اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں
اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں میں سے سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ
السلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ
خَلِيفَةً.
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں
اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا ذکر ان کی تخلیق سے بھی
پہلے فرما دیا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ہوا ہے۔ پھر جب خالقِ
کائنات نے آدم علیہ السلام کے پیکرِ بشری کی تخلیق فرمائی اور تمام فرشتوں
کو اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو ابلیس نے نافرمانی کی اور راندۂ
درگاہ ہوا۔ تخلیقِ آدم علیہ السلام کی اس پُرکیف داستان کا ذکر قرآن مجید
نے تفصیلاً کر دیا ہے :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن
صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ
مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ
أَجْمَعُونَO إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَO
’’اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں سن
رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا
ہوںo پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں
اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے
لیے سجدہ میں گر پڑناo پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے
ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیاo سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے
والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیاo‘‘
الحجر، 15 : 28 - 31
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ
کیا گیا ہے، صرف پیدائش کا ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا
ذکر موجود ہے، جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے خیالات،
شیطان مردود کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے
کیا گیا ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا اوّلین مصداق سیدنا
آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآنِ مجید کی زینت بنایا گیا
ہے۔ یہی ان کا ’’میلاد نامہ‘‘ ہے۔
2۔ میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر
نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو للکارا جو زمین پر
خدائی کا دعوے دار بنا بیٹھا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی بعثت کے ذریعہ
بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کے
لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون
نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے شاہی نجومیوں نے بتایا
کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی
اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لیں گے تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ
ڈھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔
ان حالات میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جسے اللہ رب العزت نے
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
سورۃ القصص کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ
پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات مسلسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے وقف ہیں۔
ذیل میں ہم میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں سورۃ القصص کی ابتدائی
14 آیات بمع ترجمہ دے رہے ہیں جن میں باری تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے لے کر
جوانی تک کا ذکر بڑے بلیغ انداز سے کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا
ہے کہ اپنے محبوب بندوں کا میلاد پڑھنا میری سنت ہے۔ ارشاد فرمایا :
طسمO تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِO نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ
مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO إِنَّ فِرْعَوْنَ
عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً
مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ
مِنَ الْمُفْسِدِينَO وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ
اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ
الْوَارِثِينَO وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ
وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَO
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ
فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ
إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَO فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ
لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ
وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَO وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ
عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ
وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا
إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا
لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ
بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ
الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ
يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَO فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ
كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ
حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَO وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ
وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي
الْمُحْسِنِينَO
القصص، 28 : 1 - 14
’’طا، سین، میم (معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے
ہیں)o یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیںo (اے حبیبِ مکرم!) ہم آپ پر موسیٰ اور
فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لیے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں
جو ایمان رکھتے ہیںo بے شک فرعون زمین میں سرکش و متکبر (یعنی آمرِ مطلق)
ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں)
میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو
کمزور کر دیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے)
ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان
کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد
انگیز لوگوں میں سے تھاo اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں
جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور
کر دیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی
تخت کا) وارث بنا دیںo اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور
فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ
ڈرا کرتے تھےo اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں
دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کر دیے جانے کا) اندیشہ ہوجائے تو
انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورت حال سے) خوف زدہ ہونا اور نہ
رنجیدہ ہونا، بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں
رسولوں میں (شامل) کرنے والے ہیںo پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا
سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیتِ الٰہی سے) ان کے لیے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت
ہوں، بے شک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطا کار تھےo اور
فرعون کی بیوی نے (موسیٰ کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ
کے لیے ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو
بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھےo اور موسیٰ کی والدہ
کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز
کو ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوت نہ اتارتے تاکہ وہ
(وعدہء الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیںo اور (موسیٰ کی والدہ نے)
ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ، سو وہ
انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھےo اور ہم نے پہلے ہی
سے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ کی بہن نے) کہا : کیا
میں تمہیں ایسے گھروالوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش
کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوںo پس ہم نے موسیٰ کو (یوں) ان کی
والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور
تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں
جانتےo اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِ) اعتدال پر آگئے تو
ہم نے انہیں حکمِ (نبوت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکو کاروں کو
اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیںo‘‘
ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام
کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں
ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ
کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔
اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام
پاک کی زینت بنایا۔
لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/5/bid/79/btid/268/read/txt/باب%20سوم.html |