میلاد نامۂ مریم علیھا السلام و میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام

میلاد نامۂ مریم علیھا السلاماللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلاد نامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاک باز ولیۂ کاملہ تھیں۔ ان کا میلاد نامہ بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل کی فضیلت بیان کی۔ اِرشاد فرمایا :

إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَO ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

’’بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیاo یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

آل عمران، 3 : 33، 34

اِس تمہید کے بعد میلاد نامۂ مریم علیھا السلام کا بیان شروع ہوتا ہے۔ یہاں کوئی اِعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن حکیم نے تو صرف گزشتہ واقعہ بیان کیا ہے، آپ اسے میلاد نامہ کیسے قرار دے رہے ہیں؟ یہ اِعتراض کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ جو چیز فقط تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اُس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ جو بات جس حد تک مضمون سے متعلق ہو اتنی بتائی جاتی ہے اور غیر متعلق بات کو کم اَز کم کلامِ اِلٰہی میں جگہ دینے اور صحیفہ اِنقلاب کا مضمون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق ذیل میں دی گئی آیات اور ترجمہ پر غور کریں، خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کے لیے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ کا نام دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :

إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِO

’’اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی : ) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوںo‘‘

آل عمران، 3 : 35، 36

یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا۔ اگلی آیات میں ان کے بچپن کا بیان ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگیں۔ اس دوران میں اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل عطا فرمائے اُن کا تذکرہ ہے۔ اُن کی قیام گاہ کو وسیلہ بناتے ہوئے حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍO

’’سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا، اور اس کی نگہبانی زکریا کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا : اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہےo‘‘

آل عمران، 3 : 37

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں حضرت مریم علیھا السلام کے بچپن اور پرورش سے متعلق حالات کا بیان ہے مگر بات فقط اس پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اللہ رب العزت نے ان کے فضائل مزید بیان فرمائے، یہاں تک کہ اس چھوٹی سی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جو ان کاہنوں سے متعلق ہے جب وہ اس کی پرورش کے لیے قرعہ ڈال رہے تھے۔ فرمایا :

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَO يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَO ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَO

’’اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہےo اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کروo (اے محبوب!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے، اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھےo‘‘

آل عمران، 3 : 42 - 44

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ ’’میلاد نامۂ مریم علیھا السلام‘‘ ہی تو ہے کہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نظر انداز نہیں کی گئیں جن کا بظاہر تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً یہ فرمانا کہ وہ قرعہ اندازی کر رہے تھے، اپنے قلم پھینک رہے تھے اور آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ اگر بیان کرنے والے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد نامہ بیان کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کی تفصیلات و جزئیات اور ولادت باسعادت کے وقت ظہور میں آنے والے آثار و برکات بیان کریں تو یہ سنتِ الہٰیہ کے تتبع میں نہ صرف دین اور ایمان بلکہ اصلِ ایمان ہے۔ کاش کوئی اتنی سی بات سمجھ سکے کہ اگر اللہ کی ایک پاک باز ولیہ کا میلاد نامہ قرآن مجید میں بیان ہو رہا ہے تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو محبوبِ رب العالمین اور تاجدارِ انبیاء علیھم السلام ہیں، ان کا میلاد نامہ کیوں نہیں بیان ہو سکتا! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد نامہ کا بیان ہرگز بدعت نہیں بلکہ جزوِ ایمان، اصلِ ایمان اور عینِ توحید ہے۔

4۔ میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسلِ مکانی کرتے ہوئے حجرۂ مریم علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی تو یہ منظر بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِO

’’اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اﷲ (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگاo (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے؟ فرمایا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہےo عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا : تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہوo‘‘

آل عمران، 3 : 38 - 41

واضح رہے کہ ابھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی، صرف دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قبل اَز ولادت ان کے بعض فضائل کا ذکر کر دیا۔ آگے سورۃ مریم میں ان کی ولادت کا مکمل بیان ہے جب کہ پہلے رکوع میں سارا بیان ہی میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے لیے مختص ہے۔ اس بیان کو قرآن حکیم یوں شروع کرتا ہے :

كهيعصO ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO

’’کاف، ہا، یا، عین، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا پر (فرمائی تھی)o‘‘

مريم، 19 : 1 - 2

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ ایزدی ہے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بدرجہ اُولیٰ رحمت کیوں نہ ہوگا۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رُو سے بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، ذکرِ رحمت ہے۔

قرآن مجید نے آگے ولادتِ یحییٰ علیہ السلام کے ذکرِ رحمت کو تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے :

إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّاO وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًاO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّاO فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّاO يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاO وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّاO وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

’’جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکاراo عرض کیا : اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور بڑھاپے کے باعث میرا سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے، اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہاo اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں)، اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرماo جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب کی اولاد (کے سلسلۂ نبوت) کا (بھی) وارث ہو، اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنالےo (ارشاد ہوا : ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا، ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایاo (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوںo فرمایا : (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا ہے یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے، اور بے شک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھےo (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا : تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کر سکو گےo پھر (زکریا علیہ السلام ) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کروo اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھیo اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھےo اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھےo اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گےo‘‘

مريم، 19 : 3 - 15

سورہ مریم کا پہلا پورا رکوع میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے بیان کے لیے وقف ہے، جس میں پہلے ان کے میلاد کا ذکر ہے کہ کیسے ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی ولادت کے لیے عالمِ پیری میں دعا کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ جب انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا۔ الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر کے درمیان جو مکالمہ ہوا قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے روحانی مقامات اور سیرت کے چند خصوصی گوشوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے آغاز کرکے ان کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد بات ان کے یومِ میلاد، یومِ وصال اور یومِ بعثت (قیامت کے دن اٹھائے جانے) پر سلام کے ساتھ ختم کی۔ قرآن حکیم کا ان جزئیات کو بیان کرنے کا مقصد صر ف ایک برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اسے جاگزیں کرنا ہے۔ یہ تھا میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام جس کی قرآن حکیم میں تلاوت کی جاتی ہے۔

لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/5/bid/79/btid/268/read/txt/باب%20سوم.html