ماہ ربیع الاوّل اور اِس ماہ
مبارکہ میں 12،ربیع الاوّل کے دن کا ہر لمحہ اور ہر گھڑی اہل ایمان کیلئے
بہار ِجاودانی کا پیغام لے کر آتی ہے۔کائناتِ ہست و بود کو ہمیشہ تاریخ کے
اِن مقدس لمحات پر ناز رہے گاجو 12،ربیع الاوّل کی صبح سعادت کے دامن میں
سمٹ آئے اور اِن مقدس لمحات نے اِس دن کو پوری تاریخ ِانسانی میں دیگر تمام
ایام سے ایسا جدا اور ممتاز کردیا کہ اب اِس دن کے بعد قیامت تک کوئی بھی
دن اِس دن سے زیادہ معزز،مکرّم،افضل اور مقدس نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ دن
”وجہ وجود ِکائنات“ کے عالمِ دنیا میں ظہور کا دن ہے ۔
بارہ ربیع الاوّل کا دن صرف تاریخ ِانسانی کا ہی نہیں پوری کائناتِ عالم کا
وہ عظیم ترین دن ہے۔جس کے انتظار میں گردش شام و سحر نے ماہ و سال کی
لاکھوں کروٹیں بدلی تھیں۔اِس دن فضائے عالم مسرتوں کے دلآویز نغموں سے گونج
اٹھی اور اِس صبح نور کے پاکیزہ اُجالے نے شمس و قمر کو روشی اور ستاروں کو
ضو فشانی بخشی ۔اِس دن کی صبح انقلاب کی اثر آفرینی نے تاریخ کا رخ موڑ
دیا۔وہ تاریخ جس کا ورق ورق درماندگی اور انسان دشمنی کی گواہی دے رہا
تھا۔وہ تاریخ جس کا دامن ظلم و بربریت سے تار تار تھا۔
وہ تاریخ جس میں قیصر و کسریٰ کا جبر و استبداد لوگوں کا مقدر بن چکا
تھا۔لیکن ظہور قدسی کے اِن مبارک لمحات نے تہذیب انسانی کو وقار،ثقافت کو
تقدس،علم کو وسعت،فکر کو ندرت،عمل کو طہارت اور جذبوں کو پاکیزگی بخشی
اورنفرتوں اور عداوتوں کے خار زار لامتناہی صحرا میں محبت و اُخوت اورمروت
و خلوص کے گلستان آباد کئے۔یہی وہ دن جس کیلئے قدرت نے شعور انسانی کو تمام
ارتقائی منازل سے گزار کر بلوغت کے اُس مقام پر پہنچادیا تھا جہاں اب اُسے
ہدایت و رہنمائی کیلئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نمونہ کما ل
اور جامع الصّفات ہستی کی شدت سے ضرورت تھی۔
بارہ ربیع الاوّل کا دن توحید باری تعالیٰ کی پرچم کشائی اور ظلم و ستم میں
جکڑی ہوئی اقوام اور سسکتی ہوئی انسانیت کی رہائی کا دن ہے۔یہ دن صداقتوں
کا امین اور سعادتوں کا پیامبر ہے۔اِس دن طلوع ہونے والے سورج کی روشنی نے
انسانیت کو افراط و تفریط کی دلدل سے نکال کر توازن و اعتدال کی راہ پر
گامزن کردیا۔اِس دن نے تمام نسلی،لسانی،طبقاتی اور جغرافیائی بتوں کو توڑ
کر صفحہ ہستی پر ایک ایسے خدائی نظام کو جنم دیا جس نے روئے زمین پر امن و
محبت،اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کرکے تمام جھوٹے باطل امتیازات کا خاتمہ
کردیا اور بھٹکی ہوئی مخلوق کو خالق حقیقی کی دہلیز پر لاکر سجدہ ریز کردیا
۔
یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم نجات ہے شرک سے،جہالت سے،ظلم
سے،غلامی کی زنجیروں سے،شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں سے اور جھوٹے خداؤں کی
خدائی سے،یوم میلاد دراصل اُس انقلاب کی صبحِ نو کی نوید ہے جس نے انسانیت
کے دامن سے ظلم و درندگی کے بدنما دھبوں کوصاف کرکے اُسے رحمت و رافت کے
خوشبودار اورصدا بہار پھولوں سے بھر دیا اوراِس انقلاب نے عرب کے صحرا
نوردوں کو خضرِ راہ بنادیا۔چرواہوں کو قافلہ سالاری عطا کی اور غلاموں کو
وہ ہمت و حوصلہ اور مرتبہ و مقام دیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ
سیّدنا بلال(میرے آقا بلال رضی اللہ عنہ) کہلائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے یتیموں،بے کسوں اور مفلسوں کو بھی وہی
حقوق حاصل ہوئے جس کے حقدار اِس انقلاب سے قبل صاحب ِجاہ و حشمت و ثروت ہوا
کرتے تھے۔ گویایوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عظمت انسانی کا محافظ و
پاسباں قرار پایاجس کی بدولت انسانیت کو عظمت و شرف کی معراج عطا
ہوئی۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل پوری کائنات کیلئے ربّ کائنات
کے اُس نظام کا اجراء ہے جس کی حکمرانی تما م قومی،لسانی اور جغرافیائی
بتوں کو پامال کرکے برابری کے حقوق عطا کرتی ہے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کا وہ آخری ورلڈ آرڈر ہے جس کے
بعد دنیاکو کسی نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں رہتی۔لاکھوں درود و سلام اُس
ذات اقدس پر جس کے سر انور پر ربّ کائنات نے خاتم ُ النبین،رحمتہ
ُاللعالمین اور سیّد المرسلٰین صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج سجا کر پوری
کائنات کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ بنادیا۔ابتدائے آفرنیش سے لے کر
تا قیامت اور مابعد قیامت جس کو جو کچھ بھی ملا یا ملے گا آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے فیضانِ کرم کا تصدق ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی ہر چیز کا وجود اور
اِن اشیاءمیں موجود رنگ و نور اور حسن و رعنائی کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ہی وجود کی برکت ہے ۔
پیغمبر انقلاب،سپہ سالار اعظم،امام المجاہدین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ہر ہر گوشہ اور ہرہر پہلو ہمہ گیر،جامع اور
کامل نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ بنی نوع انساں کیلئے
روحانی، اخلاقی، معاشی، سیاسی اور سماجی تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلامی ریاست” مدینہ “کی
بنیاد رکھی اور جہاد کے زریعے اس کی حدود کو وسیع کیا۔اس لیئے کہ دین حق کو
شرق سے غرب تک غالب کردینے کی جدوجہد ”وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور
دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اِسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے، خواہ
مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے“(الصّف :9)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض ِمنصبی کا حصہ تھی اور اسی مقصد کے حصول
کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر باطل قوتوں سے نبرد آزما رہتے
ہیں۔چشم ِ زمانہ دیکھتی ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر مکہ کی گلی
کوچوں میں لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے دکھائی دیتے ہیں۔کبھی دعوت ِ حق کی
پاداش میں طائف کے بازاروں میں پتھروں سے لہولہان ہوتے ہیں۔ شعب ابی طالب
کی گھاٹی میں معاشی و معاشرتی بائیکاٹ برداشت کرتے ہیں۔دشمنوں کی برہنہ
تلواریں درِ دولت کا محاصرہ کرتی ہیں۔
ہجرت مدینہ ہوتی ہے۔کبھی معرکہ بدر میں صحابہ کرام کو صف آراء کرتے دکھائی
دیتے ہیں تو کبھی انہیں اُحد کے مورچوں پر متعین کرتے نظرآتے ہیں۔کبھی
دندان مبارک کی شہادت،کبھی چہرہ انور کا زخمی ہونا،کبھی شکم مبارک پر پتھر
باندھ کر اسلام کے دفاع کیلئے خندقیں کھودنااور کبھی خیبر،کبھی حُنین،کبھی
قریضہ کی جنگیں۔غرض کہ پے درپے مہمات و غزوات۔دس سالہ مدنی زندگی میں کم و
بیش 27غزوات میں بنفس ِ نفیس شرکت اور56سرایا میں دشمن اسلام کی جانب لشکر
کی روانگی۔انِ تمام غزوات و سرایا اور مصائب و آلام کو برداشت کرنے
کابنیادی مقصد دین حق کو دنیا میں غالب کردینے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔اس
لیئے کہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دین صرف عبادات و
ریاضات کی ادائیگی اور تکمیل کا نام نہیں تھا ۔
آج عام آدمی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک اُمت مسلمہ کے افراد
مایوسی و بے بسی اور اپنے مقصد سے عدم آشنائی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔باطل
طاغوتی اور سامراجی طاقتیں اِسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ کشمیر،
فلسطین،عراق،افغانستان،بوسنییا،چیجینیا،مراکش،الجزائر اوربرماسے اُٹھتے
ہوئے دھوئیں کے بادل اُمت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ بنے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کے
خون سے زمین کا دامن سرخ ہورہا ہے اوروقت کے چنگیز و ہلاکو انسانی کھوپڑیوں
کے مینار تعمیر کررہے ہیں۔
اُن کی آتش انتقام بجھنے نہیں پارہی۔دنیا بھر میں مظلوم مسلمان یہود و
نصاریٰ کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں۔لیکن جینوا کے کسی
معاہدے،اقوام متحدہ کے کسی چارٹرڈ اور سلامتی کونسل کی کسی قرار داد سے اُن
کی داد رسی نہیں ہورہی ہے۔طاغوتی اور سامراجی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کی
تکمیل کیلئے جو چاہتی ہیں کر گزرتی ہیں۔عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کی وحشیانہ جنگی کاروائیاں،فلسطین میں صہیونیت کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل
عام،آئے دن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی،بوسینیا کے مظلوم مسلمانوں کی نسل
کشی،اور اجتماعی قبروں میں تدفین،چیچینیا میں سرخ سامراج کے ہاتھوں
مسلمانوں کا قتل عام اور جذبہ آزادی کا کچلا جانا۔
بھارت میں قوم پرست ہندوؤں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام اور بابری
مسجد کی شہادت،کشمیر میں بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں مظلوم کشمیری
مسلمانوں کا قتل،دختران کشمیر کی بے حرمتی اور افغانستان میں بے گناہ
مسلمانوں کے خون سے ہولی جیسے واقعات جہاں آج عالمی ضمیر کے دوہرے معیار کی
شرمناک علامتیں ہیں۔وہاں دنیا میں پانڈوں اور آبی و جنگلی حیات کا تحفظ
کرنے والی این،جی اوز اور امن ِ عالم کے نام نہاد علمبردار وں اور
ٹھکیداروں کی اِن واقعات پر پراسرار خاموشی بھی اُن کے مسلمانوں کے خلاف
اندرونی جذبہ نفرت کی آئینہ دار ہے۔
آج اُمت مسلمہ کے افراد،حکمران اور ادارے جن مقتدر افراد اور اداروں سے
اپنے بنیادی حقوق کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں وہ خود مسلمانوں کے سب سے بڑے
قاتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔آج پوری دنیا میں
اُمت مسلمہ کیلئے موجودہ صوتحال دراصل اُن صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے ۔جن میں
اہل صلیب نے مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز عبرت ناک شکست کھائی تھی۔آج وہ
عالم اسلام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں سے اپنی اُسی ذلت آمیز
شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔
اُسی انتقام کی آگ نے آج اُمت مسلمہ کو دنیا بھر میں لہو رنگ کر رکھا
ہے۔بدقسمتی سے اہلِ صلیب کو مسلمانوں کے خون سے آتش انتقام بجھانے کا موقع
خود اُمت نے دیا ہے۔وہ لمحہ غفلت جس نے ہماری نظروں سے ہماری منزل اوجھل
کردی اور اُمت کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دیا،اب ہمیں اس لمحہ غفلت سے
آزادی حاصل کرنا ہوگی۔عالم اسلام کو اپنی مجرمانہ خاموشی کو ترک کرنا
ہوگا۔اور اپنے جذبہ حریت کو بیدار کرکے میدان کارزار کا راستہ اختیار کرنا
ہوگا اوریہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب ہم انفرادی، قومی اور بین الاقوامی زندگی
میں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت پیدا کرکے مقصد بعثت نبوی کو
سمجھنے کی کوشش کریں گے اوردین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کردینے
کیلئے” انقلاب نظام ِ مصطفی“ کا راستہ اختیار کریں گے ۔
یہ بار امانت اٹھانے کیلئے ہمیں اُس سفر انقلاب کامسافر بننا پڑے گا۔جس کے
قافلہ سالار پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ماہ ربیع الاوّل ہمیں
پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا پیغام دیتا ہے۔آج اِس
عشق و محبت کو اَمر کرنے اور دائمی بقاء کے حصول کیلئے مقصد بعثت نبوی سے
بھی عشق و محبت کی شدید ضرورت ہے ۔اِس مرتبہ ہمیں جشن میلاد مناتے ہوئے
اپنی انفرادی،قومی اور عالمی حیثیت پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے اورجہاں تک
بھی ممکن ہو اُنہیں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگنے کی
اُمنگ پیدا کرنا چاہیے۔
اپنے وجود کی بقاء اور اپنی سلامتی کی ضمانت کیلئے ہمیں اپنے اندر وحدت اور
دینی عصبیت پیدا کرنا ہوگی۔غور طلب بات یہ ہے کہ ہم پر حملہ آور قوتیں متحد
ہورہی ہیں۔اُن کے صدیوں کے باہمی اختلافات ختم ہو رہے ہیں اور وہ اپنے
انفرادی مفادات پر اپنے قومی مفادات کوترجیح دیتے ہوئے عالم اسلام کے
گردگھیرا تنگ کررہے ہیں۔دوسری طرف ہم ایک خدا،ایک رسول،ایک دین اور ایک
کعبہ کو ماننے والے باہم منتشر اور متفرق ایک بکھرے ہوئے ریوڑ کی طرح
خونخوار بھیڑیوں کی زد میں ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اُمت اپنے
محسن آقا پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے کے
بجائے اغیار کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے ۔
آج ملت ِ اسلامیہ کو درپیش داخلی،خارجی،نظریاتی اور جغرافیائی چیلنجوں کا
مقابلہ کرنے کیلئے دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی وابستگی اختیار
کرنا ہوگی۔اپنے اسلاف کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔باہم متحدو منظم ہوکر تمام
استحصالی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا اور اپنی عظمت رفتہ کے حصول
کیلئے مصائب و آلام اور قربانیوں کی تاریخ دہرا کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ
وطن عزیز پاکستان پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے سرفروشوں،جانثاروں
اور غلاموں کا ملک ہے اور یہ زمین انقلابِ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
کے روح پرور جذبوں کی امین ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کی اساس و بنیاد اسلام کی
اولین ریاست، ریاست مد ینہ کا ایسا عکس ہے۔
جس کا نصب العین ہی غلبہ دین کی جدوجہد کیلئے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کا عملی نفاذ ہے۔یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح سعادت سے
لے کر آج تک ہر سال پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اِس صبح
سعید کا شایان شان طریقے سے استقبال کرتے ہیں۔درود و سلام کے نذرانے پیش
کرتے ہیں۔بیان و نعت کی محفلیں سجاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و
مناقب پر تقاریر ہوتی ہیں۔جلسے اور جلوسوں کا ا ہتمام کیا جاتا ہے ۔گلی
محلوں اور شہروں کو سجایا جاتا ہے ۔چراغاں کیا جاتا ہے ۔
اس لیئے کہ یہ دن اُمت ِ مسلمہ کیلئے افضل ترین دن ہے اور اِس دن کو جشن
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر منانا اہل ایمان کیلئے باعث
ذریعہ نجات ہے۔یہ سب درحقیقت تحدیث نعمت،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
مبارکہ کے ساتھ اپنے تعلق کے اظہار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے
پیغام ہدایت کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
حقیقی تعلق کے اظہار کا حق تب ہی ادا ہوسکتا ہے۔جب ہم متذکرہ بالا امور کے
ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر شعبہ زندگی کو مکمل طور پر پیغمبر
انقلاب آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سنت
مطہرہ کے سانچے میں ڈھال لیں۔
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات سے اپنے ظاہرو باطن کو
انقلاب آشنا کریں اورجشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم تجدید عہد
اور یوم انقلاب کے طور پر منائیں۔جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے
والے خوش بخت مسلمانوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ جشن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ مسرت و شادانی تمہیں
مبارک ہو ۔لیکن یاد رہے کہ اِس دن کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ مقصد بعثت
نبوی کو سمجھا جائےاور اس مقصد کو سمجھ کر تجدید عہدکیا جائے کہ ہم پیغمبر
انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں غالب کر دینے کی
جدوجہد میں تن من اور دھن کی بازی لگادیں گے۔کیونکہ یہی مقصد بعثت نبوی کی
تکمیل اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل پیغام ہے۔جس پر عمل
کے بغیر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کاحق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی
یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے ہوسکتے ہیں ۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو |