ایک لمحے کے لئے روشنی ہوئی اور
پھر بجھ گئی یہ مشن شروع ہونے کا سگنل تھا،
تنویر اور سمیر دو دست تھے دونوں کا تعلق ایک غریب گھرانے ساتھا دونوں نے
نہم کلاس سے سکول اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ وہ محنت مزدوری کر کے گھر والوں
کا ہاتھ بٹائیں گے گھر والے بھی ان کے اس فیصلے سے خوش ہوئے تھے کیونکہ ان
کے لئے اپنے بچوں کو پڑھانا بڑا مشکل تھا ۔
اب دونوں دوست صبح سویرے مزدوری کی تلاش میں نکلتے کبھی دیہاڑی لگ جاتی تو
کبھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا،جس دن دیہاڑی لگ جاتی اور کچھ پیسے آجاتے تو
خوشی خوشی گھروں کولوٹتے لیکن جس دن کام نہ ملتا تو اس دن دونوں دوستوں کے
چہرے اتر ے ہوتے اور پریشانی کے عالم میں گھر کو روانہ ہوتے۔
آج چوتھا دن تھا کوئی کام نہیں مل رہا تھا دونوں دوست کافی پریشان تھے اسی
طرح سورج غروب ہو گیااور وہ شرمندہ شرمندہ دل ہارے گھر کی طرف چل دیئے ابھی
تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ایک بڑی سی کار ان کے پاس آکر رکی ،دونوں دوستوں
کے دل میں امید کی اک کرن روشن ہوئی کہ شاید کوئی کام آگیا ہے ڈرائیونگ سیٹ
پر موجودایک بارعب اور سوٹد بوٹڈ شخص نے انہیں کار کے اندر بیٹھنے کو کہاوہ
اس امید پر گاڑی میں سوار ہو گئے کہ شاید وہ گھر میں کوئی کام کروانے کے
لئے لے کر جا رہا ہے تھوڑی ہی دیر بعد گاڑی ایک بہت بڑے ریسٹورنٹ کی پارکنگ
میں رکی اس وقت بھی دونوں دوستوں کو یہی امید تھی کہ شاید ہوٹل میں کوئی
کام ہوگا اس لئے یہ صاحب انہیں لے کر آئے ہیں لیکن اس وقت ان کی حیرت کی
انتہا نہیں رہی جب ان کے آگے کئی قسم کے کھانے لگنا شروع ہوگئے جس کی اشتہا
انگیز خوشبو نے ان کی بھوک کی اور بڑھا دیا لیکن وہ کھانا کھانے سے ہچکچا
رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ یہ شخص ہم پر اتنا مہربان کیوں ہے اس شخص نے ان
کی پریشانی کو بھانپ لیا اور نرم لہجے میں پیار سے انہیں کھانے کو کہا اور
کہا کہ باقی باتیں کھانے کے بعد ہوں گی-
کھانے کے بعد اس نے انہیں بتانا شروع کر دیا کہ میں پچھلے کچھ دنوں سے آپ
کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ کام نہ ملنے کی وجہ کافی پریشان دکھائی دیتے ہو اس
طرح تم اپنے حالات بھی بدل سکتے ہو اور نہ ہی گھر کے حالات کو تبدیل کر
سکتے ہو،گھٹ گھٹ کر جینے سے مرنا بہتر ہے تم اپنا جینے کا انداز بدلو،کچھ
عرصہ پہلے تک میں بھی تمہارے جیسا تھا دوسروں کی نظر کرم پہ تھا آج میرا
بینک بیلنس ہے گاڑی ہے اپنا بنگلہ ہے جس چیز کے لئے تم دور سے دیکھتے ہو وہ
چیزیں تمہارے قدموں میں بھی آ سکتی ہیں لیکن اس کے لئے ہمت کی ضرورت ہے،اس
شخص کی باتیں انہیں کافی متاثر کر رہی تھیں ،سمیر نے پوچھا ہمیں کیا کرنا
ہوگا ؟اس پر وہ زیرلب مسکرایا اور کہا کہ کرنے کے لئے تم بہت کچھ کر سکتے
ہو لیکن اس کے لئے بہادری اور ہمت کی چاہئے آپ لوگوں نے اپنا حق چھیننا
ہوگا -
تنویر نے پوچھا وہ کیسے ؟اس پر اس شخص نے کہا کہ جب حق مانگنے سے نہ ملے تو
حق چھیننا پڑتا ہے اس لیے آپ کو بھی دوسروں سے حق چھیننا پڑے گا اگرآپ اس
کام کے لئے راضی ہیں تو منصوبہ میں بتا دیتا ہوں ،دونوں دوستوں نے ایک
دوسرے کی طرف دیکھا اور غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اس پر اس شخص نے کہا کہ میں
آپ کو چھوڑ دیتا ہوں کیوں کہ آپ کا گھر بہت دور ہے وہ چارو ناچار اس کے
ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر گھر کو چل دیے لیکن اترنے سے پہلے اس شخص نے کہا
کہ میرانام قادر ہے آپ اچھی طرح سوچ لیجئے گا ،دونوں نے ناراضگی اور غصے سے
کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اٹھ کر پھر دونوں دوست کام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے پورا دن امید و
یاس کی کیفیت میں گزر گیا لیکن کوئی کام نہیں ملا ،گھر کو واپس آتے ہوئے
سمیر اور تنویر کافی دلبرداشتہ تھے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ،تنویر نے
کہا کہ ہمیں بھوکوں نہیں مرنا اپنا حق چھیننا ہوگا سمیر نے اسے سمجھایا کہ
یہ غلط بات ہوگی اور گناہ کا کام ہے ہمیں محنت سے روزی کمانا ہے اور ٹیچر
نے بتایا تھاکہ محنت سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے اس پرتنویر
نے کہا کہ قادر سے ملتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ ہم نے محنت کر کے رزق
کمانا ہے لیکن ہمیں قادر ملے گا کہاں؟اس نے اپنا ایڈریس بھی نہیں دیا تھا
دونوں دوست یہی باتیں کرتے ہوئے گھر کو جا رہے تھے کہ قادر کی چمکتی ہوئی
کار ان کے پاس رکی اور اس نے انہیں اندر بیٹھنے کو کہاجب وہ بیٹھ چکے تو اس
نے ان سے پوچھا کہ ان کا کیا پروگرام ہے اس پر دونوں دوستوں نے بتایا کہ
ہمیں محنت کر کے رزق کمانا ہے اس پر وہ زیرلب مسکرایا اور کہا کہ اس پر آپ
کو واقعی محنت کرنا پڑے گی محنت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ،دونوں دوستوں
نے اثبات میں سر ہلادیا جیسے وہ اس کام کے لئے راضی ہو گئے ہوں ،اس کے بعد
اس نے ان کی جیبوں میں زبردستی پیسے ٹھونک دیے اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ
بہت جلد آپ سے رابطہ کروں گا۔
تین دن بعد وہ دونوں دوست جیسے ہی گھر سے نکلے قادر نے انہیں اپنی گاڑی میں
بٹھایا اور گاڑی کو مختلف سڑکوں پر گھمانے کے بعد وہ ایک ویران علاقے کی
طرف نکل آیا لیکن اس دفعہ سمیر اور تنویر پریشان نہیں تھے اس نے انہیں
بتایا کہ آپ کے محلے میں سیٹھ عثمان رہتے ہیں ان کے گھر میں ہمیں کافی کچھ
مل جائے گا لیکن اس کے لئے وہ مال ہم تینوں برابر تقسیم کریں گے لیکن میں
آپ کے ساتھ اس مشن میں شامل نہیں ہوں گا البتہ آپ کو سارا منصوبہ سمجھا
دیتا ہوں آج اس کا چوکیدار جو کہ ان کے ڈرائیور کے فرائض بھی سر انجام دیتا
ہے ان کے بیوی بچوں کو لے کر سیٹھ عثمان کے میکے گیا ہے جہاں سے ان کی
واپسی کل تک ہوگی اس نے باقی کا منصوبہ سمجھانے کے بعد ایک پسٹل دیتے ہوئے
کہا کہ اسے استعمال کرنے سے پرہیز کرنا ،دونوں دوستوں نے یہ کہہ کر پسٹل
اور دوسرا سامان لے لیا کہ انہیں اسلحہ استعمال کرنا آتا ہی نہیں ہے۔
دونوں دوست رات کے بارہ بجے گھر سے نکل کرپروگرام کے مطابق سیٹھ عثمان کے
گھر کی طرف چل دیئے تنویر مین گیٹ کے ساتھ چھپ کر کھڑا ہوا جبکہ دیوار
پھاندنے کے لئے سمیر گھر کے دوسرے نکڑ پر پہنچ گیا جہاں دونوں نے لیزر لائٹ
سے ایک دوسرے کو مشن سٹارٹ ہونے اشارہ کیا۔۔
سیٹھ عثمان آج گھر میں اکیلا تھا اس کی بیوی اپنے بچوں کو لے کر میکے گئی
ہوئی تھی اس لئے وہ آج رات گئے تک اپنے اسٹدی روم میں بیٹھا ایک کتاب کی
ورق گردانی کر رہا تھا کہ دھب کی آواز سنائی دی ،سیٹھ عثمان نے اپنے گھر
میں خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے تھے اس نے سکرین پر دیکھا تو ایک لڑکا مین گیٹ
کو کھول رہا تھا جیسے ہی اس نے گیٹ کھولا ایک لڑکا اور جس نے منہ پر ڈھاٹا
باندھ رکھا تھا اندر داخل ہوا اس کے بعد اس نے احتیاط سے دروازہ بند کر دیا
اب سیٹھ عثمان کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنا مشکل ہو گیا اس نے اپنا
ریوالور باہر نکالا اور دوبارہ سکرین کی طرف دیکھا دونوں لڑکے اب گیراج سے
گزر کر اندر داخل ہو رہے تھے لیکن ان کی بے احتیاطی سے ان اناڑی پن چھلک
رہا تھا وہ کوئی پیشہ ور چور معلوم نہیں ہو رہے تھے دونوں کے ہاتھ میں کوئی
اسلحہ نظر نہیں آ رہا تھا اسی لئے سیٹھ عثمان بے خوف ہو کر داخلی گیٹ کی
طرف بڑھتا چلا گیا-
سمیر نے ایک درخت جس کی شاخیں دیوار کو چھور رہی تھیں اس درخت کے سہارے
دیوار پر چڑھنے کے بعد سن گن لی اور کود گیا،ہلکی سی دھب کی آواز ہوئی وہ
چند لمحے ادھر ہی جائزہ لیتا رہا پھر مین گیٹ کو کھولنے چلا گیا تنویر کو
اندر بلا کر اس نے احتیاط سے دروازہ بند کر دیامکان میں سناٹا چھایا ہوا
تھا جیسے اس مکان میں کوئی ذی روح نہیں ہے اس لئے انہوں نے پسٹل کو نکالنا
ضروری نہیں سمجھا اور داخلی دروازے کی طرف بڑھ گئے انہیں اس وقت حیرت کی
انتہا نہیں رہی جب دروازہ کھلا ہوا پایا دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز
نظروں سے گھورا اور پھر ایک ساتھ اندر داخل داخل ہوئے اچانک وہ روشنی میں
نہا گئے اور ”ہینڈز اپ “کی آواز سنائی دی۔
سیٹھ عثمان نے داخلی دروازے کو کھولا اور دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو
گیا کچھ ہی لمحوں کے بعد دونوں ڈھاٹا پوش لڑکے اندر داخل داخل ہوئے تو سیٹھ
عثمان نے لائٹ کا سوئچ آن کرنے کے بعد ہینڈز اپ کہا اور دونوں کو دیوار کی
طرف منہ کر کے ہاتھ کھڑا کرنے کا حکم دیا انہوں نے حکم کی تعمیل کی ۔
سمیر اور تنویر دونوں دوستوں کو عجیب اور خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ
رہا تھا ان کی تلاشی لے کر ان سے پسٹل اور دیگر اشیا سیٹھ نے اپنی تحویل
میں لے لی تھیں اب وہ دونوں نہتے تھے سیٹھ عثمان نے دونوں سے اس مکروہ فعل
کے بارے پوچھا تو انہوں نے ساری بات سچ سچ بتا دی کہ کس طرح انہیں کام نہیں
ملا اور کس طرح وہ قادر کی باتوں میں آگئے ،دونوں دوستوں نے روتے ہوئے
معافی مانگی کہ آئندہ ایسا برا کام کرنے کے بارے نہیں سوچیں گے سیٹھ عثمان
بھی زمانہ شناس تھے وہ سمجھ گئے کہ لڑکے سچ کہہ رہے ہیں لیکن قادر کو سبق
سکھانا ضروری تھا اور ان دونوں کو قادر کا اتا پتہ معلوم نہیں تھا کیونکہ
قادر خود ان سے رابطہ کرتا تھا سیٹھ عثمان نے دونوں کو اعتماد میں لینے کے
بعد اپنے دوست انسپکٹر زاہد قریشی کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اس کے پندرہ
منٹ بعد وہ دونوں شاپروں سے لدے ہوئے منہ پر ڈھاٹا باندھے دروازے سے نکلے
باہر نکلنے کے بعد انہوں نے اپنے چہروں سے نقاب ہٹا دئے اور اپنے گھر کی
طرف چل دیئے اچانک ایک کار کی ہیڈ لائٹس دکھائی دیں اور کار ان کے پاس آ کر
رکی ۔
قادر دونوں لڑکوں کی نگرانی کر رہا تھا جب انہیں گئے کافی دیر گزر گئی تو
اس کے ذہن میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے اور وہ پریشان ہوگیا ابھی وہ وہاں
سے جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں لڑکے سامان کے شاپر بھرے گیٹ سے باہر
نکلے تو اس ہونٹوں پر اک مسکراہٹ سی آگئی دونوں جب چلتے ہوئے دوسری گلی میں
داخل ہوئے تو قادر نے گاڑی ان کی طرف بڑھا دی اور ان کے پاس آکر روک دی
دونوں کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا اچانک ایک پسٹل کی نال اس کی کنپٹی کے
ساتھ لگی اور کسی نے سرد لہجے میں اسے ہاتھ اٹھا کرنیچے اترنے کا حکم دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹھ عثمان سے بات کرنے کے بعد انسپکٹر زاہد قریشی نے اپنے چند اہلکاروں کو
چند ہدایات جاری کیں اور جلد از جلد اس علاقے کو گھیرنے کا حکم دیا خود اس
نے ان لڑکوں کی نگرانی شروع کر دی جب دوسری گلی میں لڑکے مڑے تو ایک کار ان
کے پاس آکر رکی اس نے جلدی سے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور ڈرائیونگ سیٹ پر
موجود شخص کے سر پر پسٹل کی نال رکھ کر اسے نیچے اترنے کا حکم دیا۔
تنویر اور سمیر کے بتانے پر کہ یہی شخص قادر ہے اور اسی نے ہمیں درغلایا
تھا قادر سے تفتیش ہوئی تو پتا چلا کہ وہ پولیس کو انتہائی اہم وارداتوں
میں مطلوب تھا لیکن ہر بار بچ نکلتا تھا اس بار اس سے یہ غلطی ہوئی کہ سیٹھ
عثمان کے گھر میں سیکیورٹی کیمرے ہونے کا اس کے پاس علم نہیں تھا،سمیر اور
تنویر کو سیٹھ عثمان نے اپنی فیکٹری میں ملازم بھرتی کر لیا اب وہ دونوں
محنت سے رزق حلال کمانے لگے اور ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔ |