دہلی ہائی کورٹ نے آج متنازع ڈی
این اے آرٹیکل کیس میں جنتا پارٹی کے سربراہ سبرا منیم سوامی کیلئے پیشگی
ضمانت منظور کرلی ۔ سوامی نے یہ شبہ ظاہر کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا
تھا کہ حکومت 2جی اسپیکٹرم گھپلے کے کیس میں ان کے انکشاف کی وجہ سے انہیں
گرفتار کرنا چاہے گی ۔ دہلی پولیس نے ان کی ضمانت عرضی کی مخالفت کی لیکن
ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کی جانب سے اس مقدمے کا فیصلہ ہونے تک پیشگی ضمانت
کی منظوری دے دی ۔ ہائی کورٹ نے 13جنوری کو سبرا منیم سوامی کو 30جنوری تک
کیلئے عبوری ضمانت دی تھی اوران سے کہا تھا کہ وہ ایک انڈر ٹیکنگ دیں کہ وہ
آئندہ مستقبل میں اس طرح کے مضامین نہیں لکھیں گے سیکولر نظریات کے ساتھ
کثیرالثقافتی ‘لسانی‘ عقائد ومذاہب کے حامل ہندوستان میں جہاں ہرقوم،ہرمذہب
اورہر لسانی و علاقائی گروہ کومساوی حقوق حاصل ہیں جو سبرامنیم سوامی جیسے
عناصر جو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔یہی وجہ ہے کہ عدالت نے دہلی پولیس کو بھی
نوٹس جاری کرکے اس سے سوامی کی پیشگی ضمانت درخواست کیلئے اس کا جواب مانگا
۔ دہلی پولیس نے 13اکتوبر کو مسلمانوں کے ووٹنگ حقوق کو ختم کرنے کیلئے ان
کے ریمارکس پرسوامی کے خلاف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا ایک مقدمہ درج
کیا تھا ۔ کرائم برانچ نے اس سال جولائی میں ان کے اخباری مضمون کیلئے
تعزیرات ہند کی دفعہ 153 Aکے تحت ایک مقدمہ درج کیا تھا ۔ اس معاملے کی
پاداش میں ہارورڈ یونیورسٹی سے درس و تدریس سے محروم ہوچکے سبرامنیم سوامی
کے مذکورہ مضمون میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ کس طرح اسلامی دہشت گردی
کوپھیلایا گیا ہے یہ مضمون 16جولائی کو ڈی این اے میں شائع ہوا تھا ۔ سوامی
نے اسلامی دہشت گردی کو ہندوستان کا نمبر 1مسئلہ قرار دیاہے ۔ اخبار میں
اپنے ایک مضمون میں ہندوؤں کو یہ تجویز کیا ہے کہ وہ دہشت گردانہ حرکتوں
کیلئے اجتماعی رد عمل ظاہر کرے ۔
مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے والے بھول گئے کہ ہندوستان میں خود ہندوؤں
میں دلت اور اچھوت ایک ایسی اقلیت ہیں جن کے مطابق انہیں گزشتہ تین ہزارسال
سے اپنے ہی مذہب میں کوئی قابل ذکر مقام نہیں مل سکا۔مذہبی اصطلاح میں
انہیں ’شودر‘کہا جاتا ہے۔ لیکن اچھوتوں میں شودروں کے علاوہ ان میں کچھ
دیگرذاتوں کی اقوام بھی شامل ہیں۔ہندوستان میں یہ قبائل کم و بیش ایک
چوتھائی آبادی پرمشتمل ہیںجن کی تعداد قریب دوسوپچاس ملین ہے۔مختلف عالمی
اداروں کے سروے کے مطابق اس وقت ماضی کی رسم غلامی ’اچھوت‘ موجود ہیں جبکہ
انسانی حقوق کی تنظیمیں بے شمار مرتبہ ان اقوام کے حق میں آواز بلند کر چکی
ہیں۔ اچھوتوں نے The Dalit Freedom Networkکے نام سے آزادی کی تحریک شروع
کررکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مقتدر طبقے ان سے غیرانسانی سلوک
روارکھتے ہیں۔اچھوت اگر کسی ہوٹل میں جائیں تو انہیں شیشے اور چینی کے
برتنوں کی بجائے مٹی کے برتن میں سامان اکل و شرب پیش کئے جائے جاتے ہیں
اور پھراس برتن کو زمین پر پھینک کر توڑ دیا جاتاہے تاکہ اسے کوئی
اوراستعمال نہ کر سکے۔اس رویہ کے باعث انہوں نے مٹی کے پیالے کو اپنی تحریک
کا نشان بنارکھاہے۔اچھوتوں کی اس تحریک کا نعرہ ہے کہ ہم اپنی اقوام کو
آزادی،انصاف اور انسانی حقوق دلواکررہیں گے۔ڈاکٹر بی آر امبیڈکراس تحریک کے
بانی تھے جنہوں نے کم و بیش پچاس برس قبل اس کا نجی آغاز کیا تھا لیکن
2003سے اس نام سے باقاعدہ اس تحریک کا آغاز کیاگیا۔اچھوتوں کو ہندوستانی
آئین کے آرٹیکل 17میں مکمل تحفظ فراہم کیاگیاہے لیکن اعلٰی ذات برہمن کا
خوف اس قدر ہے کہ ہندوستانی اچھوتوں کی تحریک آزادی کا دفتر ’گرین ووڈ
ویلیج‘ امریکہ کی کلوراڈو ریاست میں قائم ہے جبکہ ہندوستان کے تقریباََ
تمام علاقوں میں اس کی شاخیں موجود ہیں ۔ان شاخوں کے تحت اچھوتوں کے اسکول
اور طبی امداد کے ادارے کام کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگرخود سوامی سبرامنیم کے آبائی وطن میں ہی کیوں علیحد گی
پسند عوامل کیوں کار فرما ہیں جبکہ وہاںنام نہاد’ اسلامی دہشت گردی‘ کا
حامل ’مسئلہ نمبر 1بھی نہیں پایا جاتا۔حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے
انتہائی جنوب میں واقع تمل ناڈو جو رقبے کے اعتبار سے ملک کی گیارہویں بڑی
ریاست ہے جس کا مشہور شہر مدراس جواب چنئی کہلاتا ہے۔یہاں تمل 1500قبل مسیح
سے آباد ہیں۔تمل نیشنل ریٹریول ٹروپسThe Tamil National Retrieval
Troopsیہاں کا علیحدگی پسند گروہ ہے جو اپنے حقوق کے حصول کیلئے مسلح
جدوجہد پر یقین رکھتاہے۔ان کا مقصد اٹھارویں صدی کے اواخر میں قائم تمل
سلطنت کو دوبارہ اپنی’ اصلی حالت‘ میں لانااور اسے تمل قوم کے ایک الگ
’مادروطن‘ کی حیثیت سے دنیاکے سامنے پیش کرناہے۔اس گروہ کو بھی بدنام زمانہ
ہندوستانی قانون پوٹاکے تحت غیرقانونی قرار دے دیاگیاہے۔یہی نہیں بلکہ ایک
رپورٹ کے مطابق تو ایک سو سے بھی زائد تحریکیں ہیں جو ہندوستان سے علیحدگی
کا مطالبہ اور پروگرام رکھتی ہیں۔پورے ملک میں مشرق سے مغرب تک اور شمال سے
جنوب تک عصبیت پر مبنی استحصال کی ایک آگ ہے جو انسانوں میں تفریق پیدا
کررہی ہے ۔نفرتوں کا ایک تسلسل ہے جس نے کل ملک کی آبادی کو اپنی زد میں لے
رکھاہے ۔کسی ملت اور کسی گروہ کا مستقبل محفوظ نہیں ہے ۔اس کے باوجود یہ
ملک سیکولرازم کی وجہ سے یک جان ہے۔آج سے ایک ہزار سال پہلے بھی امت مسلمہ
کے ایک سپوت محمد بن قاسم ؒنے اس خطے کی سسکتی انسانیت کو استحصال کے دست
استبداد سے نجات دلائی تھی۔ اس کے بعد مسلم اقتدار نے اس سرزمین کو تہذیب و
تمدن اور امن و آشتی سے سرسبزوشاداب کئے رکھا لیکن مغربی تہذیب کے شاخسانے
برطانوی سامراج کے بوئے ہوئے کانٹے اگرچہ آج تک اپنا رنگ جمائے ہیں جبکہ
مسلم قیادت نے ہی اس غیر ملکی تسلط سے خطے کے عوام کو آزادی دلائی اور آج
بھی فرزندان توحید ہی اس بات کے اہل اور مدعی ہیں کہ سرزمین برصغیر ہند-پاک
انہی کی قیادت کی امین و نگہبان ومقروض ہے۔ |