کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے

ہماری سیاست اب تمثیل سے بالا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس معاملے کو کس بات سے تعبیر کیا جائے۔ سیاسی شطرنج کا ہر کھلاڑی ایسی دَھانسو کارکردگی دِکھا رہا ہے کہ پوری بازی اسی کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ کرکٹ میں کبھی کبھی کسی ایک میچ میں کئی کھلاڑی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو مین آف دی میچ کا فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہی حال ہماری سیاست کا ہے۔ قدم قدم پر سیر اور سوا سیر والا معاملہ ہے۔

مرزا تفصیل بیگ آج کل خاصی تفصیل سے تشویش اور توہم میں مبتلا ہیں۔ ویسے تو خیر اب ان کا ذہن کم ہی باتیں سمجھنے کے قابل رہ گیا ہے۔ مگر سیاست کی خیر ہو کہ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر رہنے کا الزام سیاست سے سَر مَنڈھ دیتے ہیں۔ اِس میں اُن کا کیا قصور ہے۔ اب اہل وطن کا یہی وتیرہ رہ گیا ہے۔ جسے دیکھیے، طویلے کی بَلا بندر کے سَر منڈھنے کی روش پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔

مرزا بھی دیگر اہل وطن کی طرح میڈیا کا تماشا دیکھ دیکھ کر بے تاب ہوئے جارہے تھے۔ ان کے ذہن نے ریس کورس گراؤنڈ کی شکل اختیار کرلی تھی جس میں ہر وقت گمان، تخمینے اور قیاس کے گھوڑے دوڑتے رہتے تھے۔ کچھ دن پہلے حالت یہ تھی کہ وہ، از خود نوٹس کے تحت، این آر او اور میمو گیٹ پر اتھارٹی کا درجہ اختیار کر بیٹھے تھے! اگر کوئی اُن سے کچھ پوچھ لیتا تو یہ سمجھ لیجیے کہ اس کی تو شامت ہی آ جاتی تھی! وہ الف سے شروع ہوتے تھے اور ی تک پہنچ کر ہی دم لیتے تھے۔ اور اُن کا خیال تھا کہ میمو گیٹ کی بحر سے کچھ نہ کچھ ضرور اچھلے گا مگر وائے ناکامی کہ اِس بار بھی تماشا ٹائیں ٹائیں فش کی منزل تک ہی جاسکا! مرزا کو حیران ہونے کا شوق ہے تو ہوا کریں۔ ہمیں معلوم تھا کہ اِس بار بھی تِلوں میں تیل نہیں۔ مگر ہماری کوئی بات مرزا نے کب مانی ہے جو اب کے مانتے۔ ہم نے جب بھی انہیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے، بعد میں کئی دن تک اپنا سَر سہلایا ہے!

مرزا کی سادگی دیکھیے کہ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ میمو گیٹ سے گزر کر کوئی انقلاب وطن کی حدود اور ہماری سیاسی زندگی میں داخل ہوگا۔ داخل تو کیا ہونا تھا، اُلٹا بہت کچھ نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم حکومت کا ڈیل ڈول کیا ہے، یہ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے۔ جب بھی کچھ ایسا ویسا ہوتا دکھائی دیتا ہے، کوئی نہ کوئی خفیہ ڈیل ہو جاتی ہے اور پرنالہ پھر وہیں بہنے لگتا ہے! ایک طرف حکومت گرانے کی کوششیں ہیں اور دوسری طرف حکومت بچانے کے ہتھکنڈے۔ سبھی اپنا سب کچھ آزما رہے ہیں۔ اس کھیل میں عوام کے لیے کچھ کرنے کو ہے نہیں اس لیے وہ بے چارے بس تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔

جب بھی قومی سیاست میں کچھ استحکام سا محسوس ہونے لگتا ہے، کوئی نہ کوئی منصور اعجاز نمودار ہو جاتا ہے۔ دو ماہ سے ایک منصور پوری قوم کو غیر یقینی صورت حال کی سُولی پر لٹکانے کی تیاری کئے بیٹھا تھا۔ کسی بڑی سیاسی شخصیت کے لیے تیار کی جانے والی سُولی ہماری سیاست کے معدے میں رسولی بننے کے مرحلے میں بھی تھی۔

اور پھر ایک شور اٹھا کہ مہا راج منصور اعجاز پَدھار رہے ہیں۔ منصور اعجاز کی آمد کا غلغلہ ایسا بلند ہوا کہ بہتوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے، دماغ کے بلب فیوز ہوگئے۔ میڈیا کے آسمان پر تجزیوں کی گڈی اڑانے والوں کی تو چاندی ہوگئی۔ منصور اعجاز کو دعائیں دیتے ہوئے اُنہوں نے گولڈن چانس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تجزیوں اور پیش گوئیوں کے نام پر خوب بے پَر کی اڑائی۔ تجزیہ کار اتنی دُور دُور سے کوڑیاں لائے کہ لوگ بس انگشت بدنداں رہ گئے۔

مرزا کو بھی وہی بیماری ہے جو پرائم ٹائم میں بیشتر پاکستانیوں کو لاحق رہتی ہے۔ جب تک آنکھوں اور کانوں میں دَم ہوتا ہے، مرزا بھی ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے تجزیے سُن سُن کر اپنا بلڈ پریشر بڑھاتے ہیں یعنی اپنے خون کا پانی کرتے رہتے ہیں! آج کل بہت سے تجزیہ پسند پاکستانی اِسی طور اپنے خون سے پانی پیدا کر رہے ہیں! جنہیں کل تک یہ شکایت رہتی تھی کہ خون گاڑھا ہوگیا ہے اور دواؤں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اب کسی دوا کا سہارا نہیں لیتے کیونکہ سیاست نے اچھے اچھوں کی حالت ہی نہیں، خون بھی پتلا کردیا ہے!

ہم نے کئی مواقع پر مرزا کو باور کرانا چاہا کہ جہاں تک مفادِ عامہ کا تعلق ہے، میمو گیٹ بھی قوم کے لیے بانجھ ثابت ہوگا۔ معاملات کو دعووں اور دھمکیوں تک محدود رہنا تھا اور وہیں تک یہ محدود رہے۔ اب اِس میں کیا شک ہے کہ ڈیل کی سیاست میں بہت دَم ہے۔ کل تک جو لیڈر تھے وہ اب بہت حد تک ڈیلر بھی ہیں۔ بلکہ در حقیقت تو وہ ڈیلر ہی ہیں۔ سب کچھ ڈیلم ڈیل کی نذر ہو رہا ہے۔

وہ زمانے لَد گئے جب اقتدار کے ایوانوں میں شب خون نما وارداتیں ہوا کرتی تھیں۔ اب سبھی کچھ ”انڈر دی ٹیبل کے نیچے“ طے ہو جاتا ہے اور کسی بھی بڑی خرابی کے واقع ہونے سے پہلے ہی معاملات بخوبی نمٹادیئے جاتے ہیں! بات سمجھ میں آتی ہے۔ جب معاملات طے کئے جاسکتے ہیں تو انہیں بے قابو کیوں ہونے دیا جائے؟ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ قیمت معلوم کیجیے اور ادائیگی کیجیے۔ پھر کِس بگڑے ہوئے کام میں اِتنا دَم ہے کہ سَنورنے سے انکار کرے!

مرزا اب تک خوش فہمی کی فضاءمیں سانس لینے پر بضد ہیں۔ ان کے خیالات ایسے پھیپھڑوں کی طرح ہیں جو انتہائی آلودہ فضاءمیں سانس لینے رہنے سے جواب دے گئے ہوں! اسلام آباد میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں سوچ سوچ کر اُن کے ذہن نے اب سوچنے سے یکسر انکار کردیا ہے۔ این آر او، سپریم کورٹ، میمو گیٹ، سوئس عدالتیں، مقتدر قوتیں۔۔۔ بس اُن کے ذہن میں ہر وقت یہی چلتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب وہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے خود کو حاضرین کی موجودگی میں اور کیمرے کے سامنے محسوس کرتے ہیں! اور ظاہر ہے کہ ایسا محسوس کرنے کے بعد کچھ سوچنے کی ضرورت تو باقی ہی نہیں رہتی، بس بولنے کا ارادہ کیجیے اور بولتے چلے جائیے!

حکومت اور ریاست کس طور چلائی جانی چاہیے، اِس سے متعلق رائے دینے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ ہم بھی تماشائیوں میں شامل ہیں اور خوب مزے لیتے ہیں۔ شِکوہ صرف یہ ہے کہ اچھے خاصے تماشے کو لایعنی باتوں سے بے مزا کردیا جاتا ہے۔ محترم عطاءالحق قاسمی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ ضمیر کسی کو گناہ سے روکتا تو نہیں مگر ہاں گناہ کا مزا کِرکِرا کردیتا ہے! ہمارا بھی بس یہی شِکوہ ہے کہ یار لوگ ہمارے اچھے خاصے مزے کو کِرکِرا کردیتے ہیں! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جو ہونا ہے وہ ہو جانے دیا جائے، گناہ کو گناہِ بالذّت رہنے دیا جائے!

میمو گیٹ پر قوم کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ ایسا ہے کہ جس پر ہنسنا اور رونا دونوں ہی جائز ہیں۔ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ رات رات بھر بیٹھ کر دنیا بھر کی ہانکی جاتی ہے اور پھر سب یار دوست ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی کچھ ایسی ہی پریکٹس ہے۔ قوم منتظر رہتی ہے کہ دیکھیں کب، کیا ہوتا ہے اور ہوتا کچھ بھی نہیں۔ یہ تو بڑی نا انصافی کی بات ہے۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو ملک اور قوم کا وقت ضائع ہوتا رہے گا۔ یہ تو ”کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے“ والی بات ہوئی! میڈیا کے محاذ پر ایک میلہ سجایا جاتا ہے، دنیا بھر کی باتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے اندازے لگائے جاتے ہیں، قسم قسم کے تجزیے ہوتے ہیں، قیاس آرائی کی محفل سجائی جاتی ہے اور پھر اچانک پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو بس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا! یہ سب تو قوم کو خلجان میں مبتلا کرنے کی سازش ہے، اور کچھ نہیں۔ ہمیں تو بس یہ غم ستائے جارہا ہے کہ کہیں اس آپا دھاپی میں ہمارے محترم مرزا کام نہ آ جائیں! ہمارے پاس لے دے کر بس یہی ایک جگری دوست بچے ہیں۔ اور آج کے دور میں کسی جگری دوست کا بچ رہنا بڑی بات ہے کیونکہ اب تو جگر کے بچنے کی بھی گنجائش خاصی محدود ہوچکی ہے! جو لوگ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے اپنے اختیارات کو بچانے اور پروان چڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اُن سے استدعا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے بصد شوق کریں مگر براہِ کرم قوم کو پریشان نہ کریں۔ اگر اس مجبور قوم کو کچھ دے نہیں سکتے تو اِس کا سُکون اور چین غارت بھی مت کیجیے! میڈیا کی جادو نگری میں قدم قدم پر ایسے شعبدے نہ دکھائے جائیں کہ قوم کا دماغ کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہے! یہ استدعا اس دعا کے ساتھ ہے کہ
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524580 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More