حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
رحمہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اہم و بنیادی مصلحتیں تین قرار دی ہیں۔ ان کی
تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)جہاد ایمان کا ذریعہ ہے
پہلی مصلحت: جہاد ایمان کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کو جو احکامات دیتے
ہیں اور ان کی تعمیل کا مکلف بناتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی آقا
کے غلام بیمار پڑیں، اور وہ اپنے کسی مخصوص آدمی کو حکم دے کہ ان کو دوا
پلاﺅ۔ پس اگر وہ ان کو دوا پینے پر مجبور کرے اور زبردستی دواءان کے منہ
میں ڈالے تو وہ حق بجانب ہوگا۔ مگر رحمتِ خداوندی نے چاہا کہ دوا کے فوائد
بیان کئے جائیں، تاکہ بیمار رغبت سے پئیں اور دوا کے ساتھ شہد بھی ملایا
جائے تاکہ دواءکی عقلی محبت اور شہد کی فطری رغبت ایک دوسرے کے لئے بازو بن
جائیں۔
اور لوگوں کی صورت حال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں پر گھٹیا خواہشات، درندگی
والی صفات اور حبِّ ریاست کے شیطانی خیالات غالب آجاتے ہیں اور ان کے دلوں
کے ساتھ ان کے گمراہ اسلاف کی ریت رواج چمٹ جاتے ہیں اس لئے ایمان لانے کے
فوائد ان کی سمجھ میں نہیں آتے اور نبی کریمﷺ ان کو جو حکم دیتے ہیں وہ اس
کی تابعداری نہیں کرتے، نہ وہ اسلام کی خوبیوں میں غور کرتے ہیں۔ ایسے
لوگوں کے ساتھ مہربانی یہ نہیں ہے کہ ان پر دلائل کے ذریعے حجت قائم کرکے
ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ ان کے ساتھ مہربانی یہ ہے کہ ان کی مرضی کے
خلاف ان کو ایمان لانے پر مجبور کیا جائے، دواءکا کڑوا گھونٹ زبردستی ان کو
پلایا جائے یہی ان کے حق میں مفید ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو ان میں
سخت گیر، عناد پرست اور طاقتور ہیں ان کو تہِ تیغ کردیا جائے یا ان کا
شیرازہ منتشر کردیا جائے اور ان کے اموال چھین لئے جائیں تاکہ ان کی طاقت
ٹوٹ جائے اور وہ بے بس ہوجائیں۔ اور جب ان کی روک ہٹ جائے گی تو ان کے پیرو
کار، ماتحت افراد اور ان کی آل اولاد ایمان کی طرف مائل ہوگی، اور اطاعت
کرے گی۔ رسول اللہﷺ نے قیصر روم کو جو خط تحریر فرمایا تھا اس میں یہ بات
ہے کہ اگر تونے ایمان قبول نہ کیا تو کاشتکاروں یعنی رعیت کا گناہ تیرے سر
ہوگا۔(بخاری و مسلم) کیونکہ وہی ان کے ایمان کی راہ میں روڑا ہوگا۔ اور ایک
دوسری حدیث میں جہاد کی اس مصلحت کی طرف اشارہ آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ” تم بہترین امت ہوجسے لوگوں کےلئے نکالاگیا
ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کوزنجیروں کے ذریعے اسلام کی طرف کھینچ لاتے
ہو ( قرطبی)
یعنی جہاد کے ذریعے اسلام کی طرف لوگوں کو لاتے ہو۔ اس کا یہ مطلب ہرگز
نہیں کہ تم کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر اسے مسلمان بناتے ہو۔ کیونکہ
زبردستی اسلام قبول کرنے والا جس نے دل سے اسلام کو نہ مانا ہو مسلمان ہوہی
نہیں سکتا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم جہاد کے ذریعے کفر کی طاقت کو توڑ دیتے
ہو اور اسلام کو غالب کرکے اس کا عادلانہ، منصفانہ نظام نافذ کرتے ہو تب
لوگ جوق درجوق مسلمان ہوتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کی جانبازی اور سرفروشی
دیکھ کر بھی بہت سے کافر اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ اورجب دنیا میں کفر کی
طاقت اورشوکت ٹوٹ جاتی ہے اور کفر ذلت کی علامت بن جاتاہے تولوگ بہت جلدی
اسے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ کفر ” غیر فطری“ چیز ہے لوگ حکومت ،طاقت اورغفلت
کی وجہ سے اس کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ جہاد کے ذریعے جب کفر کی طاقت اورشان
وشوکت ختم ہوجاتی ہے تو لوگوں کو اپنے ”فطری دین“ یعنی اسلام کی طرف آنے
میں دیر نہیں لگتی۔ یہ ہے خلاصہ زنجیروں کے ذریعے اسلام کی طرف کھینچنے کا
۔ معلوم ہوا کہ جہاد لوگوں کے لئے ایمان کا ذریعہ ہے۔
(۲)جہاد دنیا سنورنے کاذریعہ ہے
دوسری مصلحت۔ جہاد کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا کو سنوارتے ہیں.... انسانوں
پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ ان کو نیکوکاری کی راہ
دکھائیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکیں۔ لوگوں کے دنیوی معاملات، ان کی گھریلو
زندگی اور ملکی نظام کو سنواریں۔ جن علاقوں پر خونخوار لوگ قابض ہوتے ہیں
اور وہ سخت جنگ جو بھی ہوتے ہیں وہ پورے علاقہ کا ناس ماردیتے ہیں۔ یہ لوگ
اس آفت رسیدہ عضو کی طرح ہیں جس کو کاٹے بغیر جسم درست نہیں ہوسکتا۔ جو شخص
جسم کی صحت کا فکر مند ہے اس پر لازم ہے کہ اس عضو کو کاٹ دے۔ کیونکہ بڑی
منفعت کی خاطر چھوٹا ضرر برداشت کیا جاتا ہے ۔قرآن کریم کی ایک آیت یہی بات
بتلاتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
”ولو لا دفع اﷲالناس بعضھم ببعض لفسدت الارض“(البقرة)
یعنی اور اگر اﷲتعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذرےعہ دفع نہ کرتا رہتا
تو زمین پر فساد برپا ہوجاتا۔حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما اس
آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں (آیت کا مطلب یہ ہے کہ ) اگر اﷲ تعالیٰ
مسلمانوں کے لشکر وں کے ذریعہ دشمن کودفع نہ فرماتا رہے تو مشرکین غالب آکر
مسلمانوں کو قتل کردیں اوران کے شہروں اورمسجدوں کو تباہ وویران کردیں۔
اور یہ بات سمجھنے کے لئے قریش کی اور ان کے ارد گرد کے عربوں کی مثال کافی
ہے۔ طلوع اسلام کے وقت وہ ایمان و احسان سے کوسوں دور تھے۔ کمزوروں پر ستم
ڈھاتے تھے۔ باہم برسرِ پیکار رہتے تھے۔ اور ایک دوسرے کو قید کرتے تھے۔ ان
میں سے بیشتر اسلام کے سچے دلائل میں غور کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ نہ
معجزات سے متاثر ہوتے تھے۔ اس صورتِ حال میں اگر نبیﷺ ان سے جہاد نہ کرتے،
اور سخت گیر اور شریر لوگوں کو قتل نہ کرتے تو وہ دین اسلام سے بے بہرہ
رہتے، عرب میں امن و امان قائم نہ ہوتا۔ اور ان کے گھریلو اور ملکی احوال
نہ سنورتے۔ پس جہاد دنیا کے احوال سنوارنے کا ایک ذریعہ ہے۔
(۳)جہاد سے انقلاب رونما ہوتے ہیں
تیسری مصلحت۔ جہاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انقلاب رونما کرتے ہیں.... بعثتِ
نبوی کے وقت دنیا کی صورت حال وہ تھی جو مسلم شریف کی ایک روایت میں آئی ہے
کہ ”اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف نظر کی تو عرب و عجم سبھی پر سخت ناراض
ہوئے“ یعنی سارا جہاں گمراہی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ چنانچہ فیصلہ
خداوندی ہوا کہ عرب و عجم سبھی کی حکومت ختم کردی جائے اور ان کی شہنشاہیت
پر بریک لگادی جائے۔ اس لئے نبیﷺ کے دل میں اور آپ کے توسط سے صحابہ کرام
کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ وہ اٹھیں اور راہِ خدا میں لڑیں تاکہ مرادِ
خداوندی پوری ہو۔ چنانچہ یہ حضرات ان ملائکہ کی طرح ہوگئے جو احکام الٰہی
کی تعمیل کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ فرق اتنا رہا کہ ملائکہ کسی نظام کلی کو
لیکر نہیں چلتے اور یہ حضرات ایک منظم پروگرام لے کر چلے، جو ان پر اللہ
تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ اس لئے ان کا عمل عظیم ترین اعمال میں سے ہوگیا۔
اور ان کا کافروں کو قتل کرنا ان کی طرف منسوب نہیں رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ
کی طرف منسوب ہوگیا۔ جیسے حاکم مجرم کو قتل کرواتا ہے تو وہ قتل جلاد کی
طرف منسوب نہیں ہوتا، بلکہ آمر کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اور وہی قاتل شمار
کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورة الانفال آیت ۷۱ میں جنگ بدر کے سلسلے میں ارشاد
پاک ہے: ”پس تم نے ان کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا“
اور اس عالمی انقلاب کی طرف رسول اللہﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں اشارہ فرمایا
ہے کہ ”جب کسریٰ(شاہ ایران) ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا۔
اور جب قیصر(شاہ روم) ہلاک ہوگا، تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔“
(بخاری) یعنی جاہلیت کے ادیان کو ماننے والے ختم ہوجائیں گے۔ ان کا شہرہ
اور دبدبہ ختم ہوجائے گا۔ لوگ دین رحمت کی طرف رجوع کریں گے اور دنیا کا
نقشہ بدل جائے گا۔“ |