمد نوزاز شریف کو آجکل اقتدار کی بڑی جلدی پڑی ہوئی ہے اور وہ اس
جلد بازی میں فول پلے کا مظاہرہ کر ر ہے ہیں جو میثاقِ جمہوریت کی روح کے
بالکل بر عکس ہے ۔مسلم لیگ (ن) کا سپریم کورٹ میں میمو گیٹ ایشو کو گھسیٹنا
اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔حالات ایسی ڈگر پر بھی جا سکتے ہیں کہ میاں محمد
نوزاز شریف بھی ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں اور اقتدار پر ایک دفعہ پھر آمرانہ
قوتوں کا قبضہ ہو جائے ۔ 2مئی کے ایبٹ آباد اپریشن کے بعد فوجی جنتا پر
انکی نا اہلی کا بڑا سخت دباﺅ تھا اور اس دباﺅ سے نکلنے کےلئے وہ ہاتھ پاﺅں
مار رہی تھی کہ میمو گیٹ ایشو اسکے ہاتھ لگ گیا جس نے فوجی جنتا کی ساکھ کو
بچانے میں اہم کردار ادا کیاہے ۔میاں محمد نوزاز شریف ایک دفعہ پھر فوجی
وکٹ پر کھیلنے میں مصروف ہو گئے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی پی پی کی
وکٹ گرنے پر اقتدار ان کے نام لکھ دیا جائیگا جو ان کی خام خیالی ہے ۔فوجی
جنتا جمہوری بساط کو لپیٹ کر ایک دفعہ پھر اقتدار پر قا بض ہو جائےگی اور
مذہبی قوتیں اسلام کے نفاذ کی آڑ میں فوجی جنتا کے ساتھ ہاتھ ملا لیں گی
اور جمہوریت کی اجلی صبح ایک د فعہ پھر خواب و خیال ہو جائےگی۔1977 کی
نظامِ مصطفے تحریک میں بھی یہی ہو اتھاائر مارشل اصغر خان بھی اقتدار کےلئے
بڑے بے چین رہتے تھے لیکن فوجی جنتا نے مارشل لا لگا کر انھیں چلتا کیا اور
آج تک انکی کشتی سیاست کی بے رحم موجوں کے تھپیڑے کھاتی کھاتی تحریکِ انصاف
میں گم ہو گئی ہے ۔ عمران خان کا انجام بھی اصغر خان سے مختلف نہیں ہو گا
کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی وکٹ پر کھیلنے والوں کا مقدر ذلت و سوائی ہی ہوا کرتا
ہے۔ |