رسول اکرم ﷺاور اہل بیت کواپنی
بہیودہ گوئی کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والا بدنام سلمان رشدی
کا موجودہ تنازع نے ایک مرتبہ پھرذرائع بلاغ کے ذریعے معصوم ذہنوں کو گمراہ
کیا گیا ہے۔عوام کے ذہنوں میں ایک مرتبہ پھر اظہار کی آزادی کے سلسلے میں
کچھ اہم سوال پیدا کر دئے ہیں۔ایسے ماحول میں جبکہ اردو اخبارات کو چھوڑ کر
ملک کے تمام ذرائع ابلاغ رشدی کے ہمنوا بن گئے ہیں‘ ہندی کے ایک معروف
روزنامہ نے اس سلسلے میں جرات سے کام لیتے ہوئے حقائق سے روشناس کروایا ہے۔
انڈین پریس کونسل کے صدر اور سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کے ذریعے
اس مسئلہ کا قانونی پہلو جاننا اردو قارئین کیلئے لازمی ہوجاتا ہے۔ خود
انہی کے الفاظ میںیوں سمجھئے کہ’ حالات کی سنگینی کے پیش نظراس تنازع کے
سلسلے میں
پانچ نکات خصوصیت سے قابل غور ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر جمہوری نظام میں اظہار کی آزادی کا حق اہم ہے۔
جمہوریت کی ترقی کیلئے لکھنے، بولنے اور اپنی نا اتفاقی ظاہر کرنے کی آزادی
ضروری ہے۔ اس کے بغیر خیالات کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ عبوریت کے اس دور میں
ترقی یافتہ ملک ہندوستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں دیگرایجادات کے
علاوہ جدید خیالات کوبھی آزما رہے ہیں اور یہ ان کیلئے بہت اہم ہے لیکن
چونکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اسلئے اسے یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس
کی خودمختاری سے سماجی تانے بانے کو کسی طرح کی نقصان پہنچے۔اس لئے
ہندوستانی آئین کی دفعہ 19 (1) (ا) کی طرف سے جہاں ملک کے باشندوں کو اظہار
کی آزادی فراہم کی گئی ہے، وہیں 19 (2) میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ دفعہ
19 (1) (ا) کی طرف سے فراہم کئے گئے اظہار کے حق پر ریاست، عوامی نظام،
شرافت اور اخلاقیات کے مفاد میں پابندی بھی عائد جا سکتے ہیں۔ عوامی مفاد
اظہار کی آزادی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان دونوں کے درمیان
توازن قائم کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے لیکن یہ توازن کس مرحلے پر جا کر قائم
کیا جائے، یہ ایک اہم سوال ضرور ہے۔ میرا دوسرا نکتہ ہ اسی سلسلے میں ہے۔
توازن کس مرحلے پر قائم کیا جائے، اس سلسلہ میں غور کرتے وقت کسی غیر مرئی
اور تصواراتی اجحانات اور خیالات کی بجائے مخصوص تاریخی حوالوں کو ذہن میں
رکھنا ہوگا۔ ’دی سیٹینک ورسز‘ میں سلمان رشدی نے بالواسطہ طور پر ہی سہی
لیکن اسلام اور علماءکرام کے بارے میں کچھ قابل اعتراض باتیں کہی تھیں۔ اس
طرح کی سنسنی خیزی کے ذریعے رشدی نے لاکھوں ڈلر بھلے ہی کما لئے ہوں لیکن
اس سے مسلمانوں کے جذبات کوشدید نقصان پہنچا ہے۔
کچھ لوگ رشدی کو اس لئے عظیم مصنف سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے بکر ایوارڈ جیتا
ہے۔ اس سلسلے میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ادب کے انعام اکثر پراسرار ہوتے
ہیں۔ ابھی تک تقریبا سو ادیبوں کو ادب کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے لیکن ان
میں سے اسی سے اکثرادیبوں کے نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوں گے جبکہ کئی دیگر
عظیم ادیبوں کو یہ انعام نہیں دیا گیا۔ اس لئے میرا ووٹ ہے کہ بکر ایوارڈ
جیتنے سے مزید کچھ ثابت نہیں ہوتا۔
تیسری بات یہ کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ جے پور ادب تقریب رشدی واقعہ کی وجہ
سے تذکرے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے اور اس وجہ سے ہندوستان اور دنیا کے
دیگر ادیبوں پرخاطر خواہ تذکرہ نہیں ہو سکا جبکہ امیدکی جارہی تھی کہ اس
ادب تقریب میں کبیر، پریم چند، شرت چندر، منٹو، قاضی نذرالاسلام، غالب، فےض
جیسے ہندوستانی اور ڈیکنس، برنارڈ شا، اپٹن سنک لئیر، والٹ وٹمےن، وک تومر
ہیوگو، فلابےر، بالجاک، گیٹے، شلر، ٹالسٹائے، دستوایوسکی ، گورکی جیسے غیر
ملکی ادیبوں پر خوب تبادلہ خیالات ہوگا لیکن اس کی بجائے پوری توجہ سلمان
رشدی واقعہ پر ہی مرکوز رہی۔ اس موضوع پر کافی ہائے توبہ مچائی گئی کہ
اظہار کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا
تھا کہ ملک کے 42 فیصد بچوں کا اچھی پرورش سے محروم ہونا قومی شرم ہے۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں ملک میں ڈھائی لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ بے
روزگاری کا مسئلہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ غربت اورناداری کا بول بالا ہے۔
مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
تعلیم، صحت، رہائش جیسی بنیادی ضروریات کا بحران ہے، وہیں دوسری طرف ملک
میں ایسے 49 ارب پتی بھی ہیں جن کی املاک ڈالروں میں ہے۔ امیر اور غریب کے
درمیان کی خلیج نہایت عمیق ہو گئی ہے۔ کیا ادب کو ان مسائل کے بارے میں بات
نہیں کرنی چاہئے ۔کیا ہم محض رشدی کی اظہار کی آزادی کے بارے میں ہی بات
کرتے رہیں گے؟ ہندوستانی عوام الناس کیلئے آزادی کا مطلب ہے بھوک،
ناخواندگی، بے روزگاری اور تمام طرح کی لعنت سے آزادی، رشدی کی گھٹیا
کتابیں پڑھنا نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی تنازع کی لہریں پیدا کرنے والی تمام کتابیں غیر
معیاری ہوتی ہیں بلکہ وول لئیر، روسو، تھامس پین جیسے ادیبوں کی تخلیقات نے
اپنے زمانہ میں سرگرم مداخلت کی تھی لیکن ’مڈنائٹس چلڈرن‘ اور ‘دی سیٹینک
ورسز‘ جیسی کتابوں کی سماجی مطابقت بھلا کیاکی جاسکتی ہے؟ میں پہلے بھی کہہ
چکا ہوں کہ بعض ہندوستانی آج بھی نو آبادیاتی احساس کے شکار ہیں۔‘واضح رہے
کہ نو آبادیات کا مفہوم عم طور پر ماضی میں برطانوی آقاؤں کی برتری تسلیم
کرتے ہوئے احساس کمتری کے ساتھ خود کو غلامانہ ذلت کا پابند تسلیم کرنا
سمجھا جاتا ہے۔ بہر کیف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کے بقول ایسے لوگ سمجھتے
ہیں کہ لندن یا نیویارک میں بیٹھ کر لکھنے والا ہر مصنف عظیم ہے جبکہ
ہندوستان میں اور خاص طور پر علاقائی زبانوں میں لکھنے والا ہر مصنف ان کے
مقابلے میں محض ثانوی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ ہندوستان کثیر المذاہب اور کثیر العقائد یعنی تکثیریت پر
مبنی ’متنوع‘ ملک ہے۔یہاں بڑے پیمانے پر غیر ملکی اور خاص طور پر شمال
مغربی خطوں سے ہندوستان آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ہندوستان میں ذات،
مذہب، زبان اور نسلوں کی تنوع کی وجہ سے ہمارے لئے واحد کارگر طریقہ
سیکولرازم اور دیانتداری سے تمام مذاہب کے تھیں احترام ر ہا ہے جسے ہمارے
آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔مذہب عقیدے کا موضوع ہے، دلیل کا نہیں۔ چونکہ
ہندوستان میں مذہب آج بھی لوگوں کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس
لئے یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی بھی طبقے کے
مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے جبکہ رشدی کی کتاب نے مسلمانوں کے مذہبی
جذبات کو شدیدٹھیس پہنچائی ہے۔ ایسے میں یہ قابل غور ہے کہ جے پور میں اسے
اتنی اہمیت دئے جانے کے پس پردہ وجہ کیا تھی؟
پانچویں اور آخری بات یہ کہ ہندوستان عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ وہ
جاگیردارانہ نظام سے جدید صنعتی معاشرہ بننے کی طرف گامزن ہے۔ یوروپ کی
تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کیلئے اس قسم کا عبوری دور نہایت آزمائشی اور
چیلنج سے بھرپور ہوتا ہے۔ ہندوستان بہت مشکل سے اور متعددقربانیاں دینے کے
بعد جاگیردارانہ نظام کے تاریک زمانہ سے باہر نکل سکا ہے۔ کیا اسے دوبارہ
پیچھے دھکیل دیا جانا چاہئے؟میری واضح منشاءاوررائے یہ ہے کہ اظہار کی
آزادی کا مقصد منطقی اور سائنسی نظریات کی تشہیر ہونا چاہئے، کسی مذہب کی
توہین کرنا نہیں، کیونکہ اسی طرح ہم عبوریت کی اس حالت کا اچھی طرح سامنا
کر سکیں گے۔ |