آغا جانی کشمیری اور ان کی خودنوشت سحر ہونے تک

آغا جانی کشمیری، نواب کشمیری کے چچا زاد بھائی، وہی نواب کشمیری جن کا خاکہ سعادت حسن منٹو نے لکھا ہے، جنہوں نے فلم یہودی کی لڑکی میں ایک کردار کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے۔

آغا جانی کشمیری16 اکتوبر 1908 میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور ایک طویل عمر اور بھرپور زندگی گزار کر 27 مارچ 1998 میں کینیڈا میں وفات پاگئے، تدفین ٹورنٹو، کینیڈا میں ہوئی۔ آغا صاحب کا اصل نام سید واجد حسین رضوی تھا اور وہ ممبئی کی فلمی دنیا میں آغا جانی کشمیری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ فلمی دنیا میں ان کی خدمات بحیثیت اداکار، شاعر اور مکالمہ نویس ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آغا صاحب نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور بہت سی فلموں کے مکالمے و منظر نامے تحریر کیے ، ان کی مشہور فلموں میں انمول گھڑی ، ضدی، نجمہ، ہمایوں، تقدیر، مالکن، عورت، امر، چوری چوری، جنگلی وغیرہ شامل ہیں۔

آغا جانی کشمیری نے ساٹھ کی دہائی میں اپنی زندگی کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے اپنی خودنوشت ’سحر ہونے تک ‘ کے عنوان سے تحریر کی۔ خودنوشت کو لکھے جانے کے دوران منور آغا مجنوں لکھنوی اور پروفیسر احتشام حسین ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ کتاب ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ سے 1964 میں شائع ہوئی۔ آغا صاحب نے’سحر ہونے تک‘ کی ابتدا میں یہ واضح کردیا تھاکہ: ”میں یہ کتاب نوبہار قافلوں کے لیے لکھ رہا ہوں ، صرف اس لیے کہ وہ زندگی کی ان ٹھوکروں سے بچ سکیں جو میں نے اس رہگزر میں کھائی ہیں۔“
 

image

یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ فلمی دنیا کی رنگینیوں کے درمیان ایک بھرپور زندگی گزارنے والے آغا صاحب کی خودنوشت ’ سحر ہونے تک ‘ کے مطالعے کے بعد نوبہار قافلے بصد شوق وہ ٹھوکریں کھانا چاہیں گے جن سے ان کو بچانے کی غرض سے آغا صاحب نے یہ کتاب تحریر کی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ آغا جانی کشمیری نے اپنی خودنوشت میں بلا کم و کاست اپنی داستان حیات اپنے قاری کے سامنے بیان کی ہے ا ور جو ڈاکٹر سید عبداللہ کی بیان کردہ آپ بیتی کی اس تعریف پر پورا اتر ی ہے کہ : ” آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو۔“

اس ضمن میں پروفیسر آل احمد سرور کہتے ہیں کہ ” آپ بیتی، جگ بیتی بھی ہوتی ہے کیونکہ ایک فرداپنے خاندان، ماحول، علمی اداروں، تحریکوں، شخصیات، تہذیبی، ادبی،معاشرتی اور سیاسی حالات سے دوچار ہوتا ہے، ان سے بہت کچھ لیتا ہے اور شاید تھوڑا بہت انہیں دیتا بھی ہے“۔

’سحر ہونے تک ‘ کے مصنف نے اپنے دور کی تاریخ، تمدن ، معاشرت اور عادات و اطوار کو اس طور بیان کیا ہے کہ کتاب میں ایک الگ ہی طرح کا رنگ نمایاں ہوگیا ہے۔

یہاں آغا جانی کشمیری کی ’سحر ہونے تک ‘ سے چند دلچسپ اقتباسات پیش خدمت ہیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تھے مولانا سبط حسن مرحوم۔ بے پناہ شاعر، بے پناہ انشاءپرداز، بے پناہ مقرر۔۔ ان کا طرز بیاں، معلوم ہوتا تھا کہ فصاحت و بلاغت کا سمندر موجیں مار رہا ہے۔ نظمیں اردو کے علاوہ فارسی اور عربی میں بھی کہیں۔ موسیقی پر ایک کتاب لکھی جو ان کے لڑکے سالک لکھنوی کے پاس ہے۔ ان کی مجالس میں شعیوں کے علاوہ دوسری قوم کے حضرات بھی شریک ہوتے تھے۔ طرز ادا خدا نے وہ بخشی تھی کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع، محرم کی مجلس میں کہرام مچا ہوا ہے، سب بے تحاشا رو رہے ہیں۔ کچھ سنائی نہیں دیتا اور یہ صرف ہاتھ کے اشاروں سے سب کچھ سمجھا رہے ہیں اور سب کچھ ہر ایک کی سمجھ میں آرہا ہے۔ سحر بیانی کا یہ عالم کہ ایک مجلس میں بارش ہونے لگی، ایک جملہ انہوں نے کہا
کاش یہ پانی کربلا میں برس جاتا
سنتے ہی ہر آنکھ بادل کی طرح برسنے لگی۔

کسی ایک آدمی کو پانی سے بچنے کے لیے اٹھتے نہیں دیکھا۔ میں تو چھت کے نیچے محفوظ بیٹھاتھا۔ ان کی سحر بیانی کی انتہا میں نے کانگریس کی ایک میٹنگ میں دیکھی تھی۔ مولانا کو بخار تھا، ایک سو تین ایک سو چار ڈگری۔ نہ جانے کس طرح لوگ ان کو پکڑ لائے۔ کم از کم دو لاکھ آدمیوں کا امین الدولہ پارک میں مجمع تھا۔ ملک کے نمایاں لوگ گاندھی جی، نہرو، حسرت موہانی، سلیمان ندوی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد موجود تھے۔ غلامی پر بولنا تھا۔ ہر شخص کو پچیس منٹ دیے گئے تھے۔ اور جب یہ بے پناہ شخصیت کا مالک ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر کے بعد ڈنڈا ٹیک کر کھڑا ہوا ہے تو ہو پچیس منٹ کے بعد دو لاکھ کا مجمع تالیں بجاتا تھا، گاندھی جی اور دوسرے لیڈر منت کرتے تھے اور یہ پھر بولتا تھا۔ سوا گھنٹے یہ شخص بولتا رہا، پھر بھی کیا ہندو کیا مسلمان کسی ایک کا دل نہیں بھرا تھا۔ اگر یہ سیاست کی دنیا میں آجاتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔

ایک تھے اس زمانے کے شاید سب سے زیادہ بوڑھے جن کی عمر سو سے اوپر ہوگی۔ ان کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔ ایک روز بازار میں میرے والد صاحب کو مل گئے، انہوں نے کچھ روپے ان کی نذر کیے اور گھر کھانا کھلانے بھی لے گئے۔ میں نے کٹے ہوئے ہاتھوں کی وجہ پوچھی تو میرے والد صاحب نے ان کے سامنے بتایا کہ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے محتاجوں کو امیر بنا دیا۔ کسی بھی بگڑے ہوئے اور تباہ شدہ نواب کو پکڑا اور کہا کہ اگر لاکھ دلوادوں تو پچاس ہزار دو گے ؟ ، اس نے کہا جی ہاں۔ ان کے نام کا وصیت نامہ نواب مرحوم کے ہاتھ کی تحریر میں تیار کیا۔ خاندانی شجرہ تیار کیا اور مسل تیار کی اس زمانے کے مرحوم کاتب کی تحریر میں۔ ان کاغذات کو جہاں جہاں سے چاہا دیمک سے چٹوا دیا۔ خاص خاص جگہ پر اپنے تیار کیے ہوئے رنگ سے دھبے ڈالے اور کچھ دن بعد ان ٹوٹے ہوئے نواب صاحب سے کچہری میں مقدمہ دائر کروادیا۔ اس عجیب و غریب آدمی کا ہر کاغذ ولایت تک بھیجا گیا۔ کوئی شناخت نہ کرسکا اور فیصلہ ہمیشہ انہی کے حق میں ہوتا تھا کہ یہ کاغذات سو سال پرانے ہیں اور یہ تحریر انہی نواب نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھی۔

اسی طرح کا ایک وصیت نامہ ایک نواب صاحب کی تحریر میں تیار کرنا تھا۔ ان مرحوم نواب کے ہاتھ میں رعشہ تھا۔ اس شخص نے کڑکڑاتے جاڑے میں ٹھنڈے پانی سے نہا کر وہ وصیت نامہ تحریر کیا اور اس طرح رعشہ کی کیفیت تحریر میں پیدا کی۔ نہ جانے کتنے نوابوں کو دولت دلوادی اور خود بھی کمائی۔ آخر کار پکڑے گئے اور انگریز گورنمنٹ نے ان کے دونوں ہاتھ کٹوا دیے۔ یہ واقعہ لکھنو میں بھی اسی طرح مشہور ہے۔
------------
وہ سامنے ہے نواب آصف الدولہ کا امام باڑہ۔ اتنا بڑا امام باڑہ ساری دنیا میں دکھائی نہیں دے گا۔ یہ ہزاروں اوپر بنے ہوئے ایک ہی قسم کے در ہیں۔ زمین کے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ یہ بھول بھلیاں کے نام سے مشہور ہیں، بہت سے انگریز اس میں پھنس کر جان دے چکے ہیں۔ ہر دروازہ ایک ہی قسم کا۔ جہاں ایک دروازے سے اندر داخل ہوئے اور گھوم کر دیکھا تو تو پچاسوں ویسے ہی دروازے دکھائی دیں گے۔ جانتے ہیں یہ امام باڑہ کیونکر بنا۔ رات کو بنایا جاتا تھا، صرف رات کو۔ جب لکھنو میں قحط پڑا، نواب آصف الدولہ نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ کیسے کیسے شریف اور رئیس، کیسے کیسے اونچے خاندان والے، سب ہی رات کی تاریکی میں بنایا کرتے تھے۔ روشنی جلانے کا حکم نہ تھا۔ کوئی کسی کو پہچان نہ سکتا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ پہچاننے کی کوشش بھی نہ کرتا تھا۔ سب ہی ایک دوسرے سے منہ چھپاتے تھے، اس طرح کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والوں کے بچے بھی پل گئے۔ جبھی تو اس وقت کے ہندو مسلمان اپنی اپنی دکانیں صبح یہ کہہ کر کھولتے تھے:
جس کو نہ دیں مولا، اس کو دیں آصف الدولہ۔
 

image

ایک تھے لکھنو میں میر مچھلی۔ نو دس سال کی عمر میں میں نے خود دیکھا ہے کہ آلتی پالتی جمائے پانی پر اس طرح بیٹھے ہیں جیسے کوئی فرش پر بیٹھے۔ ایک زانو پر حقہ رکھا ہے اور پی ریے ہیں۔ آدھے گھنٹے تک میں نے یہ منظر دیکھا ہے۔ صرف پیروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کی جنبش سے پانی پر قائم رہتے تھے۔ کیا مجال جو ذرا بھی ہل جائیں۔ حسین آباد کے تالاب میں پیراکی کے کرتب دکھائے جاتے تھے۔ شہریوں کے علاوہ بڑے بڑے انگریز افسر بھی اکثر یہ منظر دیکھنے آیا کرتے تھے۔
----------
ایک تھے سجاد علی خاں، بنوٹیے۔ لکڑی کے سب سے بڑے استاد۔ سینکڑوں آدمیوں کے مجمع سے لکڑی گھماتے نکل جایا کرتے تھے۔ ان کا ایک منظر مین نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ نواڑ کی چارپائی کے نیچے ایک جنگلی کبوتر چھوڑ دیا گیا۔ اس زمانے کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور بہت سے حکام وہاں موجود تھے۔ کیونکر اور کس طرح ہوا یہ میں نہیں جانتا لیکن بیس منٹ تک اس بنوٹیے نے پلنگ پر لیٹ کر ایک چھوٹی سی لکڑی چاروں طرف تیزی سے گھمانا شروع کی۔ اتنی تیزی سے کہ لکڑی کا ایک جال سا پلنگ کے چاروں طرف بن گیا۔ جدھر سے کبوتر نکالنا چاہے ادھر سجاد علی خاں کی لکڑی موجود۔ کبوتر پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ چارپائی کے باہر کسی طرف سے نہیں نکل سکا۔ دو منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ ان کی لکڑی رکی اور کبوتر اڑ گیا۔
-----------
ایک صاحب اور یاد آگئے۔ مقبرے کے سید مصطفی عرف مچھو بھائی۔ میں والد کی انگلی پکڑے ہوئے بازار سے گزار رہا تھا۔ دن کے دو بجے کے قریب کہ مچھو بھائی دکھائی دیے۔ اسی وقت کابلی والا بھی اپنا خوانچہ سر پر رکھے وہاں سے گزر رہا تھا۔ والد نے خوانچہ اتروایا اور مچھو بھائی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:
کھاتے ہو ؟
کہنے لگے: واللہ ابھی کھانا کھا کر آرہا ہوں
والد نے کہا: دو روپے دوں گا
کہنے لگے: بہت کم ہیں
والد نے رقم دوگنی کردی۔
کہنے لگے: پانچ دے دیجیے گا۔
فیصلہ ہوگیا۔
اس دبلے پتلے ڈیڑھ پسلی کے آدمی نے پکے چار سیر کابلی مٹر کھائے۔ پکے چار سیر آلو کھائے۔ والد نے کہا: اور یہ کھٹائی کی چٹنی؟
جو ایک ہنڈیا میں لبالب بھری تھی اور نہ جانے کتنی لال مرچیں اور پیاز نمک، ان سب کی بھی شرط تھی۔
کہنے لگے؛ بہت خوب، آٹھ آنے اور ہوں گے۔
وہ بھی پی گئے اور کھا گئے۔
والد کی زیادتی تھی، ان کو پانچ گھنٹے گھر پر روکا کہ شاید مر جائے۔ مگر واہ! شام کو چائے پی اور فرمانے لگے: کچھ مٹھائی کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ کیونکہ مٹھائی والے کی برابر آواز آرہی تھی۔ والد نے کہا: ضرور کھاؤ شاید اسی بہانے مر جاؤ۔
باہر آکر سیر بھر برفی کھائی۔ کھا کر والد کی طرف دیکھا۔ والد نے کہا: بس اب رحم کرو، یہ لو اپنے ساڑھے پانچ روپے اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔
روپے لے کر مسکراتے ہوئے سلام کرکے چلے، مگر جاتے جاتے والد پر جملہ چپکا گئے کہ شکریہ، جب پھر کبھی کھجلی ہو تو یاد کرلیجیے گا ناچیز کو۔
---------------
ایک تھے میر بنیاد حسین جو سیتا پور کے رہنے والے تھے۔ فلم انڈسٹری کے ڈاکٹر صفدر آہ کے دادا۔ میرا بچپن، ان کی ضعیفی۔ بڑے سے بڑا پہلوان خواہ گاما ہو یا امام بخش، ہندو ہو یا مسلمان، جب بھی کشتی لڑنے لکھنو آتا تو پہلے ان کے پیر چھوتا تھا۔ یہ بیحد سفید رنگ کے ایک پسلی کے آدمی تھے۔ کرتا اور پائجامہ پہنا کرتے تھے۔ یہ لکڑی کے بھی بہترین استاد تھے۔ ایک واقعہ چشم دید بیان کردوں:
جاڑے کا زمانہ، ایک کمرے میں میں، میرے والد مرحوم اور میر بنیاد حسین، حلوہ سوہن کھا رہے تھے۔ بالائی والی کشمیری چائے کا انتظام تھا۔ اتنے میں پانچ آدمی ہاتھوں میں لکڑیاں لیے آگئے اور آتے ہی استاد کو برا بھلا کہنے لگے۔ کچھ پچھلی دشمنی تھی۔ اس زمانے میں موٹا پیسہ بھی چلا کرتا تھا۔ استاد نے میرے سامنے ایک موٹا پیسہ رومال میں جلدی سے باندھا اور انگنائی میں نکل آئے اور ان پانچوں آدمیوں پر حملہ کردیا۔ رومال بجلی کی رفتار سے ہوا میں گھوم رہا تھا، لکڑیوں سے بچنے کے لیے استاد بجلی سے زیادہ تیز گھوم رہے تھے۔ جس کے موٹا پیسہ پڑا، وہ گرا۔ استاد کے صرف دو لکڑیاں پڑیں اور دس منٹ کے اندر یہ پانچوں نوجوان بے ہوش پڑے تھے اور میر بنیاد حسین بڑے اطمینان سے ان بے ہوش آدمیوں کی رگیں میرے والدکو دکھا کر لیکچر دے رہے تھے کہ دیکھو، اگر یہاں ہلکی سی چوٹ پڑے تو آدمی صرف بے ہوش ہوجاتا ہے اور اس جگہ ذرا ہٹ کر پڑ جائے تو مرجاتا ہے۔ دس منٹ میں کیا کر گیا وہ موٹا پیسہ اور یہ سو برس کا بوڑھا، جو مجھے آج تک جادو سا معلوم ہوتا ہے۔

ایک تھے امراؤ صاحب، بالکل پاگل تھے۔ چوسر کھیلتے تھے اور ناممکن پانسوں کا نام لے کر وہی پھینک دیا کرتے تھے۔ انہی کی بتائی ہوئی ایک ترکیب نے اس زمانے میں ایک بڑی بازی جیت لی تھی۔

سائمن کمیشن لکھنو آیا۔ قیصر باغ میں بہت بڑی دعوت، پولیس کا سخت پہرہ، کیونکہ کئی مقامات ہر سائمن واپس جاؤ کے نعروں سے ہندوستانی اس کا استقبال کر چکے تھے۔ لکھنو میں انگریز حکام نے پورا انتظام کیا تھا کہ کوئی ان کے قریب نہ پہنچ سکے۔ امراؤ صاحب نے ترکیب بتائی کہ آج کل ہوا قیصر باغ کی طرف کی ہے۔ بڑے بڑے کنکووں پر ‘سائمن گو بیک‘ لکھو اور اس طرح پیچ لڑاؤ کہ کنکوے کٹ کٹ کر ٹھیک اس پارٹی میں گریں۔ یقین مانیے۔ پارٹی ہورہی تھی۔ بڑے بڑے افسر موجود تھے۔ پولیس اور ملٹری کا پہرہ دور دور تک تھا اور پارٹی میں سنیکڑوں کنکوے کٹ کٹ کر گر رہے تھے جن پر لکھا ہوا تھا ‘سائمن گو بیک‘
آزادی کی یہ جنگ کچھ لوگوں کی نہیں بلکہ دیش کے بیالیس کروڑ لوگوں کی جیتی ہوئی تھی جس میں اس پاگل نے بھی حصہ لیا ہے۔
-------------
آئیے گومتی کی ٹھنڈی سڑک سے ہوتے ہوئے رفاہ عام اور گولہ گنج کے محلوں کی سیر کرلیں۔ تانگہ مل نہیں رہا، اکا لے لیں۔ یہ دوپلی ٹوپی اب تک یہاں پہنی جاتی ہے ؟ ہماری اور آپ کی طرح موٹی انگریزی ہیٹ نہیں پہنتے۔ ارے یہ دوپلی ٹوپی تو اکے والے کی، تیز ہوا سے اڑی جاتی ہے۔ ہر دفعہ ہاتھ سے روکتا ہے۔ کہیں سچ مچ ہوا سے اڑ نہ جائے۔ آپ سے کیا، آپ خاموش رہیے، نہیں تو یہ اکے والا ایسا جملہ چپکا دے گا کہ جنم جنم یاد رہے گا۔ یہ لکھنو ہے، اجی چھوڑیے
تو شوق فرمائیے، دل میں حسرت کیوں رہ جائے۔
بھیا اکے والے! ایسی ٹوپی کیوں پہنتے ہو جو تیز ہوا سے اڑ جائے ؟

حضور! یہ غیرت دار ٹوپی ہے، ہوا کے اشارے سے اڑ جاتی ہے، آپ کی بے غیرت موٹی ہیٹ تھوڑی ہے کہ سو جوتے مارو پھر بھی وہیں کی وہیں جمی رہتی ہے۔ ابے کمہار کے لونڈے، ذرا بچ کے، ابے ہٹ کے چل نہیں تو چپاتی بن جائے گا۔

سن لیا جو اب آپ نے؟ منع کیا تھا کہ یہ لکھنو ہے۔ سمجھ بوچھ کے جملے بازی فرمائیے گا۔ ایک بہت موٹے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے اکا رکوایا۔ کیونکہ اکے میں دو آدمی تھے اور حکومت کی طرف سے تین آدمیوں کے بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ذرا ہم کو بھی امین آباد چھوڑ دینا۔ بہت موٹے آدمی نے اکے والے سے کہا۔
اکے والے نے معصوم بن کر جواب دیا: صرف تین آدمیوں کو بٹھانے کی اجازت ہے، چار کو نہیں
موٹے صاحب ہنس کر کہنے لگے: دو بیٹھے ہیں، تیسرا میں ہوں، یہ چار کہاں سے ہوگئے؟ بھنگ پیے ہے کیا؟
اکے والے نے تیور بدل کر کہا: غلط فہمی میں نہ پڑیے گا، آج ہی کسی لکڑی کی ٹھیکی پر اپنا وزن کرا لیجیے، ڈھائی گدھوں کے برابر نکلے گا آپ کا وزن حضور۔
 

image

لیجیے یہ آگئی بیرسٹر آنند نرائن ملا کی کوٹھی۔ روز مشاعرے ہوتے ہیں یہاں۔ ایک مشاعرے میں میں بھی شریک ہوا تھا۔ منظور صاحب کو مشہور استاد صفی لکھنوی کے بیٹے ہیں اور شعیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر، ان کا ایک شعر کانوں میں گونجا کرتا ہے:
دیوانہ ہے اور وسعت دنیائے تخیل
وہ بھی نظر آتا ہے جو موجود نہیں ہے

بے مثل شاعر حضرت آرزو لکھنوی کے ایک مطلع نے ہنگامہ مچا دیا تھا مشاعرے میں، فرماتے ہیں:

نقش قدم اس کا کہ مرا خط جبیں ہے
اب ایک ہیں دونوں پہچان نہیں ہے
کیا خوب تھا ایک اور شعر:
خلوت کدہ دل کا بھرم جائے گا اے شوق
آواز نہ دینا کہ یہاں کوئی نہیں ہے
------------
اس سے قبل کہ کلکتہ چھوڑیں، آئیے آپ کو ایک عظیم شخصیت آغا حشر سے ملوا دیں جو ہندوستانی تھیٹر کا بے تاج بادشاہ مشہور ہے۔ آدمی بیحد دلچسپ، اندھا دھند گالیاں بکنے والے اور بڑی خوبصورت گالیاں۔ ان کو جوئے سے سخت نفرت تھی۔ کلکتہ سے کہیں کمپنی باہر جانے والی تھی اور بڑے بڑے ایکٹر مانگ پتہ کھیل رہے تھے۔ ایک نے ایک روپے کا بادشاہ مانگا تھا ۔ دوسرا تاش کی گڈی ہاتھ میں ہے، ایک پتہ اس کے طرف کھلا رکھتا تھا، اور ایک اپنی طرف۔ہر پتے پر وہ کہتا تھا ’بادشاہ اندر‘ اور دوسرا کہتا تھا ’بادشاہ باہر‘۔اور لوگ بھی دیکھ رہے تھے۔ اندر سے آغا صاحب آگئے۔ موٹی سی گالی سے کر چیخے : اس بادشاہ کی تو ۔ ۔ ۔ ۔ جو ایک روپے میں اندر چلا آئے اور ایک روپے میں باہر چلا جائے۔
سب اٹھ کر بھاگے۔
ایک بار کسی نے کہہ دیا کہ حشر صاحب صرف اردو جانتے ہیں ، ہندی اور سنسکرت نہیں۔ غصہ آگیا اور بھیشم پرتگیا کے نام سے ایسا نایاب ڈرامہ لکھا کہ بس۔

یہ ایک ایسا ڈرامہ نویس تھا جس کا مثل ڈرامے کی دنیا آج تک نہ پیدا کرسکی۔ اگر اسے ہم ہندوستان کا شیکسپیئر کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ شراب کے خلاف ایک ڈرامہ لکھا ۔ دو سال کلکتے میں چلتا رہا۔ یہ اثر ہوا کہ سینکڑوں شراب پینے والوں نے واقعی توبہ کرلی۔

ایک دن خود پیئے جھومتے جارہے تھے ۔کچھ لوگ قریب آئے ۔بولے، حضور قسم لے لیجیے ہم نے محض آپ کی بدولت شراب چھوڑ ی اور آپ خود پیئے ہوئے ہیں
ہنس کر بولے۔ایک رائٹر اگر نہ پیئے تو اس کو شراب کی اچھائی برائی کا پتہ کیسے چلے ؟
------------
ممبئی کی اس بلڈنگ میں جہاں ہم اور کمال امروہوی مقیم تھے ایک بار شادی ہوئی۔ قسم قسم کے کھانے پکے۔ ہم لوگوں کو نہیں بلایا گیا۔ ہم نے ایک قریب کی دکان سے ،جہاں سینگ کے کنگھے بنتے تھے، بہت سا برادا خریدا اور حجام کی دکان سے بہت سے بال سمیٹے۔ٹھیک اسی وقت جب سارے مہمان کھانا کھانے بیٹھے ہم نے آگ پر برادا چھڑکا اور مٹھی بھر بال ڈال دیے۔ پوری بلڈنگ کی سانس گھٹنے لگی۔ کیسا کھانا ؟ تمام مہمان ابکائیاں لیتے اور قے کرتے بھاگے۔
میزبان اور ان کے ایک عزیز ہمارے پاس آئے۔ ہاتھ جوڑنے لگے، ہم نے کہا : واہ واہ یہ کیا بات ہوئی، ہم نے اگر یہ دوا نہیں بنائی تو ہمارا پندرہ روپیہ مٹی میں مل جائے گا۔ ہم نہیں مانتے اور کیوں مانیں جب آپ لوگوں کو اتنی شرم نہیں ہے کہ ہم پڑوسیوں کو کھانے کی دعوت ہی دے دیتے۔
ان لوگوں نے پندرہ روپے تو اسی وقت جیب سے نکال کر ہمیں دے دیے اور نیچے جا کر ہمیں بہت سی بریانی ،سالن،روٹیاں اور مٹھائی بھیجی۔ یہ واقعہ آج بھی کمال صاحب سے ملاقات ہوتی ہے تو مزے لے لے کر دوہرایا جاتا ہے اور ہنستے ہنستے برا حال ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جوش صاحب لیٹے ہوئے تھے۔میں اور کچھ ادیب پیروں کے پاس بیٹھے تھے۔ الفاظ پر قدرت رکھنے والے جوش نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:
”وقت بھی کیا کمینی چیز ہے۔ذرا دیر تو قائم رہے۔ اس وقت جیسے تم لوگ محبت سے میرے پیروں کے پاس بیٹھے ہو، اسی طرح یہاں بمبئی میں کبھی کبھی آرزو صاحب مرحوم (آرزو لکھنوی) کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا تھااور آرزو رکھتا تھا کہ کوئی نئی بات، کوئی آبدار موتی اس سمندر کی زبان سے نکلے تو میں اپنے دامن میں چھپا لوں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب ظلم کی بات ہے کہ میں اپنے ایک دشمن نما بے مثل دوست کو بھولے جارہا ہوںجس کا نام بابو راو پٹیل ہے۔ فلم انڈیا میگزین کا اڈیٹر۔یہ آدمی عجیب و غریب آدمی ہے۔یہ کیا ہے، یہ خود نہیں جانتا۔ یہ بھٹکا ہوا دماغ بے مثل و بے نظیر انگریزی لکھتا ہے۔ اس کے لکھنے میں آگ ہی آگ ہے۔ یہ نہ معلوم کس حرکت پر، شاید بچپن میں کسی سے بگڑ چکا ہے جس کا بدلہ غصے میں آکر ہر ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سے لینا چاہتا ہے۔ اس کے صحبت میں بیٹھ کر آپ محسوس کریں گے کہ آپ ابھی زندہ ہیں، مرے نہیں۔

سخت ترین ہندو مسلم کشمکش کا زمانہ۔ پاکستان بن چکا تھا۔ اس کا باورچی مسلمان اور کٹر قسم کا۔ میں نے ایک دن پوچھا’ بیٹا یہ کہیں زہر نہ دے دے کھانے میں، پورا گھرانہ میٹھی نیند سو جائے گا۔‘

بابو راؤ کہنے لگا: تو مسلمان ہے، یہ بھی نہیں جانتا کہ مسلمان سامنے سے آکر لڑتا ہے، چوری چھپے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانے میں جب ہم مڈل ایسٹ سے سخت مفلس ہوکر پلٹے ہیں تو ہر دوست کو پرکھ کر دیکھ لیا۔ نہ ہندو دوست کام آیا، نہ مسلمان۔ ہم ایک دن لائن میں کھڑے بس کا انتظار کررہے تھے ۔ جیب میں صرف ایک روپیہ تھا۔ بابو راؤ اپنے بڑے موٹر پر گزرا۔ مجھے دیکھ کر موٹر روکی۔ پہلا جملہ یہ تھا:
ٹیکسی کیوں نہیں لی تو نے ؟
میں نے کہا: تیرا اجارہ ہے، نہیں لی۔
کہنے لگا : مفلس ہورہا ہے آج کل ؟
میں نے جل کر کہا: تجھ سے کیا کمینے
اور اس نے گھسیٹ کر موٹر میں بٹھا لیااور آہستہ آہستہ ہمیں کھلوا ہی لیا اور ہم کھلے۔ کچھ انکم ٹیکس اور کچھ گھر کے خرچ کے لیے چند ہزار کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت۔
کہنے لگا: کل دن کے کھانے پر آجائے گا روپیہ۔ روتا کیوں ہے، میاں بھائی بن۔
میں نے کہا: ابے بہت دیکھے ہیں تیرے ایسے۔ جب کٹر قسم کے مسلمان دوست کام نہ آئے تو ہندو کیا کام آئے گا ؟
صاحب دوسرے دن کھانے پر بیٹھے ہی تھے کہ گھنٹی بجی اور اس کا ڈرائیور ہزاروں روپے کا چیک دے گیا۔ اور اس کمبخت کافر نے کبھی پلٹ کر روپوں کا تقاضہ ہی نہیں کیا۔ جب بھی فراہم ہوا، میں نے تھوڑا تھوڑا کرکے دیا ، پھر بھی کچھ ضرور باقی رہ گئے ہوں گے۔
 

image
آغا جانی کشمیری فلم جوانی کا نشہ میں

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ احمد عباس کی بیوی مجی، کیسے کہوں کہ مرگئی۔ بیحد پڑھی لکھی، دھان پان، ہمیشہ کی بیمار، مگر اک شگفتہ کلی، جو ایک تبسم کے لیے نہیں کھلی تھی بلکہ جس نے تبسم کو اپنی زندگی بنا لیا تھا اور زبان کی گل فشانی ؟ توبہ توبہ۔ ہزار محبوب ایک طرف اور اس کی کوثر میں دھلی ہوئی پاکیزہ او ر ستھری زبان ایک طرف۔ ایک دن میں نے چھیڑنے کو پوچھا ۔آخر آپ نے کیا سمجھ کر خواجہ احمد عباس سے شادی کی ؟۔ایک ایسی معصوم مسکراہٹ کے بعد جواب ملا کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔ کہنے لگیں صرف ایک وجہ سے، کیونکہ باچھو، جو خواجہ صاحب کا پیار کا نام ہے، گنجے ہیں اس لیے میں نے ترس کھا کر شادی کرلی۔ میں نے مسکرا کر کہا: میں باچھو سے زیادہ گنجا ہوں، مجھ پر کیوں ترس نہ آیا حضور کو ؟ ۔کہنے لگیں: آپ گنجے ضرور ہیں مگر کشمیری خطرناک گنجے ہیں، یہ تو میں اپنی زبان سے نہیں کہتی کہ بدذات بھی ہیں۔
فارسی کے اس شعر کی طرف اشارہ تھا جس کا دوسر امصرع ہے کہ:
اول افغان، دوم کنبوہ، سوم بدذات کشمیری
میں نے کہا آپ نے آکر کہہ ہی دیا
مسکرا کر بولیں: بہت سوچنے کے بعد ہمت کی ہے بدذات کہنے کی۔ سوچتی تھی آپ کے منہ پر نہ کہوں۔ آپ کہیں خوشامد نہ سمجھیں اور کہیں آپ کا دماغ نہ خراب ہوجائے۔

دیر تک میں اس جملے پر ہنستا رہا۔ آج یہ چند سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو یہی جملہ یاد کرکے رو رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیارتوں پر جاتے وقت پانی کے جہاز میں ایک بوڑھے جن کی عمر قریب قریب نوے سال کی ہوگی، سرخ و سفید رنگ کے، جہاز میں گھسے۔ میں عرب سمجھا ۔ مگر فورا ہی ان کے ان کے چہرے کے نقوش ان کے ہندوستانی ہونے کی چغلیاں کھانے لگے۔ میں نے غور سے دیکھا۔غصے سے کہنے لگے : میرے دوست کو کھا لیا، کیا اب مجھے کھانے کا ارادہ ہے ؟ ۔ میں مسکرا دیا، پاگل سمجھ کر۔ کہنے لگے: وہ کافر مر گیااور مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گیا۔ میں نے پوچھا: کون ؟ ۔کہنے لگے وہی الہ آباد والا کشمیری، نوابی گئی لیکن میں نے وطن نہیں چھوڑا ، بیوی بچے مرے لیکن وطن نہیں چھوڑا مگر جب سے یہ بے وفا کافر مرگیا ایک ہندوستان میں اپنا نہیں دکھائی دیتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکالی اور میں چونک پڑا۔ یہ ان کی اور موتی لال نہرو کی تصویر تھی۔ فورا میرا دماغ ہندوستان، لکھنو اور الہ آباد ہوتا ہوا کلکتے پہنچا۔ اب کلکتے کے مٹیا برج میں جا کر ٹک گیا۔ بڑا سا مشاعرہ۔ استاد علامہ آرزو، قیامت کے شاعر رضا علی وحشت، ما ئل لکھنوی، سبھی موجود تھے۔ ایک ادھیڑ عمر کا سرخ و سفید رنگ کا آدمی، گیروے کپڑے پہنے اس مشاعرے میں آیا جو جان عالم واجد علی شاہ کے مزار پر بیٹھا کرتا تھا اور یہ مطلع پڑھ کر مشاعرہ لوٹ کر چلا گیا:
کچھ اس طرح کا موافق مرا زمانہ تھا
یہ برق گرتی تھی، یہ میرا آشیانہ تھا

میں نے جھومتے ہوئے جہاز کے کھمبے کا سہارا لیتے ہوئے یہ شعر ان کی طرف دیکھ کر گنگنایا۔ بیک وقت وہ مجھ سے چمٹ گئے ، اور ’ تم تو مجھے جانتے ہو ‘ کہہ کر دیر تک روتے رہے۔ اور میں بھی روتا رہا۔ پھر گھوم کر ہم دونوں نے سمندر کی طرف دیکھا جو جو نہ جانے کتنے انقلاب اپنے سینے میں چھپائے ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کربلا پہنچے اور صحیح معنوں میں امام حسین کے روضے پر وہ بے کسی برستے ہوئے دیکھی جس کا جواب شاید ہی کوئی تاریخ دے سکے۔ مجھ سا گنہگار گھنٹوں روضے کو دیکھتا رہتا۔ یہ عدم تشدد کا سچا علمبردار۔ بارہ سو سال قبل کئی لاکھ کے مقابل میں صرف بہتر کو لے کر لڑا۔ تین دن کی بھوک پیاس میں کئی لاکھ سے جنگ کرکے وہ اسلام جو رسول نے پھیلایا تھا اسے تباہ ہونے سے بچا لیا۔ یہی تو خواجہ معین الدین چشتی فرما گئے ہیں :
شاہ است حسین و بادشاہ است حسین
دین است حسین و دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

عجیب بات یہ ہے کہ یہ کم بخت شعیہ سنی کی بحث صرف ہندوستان میں ہے اور مسلم ممالک میں بالکل نہیں ہے۔ اس بات پر مجھے خواجہ حسن نظامی یاد آگئے جن کی قریب قریب ہر تحریر میں نے پڑھی ہے۔ مجھے ان کا رنگ بے تحاشا پسند ہے۔ ایک کانفرنس ہوئی احمد آباد میں۔ شعیہ اور سنی مولوی ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ نہ جانے کیونکر میں بدقسمتی کا مارا، کسی ضرورت سے احمد آباد گیا اور خواجہ صاحب کا نام سن کر وہاں پہنچ گیا۔ جب میں پہنچا ہوں تو یہ کانفرنس شروع ہوچکی تھی۔ شاید کسی سنی مولوی نے حضرت علی کو چوتھا خلیفہ کہہ دیاتھا اور ایک شعیہ مولوی اس پر بگڑ گئے تھے ۔اور قریب قریب یہ کانفرنس درہم برہم ہونے والی تھی کہ خواجہ حسن نظامی کھڑے ہوگئے۔ کیا تقریر کی اس جادوگر نے، آج تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس نے چیخ کر کہا: آپ سب حضرات سے صرف میرا ایمان سچا ہے اور صحیح معنوں میں میں صرف میں مسلمان ہوں۔ مت توہین کیجیے علی ایسی شخصیت کی کہ وہ پہلے خلیفہ تھے یا چوتھے۔ اگر ان کو خلافت نہ بھی ملتی اور خلیفہ نہ بھی ہوتے تب بھی رسول کے بعد دنیائے اسلام کی دوسری اہم ترین شخصیت علی ہی کی ہوتی۔ خلافت نے علی کا مرتبہ نہیں بڑھایا بلکہ علی نے خلافت کا مرتبہ بڑھا دیا۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سب شعیہ سنی مل کر تالیاں بجا رہے تھے۔

بچپن میں حسن حسین عام بچوں کی طرح پرورش پاتے تھے۔، کبھی کبھی گھر میں فاقہ بھی ہوجاتا تھا۔ لباس بھی وہی جو عام عربوں کا ہوا کرتا تھا۔ علی، رسول کی بیٹی کے شوہر ، کام کرتے تھے تو کھاتے تھے۔ خلفاءراشدین کی بھی یہی شان تھی۔ اور صرف یہ رہا ہے سچا اسلامی ہی نہیں بلکہ سچا انسانی دور۔
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.