”اب تو موت کا ہی انتظار ہے....“

پاکستان کا مطالبہ کرنے والی مسلم قیادت نے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ ایک فلاحی ریاست کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس ریاست کے تمام باسیوں کو صحت، تعلیم، روزگار و انصاف وغیرہ کے حصول کے لئے یکساں مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تو اس کا علاج ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے، اگر کوئی بیروزگار ہو تو اس کو گزارہ الاﺅنس دیا جاتا ہے۔ تعلیم انتہائی سستی اور عام لوگوں کے لئے بلا معاوضہ ہوا کرتی ہے، انصاف کے لئے عدالتیں نہ صرف آزاد ہوتی ہیں بلکہ اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر، اگر کوئی وکیل کے اخراجات بھی برداشت نہ کرسکتا ہو تو اس کو سرکاری خرچ پر وکیل بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام ضروریات زندگی اور سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ٹھہرتا ہے۔ پاکستان کو بھی ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب بنا گیا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ خواب بکھرنا شروع ہوگیا۔ ریاست کے تمام وسائل پر وہ لوگ قابض ہوگئے جو پہلے ہی ذاتی طور پر وسائل سے مالا مال تھے جبکہ عام لوگوں کے لئے اگر کچھ چھوڑا گیا تو وہ مسائل کا انبار ہے جو ان سے سنبھلے نہیں سنبھلتا۔ یہاں پر ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں، جو ملک میں اور بیرون ملک اربوں ڈالرز کے اثاثے رکھتے ہیں اور بے بس رعایا پر حکومت کے مزے بھی لوٹتے ہیں، یہ ایسی حکمران کلاس ہے جو اگر کوئی سڑک بھی بناتی ہے، کوئی فلائی اوور تعمیر کراتی ہے یا کسی ہسپتال اور تعلیمی ادارے کی تعمیر کی جائے تو اپنے نام کی تختی اس طرح لگائی جاتی ہے، عوام پر احسان اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ کام انہوں نے ریاست کی بجائے اپنے باپ دادا کی جیب سے کیا ہے۔ کوئی اس افتتاحی تختی پر اپنا نام لکھواتا ہے، کوئی اپنے بھائی کا، کوئی اپنے باپ کا اور کوئی مرحومہ بیوی کا....! کسی کو یہ فکر نہیں، کسی کو یہ خیال نہیں کہ اگر ایسا کوئی ترقی کا کام کر ہی لیا ہے تو یہ اس کا اولین فرض تھا، عوام نے اسے جو ووٹ دئے تھے اسی لئے دئے تھے کہ وہ کوئی ڈھنگ کا کام بھی کرلے نہ کہ احسان ہی کرتا رہے۔

صحت کی سہولتوں کے حوالے سے شائد پاکستان ایک عجیب و غریب ریاست ہے۔ یہاں ایلیٹ کلاس کے لئے ماہر ترین ڈاکٹرز موجود ہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ لیبارٹریاں موجود ہیں، شاندار قسم کے فائیو سٹار ہسپتال موجود ہیں جو ظاہر ہے پرائیویٹ سیکٹر کے ہیں اور وہاں وہ لوگ ہی علاج کروا سکتے ہیں جو اللہ کے ”کرم“ کو اپنی جانب کھینچنے کا ہنر جانتے ہیں یا پھر وہ سرکاری لوگ ہیں جو ہر محکمے کے حکمران ہوتے ہیں اور جن کے علاج معالجے کے لئے سرکاری و ریاستی خزانے کی بوریاں چند ہی لمحوں میں کھل جاتی ہیں لیکن پھر بھی ان کی اکثریت بیرون ملک علاج کو ترجیح دیتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ بے سرو ساماں قسم کے لوگ ہیں، وہ سرکاری ملازمین ہیں جو اگر بیمار ہوجائیں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ”بڑے لوگوں“ کی طرح اللہ کے خصوصی ”کرم“ کو کھینچنے کے ہنر سے آگاہ ہوتے ہیں۔ غریب غرباءسرکاری ہسپتالوں میں اس طرح رلتے ہیں کہ ان میں سے اکثر تو علاج سے توبہ ہی کرلیتے ہیں اور یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ وہ اس ملک کو کوسنا شروع کردیتے ہیں ، جن کا بس چلتا ہے وہ اس ملک سے کوچ کرجاتے ہیں اور جو نہیں جا سکتے وہ ”اللہ کے کرم“اور ”ذرائع“ تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنی مجبوریوں اور کسی حد تک اللہ کے خوف سے دونوں کام نہیں کرپاتا تو وہ موت کا انتظار شروع کردیتا ہے۔

ایک خبر نے مجھے کچھ پرانی باتیں یاد دلا دیں، پہلے خبر کی بات کرلیں۔ خبر یہ ہے کہ لاہور پولیس کے چھ ہزار سے زائد اہلکار ایسے ہیں جو یرقان، جگر کی بیماریوں اور بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں اور یہ اہلکار ایسے ہیں جن کے پاس کسی تھانے کا چارج نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی “اوپر“ کی کمائی کا ذریعہ موجود ہے، ان اہلکاروں میں کچھ افسران بھی شامل ہیں جو وقت کی کمی کے باعث ٹھیک طرح علاج نہیں کراسکے جبکہ اکثریت ان نچلے درجے کے اہلکاروں کی ہے جو ذرائع آمدنی محدود اور اخراجات لامحدود ہونے اور علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے بیماریوں میں جکڑے گئے ہیں۔ مجھے جو بات یاد آئی وہ بھی اسی قسم کی تھی۔ میرے بڑے بھائی کے ایک دوست جو آجکل پولیس میں ڈی ایس پی ہیں انہوں نے سات آٹھ سال قبل ایک بات بتائی جس کو سن کر پولیس پر بھی رحم آگیا تھا۔ ان کے بقول پولیس لائن میں ایک حوالدار تھے جن کو یرقان ہوگیا۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے ان کو ایک خاص قسم کے انجکشن لگوانے کا مشورہ دیا جو کافی مہنگا تھا اور اس وقت شائد ایک انجکشن کی قیمت پندرہ سے بیس ہزار روپے تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر سے استفسار کیا کہ اس کا کوئی اور علاج نہیں ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ نہیں، آپکو یہی انجکشن لگوانے پڑیں گے اگر آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ حوالدار صاحب یہ سن کر چلے گئے اور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح وہ انجکشن خرید سکیں لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی، کچھ روز بعد جب دوبارہ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اسی ڈاکٹر کے پاس چلے گئے، اس نے پوچھا کہ کیا انجکشن نہیں لگوایا، حوالدار کا جواب نفی میں تھا، ڈاکٹر نے کہا کہ آپکی طبیعت اور زیادہ خراب ہوجائے گی اگر انجکشن نہ لگوائے گئے، اب بتائیں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ حوالدار دکھی لہجے میں کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! ”انجکشن کے پیسے تو نہیں ہوسکے تو اب تو موت کا ہی انتظار ہے....!“

کیا ہمارے لیڈران،پولیس کے اعلیٰ حکام اور ”خدام“ اس بارے میں کبھی غور کریں گے، کیا لاہور کی نہر پر کروڑوں روپے کے آہنی جنگلے لگانے والے اور اس میں ”ٹیکے“ لگوانے والے ان بیماروں کے بارے میں بھی کبھی سوچیں گے؟ کیا عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو جاری و ساری رکھنے والے زیادہ عرصہ ایسا کرسکتے ہیں، کیا بیمار لوگ صرف اپنی ہی موتوں کا انتظار کرتے رہیں گے، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ یہ بیمار چلتے پھرتے بم بن جائیں اور اپنی موت کی بجائے کسی اور کی موت کا سبب بننا شروع ہوجائیں۔ وہ لیڈران جو ایک دوسرے کی ہواﺅں کو بھی تلواریں مارتے ہیں لیکن تیسری قوت کے خوف سے اور اپنے اپنے فائدوں کے لئے فوراً ایک بھی ہوجاتے ہیں، وہ کب سوچیں گے؟ آفرین ہے ان بیماروں پر اور ناداروں پر جو ”تحریکوں“ کا ایندھن تو بن جاتے ہیں لیکن اپنے حقوق، اپنے بچوں کے حقوق کے لئے ایک لفظ ادا کرنا نہیں چاہتے۔ ان کا گزارہ ہے تو صرف بد دعاﺅں اور آہوں پر، لیکن مظلوم کی آہ بھی تو ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اللہ کے عرش کو ہلا دیتی ہے، تو کیا ہم سبھی اللہ کے عرش کے ہلنے کے منتظر ہیں؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222457 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.