سگریٹ کے دھوئیں میں دھندلاتی درس گاہیں

سگریٹ نوشی کیلئے درس گاہیں محفوظ مقامات بنتی جا رہی ہیں!!!

پاکستان میں روزانہ تقریباً1500 نوجوان سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں۔سروے رپورٹ

عالمی طور پر تمباکو اموات کی دوسری بڑی وجہ بنتا ہے ،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو نوشی کے باعث ہلاک ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق( 2008 کی سروے رپورٹ)تقریباً 200 ملین افراد سگریٹ کا نشہ کرتے ہیں۔بیسویں صدی میں سو ملین افراد سگریٹ کے استعمال سے ہلاک ہوئے۔ جبکہ اکیسویں صدی میں یہ تعداد تقریباً ایک بلین تک پہنچ جائے گی۔افسوس اس بات کا تو بہت ہے کہ اتنی زیادہ اموات محض سگریٹ نوشی کی بری عادت کی وجہ سے ہو رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ طالبعلم جن کی عمریں 16 سے 30 سال کے درمیان ہے اس بُری عادت کو بہت تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ کراچی کے ایک نجی اسپتال (آغا خان) کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے کالجوں کے 24 فیصد لڑکے جبکہ16 فیصد لڑکیاں باقاعدگی سے سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ہمارے نوجوان جنہوں نے کل کو ملک کا پاسباں بننا ہے اس کی انتظامی اور دفاعی باگ دوڑ سنبھالنی ہے وہ نشہ کے عادت میں بری طرح گرفتار ہوتی جا رہی ہے،اگر یہی حالت رہی تو وہ وقت قریب نہیں جب ہمارے ملک کا تمام کا تمام تر زرمبادلہ سگریٹ کی درآمد میں صرف ہوجائے اور ہم معاشی طور پر مزید غیر مستحکم ہوجائیں گے، جو کہ ہماری بقا و سلامتی کیلئے انتہائی پر خطر ہے۔آخر وہ کونسے عوامل اور اسباب ہیں جس کی وجہ سے مستقبل کا معمار اس بری لت کا شکار ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم نے شہر کراچی کے طالبعلموں سے بات کی تو اندازہ ہوا کہ ہمارا آج کا نوجوان اپنے حالات اور مستقبل کے بارے میں اس قدر ڈپریشن کا شکار ہے کہ وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اپنی زندگی اور صحت کو برباد کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے۔جس سے وقتی طور پر اس کو سکون مل جاتا ہے۔

شہباز احمدآئی آر کے طالبعلم ہیں، ان کاکہنا ہے کہ میرے معاشی حالات اس قدر ابتر ہو چکے تھے مجھے تعلیم سے دوری اختیار کرنا پڑی اور ایک دکان پر ملازمت شروع کردی وہاں میں اکثر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوجاتا ایک دن ایک دوست سے سگریٹ لیکر ٹرائی کیا مجھے کافی سکون ملا ،کچھ دیر کیلئے میں اپنی تمام پریشانیاں بھول گیا۔اس کے بعد ایسی لت پڑی کہ آج آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی میں سگریٹ نوشی نہیں چھوڑ سکا بلکہ اب تو مجھے اس کے بغیر کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔کچھ اسی طرح کے ملے جلے تاثرات کا اظہار سہیل شفیع نے بھی کیا ان کا کہنا ہے کہ آج کی اس تیز زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو کم از کم ایک بار زندگی میں ایک ایسے موڑ کا سامنا کرتا پڑتا ہے جہاں اسے تمام راستے بند نظر آتے ہیں بس یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے کوئی بھی شخص کسی بھی نشہ کو اختیار کرتا ہے۔ان نوجوانوں کی باتیں سن کر ایک لمحہ کیلئے مجھے بہت زیادہ دکھ ہوا کہ آج ہمارا نوجوان اتنا کم ہمت اور بزدل ہو گیا ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے اور اس سے بچنے کیلئے مختلف نشہ آور اشیاء کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ہماری تاریخ تو ایسے نوجوانوں کے قصوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے بڑے بڑے طوفانوں کے رخ موڑ دئیے،جن کے کارناموں پر آج تک امت مسلمہ اور پاکستانی فخر کرتے ہیں ۔اور ایک ہمارا آج کا جوان ہے جو کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کے بجائے اسے اپنے اوپر حاوی کر لیتا ہے۔لڑکوں کا سگریٹ نوشی کرنا معاشرہ میں نسبتاً کم معیوب سمجھا جاتا ہے ،بہ نسبت لڑکیوں کے۔ شہر کراچی میں ایسی طالبات کی بھی کمی نہیں جو اس عادت کو بطور فیشن اور اسٹیٹس اپنائی ہوئی ہیں۔ان سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر اس لت میں پڑی ہیں۔ ان میں سے اکثر طالبات کا کہنا یہ ہے کہ مڈل کلاس اور اپر کلاس میں بہت زیادہ فرق ہے ہمارے رہن سہن اور انکے رہن سہن مین جو بنیادی فرق ہے وہی ہمیں اپنے کم تر ہونے کا احساس دلاتا ہے مثلاً اپر کلاس کی لڑکی کو دوست بنانے میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جبکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ لڑکوں سے دوستی مت رکھو، گھومنے پھرنے کی، آؤٹنگ میں کسی قسم کی ممانعت نہیں ہوتی جبکہ ہمارے ساتھ ایک عدد بھائی کا ہونا لازم و ملزوم ہے خواہ وہ دو سال کا ہی کیوں نہ ہو۔جب اس قسم کی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے اندربھی ان جیسا بننے کی خواہش جنم لیتی ہے، جہاں لڑکی اتنی آزاد اور خود مختار ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے فیصلے کر سکے۔

یہ تو بات ہے صرف چند نوجوانوں کی اس کے علاوہ بعض نوجوانوں کے مطابق بڑا نظر آنے اور بھرم مارنے(رعب جمانے) کیلئے سگریٹ انتہائی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟کسی کی تقلید کر رہے ہیں؟ اور کس پر رعب جمانا چاہتے ہیں؟ معذرت کے ساتھ اگر تعلیمی ادارر وں میں موجود اساتذہ کرام اسی طرح خاموش رہے اتو وہ دن دور نہیں جب درس گاہیں سگریٹ کے دھوئیں میں نظروں اوجھل ہوجائیں گی، اور وہ ادارے جو کبھی نامور شاگرد اور اور پروفیشنل مارکیٹ کو دیتے ہیں نشہ میں چور لوگ بنانا شروع کر دیں گی۔ میر ی حکومت سے اپیل ہے کہ وہ صحت سے متعلق آرڈیننس 2002 پر سختی سے عملدرآمد کرائے ،اور ساتھ ہی نوجوانوں کو تنبیہ کرنا چاہوں گا کہ وہ اس بری عادت سے اجتناب برتیں کیونکہ ابھی تک جتنی ذیادتی ہم اپنے بزرگوں ،والدین اور ملک کے ساتھ کر چکے ہیں وہی بہت ہے ،اب ہماری پاک سر زمین اس سے ذیادہ ان حماقتوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو ایسے تمام لغویات جو کسی بھی طرح سے صحت اور پیسہ کے ضیاع کا باعث ہو ان سے علحیدگی اختیار کر لیں۔اور اپنے آنے والے مستقبل کو صحت مند اور خوشحال بنانے میں اہم کردار اداکریں -
Shariq Jamal Khan
About the Author: Shariq Jamal Khan Read More Articles by Shariq Jamal Khan: 4 Articles with 2896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.