اسلام آباد اور اس کے مکینوں کے
درمیان آج کل اپنا اپنا موسم دکھانے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ایک طرف سردی بڑھ
رہی ہے اور برف باری سے موسم کی رنگت اُجلی ہوکر نکھر گئی ہے اور دوسری طرف
حکومت بھی رنگ بدل رہی ہے۔ وفاداریاں اور بے وفائیاں کھل کر سامنے آ رہی
ہیں۔ اسلام آباد کی فضائیں ٹھنڈک برسا رہی ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں
گرما گرم اقدامات اور قیاس آرائیوں کی گرم بازاری محو رقص ہے۔ شہر نے برف
کی چادر اوڑھ لی ہے اور جو لوگ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں انہوں نے
ساتھ چھوڑ جانے والوں کے سفید خون کا رونا روتے رہنے کو وتیرہ بنا رکھا ہے۔
بعض قنوطیت پسند برف کی حسین سفید چادر دیکھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ وفاقی
دارالحکومت میں کسی بڑی سیاسی موت سے قبل ہی قدرت نے چاندنی بچھا دی ہے!
سردی کی شدت میں اضافے سے پہلے ہی وفاقی دارالحکومت میں سرد مہری کا موسم
شروع ہوچکا تھا۔ بے تعلقی، لاتعلقی اور بے حسی کی سرد ہوائیں اس تیزی سے
چلنے لگی تھیں کہ اُن پر جھکڑ کا گمان ہونے لگا تھا۔
اب سردی بڑھی ہے تو لوگ حیران ہیں کہ سُکڑنے کے موسم میں بہت کچھ پگھل رہا
ہے۔ حکومت حیران ہے کہ سُکڑاؤ کے موسم میں معاملات کے پھیلاؤ کو کیونکر
روکے، کس طور سب کچھ دوبارہ اُس مٹھی میں بند کرے جو اب پھیل کر صرف
اُنگلیوں کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔
برف باری کے ماحول میں سب باری باری سنگ باری سے بھی شوق فرما رہے ہیں۔
الزامات کے پتھر کوئی کب تک برسا سکتا ہے؟ آپ سوچیں گے اِس کی کوئی حد ضرور
ہوتی ہوگی۔ آپ کی سوچ غلط ہے۔ الزام تراشی کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی۔ اور
جس کی کوئی حد ہو وہ الزام تراشی نہیں ہوسکتی! کم از کم اسلام آباد کے
ایوان ہائے اقتدار و اختیار میں بیٹھ کر قوم کے سینے پر مونگ دَلنے والوں
نے تو یہی ثابت کیا ہے! کوئی پیچھے ہٹنے اور ہار ماننے کو تیار نہیں۔ اسکول
میں یا گلی میں کھیل کے دوران ”میں نہ مانوں“ کی رَٹ لگانے والے بچے بھی
اسلام آباد کے اقتداری بچوں کی ہٹ دھرمی دیکھیں تو شرما جائیں!
اسلام آباد بھی عجیب شہر ہے۔ قدرت کے دیئے ہوئے موسم سے اس کا جی نہیں
بھرتا۔ جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں وہ جب چاہیں اپنی مرضی کا موسم پیدا
کرلیتے ہیں۔ اور رہے عوام، تو وہ بے چارے تو ان موسموں کا تماشا دیکھنے کے
لیے پیدا کئے گئے ہیں۔
بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ تھی، مہنگائی کا پنپتا ہوا طوفان تھا اور
حکمرانوں کی بے حسی تھی۔ زندگی یوں بے کیف سی جا رہی تھی کہ اچانک میمو گیٹ
ابھر کر سامنے آگیا۔ اس ایک معاملے نے بہتوں کی روزی روٹی کا اہتمام کیا
ہے۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جن کی واٹ لگ گئی ہے! اچھا ہوا کہ پارلیمنٹ نزدیک
بلکہ بغل میں ہے اور اُس میں لوٹے بھی ہیں کیونکہ اب بعض نامُرادوں کو
لوٹوں کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اقتدار کی مسند پر چار سال تک بیٹھ کر جو کچھ
ہوس کے پیٹ میں ٹھونسا گیا ہے وہ اب یا تو ہضم نہیں ہو پارہا یا پھر ہضم
کروایا جارہا ہے! جس پر بے پیندے کے ارکان رکھنے کی تہمت دھری جاتی رہی ہے
خود اُس پارلیمنٹ کا اب کوئی بھروسہ اور ٹھکانہ نہیں۔ معاملہ رینڈم کے
اُصول پر چل رہا ہے۔ غبارے میں ہوا بھر کر اسے چھوڑ دیجیے تو کسی بھی سمت
جاسکتا ہے۔ یہی حال سیاسی صورتِ حال کا ہے۔ سیاسی الٹ پھیر کا اونٹ کسی بھی
کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔ کبھی بھی، کہیں بھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بقول عبیداللہ
علیم
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے!
موسم کے ذکر پر یاد آیا کہ طلبی کا موسم بھی خوب چل رہا ہے۔ میمو کے حوالے
سے معاملات تو تو میں میں کی منزل سے آگے بڑھ کر الزامات کی سنگ باری کے دو
راہے تک آپہنچا ہے۔ واشنگٹن کی پُرسُکون فضاؤں میں بیٹھ کر پاکستان کے
سیاسی تماشے سے محظوظ ہونے والے حسین حقانی کی طلبی ہوئی۔ سُپریم کورٹ نے
حسین حقانی سے جو کچھ جاننے کی کوشش کی وہ اب تک سات پردوں میں لپٹا ہوا
ہے۔
وزیر اعظم کی بھی طلبی ہوئی اور معاملہ کچھ اس طرح ختم ہوا کہ سب انگشت بہ
دنداں رہ گئے۔ معاملہ یہ تھا کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
اور پھر کسی کو یقین نہیں آیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بہت ہنگامہ ہو اور
معاملہ کچھ بھی نہ ہو۔ یعنی
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا!
سپریم کورٹ میں ایک بھیڑ سی لگی۔ میڈیا نے بھی رنگ جمانے کی بھرپور کوشش
کی۔ وزیر اعظم پیش ہوئے مگر معاملہ بظاہر سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
لوگ حیران اور قدرے افسردہ رہ گئے۔ یعنی بقول غالب
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا!
اب منصور اعجاز کی آمد کا غلغلہ بلند ہے یا بلند کیا جارہا ہے۔ میڈیا نے
پھر میلہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ کیفیت کچھ ایسی ہے کہ بقول میر انیس
کِس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے!
اب یہ تو منصور اعجاز کی آمد ہی پر معلوم ہوگا کہ شیر کھل کر شکار کرے گا
یا حکومتی لگڑ بھگے اُسے گھیر کر، خوفزدہ کرکے بھاگنے پر مجبور کردیں گے!
یہ جو اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں ان کا
بھی عجب تماشا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ جسے واشنگٹن
میں قومی مفادات کی نگرانی کرنا تھی اُسے بزور اسلام آباد کے ”دورے“ پر
لایا گیا اور اب وہ وزیر اعظم ہاؤس کے ایک کونے میں دُبکا اپنی نگرانی کا
فریضہ نبھا رہا ہے! اور جنہیں اسلام آباد میں بیٹھ کر قوم کی نگہبانی کرنا
ہے وہ ملکوں ملکوں گھوم کر ذہن کا بوجھ کم کرنے میں مصروف ہیں۔ کوئی چین کا
رُخ کرتا ہے اور کسی کو رہ رہ کر خلیج کے ممالک یاد آتے ہیں۔ خدا جانے دبئی
میں کون سا جادوگر چھپا بیٹھا ہے جو بار بار منتر پھونک کر ہمارے محبوب صدر
کو اپنا پاس بلاتا ہے۔ خلیج کا خطہ تو ہمارے اور صدر کے درمیان واقعی خلیج
بن کر رہ گیا ہے! یہ صورتِ حال قوم کے لیے مخمصے کا باعث اور سٹہ بازوں کے
لیے روزگار کا وسیلہ ہوگئی ہے!
ہر معاملہ سَٹے کی نذر ہوگیا ہے۔ کوئی بڑی شخصیت ہسپتال میں داخل ہو جائے
تو ڈاکٹرز سے پہلے سٹہ باز حرکت میں آجاتے ہیں! اِس بات پر بھی سٹہ ہوتا ہے
کہ کتنے انجیکشن لگیں گے اور کتنی ڈرپس چڑھائی جائیں گی! سپریم کورٹ نے این
آر او کیس کے فیصلے پر عملدرآمد اور میمو گیٹ میں جواب داخل کرنے کے حوالے
سے حکومت کے سامنے 6 آپشنز رکھ کر سٹہ بازوں کے لیے مزید موج مستی کی راہ
ہموار کردی۔ ایسے میں نواز شریف کیوں پیچھے اور خاموش رہتے؟ انہوں نے بھی
حکومت کے سامنے 4 آپشنز رکھ کر سٹہ بازوں کو متحرک یا سرگرم رکھنے میں اپنا
حصہ ڈالا!
بس میں سفر کے دوران ایک بڑی بی بار بار کنڈکٹر سے پوچھ رہی تھیں بیٹا! صدر
کب آئے گا؟ کنڈکٹر یہ جملہ سُن سُن کر تپ گیا اور بولا اماں! یہ بات تو بہت
پرانی ہوگئی کہ صدر کب آئے گا۔ اب سٹہ اِس بات پر ہو رہا ہے کہ صدر کب جائے
گا!
این آر او اور میمو گیٹ کے معاملے پر ایسی ایسی قلا بازیاں دیکھنے کو ملی
ہیں کہ بچوں کو شاید اب چڑیا گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔ اُنہیں پارلیمنٹ
کی کارروائی دکھانا کافی ہوگا! یار لوگ حافظے کے ایسے کچے ہیں کہ آج کچھ
کہتے ہیں اور کل بھول بھی جاتے ہیں اور ثابت قدمی دیکھیے کہ دو یا اس سے
زائد مختلف اور متضاد باتیں کہہ کر ہر بات پر قائم بھی رہتے ہیں! پارلیمنٹ
بے چاری ایک بھر پھر ”دَھرم سَنکٹ“ سے دوچار ہے۔ جن کے چار سالہ سیاسی
اعمال نامے میں انگارے ہی انگارے ہی بھرے ہیں وہ جمہوریت کو استحکام، بلکہ
دوام بخشنے کے نام پر ایک بار پھر پارلیمنٹ کی ”اگنی پریکشا“ لینے پر تُلے
ہوئے ہیں!
عوام نے جنہیں کبھی اپنا نہیں سمجھا اور جن کے ہاتھ اقتدار دینے کا خواب کے
آخری درجے میں بھی نہیں سوچا اُنہیں غبارے کی طرح پھلاکر لیڈر بنایا جا رہا
ہے۔ بننے والے اور بنائے جانے والے لیڈرز میں فرق سبھی جانتے ہیں مگر یہ
فرق بادشاہ گر شاید بھول گئے ہیں یا دانستہ نظر انداز کردیا ہے۔ انقلاب کی
صدائیں بلند کی جارہی ہیں اور دنیا بھر میں انقلاب کا جو تصور عام ہے اُس
سے موازنہ کیجیے تو صرف ہنسی آتی ہے۔ عوام کا تو ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا
ہے کہ عوامی حکمرانی کے نام پر کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں! بقول میر
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تمہت ہے مختاری کی!
سیاسی بَد مستی کے اِس مسحور کن ماحول میں عوام کی حالت سب سے عجیب ہے۔
کرسی والوں کے تماشے دیکھ دیکھ کر ان کا حال برا ہوگیا ہے۔ کُرسی والوں پر
بس نہیں چلتا تو وہ کُرسیوں پر خار اُتارتے ہیں اور جلسے کے بعد کُرسیاں ہی
لے اُڑتے ہیں! بعض کو سیاسی سَرد مہری دور کرنے کے لیے جھنڈوں کے ڈنڈے
جلانے کی سُوجھتی ہے! اور بینرز کا مطبوعہ کپڑا کیوں ضائع ہو؟ لوگ بینرز
بھی اتار کر گھر لے جاتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو پوچا لگانے ہی کے کام آئے
گا!
عوام جو کچھ کرسیوں، جھنڈوں اور بینرز کے ساتھ کر رہے ہیں وہ بہت اچھا ہے
کہ دِل کی بھڑاس کے نکلنے کا اہتمام ہو رہا ہے مگر اے کاش یہی سلوک وہ سبز
باغ دکھاکر اقتدار میں آنے اور بعد میں منہ بھی نہ دکھانے والوں سے رو
رکھیں تاکہ تماشے میں کچھ تو جان پیدا ہو! |