مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں
پبلک ماس ٹرانزٹ سسٹم کے ذریعے کام پر جانے کا عمل اِس قدر آسان اور آرام
دہ بنادیا گیا ہے کہ اُس میں ہم جیسوں کے لیے اب ذرا بھی لُطف باقی نہیں
رہا! یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے شخص سے
بتیائے بغیر، مطالعہ کرتے ہوئے دفتر یا فیکٹری پہنچ جائیں! کراچی میں
روزانہ کام پر جانا اور واپس آنا ایک ایسا تجربہ ہے جس سے اہل جہاں (اور
بالخصوص ترقی یافتہ اقوام کے لوگ) اب تک نا آشنا اور ”محروم“ ہیں! وہ
مطالعے سے سیکھتے ہیں اور ہم مُشاہدے کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو بھی
مشاہدے کے لیے پیش کرتے ہیں! پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کام پر جانے اور واپس
آنے کے یومیہ تجربے میں مُہم جوئی، شدت پسندی، رواداری، انسان دوستی، مردم
بیزاری، شدید ذہنی اُلجھن، بے مثال روحانی تسکین تمام ہی صفات شامل ہیں۔
دُنیا والے کیا جانیں کہ اہل کراچی گھر سے نکل کر دفتر، فیکٹری، دکان یا
سائٹ تک کِس طور پہنچتے ہیں۔ ایک سفر میں کئی سفر شامل ہیں جن میں انگریزی
کا suffer نمایاں ہے! باہر کے لوگ کراچی آکر جب بس کا سفر کرتے ہیں تو اُن
کے دل میں مقامی باشندوں کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے اور وہ ”غیر محسوس طور
پر“ مرعوبیت سی محسوس کرنے لگتے ہیں!
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر جو عجوبہ نُما چیزیں چلتی ہیں اُن کی
مدد سے بہتر زندگی بسر کرنے کا ہُنر آسانی سے، بتدریج سیکھا جاسکتا ہے۔
بسوں اور ویگنوں میں لوگ اُسی طرح ٹُھنسے ہوئے ہوتے ہیں جس طرح چھوٹے سے
کمرے میں بارہ پندرہ ”چَھڑے“ رہتے ہیں! بس میں ٹُھنسی ہوئی حالت میں کھڑے
ہوکر سفر کرنے سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی اچھی طرح ٹُھنس جاتی ہے کہ
ایک دوسرے کو ہر حال میں برداشت کرنا ہی زندگی کا ”حُسن“ ہے! اِس حالت میں
بس کا سفر کرنے والے اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ خط کو تار سمجھنا اور تھوڑے
کو بہت، بلکہ غنیمت جان کر گزارا کرنا کیا ہوتا ہے! شکر کے مواقع بدلتے
رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں سیٹ ملنے پر لوگ سکون کا سانس لیا کرتے تھے۔ اب
بہت سی بَِسوں میں رش کا یہ حال ہے کہ جنہیں کھڑے ہونے کے جگہ مل پائے وہ
بھی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں! اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو کام
پر بر وقت پہنچنے کے لیے پائیدان پر لٹکنے کو بھی اعزاز سمجھ کر قبول کرتے
ہیں!
کراچی میں بعض روٹس پر ایسی بسیں بھی چلتی ہیں جنہیں دیکھ کر یقین آ جاتا
ہے کہ اللہ کے دستِ قدرت سے کچھ بھی دُور اور ناممکن نہیں، وہ چاہے تو
مُردے میں پھر جان ڈال دے! یہ خستہ حال بسیں وقت کی دست بُرد کا فسانہ کچھ
ایسی شرح و بسط سے سُناتی ہیں کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں ذہن کئی مراحل
سے گزرتا، منازل پر رُکتا ہے اور اِنسان خواہ مخواہ خود کو فلسفی سمجھنے
لگتا ہے! ایک زمانہ تھا جب پیر الٰہی بخش کالونی سے 7A کی بس چلتی تھی۔ اُس
کی سُست رفتاری نے باقاعدگی سے سفر کرنے والے بہتوں کو فلسفی اور دانشور
بنادیا! صبح کو خوب بن ٹھن کر گھر سے نکلنے والے خاصے جوشیلے انداز سے 7A
سوار ہوتے تھے اور ٹاور پہنچتے پہنچتے زمانے بھر کی بُرد باری اور ٹھہراؤ
اُن کی شخصیت کا حصہ بن چکا ہوتا تھا۔
روٹ نمبر 60 کی بسیں کراچی کی قدیم ترین بَستیوں سے گزرتی ہیں۔ مہمان کی
حیثیت سے کراچی کے آنگن میں کچھ دن گزارنے والے یہ سَمجھ بیٹھتے ہیں کہ
شاید مقامی حکومت نے شہریوں اور مہمانوں کو شہر کی تاریخ سے رُو شناس کرنے
کا خصوصی اہتمام کر رکھا ہے! یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ سفر بھی کیجیے اور
ساتھ ہی ساتھ شہر کی تاریخ سے بھی واقف ہوتے جائیے! یہ بسیں مسافروں کو
ماضی کی نشانیوں سے رُوشناس کرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد دلاتی ہیں کہ
انسان کو جو کچھ بھی میسر ہو اُس پر اللہ کا زیادہ سے زیادہ شُکر ادا کرنا
چاہیے۔
بفر زون سے اسٹارٹ لینے والی روٹ نمبر 7C کی بسیں اِس امر کا بَیّن ثبوت
ہیں کہ انسان چاہے تو بے پَر کی بس کو طیارہ سمجھ ہی نہیں سکتا بلکہ طیارے
کی طرح اُڑانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے! یہی وہ بسیں ہیں جن کے آگے سڑک پر ہر
گاڑی بے بَس دکھائی دیتی ہے! جس طرح بُرا وقت بتائے بغیر آتا ہے اُسی طرح
7C کی کوئی بھی بَس اچانک کہیں بھی پہنچ سکتی ہے اور ہڑبڑائے ہوئے مسافروں
کو پتہ چلتا ہے کہ اُن کا اسٹاپ تو چار اسٹاپ پیچھے رہ گیا!
کسی ہارر فلم میں ہم نے ایک بَگّھی دیکھی تھی جس کے پائیدان پر کِسی کا
پاؤں پڑتے ہی گھوڑوں کو ایڑ سی لگ جاتی تھی اور وہ ہوا سے باتیں کرتے ہوئے
ویرانے کی ایک اُجڑی حویلی کے صدر دروازے پر پہنچ کر دم لیتے تھے! یہی حال
7C کا کی بسوں کا ہے۔ ابھی مسافر پائیدان پر پاؤں ہی رکھتا ہے کہ ڈرائیور
”ڈبل ہے اُستاد“ کی روایتی صدا کا انتظار کئے بغیر ہوا سے گفت و شنید
فرمانے لگتے ہیں!
جب تک 7C کا روٹ سلامت ہے، ہمیں کم از بسوں کی ریس کا الگ سے اہتمام کرنے
کی کوئی ضرورت نہیں! ہم بڑا دل رکھتے ہیں۔ فارمولا ون کے ڈرائیورز چاہیں تو
7C کے ڈرائیورز سے، بلا معاوضہ، بہت کچھ سیکھنے کے لیے تشریف لاسکتے ہیں!
سعید آباد سے اسٹارٹ لینے والی 20 نمبر کی بسیں کراچی کی سب سے انوکھی
نشانیوں میں سے ہیں۔ اگر کوئی شخص سے یہ سمجھتا ہے کہ کنستر صرف گھی، تیل
رکھنے کے کام آتا ہے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ 20 نمبر کی بس کو دیکھ کر
اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بڑے کنستر کو بس میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے! یہ
کراچی کی واحد بس ہے جو اپنے گزرنے کا اعلان کرتی جاتی ہے! اِن بسوں میں
بیٹھنے والے اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں کہ اللہ کی جس قدرت کے بارے میں صرف
سُنا تھا، اُسے دیکھا ہی نہیں بلکہ اُس میں سفر بھی کرلیا!
بولی وُڈ کی فلم انڈسٹری میں بَپّی لہری نے اُٹھا پٹخ والی موسیقی سے بہت
نام اور خاصے دام کمائے۔ ہمیں پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں بَپّی لہری کو
1980 کے عشرے میں ”ڈسکو ڈانسر“ کا میوزک دینے کی تحریک 20 نمبر کی بس دیکھ
کر مِلی ہوگی! اِس فلم کے گانوں میں ٹین ڈبے اور گھر کے برتن بھی بجتے،
کھنکتے محسوس کئے جاسکتے ہیں! آپ کو 20 نمبر کی کسی بس میں میوزک سِسٹم
نہیں ملے گا۔ ظاہر ہے اِس کی کوئی ضرورت ہی نہیں!
اورنگی ٹاؤن سے جونا مارکیٹ تک چلنے والی چھوٹے سائز کی ویگن Z بھی اپنی
ذات میں ایک انجمن، بلکہ ایک الگ دُنیا ہے۔ جو لوگ اِس ویگن میں سفر کرتے
ہیں کچھ اُنہی کے دل سے پوچھیے کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے وہ کِتنی منزلوں
سے گزرتے ہیں! بہت سے لوگ اِس ویگن کو دیکھ کر یا اِس میں سفر کرکے اللہ سے
لَو لگانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں! اِس ویگن میں ٹُھنسے ہوئے مسافروں
کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قبر میں اِنسان کا کیا حال ہوگا! رَش
آورز میں یہ ویگن اجتاعی قبر کا منظر پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی!
کھچاکھچ بھری ہوئی اِس ویگن میں سانس لینا بھی کمال ہے! Z میں باقاعدگی سے
سفر کرنے والے اگر کوشش کریں تو بھرپور سانس کے ساتھ گانے والے اچھے گلوکار
ثابت ہوسکتے ہیں! اِس ویگن کا ہر کنڈکٹر کپڑے کی دُکان کا سیلزمین دکھائی
دیتا ہے یعنی مسافروں کو تَھپّیوں کی شکل میں فِٹ اور ایڈجسٹ کرتا جاتا ہے!
ذرا سی ویگن میں وہ ڈھیروں مسافر اُسی طرح فٹ کرتا ہے جس طرح حکومت کابینہ
میں اتحادیوں کو کھپاتی ہے!
بسوں اور ویگنوں میں تہہ در تہہ کھڑے ہوئے مسافروں کے درمیان سے گزرنا اور
اُن سے کرایا وصول کرنا ایک ایسا فن ہے جس کے بارے میں الگ سے بہت کچھ لکھا
جاسکتا ہے۔ سُنا ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے اعلیٰ حکام
اپنے قرضوں کی وصولی کے لیے چند غیر معمولی tricks سیکھنے کی خاطر اِن
کنڈکٹرز سے رابطہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں! کمال یہ ہے کہ ہمارے
کنڈکٹرز جن سے وصولی کرلیتے ہیں اُن کی شکل دیکھے بغیر بھی اُنہیں یاد
رکھتے ہیں اور محض چال دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون کرائے کے پیسے
دیئے بغیر آف لوڈ ہونے کی کوشش فرمانے والا ہے! کرایا دیئے بغیر بس یا ویگن
سے اترنے کی کوشش کرنے والے مسافر کے حلق میں کنڈکٹر اُسی طرح پھنس جاتے
ہیں جس طرح کبھی کبھی کوئی ٹی وی اینکر کسی سیاست دان کے گلے کی ہڈی بن
جاتا ہے! سچ تو یہ ہے کہ بہت سے کنڈکٹرز جنگ میں اگلے مورچوں پر عمدہ خدمات
پیش کرسکتے ہیں۔ دُشمن کی صَفیں چیرنے کا ہنر اُنہیں خوب آتا ہے! |