یاد رفتگان - مکرم خان عاطف بھی بچھڑ گیا

مجھے مکرم خان کا وہ گلہ ہمیشہ یاد رہے گا جو ا س نے میرے مہمند ایجنسی سے واپسی کے بعد مجھ سے کیا تھا کہ " یار پشتو میں میرے لئے انٹرویو تو لے لیتے " یا پھر جاتے وقت مجھے بتا دیتے اور میں شرم کے مارے اس کو جواب نہیں دے سکا -آج میرے دوست صحافی مکرم خان مہمند کومسجد سے نماز مغرب کے بعد فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا چہرے اور سر پر گولیوں کے نشانات لئے مکرم خان ہم سب سے یہ سوال کررہا ہے کہ آخر میرا قصور کیا تھا کہ مجھے نشانہ بنایا گیا-

مکرم خان عاطف سے میرا تعلق اس وقت بناجب میں نے ٹی وی چینل کو جوائن کیا اس وقت مکرم خان ہم سے ایک سال سینئر میں تھا دفتر میں کئی مرتبہ ملاقاتیں ہوئی لیکن سلام دعا کی حد تک رابطہ رہا -مکرم خان سے میرا تعلق اور ذہنی ہم آہنگی مختلف دھماکوں کی کوریج کے دوران بنی اور میرا بہترین دوست بنا ہر ایک سے تعلق رکھنے والا مکرم خان طبعیت میں بہت شوخ بھی تھا لیکن یہ شوخی صرف قریبی دوستوں سے تھی اور مجھے یہ فخر ہے کہ میں مکرم خان کا دوست رہا ہوں-

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب آفتاب شیرپاؤ ایف سی کے جوانوں کے پاس آؤٹ پریڈ میں مہمان تھے اور میری ملاقات مکرم خان سے ہوئی اس دن ہم سرکار کے مہمان تھے لیکن شبقدر چونکہ اس کا اپنا علاقہ تھا تو اس نے مہمانداری کی حدکردی تھی اور یہی سے ہمارا تعلق بن گیا-

مئی 2011 ء میں شبقدر میں ہونیوالے ایف سی پر خودکش حملوں کی کوریج کیلئے میں پشاور سے شبقدر گیا تھا اور اس دوران ہمارا تعلق اور بھی مضبوط ہوگیا -ا مجھے اس بات کا بھی تجربہ ہے کہ جب کسی دوسرے سٹیشن سے آنیوالا صحافی کسی اور کے سٹیشن میں جا کر رپورٹنگ کرتا ہے تو اسی سٹیشن کے صحافی برا مانتے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ پورے دن کی رپورٹنگ کے دوران کبھی غلطی سے بھی مکر م خان میرے نزدیک نہیں آیاکہ میں نے رپورٹنگ کرنی ہے - بلکہ میرے ساتھ پورا دن تعاون کرتے ہوئے گزرا اور جب ہم وہاں سے نکلنے لگے تو زبردستی ہمیں مہمان بنا لیا اور کہا کہ " یار اب تو تمھاری ڈیوٹی ختم ہوگئی ہے اب میرے مہمان ہو " اور مہمانوں کیلئے میرے جان بھی حاضر ہے -اس دن عجیب سی اداسی تھی اور بازار بھی بند تھے لیکن مکرم خان نے بطور میزبان کہاں کہاں سے کھانے کا بندوبست کیا - اسی دن کی کوریج میں مکرم خان کی اطلاع پر میرے ساتھی کیمرہ مین عامر علی شاہ نے تیزی کی اور اسی کی وجہ سے ہم نے شبقدر ایف سی قلعے میں شہید اہلکاروں کی فلم بھی ہم نے بریک کردی تھی حالانکہ وہاں پر ہماری گرفتاری کا بھی خدشہ تھا -اپنے علاقے میں مقبول مکرم خان سے آج تک اسی علاقے میں رہنے والے کسی بھی صحافی نے دہشت گردی سے لیکر عام واقعات تک کوئی رپورٹ بریک نہیں کرسکا اور ہمیشہ بروقت اور صحیح رپورٹنگ کی-

سیکورٹی فورسز مہمند ایجنسی میں اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے پشاور سے صحافیوں کی ٹیم لیکر گئی تھی مہمند ایجنسی میں رپورٹنگ کے بعد میں شبقدر کے راستے واپس آرہا تھا کہ مکرم خان کا فون آگیا کہ یار میرے لئے پشتو میں وہاں سے فوجی کمانڈر سے کوئی بات لی ہے تو میں نے انکار میں جواب دیا ساتھ ہی گلہ بھی کیا کہ " ظالم مجھے تو بتا دیتے میرے راستے سے جارہے ہو میں بھی ساتھ جاتا " ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کام تو تم نے کرلیا ہے اب شبقدر بازار میں اتر جاؤ میرے مہمان بنو بعد میں واپس پشاور چلے جانا اور میں نے ہنستے ہوئے معذرت کیا کہ " ابھی ہم سیکورٹی فورسز کے مہمان ہیں" اور پھر اس نے معذرت قبول کی اور کہا کہ خیر ہے کہ پھر آجا نا-

شبقدر سے مہمند ایجنسی کے راستے میں پولیس چیک پوسٹ پر ہونیوالے دوسرے دھماکے کی کوریج کیلئے میں پشاور سے پہنچا تو میں نے جینز کیساتھ قمیص پہنی تھی مکرم خان اپنے ساتھی کیمرہ مین کیساتھ وہاں موجود تھا مجھے موقع پر ڈی وی دینے کے بعد اپنے کام میں مصروف ہوگیا اس وقت ہمارے ایک اور دوست جس کا تعلق بھی قبائلی علاقے سے ہے اور مقامی ٹی وی کیساتھ منسلک ہے شمس مومند بھی وہاں پر پہنچ گئے رپورٹنگ کے بعد پولیس وہاں سے نکل گئی تو شمس نے مکرم خان کو مخاطب ہو کر کہا کہ یار "مسرت کو دیکھ لو اس نے کونسے کپڑے پہنے ہیں " جینز پہن کر .یہاں آگیا ہے اور مکرم خان ہنستا رہا اور مجھے آواز دی کہ " یہ کیا کررہا ہے کیا یہ صحیح ہے " اور میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یار اس کو کیا پتہ آج کل یہ سٹائل چل رہا ہے کہ لمبی قمیص اور اور ساتھ میں جینز پہنتے ہیں کیا تمھیں پتہ نہیں ہے - اور پھر یہ دونوں مجھے چھیڑتے رہے کہ یار یہ پشاور والے بھی عجیب ہے جو چیز سمجھ میں نہیں آتی اسے سٹائل کا نام دیتے ہیں اور میں ان کو کہتا رہا کہ تم لوگوں کو سٹائل کا پتہ نہیں کام ختم کرنے کے بعد مکرم خان نے زبردستی ہمیں کھانے کیلئے روکنے کی کوشش کی اسی ملاقات میں مکرم خان نے گلہ بھی کیا کہ یار میری تنخوا ہ کم ہے اور میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ " لگے رہو منا بھائی " اور ہنس مکھ مکر م خان خاموش ہوگیا-

چونکہ اپنے ادارے کیلئے زیادہ تر کرائمز اور کورٹس کی خبریں میں ہی کرتا ہوں گذشتہ دنوں کرک میں زیادتی کا نشانہ بننے والی عظمی کیس میڈیا پر آگیاتو مکرم خان نے مجھے فون کیا کہ یار مجھے اس فیملی کا نمبر چاہئیے کیونکہ کچھ لوگ اس کی مالی مدد کرنا چاہتے ہیں ان دنوں عظمی ایوب کے بھائی کو قتل کیا گیا تھا اور میں نے مکرم خان کو نمبر بھیج دیا تو مجھے ٫" مننہ " کا میسج واپس مل گیا - اپنے کام سے مخلص مکرم خان کی خوبیوں کے بارے میں لکھنا چاہوں تو شائد میری ہمت جواب دے لیکن لکھنا ختم نہ ہو -

زندگی کے کچھ معاملات میں بحیثیت صحافی بہت حساس ہوں لیکن جس شعبے سے ہم تعلق رکھتے ہیں اس میں ہمیں مجبورا ڈاکٹروں کی طرح بے حسی پیدا کرنی پڑتی ہے کیونکہ پھر جانبداری پیدا ہوتی ہے اور صحافت کا غیرجانبدارانہ کردار متاثر ہوتاہے مکرم خان ہمیشہ سے غیر جانبدار رہا اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ سے ہی اپنی پہچان کرائی -آج مکرم خان کی موت کے بعد بھی صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر کسی نے احتجاج کیا تو ان کو بھی نشانہ بنا دیا جائیگا - بحیثیت صحافی میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالٰی " قلم " کی حرمت پر قسم کھاتا ہے تو وہی ذات باری تعالی اس قلم کی حرمت کی پاسداری کرنے والوں کا مددگار بھی ہے اوراس فانی دنیا کا کوئی وقت مقرر نہیں اس بات پر بحیثیت مسلمان میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہر ایک سے اس کی زیادتی کا حساب لے گا اور ہم دن قیامت کا دن ہوگا جب ہر کوئی اپنے نامہ اعمال لیکر اس کے دربار میں کھڑا ہوگا-میرے دوست مکرم خان تمھارا حساب اللہ تعالٰی لے گا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 645 Articles with 505483 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More