وسائل بخشش (۱۳۰۹ھ) اُستاد زمن،
شہنشاہ سُخن برادرِ اعلی حضرت مولانا حسن رضا خان حسنؔ برکاتی بُوالحسینی
بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف ہے جس میں حضور غوث پاک شیخ
عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرامات کا منظوم بیان ہے۔طباعتِ
اولی نادری پریس بریلی سے ۱۳۰۹ھ میں ہوئی ۔ بعدازاں لکھنو سے پرنٹ ذوق نعت
کے بار پنجم ایڈیشن کے ساتھ ملحق کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب
مولانا حسن رضا کی مثنویوں کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’ ان میں قابل ذکر مثنوی ’’وسائل بخشش‘‘ ہے جس میں 602اشعار ہیں اور نعت
کے علاوہ مناقب بھی ہیں۔ اس مثنوی کا انداز مثنوی کی فضا کے مطابق غزل سے
اور خاص طور پر داغؔ اسکول کی غزل سے بالکل مختلف ہے، بہ حیثیت مجموعی یہ
اعلیٰ درجہ کی مثنوی ہے۔
ذوق نعت میں اس کی شمولیت ناروا تھی، اس کو علحدہ کتابی شکل میں طبع ہونا
چاہیے تھا۔‘‘
(ماہنامہ سُنّی دنیا ، مولانا حسن رضا نمبر۱۹۹۴، صفحہ ۱۶)
وسائل بخشش ایک مثنوی ہے جس میں بارگاہِ غوثیت میں استغاثہ پیش کیا گیا ہے
اور کچھ کرامات غوثیہ کا منظوم ذکر ہے، اس کے علاوہ مولانا حسن رضا ہی کا
تحریر کردہ کلام ’’نغمہء رُوح ‘‘ ۱۳۰۹ھ اور سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا
خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ’’نظم معطر‘‘ ۱۳۰۹ھ بھی شامل ہے۔نغمہء روح اب
موجودہ’’ ذوق نعت‘‘ میں شامل ہے اور نظم معطر بھی سیدی اعلی حضرت کے شہرہ
آفاق نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ میں شامل ہے۔
وسائل بخشش کا آغاز توحید باری تعالٰی سے ہوتا ہے ، حضرت مولانا نے نہایت
احسن انداز میں اللہ وحدہ‘ لاشریک کی وحدانیت حقیقی کو نظم کیاکچھ دیگر
صفات الوہیت کا بیان کرنے کے بعد حضور ختم المرسلین ﷺ کی بارگاہ میں مدحت
کے گلدستے پیش کئے اور آخر میں سرکار غوثیت مآب میں عقیدت کے پھول نچھاور
کئے۔
اس تمہیدی خطبہ کے بعد سرکار غوث پاک کی گیارہ عدد کرامات کا منظوم ذکر کیا
اور دو عدد مناقب تحریر کیں اور آخر میں دو عدد نغمات شامل کتاب کئے۔
وسائل بخشش میں ذکر کردہ کرامات غوثیہ میں سے نو (۹) روایات شاہ ابوالمعالی
رحمۃ اللہ علیہ (۹۶۰ھ۔۱۰۲۵ھ) کی مایہ ناز تصنیف ’’تحفۃ القادریہ ‘‘ میں سے
لی ہیں ، ایک روایت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ۹۵۸ھ۔۱۰۵۲ھ)
سے اور ایک روایت کا سُراغ نہ مل سکا۔
تحفۃ القادریہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر نہایت مستند
تصنیف ہے۔ حضرت شاہ ابوالمعالی رحمۃ اللہ علیہ قطب الاقطاب میں سے تھے ۔شاہ
عبدالحق محدث دہلوی آپ کے معاصر تھے اور آپ کے نہایت عقیدت مند تھے ،
اکثر آپ کی زیارت کے لئے لاہور حاضری دیتے۔شرح فتوح الغیب ،شاہ ابوالمعالی
ہی کے حکم پر تحریر فرمائی۔ شیخ محقق اپنی کتابوں میں آپ کا ذکر نہایت ادب
اور احترام سے کرتے ہیں۔ شاہ ابوالمعالی کے نام کئی ایک مکتوبات بھی تحریر
کئے۔
امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تحفۃ
القادریہ کی تحسین فرمائی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’تحفہ قادریہ شریف اعلی درجہ کی مستند کتاب ہے اس کے مطالعہ بالاستیعاب سے
بارہا مشرف ہوا‘‘ ( فتاوی رضویہ، جلد ۲۸، صفحہ ۴۳۰)
مرکز الاولیاء لاہور کے قلب میں واقع مشہور لاہور ہوٹل کے عقب میں آپ کا
مزار مرجع خلائق ہے۔
وسائل بخشش کی بازیافت:
محترمی و مکرمی علامہ مولانا افروز قادری چریا کوٹی دامت برکاتہم العالیہ
کی تحریک پر راقم نے’’ کلیات حسن‘‘ کا کام شروع کیا اور مولانا حسن رضا کی
تصنیفات کی تلاش شروع کر دی۔سب سے اول اس کتاب کے لیے راقم نے محترم المقام
شیخ اُسید الحق محمد عاصم قادری بدایونی (ولی عہد خانقاہ قادریہ بدایوں،
ہند) سے رابطہ کیا ۔ محترم شیخ نے راقم پر خصوصی شفقت فرمائی اور ’’کلیات
حسن‘‘ کے لیے مولانا حسن رضا کی تین نایاب کتب عنایت فرمائیں ، جن میں ندوہ
کا تیجہ ، بے موقع فریاد کے مہذب جواب اور پیشِ نظر کتاب وسائل بخشش شامل
ہے۔
وسائل بخشش کے لیے جب شیخ محترم اُسید الحق قادری زیدہ مجدہ سے رابطہ ہوا
تو اولاََ حضرت نے َ وسائل بخشش کا سرورق و آخری صفحات مشتملہ نظم معطر
(۱۳۰۹ھ) عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ’’ مکمل نسخہ خانقاہ صمدیہ پھپھوند
شریف ، ہند میں موجود ہے ، اور میرا جب کبھی جانا ہوا تو میں یاد رکھوں
گا‘‘
حضرت کی اس تسلی سے د ل کی ڈھارس بندھ گئی کہ ان شاء اللہ یہ کتاب تو مل ہی
جائے گی تاہم پھر بھی جستجوتھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ اسی اثنا میں
’’شعرحسن‘‘ مصنفہ نظیر لدھیانوی کا مطالعہ کیا ، اس کا مقدمہ مولانا مُرید
احمد چشتی مدظلہ العالی نے تحریر فرمایا تھا اور 1985ء میں رضا پبلی کیشنز
سے طبع ہوئی تھی۔
اس کتاب میں مرید احمد چشتی صاحب کا وسائل بخشش کے متعلق یہ حاشیہ ( ذوق
نعت مطبوعہ لکھنؤ بار پنجم کے ہمراہ چھپ چکی ہے۔) پڑھ کر تجسس ہوا کہ شاید
ان کے پاس یہ کتاب موجود ہو ۔ چنانچہ اب جناب مرید احمد چشتی صاحب سے رابطہ
کی کوشش شروع کی۔
قصہ مختصر یہ کہ حضرت سے رابطہ ہوا اور حضرت نے بتایا کہ ذوق نعت مطبوعہ
لکھنو کا پانچواں ایڈیشن ماسٹر محمد نذیر صاحب آف پنڈی بھکھ نواحی قصبہ
تھانہ جلال پور شریف ضلع جہلم کے پاس موجود تھا لیکن ان کا وصال ہو چکا ہے
اور ان کی اولاد سے ان کا کوئی رابطہ نہیں۔ تاہم اگلے ہی دن حضرت نے خود
فون کیا اور یہ خوش خبری سنائی کہ ۸ نومبر ۱۹۷۷ء کو انہوں نے انہوں نے ذوق
نعت مطبوعہ لکھنو سے کچھ کلام نقل کیا تھا جو کہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی
کے نسخہ میں نہیںتھا اور اس کلام میں مثنوی وسائل بخشش بھی شامل ہے ۔
چنانچہ حضرت نے اپنا نقل کردہ نسخہ مجھے عطا فرما دیا، گھر لا کر میں نے
کمپوزنگ شروع کی اور حُسنِ اتفاق ملاحظہ فرمائیں کہ اِدھر راقم نے اس کی
کمپوزنگ مکمل کر کے لفظ ’’تمام شد‘‘ ٹائپ کیا ، اُسی لمحے میرے موبائل پر
قبلہ شیخ اُسید الحق عاصم قادری بدایونی دامت برکاتہم القدسیہ کا فون تشریف
لایا اور حضرت نے یہ نوید جاں فزا سُنائی کہ ان کو کتب خانہ قادریہ بدایوں
سے وسائل بخشش مطبوعہ نادری پریس بریلی مل گیا ہے۔
کچھ طباعتِ نَو کی بابت:
طباعتِ ہذا میں مذکورہ بالا دونوں نسخوں سے مدد لی گئی ہے۔ مرید احمد چشتی
صاحب کا نقل کردہ قلمی نسخہ اگر چہ خاصا کارآمد رہا تاہم اصل نسخہ سے
تقابل کے دوران اس کی کچھ خامیاں سامنے آئیں پس اصل نسخہ کو معیار بنا کر
حتی الوُسع تصحیح کا اہتمام کیا گیا ہے۔
طباعتِ اُولی میںسُرخیوں کا اہتمام کوئی خاص نہ تھا صرف ’’روایت دیگر‘‘ لکھ
کر مختلف کرامات بیان کر دی گئی ، ہم نے جدید طباعت میں اصل سُرخی کے ساتھ
قوسین میں واقعہ کے مطابق سُرخی کا اہتمام کر دیا ہے۔
عربی و فارسی اشعار کا ترجمہ شامل کر دیا ہے۔
آیات قرآنیہ کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ حوالہ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
آخر میں شیخ محترم اُسید الحق قادری صاحب بدایونی زید مجدہ اور محترم جناب
مولانا مرید احمد چشتی آف پنڈ دادنخان ، جہلم کا نہایت مشکور ہوں جن کی
خصوصی شفقت سے یہ کتاب راقم کو ملی اور الحمدللہ جدید ترتیب کے ساتھ نذر
قارئین ہوئی۔ اللہ عزوجل ان تمام احباب پر اپنی خصوصی عنایتوں کا نزول
فرمائے اور اس کتاب کو ہم سب کے لیے ’’وسیلۂ بخشش‘‘ بنائے ۔ آمین بجاہ
النبی الامین ﷺ |