بچے ہمارے عہد کے ”بدمعاش“ ہوگئے

مجھے یاد ہے کہ چھٹی جماعت تک میرے والد صاحب مرحوم یا بڑے بھائی سکول چھوڑا کرتے تھے، جب ساتویں میں پہنچا تو اجازت ملی کہ سائیکل پر سکول جا سکتا ہوں۔ میرے تقریباً وہ سبھی کلاس فیلوز جو ذرا دور سے آتے تھے وہ بھی چھٹی جماعت تک بڑے بھائیوں یا والد کے ساتھ سکول آیا کرتے تھے۔ روٹین یہ ہوا کرتی تھی کہ گھر سے سکول اور سکول سے گھر۔ گھر واپس آنے کے بعد بھی کوئی خاص ”ایکٹیویٹی“ نہیں ہوا کرتی تھی، پچیس تیس سال پہلے نہ موبائل فون ہوا کرتے تھے اور نہ اس عمر میں دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کا رواج تھا کہ جہاں بیٹھ کر کسی قسم کا کوئی ”پروگرام“ بنایا جاسکے۔ جب کالج میں داخلہ ہوگیا تو اس کے بعد کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ ”مہذب“ محفل جمانے کی مشروط اجازت ملی کہ وہ محفل کسی نہ کسی کے گھر میں ہونی چاہئے تاکہ گھر والے ان دوستوں کی ”مصروفیات“ پر بھرپور قسم کی نظر بھی رکھ سکیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا کہ کلاس میں جو تمہارے دوست ہیں اور جن کے بچوں کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھا ہے ان سب کے نام ، گھروں کے ایڈریس اور ٹیلی فون نمبرز ایک کاغذ پر لکھ کر اپنی ماں کو دیدینا تاکہ اگر تمہاری واپسی میں کبھی دیر ہوجائے تو ہم تمہارے دوستوں سے پوچھ سکیں۔ یہ ایسا وقت نہیں تھا جیسا کہ آج کے دور کی اس حکائت میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک بچہ رات کو گھر واپس نہ آیا اور اگلے دن جب گھر واپس پہنچا تو اس کے والد نے پوچھا کہ رات کہاں رہے؟ بچے نے جواب دیا کہ فلاں دوست کے گھر، چنانچہ باپ نے اپنے بیٹے کے دس دوستوں کو فون کیا اور اپنے بیٹے کے بارے میں استفسار کیا، سات کا جواب تھا کہ آپکا بیٹا رات کو میرے گھر تھا، دو نے جواب دیا کہ وہ ابھی سورہا ہے، آخری نے تو حد کردی اور کہا”جی ابو میں بول رہا ہوں“۔جس دور کی میں بات کررہا ہوں اس دور میں بڑے یہ کہا کرتے تھے کہ یقینا تربیت کسی بچے کی شخصیت پر بہت سے اثرات مرتب کرتی ہے لیکن معاشرے کا مجموعی رویہ بھی شخصیت پر بہرحال اپنے اثرات ضرور چھوڑتا ہے۔ آپ اپنے بچے کی جتنی اچھی تربیت کرلیں لیکن اگر آپ اس پر کسی قسم کے ”چیک“ نہیں رکھیں گے اور اپنی تربیت کو پیش نظر رکھ کے اس کو کھلی چھٹی یا ”مادر پدر“ آزادی دیدیں گے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے اس لئے تربیت بھی اچھی کریں اور اس پر ”نظر“ بھی رکھیں بلکہ والدین کا یہ ماٹو ہونا چاہئے کہ ”ہر بچے پر نظر“....!

یہ تو تھی تھوڑے سے پرانے وقتوں کی باتیں جب والدین کے پاس بھی بچوں کے لئے وقت ہوا کرتا تھا اور وہ بچوں کی تمام مصروفیات پر نظر بھی رکھا کرتے تھے، نہ تو آج کے دور کی طرح چوتھی پانچویں کلاس کے بچوں کے پاس موبائل فون ہوا کرتے تھے اور نہ ہی میڈیا پر اتنی ”واہیاتی“ ہوا کرتی تھی کیونکہ اس وقت صرف پی ٹی وی کا رواج تھا جو ضیاءکے دور میں کافی حد تک مشرف بہ اسلام ہوچکا تھا، جن چند گھروں میں ڈش انٹینا لگا دیکھا جاتا ان گھروں کے بارے میں معاشرے کا مجموعی تاثر بھی کوئی اچھا نہیں ہوتا تھا۔لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور ہم آج کے دور میں پہنچ گئے اور آئی ٹی کے انقلاب کی وجہ سے یہ دنیا ”گلوبل ویلج“ بن گئی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل آگئے، کیبل سسٹم، انٹرنیٹ کی ارزاں اور ہمہ وقت دستیابی نے رہی سہی کسر ختم کردی۔ انٹرنیٹ یقینا ایک نہائت اچھی مصروفیت ہے، آپکے ایک کلک پر پوری دنیا کی انفارمیشن حاصل ہوجاتی ہے لیکن جس طرح اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ کیفیز اور اپنے گھروں میں کرتی ہے، اس پر بحث اس وقت لاحاصل ہے۔ اگر اسے حصول علم اور معلومات کے حصول کے لئے ایک دائرے میں رہ کر استعمال کیا جائے تو یقینا اس کے لاتعداد فوائد ہیں لیکن کیا آج کے والدین یہ سہولت بچوں کے حوالے کرتے وقت اس کے منفی اثرات پر ذرا بھی توجہ دیتے ہیں؟ نہائت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے والدین جن کے پاس فرصت نام کی کوئی جنس موجود ہی نہیں، وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ تبھی تو آج کی نوجوان نسل میں ”بدمعاشی“ کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ میں اس بات کو یقینا بدمعاشی ہی کہوں گا اگر نویں اور دسویں کلاس کے طلباءو طالبات جو پنڈی کے سکول میں زیر تعلیم تھے وہ ایک منصوبہ بنا کر اور اپنے ہی والدین کو لوٹنے کے لئے خود ساختہ طور پر ”اغوا“ ہوگئے۔ اس سے بڑی بدمعاشی، اپنے گھر والوں اور اس معاشرے کے ساتھ کیا ہوگی۔ دو تین دن، جب تک ان بچوں کا سراغ ان کے گھر والوں کو نہیں ملا، ان پر کیا بیتی ہوگی، یہ کوئی بھی صاحب اولاد سوچ سکتا ہے۔ ان چھ بچوں کے والدین نے یقینا اپنی بساط کے مطابق ان کی اچھی تربیت بھی کی ہوگی، ان کو تمام سہولیات بھی فراہم کی ہوں گی لیکن میڈیا کی بے اعتدالیوں، جرائم پر مبنی ڈراموں اور فلموں کو دیکھ کر، موبائل فون کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر وہ یہ منصوبہ بندی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ میں تو اس وقت سے ڈر رہا ہوں جب دس پندرہ سال بعد معاشرہ اس سے بھی زیادہ ”ایڈوانس“ ہوچکا ہوگا تب یہ نونہال کیا گل کھلائیں گے۔ کیا وہ ارفع کریم کی طرح ان دستیاب بے تحاشہ سہولتوں سے اپنا، اپنی فیملی اور ملک کا نام روشن کریں گے یا پنڈی کے ان چھ ”نونہالوں“ کی طرح اپنے والدین اور معاشرے کے ساتھ ”بدمعاشی“ کا سلوک کریں گے۔ اللہ معاف کرے، آج کے حالات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اکثریت ارفع کریم کی ”پیروی“ نہیں کرنا چاہتی۔ ان بدمعاشیوں کو روکنا اب صرف والدین کے بس کی بات نہیں، اس میں ہمارے معاشرے کو اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، سب سے بڑا کردار یقینا اس میں میڈیا کا ہوگا، مثبت یا منفی....! کیونکہ اس وقت میڈیا پر صرف کاروبار نہیں ہورہا، دیدہ و دانستہ اس ملک کے نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے۔ ان بدمعاشیوں کو روکنے کی ابتداءیقینا والدین کو کرنا ہوگی لیکن ریاست کو بھی اس میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ جو آج ہورہا ہے، مستقبل اس سے بہت بھیانک بھی ہوسکتا ہے، اللہ نہ کرے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207361 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.