پاکستان کے دارالحکومت اسلام
آباد میں گزشتہ کئی ہفتوں سے بحرانی کیفیت میں تیزی آرہی ہے،اور ہر لمحہ
نئے نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں ۔کبھی وزیراعظم گرجتے ہیں تو کبھی معافی پر
اُتر آتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کبھی اپنے جرائم شمار کرانے والوں پر
برستے ہیں تو کبھی صبر و تحمل کا درس دیتے ہیں۔ ایک طرف ایوان وزیراعظم وار
کرتا ہے تو دوسری طرف جی ایچ کیو سے جواب ملتا ہے۔ تیسری طرف عدالت میں
فیصلے ہوتے ہیں۔غیر یقینی کی فضاءقائم ہے اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ کئی اہم لوگ صبح اٹھ کر سب سے پہلے یہ سوال کرتے ہیں کہ
حکومت ہے یانہیں ان میں کئی وزراءاور سیاست دان بھی شامل ہیں،اس حوالے سے
10جنوری 2012ءکی رات ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا ۔پیپلزپارٹی کے رکن قومی
اسمبلی نبیل گبول کے مطابق ایک خوفزدہ رکن پارلیمینٹ نے اپنے بنگالی ملازم
کے ہاتھ کے ناخنوں میں نیل پالش لگوایا اور ہدایت کی کوئی بھی آئے تو صرف
ہاتھ باہر نکال کرنسوانی آوازمیں کہہ دینا کہ صاحب موجود نہیں ہیںتاکہ آنے
والے سمجھیں کہ ہاتھ خاتون کا ہے ۔کچھ اسی طرح کا حال پوری قوم کا بھی
ہے،کیونکہ آئے دن کے بحرانوں نے پوری قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
اعداد و شمارکے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر
سب سے زیادہ سکون کی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔
ایسا ہی ہوگا کیونکہ ایک طرف عوام معاشی مسائل کا شکار ہے تو دوسری طرف بد
امنی نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ رہی سہی کسر حکمرانوں اور مبینہ منتخب
عوامی نمائندوں نے نکال دی ہے۔ آج کل تبدیلی اور تصادم کی جو فضا قائم ہے
اس کی بنیادی وجہ دراصل مستقبل میں اپنی پوزیشن کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے
کی خواہش ہے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ سیاسی شہید بھی بنے
تو 12 مارچ کے بعد ہی بنے۔ کیوں کہ اس سے قبل وہ مستقبل کے حوالے سے ایک
اہم مرحلہ طے کرچکی ہوگی۔ وہ مرحلہ ہے سینیٹ کے 54 ارکان کے انتخاب کا۔ اگر
پیپلزپارٹی جاری کردہ شیڈول کے مطابق 2 مارچ 2012ءکو سینیٹ الیکشن کرانے
میں کامیاب ہوتی ہے تو یقینا اُسے ایوان بالا میں واضح اکثریت مل جائے گی۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایک ماہ قبل ہی سینیٹ کے شیڈول کا
اعلان جاری کروایا ہے۔ قواعد کے مطابق سینیٹ کے 54 ارکان کا انتخاب 11
فروری اور 11 مارچ 2012کے درمیان ہونا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 11 فروری کو سینیٹ کے
54 ارکان کے لیے فارم کا اجراءہوگا۔ 13 اور 14 فروری کو کاغذات نامزدگی جمع
ہوں گے۔ 16 اور 17 فروری کو کاغذات کی جانچ پڑتال ہوگی۔ جب کہ 20 اور 21
فروری کو اپیلیں جمع کی جاسکے گی۔ 22 اور 23 فروری کو ان اپیلوں پر فیصلے
ہوں گے۔ 24 فروری، کاغذات واپس لینے کا آخری دن اور اسی روز امیدواروں کی
حتمی فہرست جاری ہوگی۔ جب کہ 2 مارچ کو قومی اسمبلی، اور چاروں صوبائی
اسمبلیوں میں مجموعی طور 54 ارکان کے لیے پولنگ ہوگی۔ سینیٹ کے طریقہ
انتخاب کے مطابق قومی اسمبلی میں دو دو ارکان کا انتخاب ہوگا جن میں سے ایک
جنرل اور ایک ٹیکنو کریٹ ہوگا جب کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے 12 ارکان قومی
اسمبلی 4 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ صوبوں میںمجموعی طور پر4 کیٹیگریز کے
لیے پولنگ ہوگی۔ جس میں 7 جنرل، 2 خواتین اور 2 ٹیکنو کریٹ جبکہ ایک اقلیتی
نشست ہے۔ اس طرح ہر صوبہ12 ارکان کا انتخاب کرے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی
مرتبہ چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیتی رکن کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس طرح
پہلی مرتبہ سینیٹ کے ارکان کی تعداد100 سے بڑھ کر104 ہوجائے گی۔
11 مارچ 2012ءکو جو 50 سینیٹرز ریٹائرڈ ہورہے ہیں(ناموں کی فہرست چارٹ
نمبر1)، ان میں مسلم لیگ(ق) کے 20، جمعیت علماءاسلام (ف) کے 7، پیپلزپارٹی
کے 5، متحدہ قومی مومنٹ کے 3، آزاد 5، جماعت اسلامی کے 3، پیپلزپارٹی (شیر
پاﺅ)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی
(عوامی)، جمہوری وطن پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ف) کا ایک ایک
سینیٹرہے۔ اس طرح سینیٹ کے104 رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کو مجموعی طورپر
42سے 47 ارکان کی حمایت حاصل ہوگی(چارٹ نمبر2)۔ جو سادہ اکثریت کے قریب تر
ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں اگر پیپلزپارٹی ناکام
بھی ہوتی ہے تو منتخب ہونے والی نئی حکومت پیپلزپارٹی کی مرضی اور منشا کے
بغیر کوئی بھی کام نہیں کر پائے گی۔ کیوں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ایوان
بالا کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سینیٹ کی منظوری کے بغیر قانون سازی
ہوسکے گی اور نہ ہی بجٹ منظور ہوگا۔ اور اسی منزل کے حصول کے لیے
پیپلزپارٹی اپنی تمام توانائیاں صرف کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی اسی منزل کے حصول
کے لیے کبھی گرم اور کبھی نرم، کبھی جارحانہ تو کبھی مفاہمانہ رویہ اختیار
کررہی ہے۔ کبھی اتحادیوں کو دھتکاررہی ہے تو کبھی ان سے معافی تلافی میں
مصروف دکھائی دیتی ہے اس کی ایک جھلک جمعہ (13جنوری)کو قومی اسمبلی کے
اجلاس میں نظر آئی۔
دوسری جانب کچھ مقتدر قوتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ پیپلزپارٹی ایوان بالا
میں سادہ اکثریت حاصل کرے اس لیے وہ کم از کم 24 فروری سے پہلے پہلے موجودہ
حکومت کو چلتا کرنا چاہتے ہیں تاکہ سینیٹ کے انتخابات کا عمل مکمل نہ
ہوسکے۔ دراصل 24 فروری کی تاریخ اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ پیپلزپارٹی کی
کوشش ہے کہ وہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور وفاق میں بلا مقابلہ
سینیٹر کا انتخاب کروائے۔ البتہ پنجاب میں ایسا ممکن نہیں کیوں کہ
پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعت مسلم لیگ( ق) کی خواہش ہے کہ پنجاب اسمبلی کے
ایوان میں موجود ارکان کے مطابق انہیں کوٹہ دیا جائے جب کہ مسلم لیگ( ن) اس
کے لیے تیار نہیں ، اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کو پنجاب اسمبلی میں
نشستوں کی بنیاد پر سینیٹ کا کوٹہ دیا گیاتو مسلم لیگ ن کو 2 نشستوں کی کمی
کاسامنا کرنا ہوگا۔ اگر سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں تو پنجاب واحد صوبہ
دکھائی دیتا ہے جہاں الیکشن ہوں گے۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں
سے رابطہ کرکے سینیٹ کے ارکان کا انتخاب بلا مقابلہ کرانے کی ہر ممکن کوشش
کریں۔ مجموعی طورپر بظاہر پیپلزپارٹی اپنی منزل کے حصول کے لیے قریب دکھائی
دیتی ہے لیکن آنے والا ہر دن ان کے لئے مشکل سے مشکل ثابت ہورہاہے ۔ مبصرین
کا کہنا ہے کہ 24 فروری سے پہلے پیپلزپارٹی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا ہے
اس دوران مجموعی طور پر نصف درجن کے قریب مقدمات کے فیصلے بھی ہونے ہیں۔
اور ان ہی فیصلوں پر پیپلزپارٹی کے مستقبل کا انحصار ہے۔ شاید یہی وجہ کہ
بابر اعوان توہین عدالت کے نوٹس کا معاملہ بھی 24 فروری سے پہلے تک کے لیے
موخر کردیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی گرجتی ہے یا اپنی منزل
کے حصول کے لیے معافی تلافی کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ سپریم
کورٹ آف پاکستان نے نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی ہدایت کی ہے
کہ 23 فروری سے قبل انتخابی فہرستوں پر کام مکمل کیا جائے۔ جس سے واضح نظر
آتا ہے کہ آیندہ چند ماہ میں ملک میں نئے انتخابات متوقع ہے۔ |