آبِ زم زم

چار ہزار سال قبل صحرائے عرب کے ریگستان میں جاری ہونے والا آبِ زم زم دنیا کا وہ واحد پانی ہے جس کو پینے کے بعد بیماریوں سے شفاء ملتی ہے اور پیتے وقت مانگی جانے والی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔

صحرائے عرب کے لق و دق صحرا میں سبزے سے خالی دوخشک پہاڑ جہاں ایک بچہ پیاس کی شدت سے ایڑیاںرگڑ رہا ہے، ماں یہ منظر دیکھ کر ہول کھارہی ہے ، مشکیزے میں موجود پانی کب کا ختم ہوچکا ، صحرا کی تپتی دوپہر اور جھلساتی لُو کے تھپیڑوں نے انھیں جان بلب کردیا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کو بلبلاتا، سسکتا اور تڑپتا نہ دیکھ سکی ،اور پانی کی تلاش میں سامنے موجود ”صفا“ کے پہاڑ پر چڑھ گئی لیکن پانی نہیں ملا اور اس پہاڑ سے اتر کر تیزی سے دوسری طرف موجود ”مروہ“ نامی پہاڑ پر جا پہنچی۔ تین چار چکر لگا کرمامتا کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ واپس آئی ، بیٹے کو پہلے کی طرح تڑپتا بلکتا دیکھ کر واپس پلٹی، دوبارہ وہی چکر، پہاڑ سے اترتی اور تیزی سے دوسرے پہاڑ پر چڑھ جاتی۔ پانی کی تلاش میں وہ ان پہاڑوں کے سات چکر لگا چکی تھی ،لیکن پانی کہیں نہ ملا۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بے قرار ماں دوڑ کر اپنے بچے کی طرف آئی جو جاں بلب ہوچکا تھا۔

سینکڑوں ماﺅں سے زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرنے والا خدا یہ منظر دیکھ رہا تھااس نے فوراََ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وہاں بھیجا ، آپؑ نے ایڑ ی زمین پر ماری اور زمین سے پانی کا چشمہ ابل پڑا، بظاہر آخری سانس لیتے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی بے تاب ماں حضرت ہاجرہ علیہ السلام ابلتا پانی کا چشمہ دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئیں اور پانی کے گرد منڈیر بنادی تاکہ پانی اِدھر اُدھر نہ ہوجائے۔

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر ہاجرہؑ اس پانی کے گرد منڈیر نہ بناتیں تو آج یہ پانی ایک دریا کی شکل اختیار کرلیتا ۔ اس عجیب و غریب پانی نے ماں بیٹے کو کھجور اور کھانے سے بھی بے نیاز کردیا۔ پانی پیتے ہی پیاس کے ساتھ ساتھ بھوک کا احساس بھی مٹ گیا ۔

ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ بنو جرہم کاایک قافلہ وہاں سے گزرا، دیکھا کہ مکہ کی گھاٹیوں پر پرندے اڑانیں بھر رہے ہیں ، ان کے لئے یہ منظرحیران کن اور ناقابل یقین تھا۔ اس علاقے میں تو خاک اُڑتی تھی اور لُو کا گزر ہوتا تھا، وہ حیران تھے کہ پرندے یہاں کیسے۔ عرب کے ریگستانوں میں تو پرندے صرف پانی والی جگہ پر ہی نظر آتے تھے۔اس جستجو نے انھیں اس گھاٹی کی طرف آنے پر مجبور کردیا۔ پانی کا چشمہ اور ایک ماں بیٹے کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے ۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے انھیں سارا قصہ سنایا۔ بنو جرہم کے قافلہ لوگ یہ واقعہ سن کر بے حد متاثر ہوئے اور ماں بیٹے کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھ گئی۔ انھوں نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام سے وہاں بسنے کی اجازت مانگی تو انھوںنے بخوشی اجازت دیدی۔

صحرائے عرب کا یہ بنجراور ویران ریگستان آباد ہوگیا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو اس قبیلے کے سردار عمر بن مقاض کی بیٹی کے ساتھ شادی کرلی ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد پیدا ہوئی اور اس کو (بنو بکر) کہا جانے لگا۔ بنو جرہم اور بنو بکر باہمی اتفاق و اتحاد سے کئی سال تک رہے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان میں اختلاف شروع ہوئے جو اس قدر بڑھے کہ بنو بکر نے بنو جرہم کو علاقے سے نکال دیا۔ بنو جرہم نے اس علاقے کو چھوڑنے سے پہلے خانہ کعبہ کا سارا خزانہ، غلاف کعبہ، اور قیمتی تلواریں زم زم کے کنویں میں ڈا ل دیں اور مٹی سے کنویں کو بند کرکے زمین کو برابر کردیا۔ آب زم زم کے ارد گرد کا علاقہ پھر ویران ہوگیا ۔ حج کے دنوں میں وہ علاقہ آباد ہوتا لیکن اب آب زم زم کا قصہ یادِماضی بن کر رہ گیا تھا۔

بر سہا برس گزر گئے ۔ چھٹی صدی عیسوی میں خانہ کعبہ کے نگراں مطلب بن عبداللہ انتقال کر گئے، عبدالمطلب کو حاجیوں کے امور کانگراں بنادیا گیا ۔ عبدالمطلب حاجیوں کو پانی پلاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے مکہ میں کئی کنوئیں کھودے گئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند سال پہلے آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب کو خواب میں بشارت ہوئی ، کوئی کہہ رہا تھا ”طیبہ کو کھودو“ حضرت عبد المطلب کو معلوم نہیں تھا طیبہ کیا ہے؟ اگلی رات پھر خواب آیا کہا گیا ” برَّہ کو کھودو“ مگر وہ ” برَّہ “ کو بھی نہیں جانتے تھے۔ تیسری رات خواب میں کہا گیا ”مضنوعہ“ کو کھودو“ لیکن یہ بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ چوتھی مرتبہ خواب میں ایک شخص نظر آیا اور کہا ”زم زم کو کھودو“آپ نے پوچھا کہ زم زم کیا ہے؟ جواب ملا کہ زمزم وہ ہے جس کا پانی ختم نہ ہوگا۔ نہ خشک ہوگا۔ حاجیوں کو خاطر خواہ سیراب کرے گا ۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ وہاں چیونٹیوں کی بہت سے بلیں ہیں۔ اور ایک کوّا زمین کریدتا رہتا ہے۔

اگلے دن صبح سویرے عبد المطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ اس جگہ پہنچے۔ اور کھدائی شروع کردی۔ اہلِ قریش نے باپ بیٹے کو کھدائی سے روگا ۔ اور کہا کہ اس جگہ تو بتوں کے نام پر قربانیاں دی جاتی ہیں، یہ مقدس جگہ ہے ۔ عبد المطلب نے سنی ان سنی کردی اور کھدائی جاری رکھی ۔ مگر قریش نے باپ بیٹے کی کوئی مدد نہ کی۔ تین دن کی انتھک محنت کے بعدآخر گوہر مقصود ہاتھ آہی گیا۔ عبد المطلب کھدائی کرتے اور حارث مٹی اٹھا کر باہر پھینکتے رہے۔ زم زم کا کنواں نکل آیا اور عبد المطلب کے ہاتھ بیش بہا خزانہ لگا جو بنو جرہم نے دفنایا تھا، اب قریش کی آنکھیں بھی کھل گئیں۔ وہ عبدالمطلب کے پاس آئے اور کہنے لگے ، کنواں تو ہمارے باپ اسمٰعیل کا ہے ، اس خزانے میں ہمارا بھی توحصہ بنتا ہے۔ عبد المطلب نے صاف انکار کردیا ۔ قریش بھی ٹلنے والے نہیں تھے ، انہوں نے لڑائی اور جھگڑے کی دھمکی دے دی۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ معاملہ خراب ہوتا دیکھ کر عبدالمطلب نے پیش کش کی معاملہ کا تصفیہ کرلیا جائے۔چنانچہ اس جھگڑے کو نمٹانے کے لئے عرب کے دستور کے مطابق کسی باعلم اور دانش مند شخص پر فیصلہ چھوڑا گیا۔ اہلِ قریش نے کہا کہ شام میں رہنے والی قبیلہ بنو سعد کی کاہنہ ہی اس کا فیصلہ کرسکے گی۔

عبد المطلب نے یہ بات مان لی، اور مختلف قبائل کے نمائندہ افراد کے ہمراہ شام کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ فاصلہ طویل تھا راستے میں میلوں پر پھیلے صحرا سے گزرنا تھا۔ صحرا میں اکثر لوگوں کے پاس پانی ختم ہوگیا۔ پیاس کے مارے لوگوں کی جان نکلنے لگی۔ جن کے پاس چند گھونٹ پانی تھا انہوں نے دوسرے کو دینے سے انکار کردیا ۔ عبدالمطلب کے ساتھی زندگی سے مایوس ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان ساتھیوں نے کچھ قبریں بھی کھود لیں تاکہ جو پہلے مر جائیں ان کو دوسرے دفنادیں۔ عبد المطلب سے ان کی حالت دیکھی نہ گئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے کی بجائے سفر جاری رکھا جائے ۔ شاید کوئی بستی نظر آجائے۔ عبد المطلب نے اونٹنی پر سوار ہوکر اسے کھڑا کیا تو نیچے سے شیریں اور عمدہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ خوشی کے ان نا قابل فراموش لمحات میں عبد المطلب نے زور سے نعرہ لگایا ۔ سب نے پانی پیا اوراپنے برتن بھر لئے۔ یہ ماجرا دیکھ کرتمام قبائل کے نمائندہ افراد حیران رہ گئے انہوں نے کہا ، عبدالمطلب اب ہمیں آگے جانے کی ضرورت نہیں، قدرت نے راستے میں ہی تمہارے حق میں فیصلہ کردیا ہے۔ اب ہم تم سے زم زم کے مسئلے پر نہیں جھگڑیں گے۔ جس ذا ت نے اس بے آب و گیاہ ویرانہ میں تمہا رے لئے یہ چشمہ جاری کیا ہے، بے شک اسی نے تمہیں زم زم عطا کیا ہے۔

اس کنویں کی عظمت تو دیکھیئے آب زم زم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے نکا لا گیا اور اس کی وجہ ان کی والدہ بنیں۔ اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ پانی جاری کیا ۔ اس پانی کوتمام انبیاءاور نیک لوگ پیتے رہے۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبِ زم زم کے کنویں پر تشریف لائے ، آپ ﷺ کے لئے پانی کا ایک ڈول نکالا گیا ، آپ ﷺ نے کھڑ ے کھڑے اس میں سے کچھ پانی نوش فرمایا پھر اس میں کلی کردی اور ڈول کو کنویں میں انڈیل دیا ۔ گویا یہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جھوٹا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آبِ زم زم ہر بیماری کےلئے شفا ءہے“۔

آب زم زم کا کنواں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباََ 21میٹر کے فاصلے پر تہہ خانے میں واقع ہے ، اس کنویں کی گہرائی تقریباََ 98فٹ (30میٹر) اور اس کے دھانے کا قطر تقریباََ3فٹ7انچ تا 8فٹ 9انچ ہے ۔1953ءتک یہ پانی ڈول کے ذریعے نکالا جاتا تھا ، مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر کے مختلف مقامات پر آبِ زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ زم زم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج اکرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔آبِ زم زم دنیا کا وہ واحد پانی ہے ، جس کو پینے کے بعدبیماریوں سے شفاءملتی ہے اور جس کے پیتے وقت مانگی جانے والی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔

اللہ سے دُعاہے کہ جس طرح اس نے ہمیں اس دنیا میں آب زم زم کی نعمت عطا فرمائی ہے ، حوضِ کوثر پر بھی ہمیںپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آب ِکوثر پینا نصیب فرمائے۔ آمین
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 322965 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.