کتابوں کا اتوار بازار-5 فروری 2012

 گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا

آج بروز اتوار 5 فروری 2012، میں علی الصبح چھ بجے بھاپ اڑاتی کافی کا پیالہ ہاتھ میں تھامے ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، خیال آیا کہ اتوار بازار روانگی سے قبل کچھ حالات کا جائزہ لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول کی وجہ سے کتب فروشوں کی آمد مشکل نظر آرہی تھی۔ لیکن صاحب سب کے سب نہ سہی، چار عدد تو آئے۔

ٹی وی چینل پر قرضوں میں جکڑی ہوئی قوم پر گیس، پیٹرول اور ڈالر کے نرخوں میں حالیہ اضافے پر بات کی جارہی تھی۔ ہم تو یوں بھی منتظر ہیں کہ دیکھیے پیٹرول، ڈالر اور ٹنڈلکر میں سے کون سب سے پہلے 100کا ہندسہ عبور کرتا ہے؟
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا

ٹی وی بند کیا اور سوچا کہ ای میل اور فیس بک کا جائزہ لیا جائے

فیس بک پر تو عابدہ رحمانی صاحبہ نے ایک دلچسپ مضمون بھی بزم پر شامل کیا ہے۔ موبائل فون کے آنے کے بعد تو احباب اب چوبیس گھنٹے اس کی پہنچ میں رہتے ہیں۔

نوبت بہ ایں رسید کہ ایک صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا، اداس بیٹھے تھے، آنسو جاری تھے، ان کے ایک بے تکلف دوست نے ان کو چپ کرانے کے بعد ازراہ ہمدردی دریافت کیا:
" تجھے کچھ چاہیے ؟ "
" لیپ ٹاپ لا دے " ان صاحب نے کہا
" لیپ ٹاپ، وہ کیوں ؟ " دوست نے حیرت سے پوچھا
" فیس بک پر اسٹیٹس تو سنگل کردوں"

ایک کرم فرما کا ارسال کردہ پیغام پڑھ کر رہی سہی کسر پوری ہوئی, خبر سکرین پر جگمگا رہی تھی:

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے صدر شعبہ اردو کی پی ایچ ڈی کی ڈگری جعلی۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شفیق عجمی صاحب نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا، موضوع تھا علامہ اقبال اور ڈاکٹر محمد رفیع الدین"

دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کے ایم فل کے مقالے کا موضوع بھی من و عن یہی تھا۔ خبر میں لکھا تھا کہ:
"کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ برصغیر کی معروف درسگار کا صدر ایک ہی مقالے پر دو مختلف یونیورسٹیوں سے دو الگ الگ ڈگریاں بھی حاصل کرسکتا ہے۔ ایم فل کے مقالے کو پی ایچ ڈی کے مقالے میں شامل کردیا، تحقیق بھی وہی رہی اور تحقیقی نتائج بھی بھی ایم فل والے ہی رہے۔"

کالج کے ایک پرانے طالب علم نے یہ راز فاش کیا اور ساتھ ہی اس کے ثبوت بھی انٹرنیٹ (فیس بک وغیرہ) پر جاری کردیے۔

ضروریات زندگی میں ہوش رہا اضافہ کرتے حکمران اب اتنے برے نہیں لگ رہے تھے!
----------
اتوار بازار کی گلی میں ہوا سرد تھی، محض چار کتب فروشوں کی موجودگی دیکھ کر قریب تھا کہ خالی ہاتھ لوٹ جاتا کہ ایک جانب سے آواز آئی:
" چھوٹے! یہ دو بورے اردو کے ہیں، ان کو ابھی مت کھولیو"

یہ وہ کتب فروش ہے جو ارزاں نرخوں پر کتابیں فروخت کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں گاہک اور دکاندار، دونوں کے لیے یہ ایک
Win-Win Situation
ہوتی ہے۔ ہمارے دوست امین ہاشم نے کچھ بحث کے بعد اسے بورے کھولنے پر قائل کر ہی لیا۔ کتب فروش کا ‘چھوٹا‘ استاد کی جانب سے اجازت ملنے پر ہاتھ میں ایک چاقو تھامے لپک کر سڑک کی دوسری جانب ہماری طرف پہنچا. ہمارا یہ چھوٹا اپنے استاد کا بیٹا ہی تو ہے، عمر آٹھ نو برس رہی ہوگی، بازار میں اور بھی ایسے ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں بلکہ بعض تو پانچ پانچ سال کے بچوں کو اپنے ہمراہ لاتے ہیں۔ یہ بچے بھی اپنے والد کے ہمراہ تمام دن یہاں گزارتے ہیں، گلی کے کونے پر کھڑے چنے والے سے چنوں کا سالن اور نان لے کر کھاتے ہیں، جس روز والد کا کاروبار زیادہ چمکے، اس روز چنے اور چاولوں کی عیاشی طے ہے! یہ چنے والا بھی خوب ہے، ہاتھ میں ذائقہ ہے، خاکسار اکثر اس کے پکوان سے لطف اندوز ہوتا ہے، چنے والے کے ہاتھ کا ذائقہ اور اس کے چہرے کا رنگ، دونوں اس وقت پھیکے پڑجاتے ہیں جب پولیس والے ادھر آنکلتے ہیں، ان سے پیسوں کا تقاضہ کرنا تو عبث ہے، خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔

بلاآخر بورے کھل ہی گئے۔

دس کتابیں ہاتھ لگیں اور محض چار سو روپوں کے عوض، بازار کے سب سے شاطر کتب فروش کے پاس ان کی قیمت کم از کم ایک ہزار ہوتی۔ ہمارا یہ شاطر کتب فروش ایسا معاملہ فہم کاروباری شخص ہے کہ صبح صبح دیگر کتب فروشوں سے بھی ان کی کتابیں رعایتی نرخوں پر خریدتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اپنے اسٹال ہر دوگنی قیمت کے ساتھ فروخت کرتا ہے۔

امین ہاشم ایک ایک کر کے کتابوں کو اٹھاتے جاتے، پہلا حق ان کا بنا، بعد میں میری اور معراج جامی صاحب کی باری آئی۔ میری تحریک پر امین ہاشم نے اس بازار سے متعلق اپنی یادوں کو لکھ کر مجھے سونپنے کا وعدہ کیا ہے۔

کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:

حدیث دلبراں
خاکوں اور یاداشتوں کا مرکب۔ بہار یار جنگ، مولانا مودودی، محمد عمر مہاجر، ماہر القاردی، فضل گلبرگوی، راز مراد آبادی، مسٹر دہلوی۔ سید صبیح محسن وغیرہ کے تذکرے شامل ہیں

مصنف: مسعود جاوید
ناشر: نکمت پرنٹر، کراچی
سن اشاعت: 1993
صفحات: 210
مسعود جاوید 11 جولائی 1925 کو بلدہ (دکن کے اطراف کا ایک گاؤں) میں پیدا ہوئے۔ ہجرات کے بعد کراچی کو مسکن بنایا۔ ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

مائی باپ
علی گڑھ کی یاداشتیں
مصنف: محمد ذاکر علی خان
ناشر: سرسید یونیورسٹی پریس، کراچی
سن اشاعت: 2002
صفحات: 316

مرد آہن
پاکستان اسٹیل مل کے سربراہ حق نواز اختر کی آپ بیتی
مرتبہ: عبادت اللہ خان
ناشر" دانیال اکیڈمی، کراچی
سن اشاعت: 2006
صفحات: 335

وعلیکم السلام
مزاحیہ شاعری-غزلیات اور دیگر منظومات
مرتبہ: امیر السلام ہاشمی
ناشر: بزم نشور شعبہ تصنیف و تالیف کراچی
سن اشاعت: 1994
صفحات: 160
کہہ گیا ہوں ہنسی میں کیا کیا کچھ
مجھ کو سمجھے خدا کرے کوئی
 

image

وہ آئیں گھر میں ہمارے
خاکوں کا مجوعہ
کتاب میں ندیم قاسمی، پروفیسر عزیز احمد، فیض، پروفیسر ممتاز حسین، علی سردار جعفری، رئیس امروہوی، صہبا لکھنوی، حمایت علی شاعر کے خاکے شامل ہیں!
مصنف: عبدالقوی ضیاء علیگ
ناشر: بزم تخلیق ادب کراچی
سن اشاعت: 1997
صفحات: 224

انجم اعظمی-حیات اور ادبی خدمات
مرتبہ: ڈاکٹر مشرف احمد
ناشر: کراچی رائٹرز ایسوسی ایشن، کراچی
سن اشاعت: 1997
صفحات: 338

گوشے اور جالے
احمد صغیر صدیقی کی متفرق تحریریں
ناشر: کتابیات پبلیکیشنز کراچی
سن اشاعت: 2002
صفحات: 160

حکیم احمد شجاع اور ان کا فن
مصنف: ڈاکٹر اے بی اشرف
ناشر: ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
سن اشاعت: 1987
صفحات: 296

پھولوں کے گیت
بچوں کے لیے اختر شیرانی کی نظمیں
مرتبہ: ڈاکٹر یونس حسنی
ناشر: ندیم بک ہاؤس۔ لاہور
سن اشاعت: 1993

سوانح حیات-مولانا اللہ بخش سومرو
مرتبہ: پروفیسر میر محمد مقبول سومرو
مصنف نے کراچی سے شائع کروائی
سن اشاعت: 2009
صفحات: 167

سہ ماہی تجدید نو-لاہور
مدیر: عذرا اصغر اور شبہ طراز
آغا سہیل نمبر
اپریل تا جون 2009
صفحات: 272
 

image

زیست کراچی اور نیا ورق ممبئی کے دو شمارے
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 279852 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.