انسان فطری طور پر مل جل کر رہنے
کا عادی ہے ۔ اپنی اسی فطرت کے زیرِ اثر وہ خاندانوں اور ذاتوں کی شکل میں
دیہات ، شہروں اور ملکو ں میں اجتماعی زندگی بسر کرتا ہے۔ معاشرتی اور
اجتماعی زندگی اور نا خوشگواری انسانوں کے باہمی تعلقات اور روابط پر ہے
اور تعلقات اورروابط کو اچھا یا برابنانے والا انسان کے اخلاق ہیں۔
حسن اخلاق انسان کی عادات و اطواراور کردار کا یک ایسا خوشگوار اور جگمگا
تا روشن پہلو ہے جس سے پیار محبت ، صلح اور دوستی کی روشنی پھوٹتی ہے یہ
ایک ایسا افضل فعل اور ایسی نیکی ہے ، جو قیامت کے روز میزان میں رکھی جائے
گی اور یہ پلڑا سب سے بھاری ہوگا۔ خوش اخلاق لوگوں کے لئے اس دنیا میں بھی
مقبولیت اور آخرت میںبھی مغفرت ہے۔
اخلاق یا حسن اخلاق کا مطلب آج کے دور کے ہم سب مسلمانوں کو سمجھنا بہت
ضروری ہے کہ اخلاق صرف مسکرانے، ہنسنے ، ظلم سہنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر
وقت اور ہرحال کے مطابق ایسا کام کرنا جو اس حال اور وقت کے مناسب ہو اس کے
بگاڑ کا ذریعہ نہ ہو یہ اخلاق ہے۔ پیا ر کے وقت نرمی اور سختی کی جگہ پر
سختی ،اخلاق کہلاتی ہے۔ کوئی آدمی کسی خطر ناک سانپ کو دودھ پلا کر پال رہا
ہو، کہ یہ سانپ انسانوں کو نقصان نہ پہنچائے تو اس کا سانپ کودودھ پلانا
بظاہر اخلاق ہے ، مگر حقیقت میں ظلم ہے۔ اب کوئی مفکر بھی اس آدمی کو اخلاق
کا تاج پہنانے کے لئے تیار نہ ہوگا۔
اخلاق کے اس معنی کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سے سمجھاجاسکتا ہے، ایک
آدمی نے کسی کتے کو پیاسا مرتے دیکھا اور اس نے اسے پانی پلادیا اس کا یہ
فعل یقینا اخلاق ہے۔ لیکن اس نے جیسے ہی اس کتے کو پانی پلایا کتا کسی
مسلمان عورت کو کاٹنے کے لئے لپکا۔ اب اس نے لاٹھی کے ذریعے سے کتے کا علاج
کیا تو اس کا یہ مارنا بھی اخلاق ہی ہے ۔
اچھے اخلاق سے آپس کے تعلقات اور باہمی روابط خوشگوار ہوتے اور بد اخلاقی
سے تعلقات اور باہمی روابط خراب ہوتے ہیں ۔ منافرت ، کشیدگی اور رنجشیں
پیداہوتی ہیں۔ دنگا فساد لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ آج ہمارا معاشرتی زند گی کا
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں خوش اخلاقی نہیں ہے ۔ عام آدمی ہو یا
دکاندار، سرکاری ملازم ہو یا غیر سرکاری، ما تحت ہو یا افسر عام سی بات پر
بھی بے رخی سے جواب دیتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی بندہ کاروباری ہو اور آپ سے
اسکا کوئی کام نکل رہاہویا آپ اس کے کسٹمر ہو تو وہ آپ سے ایسی مسکرا کراور
ہمدردی سے بات کرے گا جیسے وہ آپ کا ہمدر د دوست ہو یا آپ کا کوئی قریبی
رشتہ داراور ایک دوسری بات کچھ لوگ ہر بات میں ہاں میںہاں ملاتے ہیں کوئی
کسی کام کا بھولتا ہے تو اسے انکا ر نہیں کرتا چاہے وہ کام یہ بند ہ کرسکتا
ہو یا نہیں لیکن دل خوش کرنے کے لئے اس بندے کو اپنے آسرے میں رکھ لیتے ہیں
اور وقت آنے پر سو جھوٹ بولتے اور ٹال مٹول کرتے ہیں تو اس قسم کے لوگوں سے
تو یہ دوغلہ پن کا مظاہرہ آج کل ہم مسلمانوں میںیہ سب کافی عام سا ہوچکا ہے
ہم صرف اپنے مقصد کے لئے دوسرے سے تعلقات اور اچھے اخلاق رکھتے ہیں ، آخر
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سب مسلمان ہمارے بھائی ہیں ہم سب ایک اﷲ کے
ماننے والے ہیں ، ہم سب نبی ﷺ کے امتی ہیں ہمیں تو بحیثیت ِ مسلمان اسلام
پر خو د چلنے اور دوسروں کو اس پر چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور اسلام
بد اخلاقی ، شور شرابے یا جھگڑوں سے نہیں بلکہ اخلاق سے پھیلا ہے ۔آپ اخلاق
اور اپنے آ پکو ایک اچھاسچا مسلمان ثابت کرکے آ پ دوسرے غیر مسلموں کو اسلا
م کی طر ف راغب کرسکتے ہو۔نبی ﷺ نے اپنے حسن اخلاق سے لوگوں کو اسلام کی
دعوت دی ہے اور نبی ﷺ کے اخلاق کی گواہی قرآن پاک میں ان الفاظ میں دی ہے
کہ:۔ ( اِنکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ ) اس گواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ آنحضر ﷺ
مجسم اخلاق تھے ۔
اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے بیگانے ہر کسی سے اچھا سلو ک کریں، معاشی ،
مذہبی اور سماجی بنیادوں پر کسی کا استحصال نہ کریں، کسی کی حق تلفی نہ
کریں ، عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور سادگی تحمل ، ایثار ،
خدمت محبت، سخاوت، توکل، رحم اور ہمدردی کو اپنائیں ۔ نہ کہ کسی کے ساتھ
بات بات پر بد تمیزی کریں گالی گلوچ کریں یا اس کی ہاں میں ہاں ملائیں ،
جھوٹ بولیں اور اپنے جھوٹے بھروسے میں رکھے اور اسے صرف اپنے مقصد کے لئے
یا اپنے آپکو اس کی نظر میں اچھا ثابت کرنے کے لئے اس سے ہمدردی کریں،
میٹھی میٹھی باتیں کریں ۔ ان سب غلط کاموں جو ظاہر ی اور چھپے ہوئے ہیں
انہیں سے انسان میں نفرت اور حسد پیدا ہوتی ہے۔ میں آخر میں سب مسلمانوں سے
گزارش کرتا ہوں کہ خدار اہم سب مسلمان ہیں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور
خلوص کے ساتھ پیش آنا چاہئے بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہئے۔ اسی میں ہم سب
کی بھلائی ہے۔ |