مہتاب شاہ نے جب ١٩٨٦ میں کراچی
جیسے پرآشوب شہر سے ہندکو ڈراموں کی داغ بیل رکھی تو اس وقت کوئی ایک بھی ھندکو
بولنے والا فنکار کراچی میں دستیاب نہ تھا جسکی وجہ سے شاہ جی نے اپنی کوششیں
جاری رکھتے ہوئے ہمت نہیں ہاری اور مختلف زبانیں بولنے والے اس وقت کے معروف
فنکاروں جن میں میمنی اور گجراتی ڈراموں کے مرحوم ابراہیم راز کاکا، اردو
ڈراموں کے شکیل صدیقی، رؤف لالا، سلیم آفریدی، سکندر صنم، روحی صنم، نعیمہ گرج،
زرین غزل، شاہدہ ملک اور دیگر بہت سے فنکاروں کو کئی مہینوں تک ہندکو اسکرپٹ
سکھا کر ہندکو ڈراموں کی تاریخ رقم کی جو ایک انتہائی مشکل اور کٹھن ترین کام
تھا
مہتاب شاہ کی اپنی ہندکو زبان اور ہزارہ سے بےپناہ لگن نے ہزارہ بھر کے
نوجوانوں میں ایک نئی روح بیدار کر دی
اسٹیج، فلم، اور ٹیلی ویژن کے ملے جلے تجربے نے آخر کار شاہ جی کو پاکستان کی
پہلی ہندکو فلم “چاچی جل کراچی“ جیسی صاف ستھری، معیاری اور گھریلو فلم بنانے
کا بھی اعزاز بخشا، مذکورہ فلم میں خوبصورت ہزارہ کی وہ قیمتی یادیں روز روشن
کی طرح آج بھی محفوظ ہیں جو آٹھ اکتوبر دہ ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلہ نے صفحہ
ہستی سے مٹا ڈالی ہیں
یاد رہے کہ پاکستان کی پہلی ہندکو (ٹیلی) فلم ‘‘چاچی جل کراچی‘‘کی تمام تر
شوٹنگ آٹھ اکتوبر کے زلزلہ سے صرف چند دن قبل جھیل سیف الملوک، ناران، کاغان،
مہانڈری، کیوائی، بالاکوٹ، بسیاں، جابہ، مانسہرہ، تربیلہ ڈیم، کرپلیاں، چندور،
پہامبہ، حسن بائی، لدڑمنگکھرکوٹ، ہریپور، تنہکہ شریف، حویلیاں، ایبٹ آباد،
بدھوڑہ کےعلاوہ کئی مقامات پر کی گئی تھی، جو آج صرف اور صرف یادیں بن کر رہ
گئی ہے
فلم میں تنہکہ والے بابا جی (اللہ غریق رحمت فرمائے) کی خصوصی دعا کا منظر آج
دنیا بھر میں ان کے مداحوں اور مریدوں کیلئے ایک تحفہ خاص سے بھی کئی گنا قیمتی
اثاثہ ہے
فیلڈ مارشل ایوب خان سے مہتاب شاہ کی والہانہ محبت کا ثبوت فلم میں ایوب خان کے
مقبرے کو ایک خوبصورت گانے کے ساتھ جس طرح دکھایا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
ہمارے جذبے سلامت ہیں اور ہم اپنے ہیروز کو اسی طرح خراج عقیدت اور خراج تحسین
پیش کرتے رہیں گے
علاوہ ازیں مہتاب شاہ نے ہزارہ کی نئی نسل کی توجہ شاہ اسمعیل شہید اور سید
احمد شہید(رح)شہدائے بالاکوٹ کی جانب بھی بڑی خوبصورتی کیساتھ مبذول کرانے کی
کوشش کی ہے، مجموعی طور پر ہندکو فلم چاچی جل کراچی جہاں جغرافیائی لحاظ سے
ہزارہ کی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتی ہے، وہیں فلم میں ایجوکیشنل ٹریٹمنٹ سے
بھری ایک خوبصورت کہانی ہے
فلم کا مرکزی خیال حکم خداوندی سے اخذ کیا گیا ہے‘‘ یعنی والدین کے ساتھ اچھا
سلوک کرو“فلم کی کامیابی نے نہ صرف مہتاب شاہ کے حوصلوں کو جلہ بخشی ہے بلکہ
اہل ہزارہ کے سر بھی فخر سے بلند کر دیے ہیں، جسکی بڑی وجہ فلم چاچی جل کراچی
کا فیملی یعنی گھر گھر پسند کیا جانا فلم کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے
اب ہم آتے ہیں مہتاب شاہ کی تحریر و ہدایات میں بننے والی دوسری ہندکو
فلم“پہولا تے پہولی“ کی طرف
جسکی عکسبندی آجکل کراچی شہر کے مختلف مقامات پر ہو رہی ہے، مذکورہ فلم کا
موضوع
“اولاد کے حقوق‘‘ پر مبنی ہے، جو آجکل ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ ہے،
پہولا تے پہولی‘‘کی کہانی
ایک اچھوتی کہانی ہے، جس میں ہر جگہ حقیقت کے رنگ نظر آئیں گے
مہتاب شاہ کا کہنا ہے کہ فلموں سے معاشرے کا سدھار ممکن ہو سکتا ہے، لیکن اسکے
لیے اچھی اور معیاری کہانی کیساتھ ساتھ صاف ستھری اور گھریلو فلم کا ہونا اور
حکومت وقت کا سرپرستی کرنا بھی ضروری ہے،
‘‘پہولا تے پہولی‘‘میں مہتاب شاہ کے لکھے ہوئے گیتوں میں چند ایسے گیت بھی شامل
ہیں جو ہندکو عوام خاص کر نئی نسل میں بے حد مقبول ہوں گے،خاص کر اس فلم میں
پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہندکو قومی گیت مہتاب شاہ کی ہندکو زبان کے ساتھ ساتھ
وطن سے محبت کا خوبصورت اظہار بھی ہے
یاد راے کہ مہتاب شاہ نے اپنی فنی صلا حیتوں کو نکھارنے کے لیے پاکستان کے چوٹی
کے فنکاروں اور ڈرامہ نگاروں سے باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی ہے، پاکستان کی پہلی
باقاعدہ پرفارمنگ آرٹ اکیڈمی جو صدر پاکستان پرویز مشرف کے دور حکومت میں جناب
ضیا محی الدین نے کراچی میں شروع کی، مہتاب شاہ نے نیشنل اکیڈمی آف پرفامنگ آرٹ
کا پہلا بیج ہی جوائن کر لیا اور مہتاب شاہ کی خوشنصیبی کے انہوں نے
ضیا محی الدین، طلعت حسین، راحت کاظمی، محسن شیرازی، نعیم بخاری، ڈاکٹر انور
سجاد جیسے کہنہ مشق اساتذہ کرام سے تربیت حاصل کی
کہتے ہیں کہ عورت کے آنسووں اور مرد کے بازو اس دنیا میں کیا کچھ نہیں کر سکتے،
پاکستان بننے سے لیکر گزشتہ سالوں تک ہندکو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے شاید
ہی کسی نے اتنا کام کیا ہو جو مہتاب شاہ نے اپنے دیس سے دور شہر کراچی سے ہزارہ
وال اور کشمیری عوام جو دنیا بھر میں ہندکو بولنے والوں کے لیے گزشتہ بیس برسوں
میں کیا ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہزارہ کی سرزمین سے ووٹ حاصل کر کے قومی اور صوبائی
اسمبلیوں تک پہنچنے والے وہ تمام ممبران ہندکو چینل کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں
یا نہیں
وہ دن ضرور آئے گا کہ جب مہتاب شاہ کو انکی ہندکو زبان کی ترویج اور ترقی کے
لیے ٢٢ سالہ خدمات کے اعتراف میں کبھی کوئی ایوارڈ دییے جانے کا اعلان کیا جائے
گا، لیکن ہمارے ہاں بدبختی سے یہ کام اکثر ایسے لوگوں کی زندگی میں بہت کم کیے
جاتے ہیں ہاں البتہ ایسے لوگوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انکے نام کی شامیں
ضرور منائی جاتی ہیں،اور ایوارڈ اور ریوارڈ بھی ضرور دیے جاتے ہیں جو مرحومین
کے گھروں میں بعد از مرگ اسطرح سجا دیے جاتے ہیں جیسے قبر کے کتبے،مر گئے ہم تو
یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے |