لیجیے، پھر وہ دن آ گیا جو نئی
نسل کے خون کو گرماتا اور جوانی کے مرحلے سے گزر جانے والوں کے زخموں پر
نمک چھڑکتا ہے۔ دنیا بھر میں محبت کرنے والے تو ہر دور ہی میں رہے ہیں۔ اگر
پیار کرنے والے نہ ہوتے تو محبت کی داستانوں پر فلمیں نہ بنتیں، گانوں میں
وہ تاثیر نہ ہوتی اور المیہ اداکاری میں وہ طمطراق نہ ہوتا۔ سینٹ ویلنٹائن
ڈے تو نہ جانے کب سے منایا جارہا ہے مگر میڈیا کی مہربانی ہے کہ اب اس کی
اہمیت سے ہم سبھی آگاہ ہوچکے ہیں اور سب کو ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش
کا ہدف بنتے جارہے ہیں!
محبت کا دن اب جس بھرپور تیاری کے ساتھ منایا جانے لگا ہے اتنی تیاری اور
جذبے کے ساتھ تو محبت بھی نہیں کی جاتی! اور ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے
بھرپور تیاریاں کیوں نہ کی جائیں، آخر کو یہ اربوں ڈالر کے بزنس کا معاملہ
ہے۔ مغرب نے ہر چیز کو تجارت میں تبدیل کردیا ہے۔ اب تک محبت پر نظر نہیں
پڑی تھی اس لیے کارپوریٹ کلچر کے تھنکرز کی کاروباری سوچ سے یہ محفوظ رہی
تھی۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ سادہ دلی کے ساتھ جیتے تھے۔ جوانی گزر جاتی تھی تو
یاد آتا تھا کہ ارے! جو دیوانی کہلاتی ہے وہ جوانی تو گزر بھی گئی! لوگ دل
لگا بیٹھتے تھے اور کئی سال گزر جانے پر سمجھ نہیں پاتے تھے کہ انہیں محبت
ہوگئی ہے۔ پانی سر سے گزر جانے پر اُنہیں اندازہ ہوتا تھا کہ کس سیلاب کو
گلے لگایا ہے! اور یہ اندازہ بھی اُس وقت ہوتا تھا جب محبوب یا محبوبہ سے
شادی کے بعد ہوش ٹھکانے پر آتے تھے! یہ سب اس لیے ہوتا تھا کہ محبت کی راہ
پر گامزن ہونے کے طریقے سکھانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص ٹی وی
چینلز نہیں تھے!
گزرے وقتوں کی محبت ستون کی طرح ہوتی تھی یعنی سب کچھ تباہ ہو جاتا تھا تب
بھی محبت باقی رہتی تھی۔ اب لوگ ایسے بے وقوف نہیں رہے۔ وہ کوئی جانور ہیں
کہ ایک کھونٹے سے بندھے رہیں! صدیوں یا جنم جنم ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانا
اب مزاح کے ذیل میں آتا ہے۔ اب تو
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی!
والا معاملہ ہے۔ محبت کے گیم میں اب پارٹنرز اِتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ
گرگٹ بھی حیران رہ جاتے ہیں اور محبت کرنے والوں سے رنگ بدلنے کی نئی
ادائیں سیکھنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں! کوئی کِسی کے پاس زیادہ دن کیا،
زیادہ دیر نہیں ٹِکتا! یعنی
فضائے صحن چمن میں ہمیں تلاش نہ کر
مُسافروں کے ٹِھکانے بدلتے رہتے ہیں!
اب کوئی کسی کی بے وفائی کا گِلہ نہیں کرتا۔ غور کیجیے تو ”بے وفائی“ میں
بھی وفا تو پوری کی پوری موجود ہے! محبت کرنے والے اب پنچھی بن گئے ہیں،
ڈال ڈال ڈیرے ڈالتے ہیں۔ اُس کا انتظار نہیں کیا جاتا جس کے دل سے دل ملے۔
چلن یہ ہے کہ
ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی
اِسی طرح سے بسر ہم نے زندگی کرلی!
محبت کرنے والوں پر ایک زمانہ وہ بھی گزرا جب ایک دوسرے کی محض ایک جھلک
دیکھنے کے لیے عید کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ عید کا چاند دیکھنے کے لیے چھت
پر چڑھ کر اپنی اپنی ضرورت یا خواہش کے مطابق چاند تلاش کیا جاتا تھا! آپ
نے بھی سُنا ہی ہوگا۔
مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے آیا چاند عید کا!
اب کیسی عید؟ کیسا چاند؟ اور کیسا بہانہ؟ اب تو بندہ عہد و پیمان کرکے ایسا
غائب ہوتا ہے کہ خود عید کا چاند ہو جاتا ہے! اور اگر اُس سے بے وفائی کا
شکوہ کیا جائے تو ”یو ٹیوب“ پر بہت کچھ ”اپ لوڈ“ کرنے کی دھمکی دیکر صاف
دامن بچا جاتا ہے!
کئی زمانے گزرنے کے بعد کاروباری ذہنوں میں یہ خیال سمایا ہے کہ محبت کو
بھی مال تجارت بناکر تجوریاں بھری جاسکتی ہیں۔ اب محبت بھی ایونٹ ہے۔ تحفہ
دیئے بغیر محبت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ ایک پوری انڈسٹری محبت کرنے والوں کے
نام پر چل رہی ہے، پنپ رہی ہے۔
محبت کرنے والے اب جائیں تو کہاں جائیں؟ ساحل پر طرح طرح کی پابندیوں کی
طوفان اٹھائے جاتے ہیں۔ شہر کے کنارے پر جو ویرانے تھے وہ اب لینڈ مافیا نے
بستیوں میں تبدیل کردیئے ہیں۔ اگر کسی کو بائک پر بٹھاکر لانگ ڈرائیو پر
نکلیں تو بائک اور سیل فون دونوں چھن جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے میں سائبر
اسپیس ہی باقی بچا ہے جہاں محبت کرنے والے پناہ لے سکتے ہیں۔ آن لائن کلچر
نے خاصی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر نے بھی دل والوں کو بڑی
سہولتیں فراہم کی ہیں۔ محبت کرنے والے فل نائٹ پیکیج کی مدد سے گھنٹوں
باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ کیا باتیں کرتے ہیں، یہ بات رہنے دیجیے۔ اگر ان
باتوں کو شائع کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو بیشتر مزاح نگاروں کے گھر کا
چولھا ٹھنڈا ہو جائے گا!
اب کے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے اچھی خاصی تیاری کی گئی ہے۔ کراچی، لاہور
اور اسلام آباد میں زیادہ زور دکھائی دے رہا ہے۔ لاہور میں کئی علاقے سرخ
رنگت اختیار کرچکے ہیں۔ ہم تو ہر حال میں مثبت سوچ رکھتے ہیں اس لیے یہی
سوچ کر دل کو بہلا رہے ہیں کہ اچھے خاصے معاشرے پر مغرب کی ایک عِلّت تھوپے
جانے پر حیا کے مارے اُس کے چہرے کا رنگ سُرخ ہوگیا ہے! ضروری نہیں کہ سب
ہماری بات سے متفق ہوں۔ ہم تو اب عمر کے اُس مرحلے میں ہیں کہ ویلنٹائن کی
آمد پر بھی زیادہ سے زیادہ well-end-time ڈے ہی مناسکتے ہیں! جن کی رگوں
میں لہو گرم ہے وہ اِس لہو کو مزید گرم کرنے اور رکھنے کے بہانے تلاش کرتے
رہتے ہیں۔ ویلنٹائن بھی ایک ایسا ہی بہانہ ہے۔ ثقافت، تہذیب اور اقدار
وغیرہ کا کیا ہے، وہ ساتھ رہیں گی۔ اُنہیں ہم سے کون چھین یا پوچھ رہا ہے۔
ہم سال بھر تو ثقافت اور اقدار کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
ایک ویلنٹائن ڈے پر بھی اُنہیں بالائے طاق رکھیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ
پڑے گا! |