ٹریفک سگنل پر گاڑیوں کی لمبی
لائن لگی ہوئی تھی جیسے ہی بتی سبز ہوئی گاڑیوں کا شور اور ہارن بجنا شروع
ہوگئے میرے ساتھ بیٹھے عزیر الطاف نے کہا کہ یہ گاڑی والوں کی طرف دیکھو ،ذرا
سا بھی صبر نہیں کر سکتے ،ہارن پہ ہارن بجائے جا رہے ہیں پاکستانی قوم کا
یہی المیہ ہے کہ یہ قوم صبر نہیں کر سکتی ان میں صبر کا مادہ بہت کم ہے میں
اس کی بات سن کر مسکرانے لگا اور سوچنے لگا کہ کیا عزیر کی بات صحیح ہے یا
غلط ؟حالات و واقعات پر نظر دوڑائی تو محسوس ہوا کہ عزیر الطاف صرف جذباتی
ہو کر یہ بات کہہ رہے ہیں کیونکہ پاکستان قوم جذباتی ہے یہ عقل و دانش سے
زیادہ جذبات سے کام لیتے ہوئے فیصلے کرتی ہے جہاں تک صبر کی بات ہے تو
پاکستانی قوم جتنی صابر و شاکر کوئی قوم نہیں ہے ۔
پاکستانی قوم میں صبر کا مادہ بہت زیادہ ہے جب اشیا ءکی قیمتیں بڑھ جاتی
ہیں تو یہ قوم ہنس کر اسے برداشت کر لیتی ہے جب کوئی چیز نایاب ہوجاتی ہے
تو یہ خاموشی سے چپ سادھ لیتی ہے (کیونکہ اس کے علاوہ یہ کچھ کر نہیں
سکتے)جب ظلم بڑھتا چلا جاتا ہے اورکوئی بھتہ خور اس قوم سے بھتہ لیتا ہے تو
یہ آرام سے اپنی محنت کی کمائی سے اسے بھتہ دے دیتی ہے کیونکہ یہ پر امن
قوم ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا اسے پسند نہیں،جب کہیں حادثہ ہو جاتا ہے تو اس
قوم کے لوگ اس حادثے یا ایکسیڈنٹ کو دیکھ کر رکتے نہیں ہیں اور آنکھ بند کر
پاس سے گزر جاتے ہیں کیونکہ نرم مزاج ہونے کی وجہ سے ان سے کسی کی تکلیف
دیکھی نہیں جاتی،یہ قوم بڑی زندہ دل قوم ہے جب ساتھ والے گھر میں جنازہ بھی
پڑا ہوتا ہے تو یہ قوم انجوائے کر رہی ہوتی ہے اور میوزک سے لطف اندوز ہو
رہی ہوتی ہے ،یہ قوم حکومت وقت کے ساتھ بڑی مخلص ہوتی ہے جب بھی اور جیسا
بھی ان پر بوجھ ڈال دیا جائے تو یہ اسے بخوشی قبول کرتے ہوئے اٹھا لیتی ہے
جب کسی چیز کا بحران آجاتا ہے تو یہ چپ سادھے صبر سے اس بحران کے ختم ہونے
کا انتظار کرتے ہیں،یہ قوم اپنے حکمران طبقہ کا کافی خیال رکھتی ہے ان کے
دیدار کی خاطر سڑکوں پر گھنٹوں صبر سے کھڑا رہتی ہے، یہاں پر میں آپ کو ایک
واقعہ سناتا ہوں ۔
ایک بادشاہ تھا ایک دن اس نے دربار سجایا اور اپنے وزیروں مشیروں سے پوچھا
کہ رعایا کا کیا حال ہے ؟وزیروں نے جواب دیا کہ انہیں آپ سے کوئی تکلیف
نہیں ہے اور وہ خوش ہیں اس لئے کوئی شکایت لے کر آپ کے پاس نہیں آتے
،بادشاہ نے کہا کہ ان پر کچھ ٹیکس عائد کر دو،چنانچہ وزیروں نے رعایا پر
ایک ٹیکس کی حد مقرر کر دی اسی طرح کچھ عرصہ گزر گیا لیکن رعایا میں سے
کوئی بندہ بھی شکایت لے کر نہیں آیا ،بادشاہ نے رعایا کو ایک میدان میں جمع
ہونے کو کہ کر وہاں اپنا دربار سجا لیا اور رعایا سے پوچھا کہ انہیں کوئی
تکلیف تو نہیں ہے رعایا نے کہا بادشاہ سلامت ہمیں آپ سے کسی قسم کی کوئی
تکلیف نہیں ہے بادشاہ نے انہیں ٹیکس دوگنا ادا کرنے کا حکم دیا اور لوگ
خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ گئے اسی طرح کچھ عرصہ گزر گیا لیکن کوئی بندہ
شکایت لے کر نہیں آیا اس پر اس نے وزیروں کو حکم کیا کہ عوام کو یہ حکم
جاری کرو کہ صبح کام پر جانے سے پہلے ایک چھتر لگوا کر جایا کریں اور ٹیکس
کو مزید بڑھا دو ،رعایا نے یہ حکم بھی بخوشی قبول کر لیا لیکن کوئی بندہ
شکایت لے کر نہیں آیا ،بادشاہ کافی حیران و پریشان ہوا اور اس نے ایک
بارپھر عوام کو اسی میدان میں اکٹھا کر کے دربار لگایا اور عوام سے پوچھا
کہ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ رعایا نے کہا کہ بادشاہ سلامت
ہمیں آپ سے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے البتہ چھترول کرنے والوں کی
تعداد میں اضافہ کر دیں کیونکہ چھتر کھانے کی باری دیر سے آنے کی وجہ کام
پر وقت سے نہیں پہنچ پاتے۔
اسی سے ملتی جلتی کیفیت پاکستانی قوم کی ہے کہ جو چاہے کرتے رہو لیکن سانس
لینے پر پابندی عائد نہ کرو ،پاکستانی قوم ایک صابر قوم ہے شاید اسے پتا ہے
کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس لئے یہ صبر کے امتحان سے گزر رہی ہے کہ
کبھی تو انہیں صبر کا اجر ملے گا اور یہ میٹھا پھل کھائیں گے لیکن اب اس
قوم کو سوچنا ہوگا کیونکہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا
پاکستانی قوم شاید اس لئے صبر کررہی ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ
ہوتا ہے۔ |