ڈاکٹرصلاح الدين عبد الحلیم
سلطان
میں تین وجہوں سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ اس امریکی سماج
کی بڑی آبادی کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے:ـ
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اس
بات کا حکم دیا ہے کہ ہم جس سرزمین پر بھی قدم رکھیں اسے آباد کریں ﴿
وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا, ترجمہ: اور اس میں اس نے تمہیں بسایا ہے۔﴾
|
|
یہاں کی عوام ، حقیقت یہ ہے کہ یہ عوام سالہا سال سے مستقل مختلف حالات سے
دوچار ہے، اور یہ صورتِ حال اب بھی ہے۔ یہ وہ قوم ہے کہ اگر ان کے سامنے
بہتر انداز میں پیغامِ حق پیش کیا گیا ،اسلام کی تعلیمات سے انہیں متعارف
کرایا گیا، تو دنیا کی کسی بھی قوم سے پہلے ان میں تبدیلی پیدا ہوگی۔
ایک چیز یہاں کا قانون ہے، یہ قانون کلی طور پر دین سے لا تعلّق ہے لیکن اس
کے اندر کچھ ایسی داخلی قدریں ہیں جو بعض مسلم ممالک سے بعض پہلوؤں سے بہتر
ہیں۔ لیکن یہاں کا حکومتی نظم و نسق ایک بڑی مصیبت ہے۔ حکومت کے مثبت اور
منفی دونوں ہی پہلو ہوتے ہیں، خارجی معاملات میں اس کا منفی پہلو اندرونی
معاملات کے منفی پہلو کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
اسرائیل کی اندھا دھند مدد ، اس حد تک کہ روزانہ وہاں کئی کئی لوگ شہید
ہوتے ہیں، ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ یہ تعداد اتنی
زیادہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں سے اسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ عجیب بات یہ ہے
کہ بہتر سے امریکی شہری یہ نہیں جانتے کہ ان کی حکومت بیرون میں کیا کر رہی
ہے۔
میرے خیال میں ہماری سب سے بڑی کوتاہی میڈیا کے میدان میں ہے۔ اگر ہم اس
معاشرے تک دو باتیں پہونچا سکیں: اول: اسلام کی اس کی اصل حقیقت کے ساتھ نہ
کہ اس شکل میں جیسا کہ دوسرے ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں، میں عوام کے بارے
میں کہہ رہا ہوں، حکومت کے بارے میں نہیں ، اس لئے کہ حکومت پر صہیونی لابی
کا کنٹرول ہے۔
دوم: امریکا باہر کی دنیا میں کیا کر رہا ہے۔ لوگ نہیں جانتے کہ امریکا نے
عراق میں ایک ملین دو لاکھ افراد کو قتل کیا ہے، اس نے عراق کے اندر دراڑ
پیدا کردی ہے۔ یہ دراڑ ایسی ہے جو طویل سالوں تک جاری رہے گی ، سو سال سے
کم مدّ ت میں اس کے ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس نے اس کے اندر بہت زیادہ
خطرناک شکل میں ڈیموگرافک تبدیلی پیدا کی ہے۔
امریکی معاشرہ نہیں جانتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر کتنا ظلم اور قہر
برسایا ہے۔ بہت سے آمروں کی حکمرانی محض امریکی نظام کی مرہونِ منّت ہے۔
میں نے اپنے اسفار میں بہت سے امریکیوں سے گفتگو کی ہے۔ ابتداء میں ان کی
سوچ کچھ اور ہوتی ہے لیکن آخر میں وہ یہ کہتا ہے کہ : تم صحیح کہہ رہے ہو،
ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔
پچانوے فیصد سے زائد امریکیوں کو اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی جماعتیں کھڑی ہوں جو دعوت کا کام کریں، ہر جگہ اللہ
کا پیغام پہونچائیں، اور اصولی قاعدہ بھی یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں فیصلہ
کرنے سے پہلے ان کا عذر تلاش کرنا چاہئے۔
امریکہ کے اندرون میں خارجی سیاست کے سلسلہ میں لوگوں کے اندر کوئی فکر
نہیں پائی جاتی، امریکی شہری کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے قریبی شہر کا نام
تک نہیں جانتے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ اگر ایک ہزار افراد کا یہ امتحان لے کہ وہ امریکی
ریاستوں کے نام بتائیں تو شاذ و نادر ہی ایسے لوگ ملیں گے جو امریکی
ریاستوں کو نام جانتے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی امّت اور اپنے دین کے تئیں بڑی کوتاہی کی
ہے۔ وہ دعوت ، تبلیغ، ترسیل، بیان، کے معاملہ میں کوتاہی کر رہے ہیں، ہم جس
ظلم اور قہر کا شکار ہیں اس معاملہ میں وہ امت کا حق ادا کرنے میں کوتاہی
کر رہے ہیں۔ کوئی ایسا آئینہ نہیں ہے جو امریکی معاشرہ کے سامنے اس صورتِ
حال کو دکھائے۔
آپ کو یہ جان کر تعجّب ہوگا کہ امریکہ کے پہلے اسلامی میڈیا کے پہلے ادارہ
کے پاس اس وقت اتنا مواد تیّار ہے کہ وہ انگریزی زبان میں چوبیسوں گھنٹے
نشریات جاری رکھ سکتا ہے، میں نے خود اس جگہ کا مشاہدہ کیا ہے، لیکن انہیں
پندرہ ملین ڈالر کی رقم کی ضرورت ہے، اس ادارہ کے ذمہ دار ہمارے بھائی نے
بہت سے عرب ممالک کا دورہ کیا لیکن افسوس کہ انہیں کوئی ایسا فرد یا کوئی
ایسا گروپ نہیں ملا جو اس رقم ۔۔پندرہ ملین ڈالر۔۔ کی ذمہ داری لیتا۔ اس
چیز نے مجھے بوسنیا میں سربوں کی طرف سے ہونے والے مظالم کی یاد دلادی۔
ڈھائی لاکھ مسلم خواتین کی عصمت ریزی کی گئی۔ اسّی ہزار مساجد منہدم کی
گئیں۔ نصف ملین سے زائد بوسنیائی افراد کو قتل کیا گیا۔ بے انتہا ء ذلّت!!
اس بحران کے دوران ڈاکٹر علی عزّت بیگوچ نے تما م ہی عرب ریاستوں کے صدر
مقام کا دورہ کیا، وہ نصف بلین ڈالر جمع کرنا چاہتے تھے تاکہ اس معرکہ میں
مسلمان فتح مند ہو سکیں۔ لیکن افسوس کہ یہ رقم وہ نہیں جمع کر سکے، نصف
بلین کی رقم ایسی ہے کہ مملکتیں اور افراد انتہائی حقیر چیزوں میں اتنی رقم
خرچ کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر دنیا میں صرف زینت کے سامان میں 160 بلین ڈالر خرچ کیا جاتا
ہے، میں نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ 2007م کےمطابق پڑھا کہ صرف نشہ آور اشیاء
کا کاروبار کا 322 بلین ڈالر ہے۔
خرچ کی ترجیحات
پانچ سال پہلے، ریاض میں ایک بڑی کانفرنس میں میرا ایک لکچر تھا۔ میں نے اس
وقت کہا تھا کہ آج اسلام کی ترجیحات کیا ہیں اسے ہم سمجھ لیں تو مساجد
تعمیر کرنے کے بجائے ہم دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں ٹی وی چینل قائم کرنا
شروع کر دیں۔ مسلمان نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد سے محروم نہیں ہے۔ "جعلت
لي الأرض مسجدًا وطهورًا" ﴿میرے لئے زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے﴾۔ لیکن
آج ہم ایسے منبر سے محروم ہیں جس سے لوگوں کے سامنے صحیح شکل میں اسلام کا
پیغام پہونچاسکیں۔
مجھے اس وقت شدید تکلیف ہوئی جب میں نے امریکی معاشرہ کی صورتِ حال کو
دیکھاکہ باہر کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کی انہیں خبر نہیں ہے۔ انہیں
اسلام کی حقیقت نہیں معلوم ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ سب چھوڑ کر کھانے ،پینے
اور پر تکلّف زندگی میں مصروف ہیں، یہ چیزیں اللہ کے سامنے ہمارے کچھ بھی
کام نہ آئیں گی۔
الله تعالى کا ارشاد ہے: (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ
أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ
وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)
﴿ مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم
دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل
ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ﴾.
جب کبھی امریکیوں سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو اس بات پر تعجّب ہوتا ہے کہ
انہیں یہ پتہ نہیں کہ ہم عیسیٰ بن مریم علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہمارےپاس ایک سورہ ہے جس کا نام مریم ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ہم وہ
عدل پرور لوگ ہیں جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ خاندان کی حفاظت کے
لئے عفّت ہمارے نزدیک ایک بنیادی وصف ہے۔ ان کے یہاں خاندانی نظام انتشار
اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
وہ لوگ ہماری توجّہ کے محتاج ہیں۔ لیکن اگر مریض کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ
مرض میں مبتلا ہے، طبیب بھی آگے بڑھ کر علاج کا کام نہ کرے تو اس کے نتیجہ
میں ایسی ہی پستی سامنے آتی ہے۔
دعوت إلى الله پہلی ترجیح
ان ساری چیزوں پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا کہ دعوت الیٰ اللہ وہ فریضہ
ہے جو نماز، زکوٰة اور روزہ سے پہلے آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم
سے اوّل روز سے ہی یہ مطالبہ کیا گیا (قُمْ فَأَنذِرْ) ﴿اٹھو اور ڈراؤ﴾
لیکن نماز دعوت کی ابتداء کے دس سال کے بعد فرض کی گئی، زکوٰة اور روزہ کی
فرضیّت پندرہ سال کے بعد آئی، حج کی فرضیت ابتداٴَ دعوت کے اٹھارہ سال بعد
ہوئی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بندہٴ مومن عمرہ پر عمرہ ادا کرتا ہے، حج پہ حج
کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، اور روزہ رکھتا ہے لیکن دعوت دین اور دنیا تک
تبلیغ اسلام کا کام ایسا ہے جسے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے چھوڑ رکھا ہے۔
اگر کوئی مخلص انسان کھڑا ہو ساری دنیا سے "گفتگو" کا دروازہ کھولے تو نہ
جانے کتنے لوگ اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گے۔ جس نے بھی یہ کام انجام دیا
ہے، اور اخلاص کے ساتھ محنت کی ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے ہاتھوں بڑی تعداد
میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ، اس کے لئے محنت، اخلاص، اور علم ضروری ہے،
یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دین کا اتنا علم رکھتا ہو کہ وہ لوگوں کے سامنے پیش
کر سکے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہدایت سے نوازے، ہم سے دوسروں و
ہدایت دے اور ہمیں دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
________
ڈاکٹر صلاح سلطان کے آڈیو ریکارڈ سے نقل کیا گیا۔ |