چند سال قبل ہمارا ایک مضمون
انڈیا کے رسالے سہ ماہی ”ترسیل“ ممبئی میں جس کے مدیر ڈاکٹر فراز حامدی تھے‘
شائع ہوا‘ جو جمیل الرحمن نامی شخص کی آزاد شاعری سے متعلق کچھ فنّی نکات
پر مبنی سرسری مطالعے کے بعد قلم بند کیا گیا تھا۔ یہی مضمون ہم نے جرمنی
سے نکلنے والے اردو رسالے ’جدید ادب‘ میں بھی اشاعت کے لیے اس کے مدیر حیدر
قریشی کو ارسال کر دیا۔ مضمون کی وصولی کی اطلاع اور مضمون میں کچھ تبدیلی
کے لیے حیدر قریشی نے فون پر ہم سے بات بھی کی۔ ہم نے اپنی زندگی میں جو
کچھ لکھا‘ وہ بہت سوچ سمجھ کر اور فنّ و علم کی روشنی ہی میں لکھا۔ ہماری
کسی تحریر میں اخلاقی، تہذیبی، زبان و بیان، فنّی و علمی اور آدابِ تحریر
کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہم نے ادبی جارحیت اور ادنیٰ
یا عامیانہ درجے کا انداز اختیار کیا۔ ہم نے جب بھی بات کی تو وہ صرف اور
صرف قواعد و اصول کی بات کی۔
حیدر قریشی نے فون پر مضمون کو حقیقت پر مبنی قرار دینے کے باوجود درخواست
کی کہ ہم مضمون میں تنقید کے ساتھ ساتھ کچھ توصیفی کلمات بھی لکھ دیں تاکہ
مضمون میں توازن پیدا ہو جائے۔ ہمیں اُن کی یہ بات دل کو لگی اور ہم نے
اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مضمون کے ابتدائی پیرائے کو حذف کر کے
آخری پیرائے کا اضافہ کر دیا۔ جس میں جمیل الرحمن کے بارے میں مذکورہ
درخواست گزار کے مطابق ستائش کو شامل کر دیا۔ ابتدائی پیرائے میں جمیل
الرحمن کے ساتھ ساتھ اُن کے ہم خیال قسم کے متشاعروں‘ ساقی فاروقی، اسد
مفتی وغیرہ وغیرہ کا ذکر تھا۔ مضمون کو تبدیل کرنے کے بعد ہم نے حیدر قریشی
کو دوبارہ روانہ کیا اور انڈیا بھی روانہ کر کے ہم نے فون پر ڈاکٹر فراز
حامدی سے کہا کہ وہ پہلے والے مضمون کو اشاعت سے روک دیں اور تبدیل شدہ
مضمون کا انتظار کریں۔ فراز حامدی نے بتایا کہ مضمون کتابت کے لیے جا چکا
ہے۔ لیکن اسے شائع نہیں کریں گے‘ جب تک ہماری طرف سے اجازت نہیں مل جاتی۔
حیدر قریشی نے بھی آنے والے شمارے میں مضمون کو شامل کرنے کا پکّا وعدہ کر
لیا۔ اِس دوران ہم پاکستان چلے گئے اور وہیں پر ہم نے انٹرنیٹ پر ”جدید
ادب“ کے نئے شمارے کو دیکھا۔ لیکن اُس میں ہمارا مضمون شامل نہیں تھا۔ ہمیں
بڑی حیرت ہوئی۔ ہم نے حیدر قریشی کو کراچی ہی سے فون کیا اور مضمون نہ
چھپنے کی وضاحت چاہی۔ حیدر قریشی نے معذرت کرتے ہوئے یہ عذر پیش کیا کہ وہ
گوپی چند نارنگ کے ساتھ معرکے سے دو چار ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے ایک اور
ادبی معرکہ شروع کرنے کے لیے اپنے اندر حوصلہ نہیں پایا۔ بہرحال ہمیں اُن
کی اِس بات پر افسوس بھی ہوا اور یہ احساس بھی کہ صحافتی بددیانتی سے اگر
گریز کیا جاتا تو بہتر تھا۔ ہم نے واپس ہالینڈ آ کر ڈاکٹر فراز حامدی کو
فون کیا اور کہا کہ وہ مضمون کو کسی آنے والے شمارے میں شامل کر دیں۔ فراز
حامدی نے مضمون جولائی۔ ستمبر 2009ءکے شمارے میں شامل کر دیا۔ جب ”ترسیل“
ہمارے پاس پہنچا تو اُس میں تبدیل شدہ مضمون کے بجائے پہلے والا یعنی اصل
مضمون شائع کیا گیا تھا۔ ہم خاموش رہے اور کسی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
ہم نے مضمون کی فوٹو کاپیاں بنوا کر حیدر قریشی اور جمیل الرحمن کے علاوہ
دیگر لوگوں کو بھی روانہ کر دیں۔ حیدر قریشی نے فون پر حیرت کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ مضمون تو اصل مسوّدے والا شائع ہوا ہے۔ ہم نے جواب میں کہا کہ
بس ہر مدیر کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔
جمیل الرحمن، ساقی فاروقی اور اسد مفتی قسم کے متشاعر جو اپنے علاوہ کسی کو
شاعر نہیں مانتے۔ جب کہ اُن کی اپنی علمی استعداد سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
جمیل الرحمن سے ہماری پہلی ملاقات ہماری اپنی ہی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔
ہمارے یہاں ایک مخصوص ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا اور کسی کی رائے پر
جمیل الرحمن کو جو ایمسٹرڈم میں رہتے تھے‘ اُس نشست میں آنے کی دعوت دی۔
اُس وقت تک ہمیں اُن کے فکر و فن کا پتا نہیں تھا اور نہ ہی ہم اُن کے نام
سے واقف تھے۔
ہالینڈ میں مقیم چند شعراءاور چند نئے لکھنے والے بھی شریکِ محفل ہوئے۔ اُس
ادبی نشست کی صدارت کے لیے ہم نے ناصر نظامی کو صدارت کی کرسی پر آنے کی
دعوت دی تو ہمیں محسوس ہوا کہ محفل میں چند شعراءکے چہرے کے تاثرات متغیّر
سے ہو گئے تھے۔ ہم نے کوئی توجہ نہیں دی اور شعراءاپنا کلام سنانے لگے۔
جمیل الرحمن نے بھی اپنی پٹاری سے ثقالت سے پُر کلام نکال کر سامعین کے
سروں سے گزار دیا۔ اختتامِ نشست کے بعد چائے وغیرہ کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ
چلتا رہا۔ اِس دوران جمیل الرحمن ہم سے مل کر اپنی حیرانگی کا اظہار کرتے
رہے کہ ہم تو کوئی اور صاحب نظر آ رہے ہیں۔ ہم نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ
ہم یہ سوچنے لگے کہ اُنھوں نے ہمیں پہلے کہاں دیکھا ہے؟۔ جو وہ سوال کر رہے
ہیں۔ جب وہ بار بار پوچھتے رہے تو ہم نے کہہ دیا کہ بس بوڑھے ہو رہے ہیں‘
تبدیلی تو پھر لازمی ہوگی۔ باتوں باتوں میں جمیل الرحمن‘ ناصر نظامی سے
الجھ پڑے اور اُنہیں لعنت ملامت کرنے لگے کہ اُنہیں احسان سہگل کی موجودگی
میں صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کا حوصلہ کیسے ہوا۔ جن کی ادبی خدمات سب جانتے
ہیں۔ ناصر نظامی سٹپٹا گئے۔ اُن کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم نے اُن
سے صدارت کرانا تھی۔ ہم معاملے کی سنگینی کو بھانپ گئے اور جمیل الرحمن سے
عرض کیا کہ ہم نے خود ناصر نظامی کو صدارت کے لیے منتخب کیا ہے کیوں کہ ہم
یہاں میزبان ہیں اور یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم میزبان کی حیثیت سے خود صدارت کے
حق دار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم صدارت کریں۔ دراصل وہ
جلے بھنے بیٹھے تھے کہ اُن سے صدارت کی درخواست کیوں نہیں کی گئی تھی۔ اُن
کی پھنّے خانی اور خود ستائی کا تو ہمیں بعد میں پتا چلا لیکن اِس کے
باوجود ہمیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ جمیل الرحمن عقلِ کُل کے گھوڑے پر سوار
سب کو روندنے کی کوشش میں ہیں۔
اُس ادبی نشست کے بعد جمیل الرحمن ہمارے گُن گاتے رہے اور ہمیں ہند و پاک
اور یورپ میں واحد شاعر گردانتے رہے جو علمِ عروض کے بارے میں اور وہ بھی
اِس دَور میں عبور رکھتا ہو۔ ایک دفعہ ایمسٹرڈم میں ارشاد قمر بخاری کے گھر
ادبی نشست میں برطانیہ سے منصور آفاق آئے ہوئے تھے۔ جمیل الرحمن ہماری شان
میں قصیدے پڑھنے لگے اور منصور آفاق سے ہمارے فن کی خوبیاں بیان کرنے لگے۔
منصور آفاق کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ اُنہوں نے جمیل الرحمن کے کان
میں کچھ کہا۔ جمیل الرحمن ہمیں کچھ دُور لے جا کر بولے کہ منصور آفاق اِس
مصرعے کی بحر جاننا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے مصرع پڑھا۔ ہم نے جمیل کو منصور
آفاق کے پاس واپس بھیجتے ہوئے اُن سے مصرع لکھوا کر لے آنے کے لیے کہا۔ وہ
مصرع لکھ کر لے آئے۔ ہم نے دیکھ کر کہا کہ یہ بحرِ متدارک کے رکن ”فاعلن“
پر پانچ مرتبہ باندھا گیا ہے حالاں کہ مروج بحر کے ارکان چار ہیں۔ جمیل نے
واپس جا کر منصور آفاق کو بتایا تو ہم نے اُن کی آواز سنی۔ ”Well done“ ہم
دل میں مسکراتے رہے کہ ان سادہ لوح شاعروں کو کسی کا امتحان بھی لینا نہیں
آتا۔
کچھ عرصہ جمیل الرحمن ہمارے ساتھ رابطے میں رہے اور گا ہے گاہے فون کر کے
ہمیں ہمارے اقبال اور غالب پر تحقیقی کام کو جلد مکمل کرنے کی خواہش کا
اظہار کرتے رہتے یا تو اپنی بے وزن غزلوں اور اشعار کے بارے میں تصدیق
کراتے۔ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ وہ پس پردہ ہماری شاعری اور فن کے بارے میں
زہر بھی اُگلتے رہتے ہیں۔ دراصل ہم نے جمیل کو کوئی حیثیت ہی نہیں دی تھی۔
اُن کے کسی چاہنے والے سے پتا چلا کہ وہ ہمیں شاعر نہیں سمجھتے۔ ہمیں اُن
کے علم کی مہارت کی حدود کا پتا چل گیا کہ جو شخص احمد ندیم قاسمی، احمد
فراز اور بڑے بڑے شعراءکو نہیں مانتا‘ وہ ہمیں کیسے مانے گا۔ ہم نے اُنہیں
کوئی اہمیت نہیں دی جسے اُنہوں نے اپنی توہین سمجھا۔ اُس کے بعد ہمارا اُن
سے رابطہ قائم نہیں رہا۔
کبھی کبھار ایک صاحب جو اُن کی لفّاظی کے سحر اور حصار میں مقید تھے‘ دبی
دبی زبان میں ہمارے بارے میں اُن کے خیالات کا ذکر کر دیتے تھے‘ ہم نے کبھی
اُن کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا تھاکیوں کہ اِس قبیح کے لوگ تو ہماری ادبی
زندگی کے آغاز ہی سے ارد گرد موجود تھے۔
ہمیں یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ 1980ءکی دہائی میں جمیل الرحمن، اسد مفتی،
ناصر نظامی اور ارشاد قمر بخاری وغیرہ نے ایمسٹرڈم میں ادبی تنظیم کی بنیاد
رکھی تھی‘ جس میں جمیل الرحمن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ناصر نظامی کی
ادبی خدمات کو اور اُنہیں معتبر شاعر مانتے ہوئے تنظیم کا صدر اور جنرل
سیکڑیٹری بنوا دیا لیکن بعد میں ایک دوسرے کو شاعر نہ مانتے ہوئے الگ ہو
گئے اور تنظیم ختم ہو گئی۔
جمیل الرحمن کو ہم نے اپنے کچھ کلام کے مجموعے مطالعے کے لیے دے دیئے تھے۔
اُن مجموعوں میں یورپ اور ہندو پاک کے اسکالرز، ڈاکٹرز اور پروفیسرز کے
علاوہ ممتاز شعراءاور ادباءکے ستائشی مضامین کے اقتباس اور خطوط بھی شامل
کر دئیے تھے۔ ہم جب بائیس (22) تئیس (23) سال کی عمر میں روز نامہ آغاز
کراچی میں سینئر سب ایڈیٹر اور ادبی میگزین اور طلبہ کے صفحات کے انچارج
تھے‘ ہمارا مجموعہ کلام ”شہرِ جذبات“ شائع ہوا تھا۔ جس پر ابنِ انشاءنے ہفت
روزہ اخبارِ جہاں کراچی میں مختلف مہینوں میں دو مکمل کالم لکھے تھے اور
ہماری نئی بحروں میں کی گئی شاعری پر گفتگو کی تھی‘ جس میں تنقید بھی تھی‘
مزاح بھی تھا اور ستائش بھی تھی اور ہماری شاعرانہ اور عروضی استعداد کو
تسلیم بھی کیا تھا اور مزید ترقی کی دعا بھی دی تھی۔ جمیل الرحمن چوں کہ
اپنے خصوصی انداز سے کسی بھی تحریر یا شعر سے جو مفہوم اخذ کرتے ہیں‘ اُس
کو منوانے کے لیے گالی گلوچ پر اُتر آنا اُن کی فطرت ہے۔ عادت ہوتی تو شاید
بدل جاتی لیکن فطرت کبھی نہیں بدلتی۔
اب ایسے اندھے سے کیا بات کی جائے جنہیں خوردبین سے بھی کچھ نظر نہ آئے جب
کہ ہمارے مجموعہ کلام یا کلیات ”ضربِ سخن“ کے صفحات درجنوں اہلِ قلم کی
مثبت اور ستائش آمیز آراءسے بھرے پڑے ہیں۔ ہمیں اُن سے کیا لینا دینا۔ اُن
کی ادبی حیثیت ہی کیا ہے۔
بہرحال کافی عرصے بعد جمیل الرحمن نے ایک آزاد نظموں کا مجموعہ جو 2009ءمیں
شائع ہوا۔ کسی صاحب کے ذریعے ہمیں بھجوایا تھا۔ جسے پڑھ کر اُن کے عالمانہ
وقار کی قلعی کھل گئی اور ہم نے اُن کے کلام پر ایک مضمون لکھ ڈالا۔
حیدر قریشی کا ایک دن فون آیا کہ ہم گوگل کی ”بزمِ قلم“ میں ہونے والے ادبی
مباحثے پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم نے حیدر قریشی کو بتایا کہ ہم پہلے ہی اِس
مباحثے کا روزانہ مطالعہ کر رہے ہیں۔ حیدر قریشی کی خواہش کے مطابق ہم نے
بھی اپنا دامن بچاتے ہوئے مباحثے کو کردار کشی کے بجائے ادبی اور فنی
مکالمہ بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ اُس مباحثے میں اب گوپی چند نارنگ کے
بجائے حیدر قریشی کے تیر کا نشانہ کوئی ”شاہد بھنڈر“ نامی شخص تھا۔ جس نے
گوپی چند نارنگ پر انگریزی کتاب سے چربہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اِس بحث
کے دوران حیدر قریشی نے ہمیں ہمارے اِی میل پر وہ مضمون بھیجا‘ جس میں ہم
نے اُن کے کہنے پر جمیل الرحمن کی ستائش پر مبنی پیرا بھی شامل کر دیا تھا۔
قریشی صاحب اب دو سال بعد اچانک اُسے ”جدید ادب“ میں شائع کرنے پر کمر بستہ
ہوگئے تھے۔ ہم نے مضمون پر ایک نظر ڈالی اور کچھ پروف کی غلطیاں نوٹ کر کے
حیدر قریشی کو بتا دیا۔ ہمیں اب ”جدید ادب“ میں مضمون کے شائع ہونے یا نہ
ہونے کی کوئی اہمیت نظر نہیں آئی۔ البتہ ہم نے حیدر قریشی سے اتنا ضرور کہا
کہ اِس مضمون کے شائع ہونے سے ہم سے جرح کی جا سکتی ہے کہ جو مضمون دو سال
قبل ”ترسیل“ انڈیا میں شائع ہوا تھا۔ وہ سخت تھا اور یہ ”جدید ادب“ میں
نرمی کیوں برتی گئی ہے۔ بہرحال ہم نے اِس معاملے میں کوئی زیادہ دلچسپی
نہیں لی اور نہ ہی یہ خیال کیا کہ اب اِس مضمون کی دوبارہ اشاعت کی کوئی
ضرورت ہے کیوں کہ جن پر مضمون لکھا گیا تھا‘ اُنہوں نے اُس مضمون کو
سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا۔ لیکن جب مضمون ”جدید ادب“ میں شائع ہوا تو
خطرے کے سائرن سنائی دینے لگے اور آخر ”طاقت ور“ جن بوتل سے نکلنے پر مجبور
ہو گیا۔
حیدر قریشی صاحب تو ہر وقت اُنہیں بوتل میں بند کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ لیکن
اب کی بار یہ بوتل کا جن حیدر قریشی سے نہیں ابو الشاعر احسان سہگل سے بر
سرِ پیکار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے جنوں کو بوتل سے باہر آنے پر کیسے
خاموش کر کے بٹھایا جاتا ہے۔
اب ہم اُن کے جوابی مضمون کی طرف آتے ہیں جو اُنہوں نے دو سال کی جھک مارنے
کے بعد اپنے ہی قلم اور علم کو بے آبرو کرنے کے سزاوار ہوئے۔ ہم ابتدا اُن
ہی کے اختتامی پیرائے سے کرتے ہیں۔ اُنہوں نے نصیحت فرماتے ہوئے لکھا ہے
کہ”بزرگوں نے کہا ہے کہ ہر سوراخ میں انگلی نہیں ’ڈالنا‘ چاہیے۔ ہو سکتا
ہے‘ کسی سوراخ میں سانپ بھی موجود ہو“۔
انہوں نے کم از کم یہ بات تسلیم کرتے ہوئے ضرور اقرار کیا ہے ”اپنے سانپ
ہونے کا“۔ لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں کہ سپیرے کا کام ہی ہر سوراخ میں
انگلی ڈال کر سانپ پکڑنا ہے۔ سانپ کی خصلت ہی ڈنک مارنا ہے۔ اِس کے علاوہ
خدا نے اُسے اور کچھ دیا بھی نہیں ہے۔ اب اُنہوں نے خود ہی اپنی تعریف پیش
کر دی ہے تو ہمیں انکار یا اعتراض کیوں ہوگا۔ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ
ہم جو نغمگی، ردھم اور وجد سے بھر پور بین بجانے جا رہے ہیں۔ وہ سانپ سن تو
نہیں سکے گا کہ وہ فطری طور پر سماعت جیسی نعمت سے محروم ہے۔ ہاں البتہ بین
اور سپیرے کی ”حرکت“ کو بھانپ کر ڈنک مارنے کی کوشش ضرور کرے گا۔
ستارہ ہے گردش میں دن رات کا
ہوا ہے وہی‘ ڈر تھا جس بات کا
موصوف آگے بھی سچ ہی لکھتے ہیں۔
”علم و ادب شیرِ مادر کی طرح ہاتھ نہیں لگتے (لگتا ہونا چاہئے) اور کسی سطح
پر اگر ہاتھ لگ بھی جائیں۔ (جائے)تو جان توڑ ریاضت نہ کی جائے۔ ہضم نہیں
ہوتے (ہوتا)“۔
ہم اُن کی اِس بدہضمی پر ہمدردی ہی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ہم اُن کی اِس
بات پر بھی سرِ تسلیم خم کرتے ہیں کہ ”جہالت کی بھی ایک حد ہوتی ہے“۔ جس کا
ثبوت اُن کا جوابی مضمون ہے۔
آئیے اب ہم اُن کے جوابی مضمون سے ترتیب وار نکات کی بات کرتے ہیں اور ہم
اِس بات کا حتّی المقدور خیال اور پاس رکھیں گے کہ اُن کی طرح ہماری تحریر
میں اخلاقی و تہذیبی اقدار اور گفتگو کے آداب کی دھجیاں اُڑانے کا ارتکاب
نہ ہو۔ اگر کہیں ہماری بات اخلاقی حدود سے تجاوز کر جائے تو ہمیں معاف رکھا
جائے کہ سوال کا جوابی نقاضا یہی تھا۔
اُنہوں نے اپنے جوابی مضمون کی ابتدا ”جدید ادب“ پر کیچڑ پھینکنے سے کی ہے۔
حالاں کہ وہ خود بھی اُس میں لکھتے رہتے ہیں۔ جب رسالہ ”چھیتڑا“ ہے تو اُس
میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اِس کا تفصیلی جواب تو اُن کو حیدر قریشی ہی
دیں گے۔ ہم کیا لکھیں۔
اُنہوں نے حیدر قریشی کے بارے میں لکھا ہے کہ”میں نے اُنہیں کبھی اِس قابل
ہی نہیں سمجھا کہ اُن کی الزام تراشیوں اور یا وہ گوئی کو ’قابلِ لحاظ‘
سمجھ کر اپنا وقت ضائع کروں“۔
موصوف کبھی کسی فرصت کے وقت ’قابلِ لحاظ‘ کو صحیح استعمال کرنے کا سلیقہ
سیکھ لیں۔ ہم بتائیں گے تو گستاخی ہوگی‘ اتنے بڑے عالم کی شان میں۔
ہم اُن کے مضمون کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور خامیوں پر زیادہ توجہ نہیں دیں
گے‘ تاکہ ہماری بات زیادہ طویل نہ ہو۔ بعض وضاحت طلب باتوں کو بھی مختصر
طور پر ہی بیان کیا جائے گا۔ ہاں البتہ جہاں اُن کی چالیس سالہ ”جھک“ نظر
آئی۔ وہ ضرور زیرِ بحث لائیں گے۔
آگے چل کر جمیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ” وہ اپنے ذاتی حوالے سے کسی بات کا
جواب دینا اب بھی پسند نہیں کرتے“۔ کاش کہ وہ اِس پر عمل بھی کرتے اور وہ
اپنی رہی سہی ادبی آبرو قائم رکھ سکتے۔ اب اگر اُنہوں نے اپنی ادبی زندگی
کو ہم ایسے اجتہاد پسند اور تنقیدی سرجن کے سامنے پیش کر ہی دیا ہے تو ”اب
آپریشن تو ہوگا ہی“ تاکہ اُن کو ادبی موت سے بچایا جائے اور نئی نسل کو
دِکھایا جائے کہ ایسا کرو گے تو اپنی ادبی موت خود مرو گے۔
جمیل الرحمن نے اپنے تئیں ہمارا یا ہمارے علم کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے
کہ
”کوئی باہوش شخص تو درد اور مرض کو قریب المفہوم تو کیا بعید المفہوم بھی
قرار نہیں دے سکتا“۔
اس سے پہلے کہ ہم اِس سوال کا جواب دیں۔ اُنہیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ
صحتِ زبان اور الفاظ کا درست استعمال نہ ہو تو جواب بھی معنوی لحاظ سے غلط
ہو جائے گا۔ موصوف ماہرِ زبان ہیں لیکن اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ مندرجہ
بالا پیرائے میں ”باہوش“ استعمال ہونا چاہئے تھا یا ”ذی ہوش“ استعمال ہونا
چاہئے تھا۔ اب ماہرین خود فیصلہ کر لیں کہ موصوف کی قابلیت کتنی ہے؟ بہر
حال اوّل تو ہم نے درد اور مرض کو قریب المفہوم یا بعید المفہوم ہونے کا
ذکر ہی نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی بتائے دیتے ہیں کہ ہر لفظ کے لفظی، معنوی
اور اصطلاحی معنی بھی ہوتے ہیں۔ کبھی لغت دیکھنے کی بھی زحمت کر لیں تو
اُنہی کا فائدہ ہے۔ مگر پھر وہی کہنا پڑتا ہے کہ موصوف جس لفظ کا تعین کر
لیں۔ اُس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب ہم کر
بھی کیا سکتے ہیں؟۔
اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی مثال
میں غالب کا جو شعر پیش کیا تھا۔ وہ غالب کے مرتبے کو کم کرنے یا خود اُن
کے مقابل کھڑا ہونے کے لیے نہیں تھا۔ وہ تو صرف اُن ادبی بونے کے لیے تھا
جو مہارت کا دعویٰ کرتے ہوئے تھکتے ہی نہیں ہیں۔
لطف کی بات دیکھئے کہ وہ اپنے ارشاد سے ہمارے ہی موقف کی تائید کر رہے ہیں۔
لکھتے ہیں۔
”درد اور مرض ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم نہیں ہیں‘ ایک آدمی کسی مرض
میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اُسے درد بھی ہو۔ اِسی طرح جسے درد
ہو‘ ضروری نہیں کہ اُسے کوئی مرض بھی لاحق ہو“۔
مندرجہ بالا پیرائے میں جمیل الرحمن نے بڑا انوکھا اور نازک نقطہ اٹھایا
ہے۔ اہلِ فکر و نظر کو بڑی باریک بینی کے ساتھ دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔
موصوف نے طبّی نکتہ نظر بھی بیان کر دیا ہے ۔ لہٰذا ہم تو یہ پوچھنے میں حق
بجانب ہیں کہ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ دُنیا میں وہ کون سا مرض ہے‘ جس سے
تکلیف، درد یا پریشانی نہیں ہوتی؟ پریشانی بھی ایک قسم کا ”درد“ ہی ہے اور
یہ دردِ دل ہو، دردِ عشق ہو یا کوئی سا بھی درد ہو۔ وہ ایک روگ ہی ہوتا ہے
اور روگ کا دوسرا نام ”مرض“ ہی ہے۔
چلئے۔ اگر اُن کی نظر میں۔۔ جب ”درد“ ہے اور ضروری نہیں کہ کوئی مرض بھی
ہو۔ اور اگر ”درد“ ”مرض“ نہیں ہے تو یہ بات تو بڑی عام فہم (Common Sense)
بن جاتی ہے کہ پھر ”دوا“ کی ضرورت نہیں۔ جب کہ مرزا غالب فرما رہے ہیں۔
آخر اِس ”درد“ کی ”دوا“ کیا ہے؟
”درد“ کو غالب نے ”مرض“ سمجھا تو ”دوا“ کا سوال کیا ہے۔ ثابت ہوا کہ غالب
نے یہاں درد کو ”مرض“ ہی کے مفہوم میں استعمال کر کے ”گنجینہ معنی“ کا حق
ادا کر دیا۔
غالب نے کسی لفظ کو متعین کرنے کی ہر گز بات نہیں کی۔ اگر یہ جمیل الرحمن
کی سمجھ میں نہیں آئی تو یہ اُن کی چالیس سالہ ”جھک“ پر دال ہے۔ اگر غالب
بھی جمیل الرحمن ہوتا تو وہ یقینا لفظ کا تعین کر کے ”مرض“ استعمال کرتا
اور وزن کا ستیاناس کر کے کہتا۔ ”ابتدا میں شاعری ایسے ہی ہوا کرتی تھی۔
عروضی مرکزیت کس بلا کا نام ہے“۔ یقینا علمِ عروض جمیل الرحمن جیسے شعراءکے
لیے ایک ”بلا“ ہی ہے۔
غالب پر تنقید کرنے سے کہیں بھی منع نہیں کیا گیا ہے اور ہم تو غالب اور
اقبال اور اردو شاعری کے عروضی ارتقاء پر تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے۔ جس میں
بڑے بڑے (غالب سمیت) شعراءکی عروضی غلطیوں کو طشت ازبام کیا ہوا ہے۔ اُس
میں فن و علم پر بحث ہے نہ کہ کسی کی شان یا شخصیت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔
یہ تو سب ادبی محقق جانتے ہیں کہ غالب کی چند رباعیاں بھی رباعی کے 24
اوزان میں سے کسی بھی وزن پر پوری نہیں اترتی ہیں۔ تو کیا وہ محققین ”جاہلِ
مطلق“ بن گئے یا اُنہوں نے غالب کا شعری وقار کم کر دیا۔ انگریز اسکالر
رالف رسل تو میر تقی میر کو غالب سے بہت برتر سمجھتے تھے۔ کیا وہ بھی اپنی
اِس رائے سے جاہلِ مطلق گردانے جائیں گے؟۔ کوئی بھی کسی فن میں کامل نہیں‘
یہ دعویٰ تو صرف جمیل الرحمن کو ہے۔ موصوف اور اُن ایسے لوگوں کو یہی معلوم
نہیں کہ علمِ عروض کہتے کسے ہیں۔ چند موزوں طبع شعراءکی یہ منطق کہ شاعری
کے لیے علمِ عروض کی کوئی اہمیت نہیں‘ وہ اپنی کم مائیگی کو چُھپانے اور
اپنا بھرم رکھنے کے لیے ایسا بول دیتے ہیں۔ حالاں کہ شاعری وہ بھی کرتے
عروضی علم ہی پر ہیں۔ چاہے وہ انگلیوں کی پوروں پر گن کر مصرعے فٹ کریں یا
کسی اور طریقے سے۔ کہلائیں گے عروضی آہنگ اور اصول ہی۔ گو کہ غیر تحریری
ہوتے ہیں۔ خلیل ابنِ احمد بصری اور دیگر نے جو بحور ایجاد کیں، وہ موسیقی
ہی کو پیشِ نظر رکھ کر کیں۔ موسیقی سے بڑھ کر تر اور لطیف شے اور کیا ہو
سکتی ہے ۔ ہر بحر اپنی موسیقی خود متعین کر لیتی ہے۔ شاعر کو الفاظ پر اور
خیال کو پرونے کی قدرت حاصل ہونا چاہئے۔ شعر یا مصرعِ تر بنانے سے نہیں
بنتا، بحور کے استعمال اور الفاظ کے انتخاب سے شعر یا مصرع نہ صرف تر ہوتا
ہے بلکہ بلندی خیال بھی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ اُسے کسی خورد بین سے
ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اُسے دل و دماغ سے محسوس کرنے کی ضرورت
ہوتی ہے۔ جس کے پاس نہ دل ہو اور نہ دماغ ہو‘ وہ مصرعِ تر موجود ہونے کے
باوجود خوردبین سے بھی تلاش نہیں کر سکتا کہ اُس کے پاس لطیف حس ہی نہیں
ہے۔ جو شخص عقل سے پیدل اور عقل سے اندھا ہو‘ وہ بھلا لطفِ شعر اور مفہومِ
خیال تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ یہ خوبیاں تو شعوری نظر رکھنے والے ہی کو
دِکھائی دیتی ہیں۔
جمیل الرحمن اپنی عقلی کسوٹی پر ہماری سیدھی سادھی باتوں کا بھی مطلب نہیں
پرکھ سکے۔ اُنہیں اب خود ہی بتا دینا چاہئے کہ اردو کی کس لغت میں مصدر یا
حاصلِ مصدر کرنا، کھانا، پینا کی بجائے کرنی، کھانی، پینی درج ہے۔ موصوف کو
سرے سے نہ مصدر کا پتا ہے اور نہ ہی حاصلِ مصدر کا۔ ایسے ہی ہانک دینا‘
پسماندگی کی دلیل ہے۔ ہم نے اُن کی آزاد شاعری کے مجموعے کو سرسری طور پر
پڑھ کر جو مضمون لکھا تھا‘ وہ نہایت سوچ سمجھ ہی کر لکھا تھا۔ صرف دل
بہلانے یا اُن کو پریشان یا ستانے کے لیے مذاق نہیں کیا تھا بلکہ سنجیدگی
کے ساتھ علم و فن، زبان اور قواعد کی بات کی تھی‘ جو ہم نے اپنی طرف سے
نہیں گھڑ لی تھی۔ اگر ہماری بات یا ہمارا حوالہ غلط ثابت ہوتا ہے تو اِس کے
ذمّے دار وہ تخلیق کار ہیں جن کی کتابیں ہمارا ادبی ورثہ ہیں۔ کم از کم ہم
اپنے ادبی ورثے کو غلط کہنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ یہ مقام تو جمیل الرحمن
ہی کو زیب دیتا ہے کیوں کہ وہ سمندر کو اپنے چھینٹوں سے شکست دینے نکلے
ہیں۔
آئیے۔ ہم اختصار کے ساتھ مصدر اور حاصلِ مصدر کے بارے میں ایک اقتباس نقل
کرتے ہیں۔
کتاب : فکر و فن
مصنّف : حکیم مولانا انجم فوقی
ناشر : سر سید اکیڈمی۔ اردو بازار
کراچی 1974ئ
صفحہ نمبر 192
نوٹ : مصدر مرکب۔
۱۔ رات کرنا، روٹی کھانا، بات سننا وغیرہ۔ مصدر مرکب ہمیشہ مذکّر استعمال
ہوتا ہے۔ بعض اہلِ زبان رات کرنی بھی کہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک رات مونث ہے۔
لہٰذا فعل کو بھی تانیث لکھنا چاہئے مگر وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ کرنا فعلِ
مصدری ہے اور علامتِ مصدری ”نا“ ہے ”نی“ نہیں ہے۔
۲۔ ایک صاحب فرمانے لگے کہ امر کی صورت میں رات کرنا ہی لکھنا فصیح ہے باقی
حالات میں رات کرنی لکھنا چاہئے۔
افسوس ہے کہ وہ بھی یہ نہیں سمجھتے کہ امر میں ”نا“ نہیں پایا جاتا ہے مصدر
کا ”نا“ دُور کرنے سے امر ہوتا ہے اور جب امر میں ”نا“ ہوگا تو وہ امر نہیں
رہے گا۔
مصدر:
”وہ کلمہ جس سے اور بہت سے الفاظ نکلتے ہوں۔ جیسے کھانا، کھاؤ، کھایا،
کھائیں، وغیرہ۔ مصدر کی علامت ’نا‘ ہے جو لفظ کے آخر میں ہو۔ جیسے۔ جانا،
آنا، لکھنا وغیرہ ہیں۔ مگر یہ کلیہ اُس لفظ وقت تک بروئے کار نہیں آ سکتا۔
جب تک اُس ’نا‘ سے لفظ میں کام کرنے یا ہونے کے معنی مراد نہ ہوں“۔
حاصلِ مصدر:
اردو میں اِس کے بنانے کے قاعدے یہ ہیں:
”۱۔ کبھی علامت ’نا‘ کو دُور کر کے نون کو ساکن اور ماقبل نون کو مفتوح کر
دیتے ہیں۔ جیسے چلنا سے چلن۔ تھکنا سے تھکن وغیرہ“۔
یہاں اِتنا حوالہ ہی کافی اور مناسب ہے۔ اِس حوالے میں یا دوسری کتابوں میں
یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ حاصلِ مصدر ”کرنا“ سے ”کرنی“ ہو سکتا ہے۔ جمیل
الرحمن نے سوچے سمجھے بغیر مصدر کا ذکر تو کر دیا لیکن وہ اِس کی ”ابجد“ سے
بھی واقف نہیں ہیں۔
جمیل الرحمن نے ہمیں طنز کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ
”جی لو۔ شیخانِ شیخ حضرتِ احسان سہگل“
ہمیں اِس پر اعتراض نہیں ہے کہ اُنہوں نے ہمیں ”شیخانِ شیخ“ قرار کیوں دیا؟
یہ اُن کی اپنی مرضی ہے۔ جس طرح چاہیں دُنیا والوں کو خطاب دیتے رہیں۔ کوئی
کسی کو روک نہیں سکتا۔ ہمیں تو رونا صرف اُن کی ”زبان دانی“ پر آ رہا ہے۔
زبان درازی پر نہیں۔ اُنہیں اِتنا بھی معلوم نہیں کہ ”شیخانِ شیخ“ کی بجائے
”شیخِ شیخان“ قواعد و زبان کی رُو سے درست ہے۔
موصوف نے ”ناوقت“ پر ہمارے اعتراض کی توضیح کا تقاضا کیا ہے کہ ”آخر اِس
ترکیب میں خرابی کیا ہے؟“۔ اب بچّوں کی طرح اُن کو چھوٹی چھوٹی بات سمجھانا
بھی پڑے گی۔ اُنہیں یہ احساس تک نہیں ہوا کہ “ناوقت“ کو استعمال کرنے سے کس
قدر ”ابہام“ پیدا ہو رہا ہے۔ زبان اور فصاحت کی خرابی کا تو ذکر ہی
چھوڑیئے۔ اُنہوں نے نئی نسل کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ اب وہ آسانی کے
ساتھ موصوف کی تقلید کرتے ہوئے بے دل کو نا دل اور بے قرار کو نا قرار اور
اِسی طرح کے دوسرے لفظوں کو استعمال کر کے ثبوت میں اُن کا حوالہ دے گی اور
مرحوم رئیس امرہوی کی رُوح پھر سے چیخ اٹھے گی۔ ”اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم
سے نکلے“
آگے جمیل الرحمن کی ہرزہ سرائی پر بھی نظر ڈالتے چلئے۔
”اب کہیے۔ کیا اب بھی آپ کو شکایت ہے کہ متشاعروں کی فوج ظفر موج کہاں سے
پیدا ہو جاتی ہے۔ جناب تبھی پیدا ہوتی ہے۔ جب کسی بندے کو 65 سال کی عمر
میں بھی یہ علم نہ ہو کہ خوشبو تو خود ایک مہک ہے خوشبو کو مہکتا ہوا کہنے
والا فاترالعقل تو کہلا سکتا ہے۔ شاعر کہلوانے کا سزاوار نہیں ہو سکتا“۔
اللہ اللہ۔ اپنی ”اِس مہارت“ پر اِتنا گھمنڈ۔ سارا مضمون گالیوں سے بھرا
ہوا ہے۔ کہیں بھی علمی، عقلی یا شعوری پہلو اجاگر نہیں ہو رہا۔ وہ اپنی
دانست میں لغویات کی بارش ہم پر برسا رہے ہیں۔ جاہل ہمیں قرار دے رہے ہیں
لیکن اُن کی اِس ”جھک“ کا سب سے بڑا لطف یہی ہے کہ یہ ساری لغویات اور
خرافات اُن ہی پر صادق آ رہی ہیں۔ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کہاں سے بول رہے
ہیں۔
علمی طور پر عقل سے پیدل ہونا، عقل سے اندھا ہونا تو درد ناک ہے ہی لیکن
سماعت سے محروم ہونا تو عذاب ہی عذاب ہے۔
ہم نے اپنے لڑکپن ہی میں خوشبو اور مہک کے استعمال کا ادراک حاصل کر لیا
تھا جب یہ مشہور گیت جو مہدی حسن کی آواز میں فلم ”میرے حضور“ میں اداکار
شاہد اور شبنم پر فلمائی گئی تھی۔ شاعر غالباً قتیل شفائی تھے یا کوئی اور
۔؟ ذرا دیکھ لیجئے اور جمیل الرحمن کے علم کا جنازہ ذرا دھوم سے اُٹھائیے۔
غزل کے دوشعر:
ہماری سانسوں میں آج تک وہ
حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں
نظر سے مستی جھلک رہی ہے
لیجئے ہم تو فاترالعقل قرار دے دیئے گئے ہیں لیکن اب ہمارے ساتھ دیگر
شعراء(ممکن ہے قتیل شفائی) بھی شامل ہو گئے۔ اب صاحبِ عقل صرف جمیل الرحمن
ہی رہ گئے ہیں؟۔ خوشبو اور مہک کے استعمال کی بہت سی اور بھی مثالیں ہیں
لیکن چلئے چھوڑیئے۔ اگر جمیل الرحمن کو ”مہکی خوشبو“ کی ترکیب بھلی معلوم
نہیں ہو رہی ہے تو وہ ”اڑتی خوشبو“ کر لیں۔ لیکن خدا کے لیے ”بہتی خوشبو“
کہہ کر اردو زبان کی دھجیاں نہ بکھیریں۔
ہم نے لفظ ”تیز“ کی بات نہیں کی تھی۔ اُنہوں نے ”تیزی“ کو فارسی لفظ قرار
دیا ہے۔ اب وہ خود ہی لغت کھول کر دیکھ لیں کہ ”تیزی“ فارسی لفظ ہے یا
”ہندی“۔
ہم نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ یہ لفظ کس زبان سے آیا ہے‘ لغت ہمیں یہ لفظ
ہندی کا بتاتی ہے اور قواعد کا اطلاق اِسی کے مطابق ہونا ہے۔ اگر ہم یہ
تاریخ لے بیٹھیں کہ کون کون سا لفظ اردو میں کہاں سے آیا ہے تو اردو تو
ساری کی ساری عربی، فارسی اور دوسری زبانوں سے بنی ہے۔ پھر اِس کے اپنے
قواعد تو دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ پھر تو ہم ہر لفظ یہ سوچ کر کہ عربی
فارسی سے آیا ہے‘ اُنہی زبانوں کے قواعد کا اطلاق کرنا شروع کر دیں۔ پھر
اپنا رہا ہی کیا؟۔ آگے اُن کے علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھئے۔
”اب اِس کا کیا جواب دوں۔ یار جہالت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہاں تو یہ
کہیں اپنی رونمائی سے باز ہی نہیں آ رہی۔ اگر آپ کو عربی نہیں آتی حضرت یا
آپ کو اگر یہ بھی پتا نہیں کہ ’ب‘ عربی میں حرفِ تاکید کے طور پر استعمال
ہوتا ہے تو آپ کس بُرتے پر تبصرہ کرنے چلے ہیں۔ اگر آپ نے یہ استعمال میں
نہیں دیکھا تو اِس میں میرا کیا قصور ہے۔ اب دیکھ لیں۔ ویسے ’بلا شک‘ کا
لفظ دن میں دس مرتبہ (کئی مرتبہ بہتر تھا) استعمال ہوتا ہے۔ اِسی کو دیکھ
کر عبرت حاصل کر لی ہوتی“۔
عبرت کسے حاصل کرنا چاہئے۔ یہ تو تحریر خود ہی بتا رہی ہے اور اُنہوں نے
کیا خوب اور درست لکھا ہے کہ ”جہالت اپنی رونمائی سے باز نہیں آ رہی“۔
غالباً زندگی میں پہلی مرتبہ اُنہوں نے اپنے بارے میں سچ بولا ہے۔ ہم بھی
اُن سے سچ بولیں گے کہ ہم نے عربی لسانیات کا کہیں بھی دعویٰ نہیں کیا ہے۔
بلا۔ ریب۔ یہ اُن ہی کی عربی ہے۔ فصحاءکی نہیں ”بِلا“ تو فارسی کی ترکیب ہے
جو اُنہوں نے عربی میں ٹھونس دی ہے۔ اِن لفظوں کے درزی کو یہ پتا ہی نہیں
کہ تاکید کے معنی کیا ہیں۔ ہماری بلا سے وہ ”لا ریب“ کو بطور تاکید
”بلاریب“ اور بلا شک کو چاہیں تو ”لا شک“ بھی پڑھا اور لکھا کریں۔
ہم نے اُن کی عربی لسانیات کی مہارت پر حرف گیری نہیں کی تھی۔ اگر چہ ہمیں
معلوم ہے کہ وہ جن کے پیروکار ہیں‘ وہ بھی عربی لسانیات کے ماہر ہی تھے۔ اب
ہم مزید اور کیا کہیں؟۔
اُن کے ایک مصرع کو سرسری طور پر پڑھ کر رائے دی تھی کہ یوں کرنے سے بر وزن
ہو جائے گا
”سوچتا ہوں مَیں خود بھی مجھے
ایک مدّت سے کیا ہو گیا ہے“
در اصل ہمیں ذرا مزید سنجیدگی کے ساتھ اُن کے مجموعے کا مطالعہ کرنا چاہئے
تھا کیوں کہ ہمیں اُن کے بے وزن مصرعے کو درست کرنے کے باوجود فصاحت اور
بلاغت کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ مفہوم کے ساتھ ساتھ لسانیات کی خوب صورتی کی
کمی بھی نظر آ رہی ہے۔ اگر ہم اُسے یوں کر دیں تو شاید فصاحت، بلاغت اور
مفہوم کا حق بہتر طور پر ادا ہو جائے۔
”سوچتا ہوں مَیں خود بھی مجھے
ایک مدّت سے کچھ ہو گیا ہے“
جمیل الرحمن نے ہمارے مضمون میں اٹھائے گئے تمام نکات کا جواب نہیں دیا ہے۔
اُن کی نظر میں دیگر نکات بھی اِسی نوعیت کے ہیں جن کا وہ جواب دے چکے ہیں۔
حالاں کہ ایسی بات نہیں۔ وہ نکات بھی اُن کی ادبی و لسانی مہارت کا پردہ
کھول کر حقیقت دکھاتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے مضمون میں فصاحت، بلاغت، لہجے،
اسلوب اور لفظ کے جوہر کی باتیں کی ہیں۔ سارا مضمون پڑھ لیجئے اور خود ہی
فیصلہ کر لیجئے کہ خرافات اور لغویات کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اُن کی
لفّاظی اور خود ساختہ فنّی مہارت کی ہر سطر کی چوٹ خود اُن ہی کو مات دے
رہی ہے۔
جمیل الرحمن کے مضمون کی تائید میں کسی صحافی کا بھی مضمون شامل ہے ۔ جنہوں
نے حقِّ نمک اور حقِّ بیعت ادا کرتے ہوئے ”آسمان پر تھوکا“ والے محاورے پر
عمل کیا ہے۔ ہمیں یہ شکایت نہیں کہ اُنہوں نے ”ہاتھی والوں“ سے بیعت کیوں
کی؟ ہمیں تو اُن کی سادگی پر رحم آ رہا ہے کہ اُنہوں نے ”ابابیلوں“ کو نظر
انداز کر دیا۔
اپنی خامیاں کیسے دیکھے نکتہ فن میں
شخص جو رسالے کا خود مدیر ہوتا ہے
(ختم شد) |