حق سے پردہ۔۔۔!!

زندگی میں ہم انسان بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں ۔یہ میل جول صاحبِ نظر پر اسرار کی نئی نئی جہتیں آشکار کرتا ہے یہی آگہی و آشنائی ”حق“ کی طرف انسان کو متوجہ کرتی ہے ،بظاہر ہم صبح سے شام تک بہت سے لوگوں سے کسی نہ کسی ناطے،تعلق،رشتے،ضرورت اور کام کے لیے بلا واسطہ یا با لا واسطہ ملتے ہیں، یہ ہماری روز مرّہ کا حصہ ہے اوریہ ملنا جُلنا ہم میں سے زیادہ کے لیے ،صرف ملنا جُلنا ہی ہوتا ہے لیکن صاحبِ نظر اسی میل جول سے،اسرارِکائنات تک رسائی پا تا ہے ،لوگوں سے تعلق میں ”اصل “کے رشتے کو دیکھتا ہے، ایک نئی کا ئنات دریافت کرتا ہے ،اسی سے” حق“ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور حق سے پردہ ہٹتا ہے چو نکہ ہم جیسے عام انسان ،جن کی نظر ،بینائی کی محتاج ہوتی ہے یا غفلت کے پردے سے باہر دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی اس لیے ہی” حق “پردے میں رہتا ہے (یہ پردہ دراصل غفلت کا پردہ ہوتا ہے) اللہ تبارک و تعالٰی بندے سے یونہی تو نہیں کہتا کہ کائنات پر غور کر!! اسی غور میں تو وہ چھپا ہوا ہے پر ہم بندے تو کائنات کو ہی پر دہ بنا بیٹھےاس کو حجاب سمجھنے لگے حا لانکہ کائنات ”حق“ تک رسائی کا ذریعہ ہے،ہماری نظر سے پردے کو ہٹانے کا اصل جوہر اسی کائنات کے پاس ہے جس پر اللہ تبارک و تعالٰی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے!!اب ہم اس دعوت کو خلوص ِ یقین سے قبول نہ کریں تو تاریکی کا کیا قصور؟؟وہ تو باطن کی روشنی سے دُور ہو سکتی تھی پر باطن کو روشن کر نے کا اہتمام ہم کریں تب ناں!!

کائنات مادہ ہے اسی سے صاحبِ نظر حق اور اصل کی منزل تک کا راستہ تلاش کرتا ہے،اسی کائنات میں نئی دنیا بساتا ہے۔یہی کائنات ہے جو اپنے بنانے والے کو عیاں اور آشکار کر رہی ہے۔یہ جلوہ ہے مگر جلوے دیدئہ پردہ سے اُوجھل رہتے ہیں بلاشبہ آج کا دُور مادی پرستی کا ہے یہاں رُوحانیت کا کیا کام؟؟رُوحانی دنیا کو اسی سوچ نے پردوں گُم کر دیا ہے(تبھی ہر لمحہ بے سکون ہے)جس کو ڈھونڈنے والے ہی ڈھونڈ پاتے ہیں۔بات لوگوں سے مِلنے جُلنے کی ہو رہی تھی ،ہر انسان اپنے اندرایک دُنیا لئے پھرتا ہے نہ جانے کس کی نظر آپ کی دُنیا بدل دے،آپ کو سنوار دے یا آپ پر اسرار کو منکشف کر دے۔ اُٹھ فریدا سُتیا تے اُٹھ کے باہر جا
کوئی بخشیا مل گیا تے توں وی بخشیا جا

ہم جن سے ملتے ہیں وہ ہم پر بے شمار اسرار عیاں کر رہے ہو تے ہیں کیونکہ ہم خود سے بھی پردے میں ہوتے ہیں(اپنی ذات سے نا آشنا)یہ پردہ ہمیں اپنی ذات سے ہمکلام نہیں ہونے دیتا (یہ ہمکلامی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ضروریاتِ زندگی)جب یہ ہمکلامی نہیں ہو تی تو ہم انسان کی ظاہری و باطنی کیفیات اور تغیرات کو سمجھنے سے معذور رہتے ہیں اور معذوری جب اپنی پیدا کردہ ہو تو؟؟کہتے ہیں جس نے خود کو پہچانا اُس نے خدا تعالٰی کو پہچانایہ ابدی سچ ہے!!کا ئنات کے رازوں میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر شے پردے میں رکھی گئی اور سب کچھ ظاہر کر کے بھی ”اصل“ پردے میںچُھپاہواہےاللہ تبارک وتعالٰی انسان سے پر دے میں ہے باوجود اس کے کہ وہ اپنی رحمتوں،عطاﺅں،نعمتوں اور بخششوں کی صورت ہمہ وقت ”ظاہر“ بھی ہے!!!جب وہ ظاہر ہوا تو پھر پردے میں کیسے؟؟؟دراصل یہ پردہ ہماری اپنی غفلت کا پردہ ہے جو ”حق“سے آگہی میں مانع رہتا ہے اسرار بذاتِ خود پردہ ہے جو سب پر نہیں کُھولتا یا سب کو جلوہ دِکھائی نہیں دیتاحق کا جلوہ بھی حق ہے جو اپنے طالب پر ہی منکشف ہوتا ہے عام انسان کو طلب تو ہو سکتی ہے پر کامل طالب تو ہر کوئی نہیں ہوتاطلب کی حرارت سب آہنی پر دوں کو جلاپھُونکتی ہے سب کی طلب میں ویسی گرمی کہاں جو کامل طالب کی طلب میں ہو تی ہےکائنات کا ذرہ ذرہ” حق“ پر دلالت کر رہا ہے ،اپنے بنانے والے کا پتہ دے رہا ہے ،حق سے پر دہ ہٹا رہا ہے لیکن ہم اپنی غفلتوں سے نکلیں تب ناں،جو غفلت سے نکل جاتا ہے وہ حق کے جلووں سے اپنی پیاس بُجھاتا ہے (ایک ہم جیسے عاصی گناہگار جن کی نظر بھی پردہ،قلب پر بھی پردہ اور قلم بھی پردہ۔۔!!) انسان سار ی زندگی حق اور حقیقتوں کی تلاش میں دَر دَر بھٹکتا ہے اور اسی میں کہیں حق سے بھٹک جا تا ہے کیونکہ وہ ”عکس“ کو ”اصل“ سمجھ بیٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اُس نے ”حق“ پا لیااور اپنی ذمہ داری سے بری ہو گیاجبکہ ”اصل“تو پردوں میں چھپی اس کے نظر وقلب کے پردے ہٹنے کی منتظر رہتی ہے ۔پردہ آرزوئے شوق کو اُبھارتا ہے،شمعِ شوق کو بھڑکاتا ہے جلاتا ہے تب جا کر حق کی حقیقت سے آشنا کر تا ہے اصل کا جلوہ کراتا ہے ،عاشق جاں سُوز کو اس سفر کی تمازت ٹھنڈک لگتی ہے اور کوئی تکلیف اُسے آرزوئے شوق کی جستجو سے غافل نہیں کرنے پا تی عشق سمندر ہےکنارا اس سمندر کا عکس ہو سکتا ہے اصل نہیںعشق حقیقی ہو یا مجازی،جب باری باری ہجروفراق،قرب و وصال کے پردے ہٹتے ہیں تو ہر دُور ،قریب ہو جاتا ہے ،ہر چیز میں محبوب دِکھائی دیتا ہے اور ہر آہٹ محبوب کی آہٹ بن جاتی ہے۔
محبوب کو ہم نے جا بجا دیکھا
کبھی ظاہر ، کبھی چھپا دیکھا

یہ اُسی پردے کے ہٹنے کا نشہ ہے جو عاشق پر باطن کے اسرار افشاں کر دیتا ہے پھر قرب و فراق میں اسے یکساں لذت ملتی ہے ہر شے میں اُسی کا جلوہ ،ہر جگہ اُسی کا دیدارکائنات کی تمام چیزیں اصل سے پردہ ہیں جو ان چیزوں کی حقیقتوں سے پردے میں رہا وہ خسارے میں رہا،جواِن کی حقیقت پا گیا وہ دنیا کی طلب سے ،ہر مصیبت سے آزاد ہو کر فلاح پا گیااورمالک کی رضا کے سفر پر بصد خوشی چل پڑاحق سے پردے میں ہونا بڑی بد نصیبی کی بات ہے اگر آپ مسلمان ہیں تو یہ آپکی خوش نصیبی ہے (لیکن مسلمان سے مومن بننے کی سعی نہ کرنا پھر بد بختی ہوتی ہے)اگر کوئی کافر ہے تو یہ اسکی بد نصیبی کہ وہ حق سے پر دے میں ہے ۔ایسے ہی لوگوں کے با رے میں اللہ تبارک وتعالٰی سورہ البقرہ میں فرماتا ہے:” جو لوگ کافر ہیں انھیں تم نصیحت کرو یا نا کو،اُن کے لےے برابر ہے اللہ نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا)ہے“

جن کی آنکھوں پر اللہ تبارک و تعالٰی نے پر دہ ڈال دیا ،اُن کو حق کی آگہی کون دے سکتا ہے؟؟؟جن کے دلوں پر ہی مالک نے اُن کو حق کی لذت کا مزہ کیسے مل سکتا ہے؟؟بس مُولا سے یہی التجا ،یہی دُعا حق سے آگہی دے کر اپنی راہ میں چلنے والوں میں شا مل کر لے جسم روح کا پردہ ہے جب تک ہم انسان جسم کی آسائشات ،راحتوں کی تلاش میں رہتے ہیں ،ہماری روح بے چین و بے قرار رہتی ہے جسم کا پر دہ چاک کر کے ہی ہم روح کی حقیقت کو پا سکتے ہیں اور اپنی روحانی خوشی کا سامان کر سکتے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی سب کو غفلت کے پر دے نکال کر حق کا جلوہ دکھائے!!!
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.