ہندستان کی مرکزی حکومت پر سب سے
زیادہ اثر انداز ہونے والی ریاست اترپریش کی 65سالہ تاریخ میں 33سیاسی
قائدین وزرائے اعلی کے عہدہ پہ سر فراز ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی
مدت کا ر کا پانچ سالہ عر صہ پایہ تکمیل کو پہچانے سے قاصر رہا جبکہ باغیوں
اورداغیوں سے نبرد آزما مایا وتی وہ واحد خاتون وزیر اعلیٰ ہے جنہوںنے اس
نشانہ کو حاصل کیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا کیا راز ہے ؟کیا
اس کے پس پردہ بابری مسجد قضیہ ہے جس کا تالہ 1949سے شروع ہوکر ہنوز جاری
ہے یاذات پات پر مبنی معاشرتی نظام حکومت؟تقسیم وطن کے بعد اولین مرکزی
وزیر داخلہ سردار پٹیل کی موت کے بعد سابق وزیر اعلیٰ پنت 1954میں وزیر
داخلہ بنائے گئے ۔ان کی جگہ وزیر اعلی بننے والے ڈاکٹر سیمو رنا نند کی
پہلی مدت کار 1957میںاسمبلی انتخابات سے قبل ختم ہوگئی ۔انتخابات کے بعد وہ
پھر وزیر اعلی بنے لیکن دسمبر 1960کملایتی تر پاٹھی اور چرن سنگھ کی مخالفت
کی وجہ سے انہیں راجستھان کا گورنر بنادیاگیا ۔اتر پردیش کی پارلیمانی
تاریخ میںمایاوتی کے بعد کسی بھی وزیر اعلی کی یہ 3سال 9ماہ پر مشتمل طویل
ترین مدت کار ہے۔اس طرح یوپی کی وزیر اعلی مایاوتی نے موجودہ مدت کار
میںایک اہم ریکارڈ قائم کیا ہے گویا 65سالہ تاریخ میںوہ یوپی کی پہلی وزیر
اعلی ہیں جنہوں نے پورے 5برس تک حکومت کی ہو ۔گووند بلبھ پنڈت سے مایاوتی
تک یوپی میں34وزیر اعلی بنے لیکن 19شخصیات نے ہی یہ عہدہ سنبھالا ۔یعنی ایک
شخص ایک سے زیاد ہ مرتبہ وزیر اعلی بنے ان میں 7غیر کانگریسی تھے جنہوںنے
26سال حکومت چلائی ۔12وزرائے اعلی کانگریس ہوئے جن کی مدت کا ر39سال رہی ۔مایا
وتی ،چندر بھائی اور نارائن دت تیواری نے چار چار مرتبہ کرسی سنبھا لی جبکہ
ملائم سنگھ نے 3 مرتبہ کلیان سنگھ ،چودھری چرن سنگھ اور گووند بلبھ جیت
دودو مرتبہ وزیر اعلی رہے ۔اتر پردیش کی سیاست پر متعدد کتابیں تحریر کرنے
والے برطانوی مصنف پال براس کے مطابق آزادی کے بعد 20تک حکومت کرنے والی
کانگریس میں گروہ بندی کے نتیجہ میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہوسکا ۔چرن
سنگھ جاٹ ،گور بر ، اہیر اور راجپوتو ں کی سیاست کرتے توکملاپتی براہمنوں
کی قیادت سنبھالتے ۔سیمو رنا نند او ر گیتا کا ئستھ اور ویش ذاتوں کے
نمائندے تھے ۔ان لوگوں میںٹکراؤ جاری رہتا جس کی وجہ سے نہر و اور
اندرگاندھی کو وزیر اعلی بدلنے پڑے سیمورنا نند کی جگہ وزیر اعلی بنے والے
چندر بھان گیتا 1962میں انتخابات کے بعد پھر عہدہ پر سر فراز ہوئے ڈیڑھ سال
کے بعد ان کی جگہ سچیتا کریلانی کو وزیر اعلی بنایاگیا ۔مارچ 1967کے
انتخابا ت میں کانگریس کی ہزیمت ہوئی۔ اس کے بعد اتحا دپرمبنی حکومت کے
وزیراعلی گیتا بنے ۔مدت کار محض 18دن رہی ۔چرن سنگھ نے پارٹی بدلی اور
کانگریس (او)مدد سے حکومت بنائی ۔آٹھ مہینے بعد کانگر یس (او) نے حمایت
واپس لے لی جس سے حکومت گر گئی اور پہلی مرتبہ صدر را ج نافذہوا۔انتخابات
کے بعد اندرا گاندھی نے تری بھون نارائن کو وزیر اعلی بنایا۔ وہ رکن اسمبلی
بھی نہیں تھے ۔ضمنی انتخابات کے ذریعہ قانون ساز اسمبلی پہنچنے کی کوشش کی
لیکن ناکام رہے۔ ایسا ملک میںپہلی مرتبہ ہوا ۔مایا اور کلیان سنگھ کے مابین
چھ چھ مہینے وزیر اعلی بننے کا معاہدہ بھی اسی ریا ست میں ہوا ۔اس کے بعد
کوئی وزیر اعلی بھی دو سال سے زیادہ عہدہ پر تعنیات نہیںرہا ۔محض ملائم
سنگھ کی قیادت ہے جو اگست 2003کے بعد 3سال8مہینے وزیر اعلی بنے رہنے میں
کامیاب ثابت ہوئے ۔
دوسری جانب مایاوتی کی مدت کار میں داغی اور باغی امید وار حکومت کے گلے کی
ہڈی بن گئے ریاست کے درجنو ں اضلاع میں ٹکٹ کے سلسلے میں بغاوت سے بر سر
اقتدار پارٹی کی حکمت عملی طے کرنے والوں کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے جبکہ مشرق
سے مغرب تک بہوجن سماج پارٹی باغی زدہ ہوگئی ۔کانپور ،بہرائچ ،بریلی ،جون
پور ،ہر دوئی ،مہوبہ ،ارٹی ،گونڈا،شراوستی اور جہا راج گنج جیسے کئی اضلاع
میںپارٹی کی اندرونی چیقلش سڑک پر آپہونچی۔ مایاوتی نے داغی امید واروں
میںشامل سو سے زائد موجود ہ اراکین اسمبلی کے ٹکٹ کاٹ کر دوسروں کو دئے ہیں
۔اس سے پارٹی کو اپنے ہی لیڈروں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ان میںسے کئی
کے ٹکٹ پہلے جبکہ بعض کے آخری دور میں کاٹے گئے ہیں ٹکٹ کاٹنے کے بعد مایا
نے دعوی کیا کہ جو داغی تھے ان کے ٹکٹ کاٹے گئے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ
بی ایس پی سے جہا ں صاف ستھر شبیہ کے امیدوار میدان میں اترے ہیں تو بہت سے
داغی بھی قسمت آزما رہے ہیں۔دوسرے کئی اضلاع میں مایا کے اراکین اسمبلی اور
وزراء نے بے ضابطگیوں کے ریکارڈ قائم کئے ہیں ۔وہاں کے لوگ بی ایس پی کے
صاف ستھر ی شبیہ والے امید واروں کو بھی بخشنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔یہ
مایا کیلئے شدید بحران ہے ۔اور مایاوتی کی سوشل انجیئنرنگ پر بھاری پڑ سکتا
ہے ۔ان میں کئی سزا یافتہ ہیں تو بعض سزا کے انتظار میں تو متعدد جانچ کے
گھیرے میں ہیں ۔شیکھر تیواری اور سابق وزیر آنند سین سزا یافتہ ہیں ان کی
وجہ سے مایا کو انکے علاقہ میں جو بد نامی ملی ہے اسکی قیمت وہ اسی
انتخابات میں چکائے گی ۔اس لئے ہاتھی کا راستہ اس مرتبہ آسان نہیں ہے جیسا
کہ پچھلی مرتبہ چڑھ غنڈوں کی چھاتی پر ،مہر لگاﺅ ہاتھی پر ،کے نعرے کے ساتھ
اقتدار تک پہونچی تھیں ۔اور ریاست کی تمام سرکردہ شخصیات کو انہوں نے ہاتھی
پر چڑھارہا تھا ۔اب مایاوتی کے داغی امیدواروں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا
کہ بلند شہر کے حاجی علیم عصمت دری معاملے میں پھنس چکے ہیں ۔اور پولیس کے
ریکارڈ میں فرار ہے۔ پرتاب گڑھ کے منوج تیوار ی قتل کے ملزم ہیں ۔اور ان کے
خلاف بھی غیر ضمانتی وارنٹ ہے۔مظفر نگر سے نور سلیم رانا بھی قتل کے ملزم
ہیں وہ بھی میدان میں ہیں ۔سلطان پور کے محمد طاہر کی بھی پرانی مجرمانہ
تاریخ ہے گو سائس گنج کے اندر پر تاپ تیواری عرف کھبو تیوار ی بھی مجرمانہ
ریکارڈ والے ہیںاور میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اترولہ کے دھر میندر پر تاپ اور
کرنل گنج کے اجے پرتا پ بھی اسی زمرے کے امیدوار ہیں ۔مایا کے باقی ماندہ
داغی امیدواروں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔اس لئے یہ کہنا کہ مایا وتی نے
صرف بے داغ لوگوں کو میدان میں اتارا ہے سراسر مغالطہ ہے ۔ایسے امیدوار
سوشل انجیئنرنگ کے بل بوتے پر انتخاب جیت جائیں گے ۔ یہ غلط فہمی بلکہ خوش
فہمی مایا کو ہی ہو سکتی ہے ۔کسی اور کو نہیں اس کے علاوہ ذاتو ں کے جو
لیڈر باہر گئے ہیں ۔انکی برادری بھی مایا کے خلا ف ووٹ کا استعمال کرسکتی
ہے جسکی ایک مثال کشواہا ہیں۔ جبکہ عوام کیلئے کہ بھولنا آسان نہیں ہے کہ
وزیر اعلی کے یوم پیدائش کا چندہ نہ دینے پر کس طرح ایک انجینئر کو تڑپا کر
مار دیا گیا ۔کس طرح معصوم لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی اور تھانے میں جنسی
استحصال ہوا ۔کس طرح کروڑوں کے گھپلے میں دو دو سی ایم اور دن دہاڑے موت کی
نیند سلادئے گئے ۔لوگوں کو یہ بھی یادہے کہ مایا نے مختار انصاری کی
انتخابی مہم میں کہا تھا کہ یہ مظلوموں کے مسیحا ہیں عام لوگ ملائم سے
ناراض ہوئے تو میڈیا کے چاہنے کے باوجود انہیں اقتدار سے باہر کردیا ۔یوپی
میں سو شل انجینئر نگ کے معاملے میں ملائم سنگھ یادو بھی بہت مضبو ط تسلیم
کئے جاتے تھے لیکن جب انکی شبیہ پر دھبہ لگا تو اہیروں کے گڑھ اٹاوا سے
لےکر فیروزآباد تک انکی پارٹی ہار گئی ۔اپنے گڑھ میں ملائم سنگھ یادو نے
بیٹے کی سٹ سے ڈمپل یادو کو میدان میں اتارا تھا جبکہ جیت گئے راج ببر ۔اس
لئے ذات پات پر مبنی سوشل انجینئرنگ سے اسی صورت میںمدد ملے گی جب اسکا
ماحول قائم ہو جبکہ یوپی کی تاریخ گوا ہ ہے کہ یہاں کوئی کسی ماحول کو
استحکام نہیں ہے ۔ |