’ نماز فجر‘‘
نماز فجر کی فضیلت :۔
(۱) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ
تعالی علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ فجر کی دو رکعتیں دنیا و مافیہا
سے بہتر ہیں ۔‘‘ ( مسلم ، ترمذی )
(۲)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی
اللہ تعالی علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ فجر کی دونوں رکعتوں کو لازم
کر لو کہ ان میں بڑ ی فضیلت ہے ۔( طبرانی )
(۳)حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ فجر کی سنتیں
نہ چھوڑ و ، اگرچہ تم پر دشمن کے گھوڑ ے آپڑ یں ۔‘‘ ( ابوداؤد)
نمبر شمار نماز فجر کی رکعتیں تعداد
1 سنت مؤکدہ 2
2 فرض 2
3 میزان 4
* فجر کی نمازکا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہے ۔
* صبح صاد ق ایک روشنی ہے کہ پورب کی جانب جہاں سے آج آفتاب طلوع ہونے والا
ہے اس کے اوپر آسمان کے کنارے میں دکھائی دیتی ہے اور بڑ ھتی جاتی ہے ۔
یہاں تک کہ تمام آسمان میں پھیل جاتی ہے اور اجالا ہوجاتا ہے ۔
* فجر کی نماز کا وقت : کم از کم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱ گھنٹہ اور ۱۸ منٹ
رہتا ہے
زیادہ سے زیادہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱ گھنٹہ اور ۳۵ منٹ رہتا ہے ۔
* فجر کی نماز کا وقت سال بھر میں مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق گھٹتا بڑ ھتا
ہے ۔
نمبر شمار کب کتنا ہوتا ہے گھنٹہ کتنا ہوتا ہے منٹ پھر کیا ہوتا ہے
1 21 مارچ 1 18 پھر بڑ ھتا ہے
2 22 جون 1 35 پھر گھٹتا ہے
3 22 ستمبر 1 18 پھر بڑ ھتا ہے
4 22 دسمبر 1 24 پھر گھٹتا ہے
5 21 مارچ 1 18 رہ جاتا ہے
(بہارشریعت)
نوٹ:۔مندرجہ بالا نقشہ بریلی اور مضافات بریلی کیلئے استخراج کیا گیا ہے
بہار شریعت میں فجر کی نماز کے مندرجہ بالا اوقات بریلی کے علاوہ ان شہروں
کے لئے بھی ہیں جو بریلی کے طول البلد اور عرض البلد میں واقع ہیں جو شہر
بریلی کے طول البلد اور عرض البلد کے علاوہ میں واقع ہیں ان میں تھوڑ ا بہت
فرق آئے گا-
نماز فجر کے متعلق اہم مسائل :۔
مسئلہ:مردوں کے لئے فجر میں اوّل وقت میں نماز پڑ ھنے کے بجائے تاخیر کرنا
مستحب ہے یعنی اتنی تاخیر کرناکہ اسفار ہوجائے یعنی ایسا اجالا پھیل جائے
کہ زمین روشن ہوجائے اور آدمی ایک دوسرے کو آسانی سے پہچان سکے ۔ (
ردالمحتار)
* فجر کی نماز اسفار میں پڑ ھنے کی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے ۔ مثلاً :۔
حدیث :۔ امام ترمذی نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں ’’ فجر کی نماز
اجالے میں پڑ ھو کہ اس میں بہت عظیم ثواب ہے ۔‘‘
حدیث :۔ دیلمی کی روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ ’’ اس سے
تمہاری مغفرت ہوجائے گی ‘‘۔ اور دیلمی کی دوسری روایت میں حضرت انس سے ہی
ہے کہ ’’ جو فجر کو روشن کر کے پڑ ھے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی قبر اور دل کو
منور کریگا اور اس کی نماز قبول کرے گا ۔ ‘‘
حدیث :۔ طبرانی نے معجم اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’
میری امت ہمیشہ فطرت یعنی دین حق پر رہے گی جب تک فجر کو اجالے میں پڑ ھے
گی ۔‘‘
مسئلہ:مردوں کے لئے اسفار میں نماز فجر ایسے وقت پڑ ھنا مستحب ہے کہ چالیس
سے ساٹھ آیات ترتیل سے پڑ ھ سکے اور سلام پھیرنے کے بعد پھر اتنا وقت باقی
رہے کہ اگر نماز میں فساد واقع ہو تو طہارت کر کے ترتیل کے ساتھ چالیس سے
ساٹھ آیات تک دوبارہ پڑ ھ سکے ۔( درمختار ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۶۵)
مسئلہ:عورتوں کے لئے ہمیشہ فجر کی نماز ’’ غلس‘‘ یعنی اوّل وقت میں پڑ ھنا
مستحب ہے ۔ باقی نمازوں میں بہتر ہے کہ مردوں کی جماعت کا انتظار کریں ۔ جب
جماعت ہوجائے تب پڑ ھیں ۔ ( در مختار ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۶۶)
مسئلہ:نماز فجر میں اتنی تاخیر کرنا مکروہ ہے کہ آفتاب طلوع ہونے کاشک
ہوجائے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:سب سنتوں میں قوی تر سنت فجر ہے ۔ یہاں تک کہ بعض ائمہ دین نے اس کو
واجب کہا ہے ۔ اس کی مشروعیت کا دانستہ انکار کرنے والے کی تکفیر کی جائے
گی ۔ لہٰذا یہ سنتیں بلا عذر بیٹھ کر نہیں ہو سکتیں ۔ علاوہ ازیں سواری پر
اور چلتی گاڑ ی پر بھی نہیں ہو سکتیں ۔ ان باتوں میں سنتِ فجر کا حکم مثل
واجب کے ہے ۔ ( رد المحتار ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۴)
مسئلہ:سنت فجر کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ ( الحمد شریف) کے بعد سورہ ’’
الکافرون‘‘ ( قل یایہا الکافرون) اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد
سورہ ’’اخلاص ‘‘ ( قل ہو اللہ احد) پڑ ھنا سنت ہے ۔( غنیہ)
مسئلہ:فرض نماز کی جماعت قائم ہونے کے بعد کسی نفل و سنت کا شروع کرنا جائز
نہیں سوائے فجر کی سنت کے ۔ فجر کی سنت میں یہاں تک حکم ہے کہ اگر یہ معلوم
ہے کہ سنت پڑ ھنے کے بعد جماعت مل جائے گی اگرچہ قعدہ ہی میں شامل ہو گا تو
جماعت سے ہٹ کر مسجد کے کسی حصہ میں سنت اکیلا پڑ ھ لے اور پھر جماعت میں
شامل ہوجائے ۔(بہار شریعت ، فتاوٰی رضویہ جلد ۳ ، ص ۶۱۴)
مسئلہ:اگر فجر کی جماعت قائم ہو چکی ہے اور یہ جانتا ہے کہ اگر سنت پڑ ھتا
ہوں تو جماعت جاتی رہے گی تو سنت نہ پڑ ھے اور جماعت میں شریک ہوجائے
کیونکہ سنت کے لئے جماعت کو ترک کرنا ناجائز اور گناہ ہے ۔ ( عالمگیری ،
فتاوٰی رضویہ جلد ۳ ، ص ۳۷۰ و ۶۱۳)
مسئلہ:سنت فجر پڑ ھنے میں اگر جماعت فوت ہوجانے کا خوف ہو تو نماز کے صرف
وہی ارکان ادا کرے جو فرض اور واجب ہیں ۔ سنن اور مستحبات کو ترک کر دے
یعنی ثنا، تعوذ اور تسمیہ کو ترک کر دے اور رکوع و سجود میں صرف ایک ایک
مرتبہ تسبیح پڑ ھنے پر اکتفا کرے ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ:اگر فرض سے پہلے سنت فجر نہیں پڑ ھی ہے اور فرض کی جماعت کے بعد طلوع
آفتاب تک اگرچہ وسیع وقت باقی ہے اور اب پڑ ھنا چاہتا ہے تو جائز نہیں (
عالمگیری ، فتاوٰی رضویہ جلد ۳ ، ص ۶۲۰)
مسئلہ:نماز فجرکے فرض سے پہلے سنت فجر شروع کر کے فاسد کر دی تھی اور فرض
کے بعد اس کو پڑ ھنا چاہتا ہے ، یہ بھی جائز نہیں ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ:سنتوں کو طلوع کے بعد آفتاب بلندہونے کے بعد قضا کرے ۔ فرض کے بعد
طلوع سے پہلے پڑ ھنا جائز نہیں ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۶۲ و ۶۱۶)
نوٹ :۔ سنتوں کی قضا طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد پڑ ھے ۔
مسئلہ:اگر فجر کی نماز قضا ہوگئی اور اسی دن نصف النہار سے پہلے قضا کرتا
ہے تو فرض کے ساتھ ساتھ سنت بھی قضا کر لے ۔ سنت فجر کے علاوہ کسی اور سنت
کی قضا نہیں ہو سکتی۔ (ردالمحتار)
مسئلہ:اگر فجر کی نماز کی قضا نصف النہار کے بعد یا اس دن کے بعد کرتا ہے
تو اب سنت کی قضا نہیں ہو سکتی، صرف فرض کی قضا کرے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد
۳ ص ۶۲۰)
مسئلہ:سنت فجر پڑ ھ لی اور فرض پڑ ھ رہا تھاکہ آفتاب طوع ہونے کی وجہ سے
فرض قضا ہوگئے تو قضاپڑ ھنے میں سنت کا اعادہ نہ کرے ۔ صرف فرض کی قضا کرے
۔ ( غنیہ)
مسئلہ:طلوع فجر ( صبح صادق) سے لے کر طلوع کے بعد آفتاب بلند ہونے تک کوئی
بھی نفل نماز جائز نہیں ۔( بہار شریعت)
مسئلہ:طلوع فجر (صبح صادق) سے طلوع آفتاب تک قضا نماز پڑ ھ سکتا ہے لیکن اس
وقت مسجد میں قضانہ پڑ ھے کیونکہ لوگ نفل پڑ ھنے کاگمان کریں گے اور اگر
کسی نے اس کو ٹوک دیا تو بتانا پڑ ے گا کہ نفل نہیں بلکہ قضا پڑ ھتا ہوں
اور قضاکا ظاہر کرنا منع ہے لہٰذا اس وقت گھر میں قضا پڑ ھے ۔(فتاوٰی رضویہ
، جلد ۳، ص ۶۲۴)
مسئلہ:فجر کا پورا وقت اوّل سے آخر تک بلا کراہت ہے ۔(بحر الرائق) یعنی فجر
کی نماز اپنے وقت کے جس حصہ میں پڑ ھی جائے گی ہرگز مکروہ نہیں ۔( بہار
شریعت ، فتاوٰی رضویہ ، جلد۲، ص ۳۵۱)
مسئلہ:ایک شخص کو غسل کی حاجت ہے اگر وہ غسل کرتا ہے تو فجر کی نمازقضا
ہوجاتی ہے تو وہ شخص تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اور غسل کرنے کے بعد نماز کا
اعادہ کرے ۔( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۳۷۱)
مسئلہ:طلوع آفتاب کے وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ، نہ واجب ، نہ سنت
، نہ نفل، نہ قضا بلکہ طلوع آفتاب کے وقت سجدۂ تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز
ہے ۔ لیکن عوام الناس سے کوئی شخص طلوع آفتاب کے وقت فجر کی نماز قضا کرتا
ہو تو اس کو نماز پڑ ھنے سے روکنا نہیں چاہئے بلکہ بعد نماز اس کو مسئلہ
سمجھا دیاجائے کہ تمہاری نماز نہ ہوئی لہٰذا آفتاب بلند ہونے کے بعد پھر پڑ
ھ لیں ۔ ( بہار شریعت ، در مختار ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۷۱۴)
مسئلہ: لیکن اگر طلوع آفتاب کے وقت آیت سجدہ پڑ ھی اور اسی وقت سجدہ تلاوت
کر لیا تو جائز ہے ۔ ( فتاوی عالمگیری ، جلد۔ ۱، ص۔ ۴۹۔اور بہارشریعت ح ۔۳
، ص، ۲۱)
مسئلہ:طلوع فجر (صبح صادق) سے طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی کے سوا ہردنیوی کام
مکروہ ہے ۔ ( در مختار ، ردالمحتار، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۱ ، ص ۱۹۷)
مسئلہ:آفتاب طلوع ہونے کے وقت قرآن شریف کی تلاوت بہتر نہیں لہٰذا بہتر یہ
ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت (بیس منٹ تک ) تلاوت قرآن کے بدلے ذکر و درود شریف
میں مشغول رہے ۔ ( در مختار )
مسئلہ:طلوع آفتاب کے وقت تلاوت قرآن مکروہ ہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ،
ص۳۵۹)
مسئلہ:نماز فجر میں سلام سے پہلے اگر آفتاب کا ایک ذرا سا کنارہ طلوع ہوا
تو نماز نہ ہو گی۔ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۶۰)
مسئلہ:سنت فجر ، واجب اور فرض نماز چلتی ٹرین میں نہیں ہو سکتیں ۔ اگرٹرین
نہ ٹھہرے اور نماز کا وقت نکل جاتا ہو تو چلتی ٹرین پر پڑ ھ لے اور جب ٹرین
ٹھہرے تب نماز کا اعادہ کر لے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۴) |