اس کی آنکھوں میں ایک پیدائشی
چمک تھی، ماں باپ بچپن میں ہی پہچان گئے کہ خدا نے ان کے آنگن میں ایک غیر
معمولی صلاحیتوں کی حامل گڑیا اتاری ہے۔ ذھین ایسی کہ کم سنی میں اپنی دادی
اماں سے سنی دعائیں ، کلمے اور نماز یاد کر لی، ابھی اپنی توتلی زبان سے
بولنا شروع کیاہی تھا کہ ّّّ” کول“ (اسکول) جانے کی رٹ لگادی، والدین نے
بڑی مشکل سے کچھ عرصہ بہلا کے رکھا اور پھر تین سال پورے ہوتے ہی اسکول
داخل کرا دیا۔ جلد ہی یہ بچی اپنی حیرت انگیز ذہانت اور اعتماد کی بدولت
اپنے اساتذہ کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ ایک ایسی عمر میں جب بچے عموما کھیل
کودمیں زیادہ خوش رہتے ہیں، وہ کچھ مختلف اور غیر معمولی کارنامہ سرانجام
دینا چاہتی تھی۔ اپنے اسی جذبہ اور لگن کی بدولت اس نے صرف نو سال کی عمر
میں دنیا کی سب سے کم عمر مائکرو سافٹ پروفیشنل بننے کا اعزاز حاصل کر کے
بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ جی ہاں ، ارفع کریم رندھاوا واقعی اسم بامسمیٰ
تھی۔
فیصل آباد کے نواحی گاﺅں چک دیوالی میں 2 فروری 1995 کو پیدا ہونے والی اس
بچی نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ، 2005 میں Microsoft
Certified Professional بنی، اور اسی سال عالمی شہرت یافتہ Bill Gates کی
خصوصی دعوت پر نہ صرف ان کی کمپنی کا چار روزہ دورہ کیا بلکہ ان کے ساتھ
ملاقات کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ واضح رہے کہ بل گیٹس Microsoft Company کا
بانی، چئیرمین اور دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے، جس کے بارے میں کہا
جاتا ہے کہ اس کے ایک ایک سکینڈ کی قیمت اڑھائی سو ڈالر ہے، اور کتنے ہی
ایسے لوگ ہیں جو صرف بل گیٹس سے ملنے کی حسرت ہی رکھ سکتے ہیں۔ اس موقع پر
ارفع نے نہایت اعتماد کے ساتھ کمپیوٹر کے حوالے سے تکینیکی سوالات کے
جوابات دیے ، اپنی لکھی ہوئی پیاری سی نظم پیش کی اور ساتھ ہی یہ سوال کر
کے کہ مائیکروسافٹ کمپنی میں خواتین کا تناسب مردوں سے کم کیوں ہے، بل گیٹس
کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
اس سے اگلے سال ارفع کو اسی کمپنی نے بارسلونا Barcelona میں اپنی سالانہ
کانفرنس میں، جو دنیا بھر کے آئی ٹی پروفیشنلز کے اعزاز میں منعقد کی جارہی
تھے، دعوت دی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا" "Get ahead of the game، یہاںپوری
دنیا سے آئے پانچ ہزار چوٹی کے آئی ٹی ماہرین کے درمیان ارفع واحد لڑکی تھی
جو پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھی۔ بھلے عمر میں چھوٹی سہی، اس موقع پر
ارفع اپنے نام کی طرح سب سے بلند، سب سے ممتاز اور عنوان کے عین مطابق اس
مقابلہ میں سب سے آگے تھی۔اسی سال دبئی کے ایک فلائینگ کلب میں طیارہ اڑا
کر سب سے کم عمر فرسٹ فلائیٹ سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
عالمی دنیا میں نام کمانے والی کمسن ارفع نے وہ اعزازات حاصل کئے جو لمبی
عمر پانے والے بھی شائد حاصل نہ کر سکیں۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی،
سلام پاکستا ن یوتھ صدارتی ایوارڈ، سائینس و ٹیکنالوجی میں فاطمہ جناح گولڈ
میڈل ، میر خلیل الرحمان فاؤنڈیشن ایوارڈ اور اس کے علاوہ درجنوں ایوارڈ
ہیں جو ارفع نے اپنے نام رقم کرائے۔ مختلف عالمی فورمز میں اس نے ملک کی
نمائندگی کی، اور کیا خوب کی۔ جب بولتی تو حاضرین اس کے کمپیوٹر کی فیلڈ
میں ممکنہ ترقی بارے نئے نئے آیڈیاز سن کر مبھوت رہ جاتے، اس کی باتوں ، اس
کے اعتماد، اس کے طرز تکلم سے جہاں بڑی عمر کے لوگ متاثر ہوتے وہاں نئی نسل
کو حب الوطنی، محنت اور لگن کا درس ملتا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص شہرت کی بلندیوں کو چھونا شروع کردے، وہ
’انا‘ کے خول میں بند اور باقی لوگوں کو’ بونے ‘سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
قابل تحسین ہیں والدین جنھوں نے ارفع کی ایسی تربیت کی کہ تکبر اور غرور کی
بجائے وہ متانت اور عاجزی کا پیکر تھے۔ جب اس سے پوچھا گیا کوئی ایسا
کارنامہ جس پر اسے فخر ہو، بجائے اپنے تمغے اور شیلڈز گنوانے کے ارفع نے
کہا، ’ میں نے اپنے گاؤں کے لڑکیوں کے سکول میں اپنے دادا کے نام سے منسوب
ایک جدید ترین کمپیوٹر لیب قائم کی ہے جس میں غریب طالبات کو مفت تعلیم دی
جاتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ ایک ایسا کام ہے جس پہ میں بجا طور پر فخر کر
سکتی ہوں ‘۔ ارفع کا خواب تھا کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بنے۔ وہ یہاں
ایک Digicon Valley بنانا چاہتی تھی جہا ں کمپیوٹر کا ایک بین الاقوامی
تعلیمی ادارہ ہو جس میں نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ سے آئے
طلباءکو مفت تعلیم، مفت رھائش اور مفت میڈیکل کی سہولیات دی جاتیں۔
ارفع کریم ادب سے بھی گہرا شغف رکھتی تھی۔ شاعروں میں اقبال اس کے پسندیدہ
شاعر تھے، جن کی کئی ایک نظمیں اس نے اپنی ڈائری کی زینت بنا رکھی تھیں۔ اس
نے خود بھی انگریزی زبان میں چند خوبصورت نظمیں لکھیں ، جن میں ’سفید گلاب‘
’برف کی پریاں‘ ’ستارے‘ ’ میری ماں‘ ’گرتے آنسو‘ سر فہرست ہیں ۔ ان نظموں
میں الفاظ کا چناؤ، معانی کی گہرائی، جذبات کی پاکیزگی ارفع کے بلند تخیل
کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ہفت جہات شخصیت کی مالک تھی، والدین کی
فرمانبردار، اساتذہ کی آنکھوں کا تارا، بھائیوں کا مان، دوستوں میں ہنس مکھ
، ضرورت مندوں کی مدد کرنے کئے بے چین ہو جانے والی، الغرض کون سی ایسی
خوبی تھی جو اس پری میں نہ تھے۔ بقول اپنی پھوپھی کے وہ ہر روز ایک چونکا
دینے والی بات کرتی تھی، اور اس کی آج کی بات گزشتہ کل کی بات سے کہیں
زیادہ حیران کن ہوتی تھی۔
وہ اکثر ایک شکایت کا اظہار کرتی تھی کہ اس کے خیالات اور منصوبوں کو
سنجیدگی کے ساتھ نھیں لیا جاتا صرف اس لیے کہ وہ ایک کم عمر بچی ہے۔ لوگ اس
کے آئیڈیاز کو اس کی عمر سے ماپتے تھے نہ کہ ان فوائد وثمرات کی بنیاد پر۔
شاید یہی وہ غلطی تھی جو قدرت کو پسند نہ آئی اور اس نے اس طلسماتی پری کو
اپنے پا س واپس بلا لیا۔ 22 دسمبر 2011 کو اسے مرگی کادورہ پڑا، ساتھ ہی دل
کا دورہ پڑنے سے برین ہیمبرج کا شکار ہوئی اور کومے میں چلی گئی۔چوبیس دن
کومے کی حالت میں رہنے کے بعد ، ارفع نے ہمیشہ کے لیے اس دار فانی کوالوداع
کہا اور اپنے پیچھے نہ صرف پوری قوم بلکہ آئی ٹی کی دنیا کوبھی سوگوار چھوڑ
گئی۔بلاشبہ ارفع ایک گوہر نایاب تھی، اس جیسے فرد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
دعا ہے کی اﷲ
تعالیٰ ارفع کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اس کے والدین ،
خاندان کو صبر جمیل دے اور پوری قوم کو اس کے ادھورے خواب پورے کرنے کی
توفیق عطا فرئے۔
آخر میں ارفع کریم کی ڈائری سے لیا گیا ایک مصرع۔
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۔ |