ممبئی میں گزشتہ سال ۱۳جولائی کو
ہونے والےبم دھماکوں میں ۲۷ لوگ جان بحق ہوئے لیکن ۲۳ جنوری کوممبئی بلاسٹ
کے متعلق جو بیان مہاراشٹراے ٹی ایس کے سربراہ راکیش ماریہ نے دیا اس سے اے
ٹی ایس کے اعتماد کی دھجیاں اڑ گئیں۔ممبئی بم بلاسٹ کیلئے احمد ضرارباپاسدی
عرف یٰسین بھٹکل عرف عمران ذمہ دار ہے یا نہیں اس کا پتہ تو اس وقت چلے گا
جب وہ گرفتار ہوگا اور عدالت میں اس کے خلاف شواہد پیش کئے جائیں گے لیکن
یہ حقیقت ہے کہ راکیش ماریہ اور ان کا یونٹ یٰسین بھٹکل اور اس کے نام نہاد
پاکستانی ساتھی تبریز اور وقار کو دھماکے بعدگرفتار کرنے میں ناکام رہے اور
جب دہلی پولس نقی شیخ کی مدد سے ا نہیں گرفتار کرنے کے قریب پہنچ گئی تو
مہاراشٹر اے ٹی ایس نے اپنے آپ کو ہزیمت سے بچانے کیلئے نقی شیخ کے ساتھ
ندیم شیخ کو گرفتار کر کے خود کریڈٹ لینے کی کو شش کی جس کے نتیجے میں بقول
دہلی پولیس یٰسین اور اسکے ساتھی ہوشیار اور روپوش ہوگئے اور انکی گرفتاری
کے امکانات معدوم ہوگئے ۔
دہلی پولیس کا یہ الزام اگر صحیح ہے تو اسکی سزا راکیش ماریا کو ملنی چاہئے
اور انہیں بھی گجرات کے سابق اے ٹی ایس چیف ڈی جی ونجارہ کی مانند جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے ۔ دہلی پولیس نے راکیش ماریا کی سرزنش کرنے کا
مطالبہ وزارتِ داخلہ سے کیا ہے اور ہوم سکریٹری آرپی سنگھ نے بھی ممبئی
پولیس سے ناراضگی کا اظہار کیا ۔بعد میں جب ذرائع ابلاغ نے اس مسئلہ پر
حکومت کو گھیرنا شروع کیا سنگھ صاحب نے کہا کہ نقی بیک وقت مخبر اور دہشت
گر د بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہلی پولیس
نے اپنے ساتھ لئے لئے پھرنے کے بجائے نقی کو گرفتار کرنے کی زحمت کیوں نہیں
کی؟ اور یہ کام ممبئی پولیس کیلئے کیوں چھوڑ دیا؟ ایسے میں اگر نقی احمد
دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو کیا
دہلی پولس پر بھی دہشت گرد کو گرفتار کرنے کے بجائے اپنی پناہ میں رکھنے کا
الزام عائدنہیں ہوتا ؟
اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی کی قیمت مسلمان چکاتے تھے ۔ بی جے
پی والے ہندو فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کیلئے فسادات کرواتے تھے اور کانگریس
پارٹی اسے روکنے کے بجائے فساد کے بعد ووٹ کی خاطر آنسو پونچھ کر اپنی
سیاسی روٹیاں سینکتی تھی ۔اس طرح مسلمانوں کے نقصان میں دونوں کا فائدہ
ہوتا اب مختلف پولس دفاتر کے درمیان ہونے والی حریفائی کی قیمت مسلمان
چکارہے ہیں ۔ اس مسابقت کو راکیش ماریا نعمت قرار دیتے ہیں لیکن نقی احمد
اور ندیم شیخ کیلئے جو دہلی اور ممبئی پولیس کی چکی میں پس رہے ہیں یہ ایک
بہت بڑی زحمت بن گئی ہے ۔ ممبئی پولیس کو شکایت ہے کہ دہلی والے ان کو
بتلائے بغیر رازدارانہ انداز میں ان کے کام میں مداخلت کرتے ہیں تاکہ اپنی
برتری ثابت کی جا سکے ۔ دہلی والوں کا کہنا یہ ہےممبئی والوں نے ان کے مخبر
کو ملزم بنا کر اصل ملزمین کو چو کنا کر دیا اور ان کی ساری محنت کو خاک
میں ملا دیا۔ پہلی بات تو یہ کہنا غلط ہے کہ نقی احمد شیخ پولیس کا مخبر
تھا اور پھر یہ کہنا کہ وہ بیک وقت مخبر اور دہشت گرد بھی تھا اس سے بڑی
غلطی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دہلی پولیس نے ممبئی پولیس کو اعتماد میں لئے
بغیر نقی احمد کی مدد سے ممبئی میں تفتیش کی ۔ ممبئی پولیس نے دہلی پولیس
کا غصہ نقی پر اتارا اور اس پر دھماکوں کا لزام دھر دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ
اصل ملزم یٰسین بھٹکل اور اسکے ساتھیوں کا تو کوئی سراغ نہیں ملا ہاں ممبئی
پولیس کا اقبال بلند ہوگیا۔ اگر ممبئی پولیس کو اپنا نام روشن کرنا ہی
تھاتو اسے ایک نادر موقع اس وقت ملا تھا جب چند دہشت گرد تاج ہوٹل میں گھر
گئے تھے اگر صبح تک دہلی سے اسپیشل فورس کی آمد کا انتظارکر نے کے بجائے
رات ہی میں وہ ان کو مار گراتے تو یقیناً ان کی دلیری و بہادری کا لوہا
تسلیم کر لیا جاتا ۔
بم دھماکے کے حوالے سےاے ٹی ایس کے سربراہ نے قوم کے سامنے جو مضحکہ خیز
تفصیلات بیان کی ہیں ان میں نقی اور ندیم دہشت گرد کم اور اسکوٹر چور زیادہ
نظر آتے ہیں ۔ ان کے مطابق نقی احمدکو دہلی بلا کر دھماکہ کرنے کیلئے ڈیڑھ
لاکھ روپئے دئیے گئے ۔ ڈیڑھ لاکھ میں تین دھماکے اتنے روپئے میں تو ممبئی
شہرکے اندر پان کی ایک دوکان بھی نہیں کھلتی ۔ دہلی میں اسےگولہ بارود بھی
دیا گیا لیکن یہ بارود دہلی تک کہاں سے آیا اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اس
آپریشن پر دس لاکھ خرچ ہوئے جو حوالہ کے ذریعہ موصول ہوئے اس میں سے
تقریباً ایک لاکھ اگر گھر کا کرایہ تھا تو باقی نو لاکھ کہاں گئے ؟ پرانی
اسکوٹر تک خریدنے کیلئے رقم مہیا نہیں ہو سکی اور چوری کی نوبت آگئی یہ
حیرت انگیز انکشاف ہے ۔ اس کے علاوہ نقی احمد پر دو اور موٹر سائیکل کو
چوری کا لزام ہے جسےوہ مستقبل کے دھماکوں کی خاطر در بھنگہ لے گیا ۔ دھماکے
کرنے کیلئے موٹر سائیکل چرا کرڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور اپنے گاوں میں رکھنے
والی منطق پولیس کے علاوہ کسی اور کی سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔
نقی احمد شیخ کی معصومیت کا سب سے بڑا ثبوت اس کا بھائی تقی احمد ہے جو
دہلی میں رہتا ہے ۔ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ پولیس ملزم کے اعزہ وقارب کو
گرفتار کرکے لے جاتی ہے اور اس معاملے میں بزرگوں اور خواتین کو بھی نہیں
بخشا جاتا لیکن تقی کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ تقی احمد شیخ گزشتہ دو
ہفتوں سے اپنے بھائی کی تلاش میں دہلی کے اندرردبدر ٹھوکریں کھاتا پھر رہا
ہےاورہر کس و ناکس کے آگے نقی احمد کی گرفتاری کی شکایت کررہا ہے ۔ ۱۸
جنوری کو تقی احمد نے انہد کی سربراہ شبنم ہاشمی کے ساتھ مل کر دہلی میں
ایک پریس کانفرنس بلوائی ۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس کے انکشاف سے دو دن قبل اس
نے اقلیتی کمیشن کے صدر وجاہت حبیب اللہ سے ملاقات کی جنہوں نے اسے کمیشن
کے رکن کے این دارووالا کے پاس بھیجا جو مہاراشٹر کے معاملات دیکھتے ہیں ۔
دارووالا نے ۲۲ جنوری کو مہاراشٹر اے ٹی ایس سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان
کو فون اور ایس ایم ایس تک کا جواب نہیں ملا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی دہشت
گرد کا بھائی اس طرح کھلے عام جدوجہد کرے؟ یہاں تک کہ تقی احمد نے ممبئی
پولس سے براہِ راست رابطے کی بھی کوشش کی لیکن جواب میں اس کے ہاتھ ڈانٹ
پھٹکار اورگالی گلوچ کے سوا کچھ اور نہیں آیا ۔
اس سارے معاملے کی ابتداء ۹ دسمبر کو ہوئی جب ممبئی میں رہنے والا رضی احمد
جو تقی اور نقی کا بڑا بھائی ہے ان سے ملنے دہلی آیا ۔رضی احمد جب اپنے
بھائیوں سے مل کر آٹو رکشا سے لوٹنے لگا تو دولوگ زبردستی اس کے آٹو میں
دونوں جانب سے گھس گئے ۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ دہلی کی اسپیشل برانچ سے
تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نام للت موہن نیگی اور ہردیہ بھوشن تھے۔انہوں نے
رضی سے نقی کو بلانے کیلئے کہا۔ نقی کو بلوا لیا گیا ۔پولس نے اس سے نومبر
سے حراست میں موجود غیور جمالی کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ اسے جانتا
ہے؟ اورکیا اس نے غیور کو ممبئی کے اندر گھر دلانے میں مدد کی تھی ؟ نقی نے
اس بات کو مان لیا اور کہا کہ وہ غیورکو بچپن سے جانتا ہے اس لئے وہ اسے
گھر دلانے کی خاطر ایک ایجنٹ کے پاس لے گیا تھا لیکن غیور کی سرگرمیوں کا
اسے کوئی علم نہیں ہے ۔پولیس نے تفتیش میں نقی احمد سے تعاون مانگا اور وہ
اس پر راضی ہو گیا ۔ کیا کسی شہری کی یہ حرکت اسے پولیس کا مخبر بنا دیتی
ہے ؟ جس صورتحال میں نقی احمد تھا ا یسے میں اس کے پاس کوئی اور چارۂ کار
بھی نہیں تھا اور پولس کا تعاون کرنا اس کی ذمہ داری تھی ۔
نقی احمد کو ۱۰ دسمبر کی صبح گو ائیر کے جہاز سےممبئی لایا گیا تاکہ وہ اس
مقام کی نشاندہی کرسکے جو اس نے کرائے پر لیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ دہلی
پولیس نے اس کے قریب نگرانی کی غرض سے ایک کمرہ پہلے ہی سے لے رکھا ہے ۔۱۳
دسمبر کو واپسی ہو گئی لیکن نقی اور تقی کو۷ جنوری تک دہلی پولیس مختلف
مواقع پر اپنے دفتر میں بلواتی رہی یہاں تک کے نقی کو بتلایا گیا اس مکان
کے کرایہ دار لوٹ چکے ہیں اور اب ان کی شناخت کیلئے پھر ایک بار اسے ممبئی
چلنا ہوگا۔ اس طرح پھر ایک بار نقی کو ۸ جنوری کی شام راجدھانی سے ممبئی
آنا پڑا۔ ۹ تاریخ کی شام میں نقی احمد نے فون کر کے تقی کوبتلایا کہ سارا
کام ختم ہو چکا ہے اور اگلے دن وہ دہلی اپنے گھر لوٹ آئیگا لیکن بدقسمتی
سے وہ اگلا دن نہیں آیا۔ نقی بیچارہ آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹک گیا
دہلی پولیس کے بعد اسے ممبئی اے ٹی ایس نے اچک لیا۔نقی کی حالت تو یوں ہو
گئی جیسے:
یہ کون پھر سے انہی راستوں میں چھوڑ گیا
ابھی ابھی میں عذابِ سفر سے نکلا تھا
۹ جنوری کی نصف شب کومہاراشٹر اے ٹی ایس نی کے بڑے بھائی رفیع کے کارخانے
پر چھاپہ مارکر اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ نقی احمد نے اس بابت دہلی پولیس کے
ان اہلکاروں سے دریافت کیا جن کے ساتھ وہ ممبئی آیا تھا تو اسے بتلایا گیا
کہ رفیع احمد کو مہاراشٹر اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے اور وہ اس بارے میں
کوئی مداخلت نہیں کر سکتے ۔ دہلی پولیس نے نقی احمد کواپنے پاس اس مکان میں
بلوا لیا جو کہ انہوں نے نگرانی کی غرض سے کرائے پر لے رکھا تھا وہاں سے
نقی نے اپنے بھائی کا احوال معلوم کرنے کیلئے کارخانے میں کام کرنے والے
ایک ملازم ندیم شیخ سے رابطہ کیا ۔ اس وقت تک ندیم شیخ بھی حراست میں لیا
جا چکا تھا لیکن نقی کو اس کا علم نہیں تھا اورندیم کے ذریعہ مہاراشٹر
پولیس نے نقی کو ساگر ہوٹل پر ملنے کی خاطر بلایا اور اسے بھی گرفتار کر
لیا ۔رفیع احمد کو پکڑنے اور چھوڑنے کا سلسلہ ۱۷ جنوری تک چلتا رہا اس بیچ
ممبئی پولیس نے دربھنگہ میں نقی کے آبائی مکان پر چھاپہ مارا اور وہاں
موجود موٹر سائیکل کو چوری کا مال قرار دے کر نقی پر یہ الزام دھر دیا۔ اس
طرح گویا مہاراشٹر اے ٹی ایس نے بم دھماکے کا معاملہ بزعمِ خود سلجھا دیا
لیکن حقیقت میں الجھا دیا۔
اس طرح کے واقعات جب بھی سامنے آتے ہیں ان میں ایک اہم کڑی ہمیشہ ہی آخری
وقت میں غائب ہو جاتی ہے مثلاً غیور جمالی جو مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ہتھے
نہیں چڑھ سکا اور اب اس کا کوئی ذکر کہیں نہیں پایا جاتا ۔ سب لوگ اس کے
بارے میں خاموش ہیں وہ کون ہے ؟ کہاں ہے؟ یہ سب صیغۂ راز میں ہے ۔ساری
کہانی نقی اور ندیم کے آس پاس گھوم رہی ہے۔ اکثر لوگوں کو اس بات پر حیرت
ہوتی ہے کہ دہشت گردی جیسے سنگین الزام کے تحت گرفتار ہونے والے لوگ عدالت
سے رہا کیسے ہو جاتے ہیں؟ اب جن مقدمات کو اس طرح سے گھڑا جائے تو عدالت کے
پاس رہائی کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہوتا ۔ اسی یقین کا اظہار نقی کے
بھائی شاہد نے کیااور کہا کہ ان لوگوں نے نقی احمد کا مستقبل تباہ کردیا
ہمیں برباد کردیا لیکن ایک دن نقی احمد کی بے گناہی ساری دنیا کے سامنے
آجائیگی۔ شاہد کا اشارہ غالباً عدالت کی جانب تھا ۔
جس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ ممبئی دھماکے کی جانب مرکوز تھی ایک اور دہشت
گردی کا مقدمہ ممبئی مکوکا کورٹ سے ہائی کورٹ کی جانب منتقل ہورہا تھا ۔ یہ
سادھوی پرگیہ ٹھاکر کا مقدمہ ہے جسے بھوپال کی عدالت میں حاضر ہونا ہے ۔
اتفاق سے مدھیہ پر دیش میں فی الحال بی جے پی کی حکومت ہے شیوراج چوہان
وزیراعلیٰ ہیں جن کی تصاویر سادھوی پرگیا کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں۔پر گیا
کو بھوپال کی عدالت میں مسلمانوں کے خلاف کسی دھرم یدھ کے سلسلے میں نہیں
بلکہ آر ایس ایس کے ایک پرچارک سنیل جوشی کے قتل کے الزام میں حاضر ہونا ہے
۔ پولیس کی دائر کردہ چارج شیٹ کے مطابق سنیل جوشی پر سادھوی کا الزام ہے
کہ اس نے روپیوں میں خرد برد کی ۔ سنیل نےخود سادھوی کے ساتھ بدسلوکی کی
اور سنیل کے ہاں پناہ لینے والے بسٹ بیکری کے قتل عام میں ملوث ہرشد ،میہول
،راکیش اور استاد کے ساتھ بھی اس کا رویہ اچھا نہیں تھا ۔سنیل جوشی پر
چونکہ سمجھوتی ایکسپریس میں بم دھماکہ کرنے کا الزام ہے اس لئے اس کے پکڑے
جانے سے ساری سازش کے افشا ہوجانے کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا ۔ ان وجوہات
کی بنا ءپر سنیل جوشی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس قتل کے الزام میں
سادھوی پرگیا ٹھاکر، آنند راکٹاریہ،ہرشد سولنکی، واسدیوپرمار اور رامچندر
پٹیل پر دفع ۳۰۲ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔میہول اور راکیش ہنوز فرار
ہیں۔اب اس مقدمہ کی سنوائی کیلئے مالیگاؤں دھماکے میں گرفتار سادھوی جی
بھوپال ہوائی جہاز یا سیکنڈ اے سی سے جانا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ اپنے
مصاحبین یعنی پولس والوں کا بھی خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ مکوکا
عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا پولس اپنے طے شدہ طریقے سے ہی
انہیں بھوپال لے کر جائیگی اس فیصلے کے خلاف سادھوی نے ہائی کورٹ کے دروازے
پر دستک دی ہے ۔ بہتر ہوتا کہ میڈیا والے اس خبر کو بھی لوگوں تک پہنچاتے
اور بتلاتے کہ سنیل جوشی کیوں روپوش تھا؟ قتل کے بعد سادھوی پرگیا اس کے
گھر سے جو سوٹ کیس لے کر گئی تھی اس میں کیا تھا تاکہ لوگوں کے سامنے دہشت
گردی کا ہوا میں اڑنے والا اور اے سی میں چلنے والا چہرہ بھی آتا ۔
دہلی کے اندر سپریم کورٹ میں بھی اس انکشاف کے دوسرے دن ایک دلچسپ مقدمہ
دائر ہوا ۔ اس مقدمہ کو گجرات کے سابق وزیر داخلہ اور نریندر مودی کے دست
راست امیت شاہ نے داخل کیا۔ اس شخص کو گزشتہ ۱۶ ماہ سے عدالت نے ریاست بدر
کر رکھا ہے ۔ اس پر سہراب الدین اور پرجا پتی مرڈر کیس میں ملوث ہونے کا
الزام ہے ۔اس کامطالبہ ہے کہ اپنے خاندان سے دور ہونے کے باعث اسے بے شمار
پریشانیوں کا سامنا ہے اس لئے اس پر سے یہ پابندی ختم کی جائے اور اسے اپنے
شہر میں واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ امیت شاہ خوش قسمت ہے جو عدالت نے اسے
جیل میں نہیں بھیجا۔ وہ اپنے اہل خانہ کو دہلی بلا سکتا ہے اس کے باوجود
پریشان ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے امیت شاہ سے اخبار نویس ان لوگوں کے بارے
میں پوچھتے جن بے گناہوں کو اس نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے بلاوجہ جیل میں
ٹھونس دیا اور برسوں بعد عدالت سے انہیں رہائی ملی اور جن کا اس نے اپنے
افسران کی مدد سے انکاؤنٹر کروا دیا ۔ گجرات وہ واحد ریاست ہے جہاں پندرہ
پولیس افسر سنگین الزامات کے تحت جیل میں بند ہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ جو
مظلوم ان کی سفاکی کا شکار ہوئے ان کے لواحقین کو انصاف کب ملے گا ۔ امیت
شاہ کی سب سے دلچسپ دلیل یہ ہے کہ وہ گجرات کے سب سے بڑے حلقہ انتخاب کی
اسمبلی میں نمائندگی کرتا ہے اور چار مرتبہ وہاں کی عوام نے اسے کامیاب کیا
ہے اس لئے اس کے رائے دہندگان بھی اسکی خدمات سے محروم ہیں۔ عدالتِ عالیہ
کیلئے سارے دلائل کو ٹھکرانا تو آسان ہو گا لیکن کیاوہ اس آخری دلیل کو بھی
ٹھکرا سکے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہمیں ملک میں رائج نظامِ سیاست پر
سوچنے کیلئے مجبور کر دیتا ہے اس طرح کے واقعات ہمیں متبادل کی جانب مائل
تو کرتے ہیں لیکن پھر ہم اندیشوں کا شکار ہو کر اس خیال کواپنے ذہن سے جھٹک
دیتے ہیں ۔ ضرورت اس بیم و رجا کی کیفیت سے نکل کر سوچنے کی ہے بقول شاعر
امید و بیم کے محور سے ہٹ کر دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں |