جوں جو ں الیکشن کا وقت
قریب آ رہا ہے انتخابی جلسے وجلو سوں میں بھی شدت آ تی جارہی ہے اور ایسا
گمان ہو نے لگاہے کہ یہ سال پہلے کی تیاریاں ہی ان تمام سیاسی جماعتوں کو
کامیابی سے ہمکنار کر یں گی اور اوپر سے ہماری جمہوری حکومت میں کرپشن ،
بیروزگاری،لوٹ مار، لاقانونیت نے بھی ان جلسے وجلوسوں کو پننے کا موقع
فراہم کیا ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت (وزیراعظم صاحب) کے فوج کے خلاف
بیان اور عدلیہ سے محاذآرائی جو سنیئر تجزیہ نگاروں کے خیال میں ہے نے
ماحول کو اور گرما دیا ہے اور ایسے محسو س ہو تاہے کہ بہت جلد الیکشن آ نے
والے ہیں مگرآ ج ہم ووٹ لینے والوں کی باتیں نہیں کر یں گے بلکہ 64سال سے
مایوسیوں کے سائے میں رہنے والوں کی روادات بتائیں گے جو 64سال سے ان ”
لیڈروں“ کے جھوٹے نعروں اور سنہری سپنوں کو اپنی آ نکھوں میں چھپائے ایک
جدید اور ترقی یافتہ ملک کی آ س میں بیٹھے ہیں جہاں وہ ایک آ زاد شہری کی
حیثیت سے بے فکرو بے نیاز زندگی اپنے طریقے سے گزار سکیں ان کو اپنی جان ،مال
اور عزت کی تباہی ، بربادی اور لٹنے کا کو کوئی ڈر نہ ہو اور اس کے ساتھ
ساتھ روٹی،کپڑا،مکان کی بروقت فراہمی کے لئے آ ج تک ان کے لئے کام کر تے
آئے ہیں اور یہی امید لئے64سال گزار چکے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان
کو ایک مہذب، امن پسند،ترقی یافتہ اور لوگوں کے معیار زندگی کو بلند ترین
سطح پر پہنچائیں گے جو ان سے ووٹ لیتے ہیں کیو نکہ ان لیڈروں نے آج تک عوام
کوکبھی” سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر اپنے ساتھ ملا یا اور
کبھی”روٹی، کپڑا، مکان“ کا وعدہ کر کے اس کی بجائے بیروزگاری، غربت، اور
مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کے دل کو ٹھیس پہنچائی اور کبھی”قرض اتارو
ملک سنوارو“ سے لوگوں کو اپنے ساتھ لگایامگرکسی نے بھی اپنے دیئے ہو ئے
وعدے پورے نہیں کیئے-
اس لئے آ ج پاکستان اور پاکستانی عوام اپنے لیڈروں کے وعدوں ،خوابوں
اورباتوں سے عاجز آ چکے ہیں اور اب ان کو سیاست کا کھیل سمجھ میں بھی آ نے
لگا ہے مگر افسوس! کہ اب بھی یہی دیکھنے میں آ یا ہے کہ ہمارے ووٹ کو
خریداجاتا ہے بلکہ بہت کم قیمت میں ہم اپنے ووٹ کے حق کو جو ہماری ضروریات
اور خوداری کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے بیچ رہے ہیں کو ئی اپنے چھوٹے سے کام
کے لئے اپنے گاﺅں کے چوہدری کو ووٹ دے دیتا ہے اور کوئی انتخابی جلسے میں”
ایک کپ چائے اور دو کیک“ کے لئے اپنے ووٹوں کو اپنے لیڈروں کی جھولی میں
ڈال دیتا ہے اور آج اسی وجہ سے غریب غریب تر اور سرمایہ کار امیر سے امیر
تر ہو تا جا رہا ہے کیو نکہ یہی لیڈر بعد میں ”وہ گلیاں وہ چوبارہ“ بھول
جاتے ہیں جہاں سے وہ منتخب ہوکر آ تے ہیں اور وہاں کے مسائل کو دیکھنا بلکہ
کئی ایک تو ایسے بھی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ اپنے حلقے میں پانچ سال کی مدت
میں بھی نہیں جا پاتے اورجب اقتدار کا سورج ڈبونے کے قریب ہو تا ہے تو
پھرسے وہ اپنی ہر دل عزیز عوام اور ووٹروں کے سامنے آ جاتے ہیں اور عوام کو
پھر سے ایک ایک کپ چائے اور کیک پیش کرکے اپنے لئے پھر سے کامیابی کو حاصل
کر لیتے ہیں اور اسی تسلسل کی وجہ سے نہ تو پاکستان ترقی کر سکا ہے اور نہ
ہی پاکستانی عوام کے معیار زندگی بلکہ بنیادی ضروریات زندگی نصیب ہو ئی ہیں
جو کہ اپنی ہی غلطیوں کا اور اپنے ووٹ کے حق کو کوڑیوں کے بھاﺅ بیچنے کی
وجہ سے ہے-
اس لئے اب بھی اگر پاکستانی عوام اپنے لئے بلند معیار زندگی اور اچھی
چیزیں،قانون کی پاسداری،کرپشن، بیروزگاری،سے جان چھڑانا چاہتی ہے اور اپنے
حقوق کو حاصل کر نا چاہتی ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے عوام کو غفلت کی نیند
سے بیدار ہو نا ہو گا اور اپنے حقو ق کو جاننا ہو گا اور اپنے حقوق کی
حفاظت ، ووٹ کی طاقت کو صحیح استعمال کر نا ہو گا اور اپنے ووٹ کو صرف ایک
کپ چائے اور کیک سے بیکنے سے بچانا ہو گا اور آئندہ کے لئے اپنے حقوق کے
لئے اپنے ووٹ کو ان لوگوں کودینا ہو گا جو ان کے مسائل کو حل کر نے کا عزم
رکھتے ہوں اور بھرپور توانائی استعمال کر تے ہو ئے ان کے لئے حقیقی معنوں
میں کام کر سکیں اور صرف کیکوں، مٹھائی اور چائے کے بدلے ووٹ کے حق کو
برباد کر کے بعد میں پریشان نہیں ہو نا بلکہ حکومت کی مجموعی کارکردگی کا
جائزہ لینا ہو گا جو حکومت اچھا کام کرے گی اسے بار بار منتخب کر نے میں
کوئی حر ج نہیں - |