تحریر: صلاح الدين سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
الحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله، وعلى آله وصحبه ومن والاه
.
وبعد ،،،
فلسطین، بیت المقدس، اور مسجدِ اقصیٰ امتِ مسلمہ کے آزاد بندوں اور ملّت کی
بیٹیوں کے دلوں میں اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کہ قرآن کی تلاوت ہوتی
رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے تعالٰى : "سُبْحَانَ الَّذِي
أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ
الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ
هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ "[الإسراء : 1] ﴿ پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات
اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت
دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ
سننے اور دیکھنے والا ﴾،
میں بروکلین، نیویارک میں 1997ء میں، بیس ہزار سے زائد حاضرین کے سامنے
نمازِ عید کا خطبہ دے رہا تھا، اس موقع پر نیویارک کا ڈپٹی میئر بھی موجود
تھا جو مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ میں نے اس سے
جو باتیں کہی اس میں یہ بھی کہا تھا کہ فلسطین، قدس، اور اقصیٰ ہر سچّے
مسلمان کو اپنے اس گھر سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے جس میں وہ رہتا ہے۔
اور صہیونی غاصبوں کو تمہاری طرف سے ملنے والی مستقل مدد کی وجہ سے ہر
مسلمان کے دل و شعور میں امریکی حکومت کی ایک سیاہ تصویر بیٹھی ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں مصائب کے بادلوں اور غم کے اندھیروں کے درمیان صبر
عطا کرتی ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مومن درد میں مبتلا ہو تب بھی وہ امید
کا دامن نہیں چھوڑتا۔ امید عمل کی تحریک فراہم کرتی ہے، اور عمل کا یہ
سلسلہ اس وقت تک جاری رہنا ضروری ہے جب تک کہ فلسطین آزاد نہ ہو جائے اور
قدس سرزمین فلسطین کی واحد دار السلطنت اور اقصیٰ مسلمانوں کی زیارت گاہ نہ
بن جائے۔ وہ لوگوں کی زیارت کی امید گاہ بن جائے اور لوگ سینہ سپر ہو کر اس
کی حفاظت کرنے لگیں۔
میں اپنے ان کلمات کے ذریعہ پوری دنیا سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں:
اوّل : مغربی ممالک سے :
امتِ اسلامیہ عسکری جنگ، ذرائع ابلاغ کی یلغار، اور معاشی استحصال کے
درمیان جی رہی ہے اس کے باوجود امتِ مسلمہ یہ سمجھتی ہے کہ یورپی اور
امریکی نظام کا بدترین پہلو ان کا وہ کھلا تعاون ہے جو ان کی طرف سے صہیونی
جارحیت، قتل و خونریزی، ناجائز قبضوں، اور ہتکِ عزت کی کارروائیوں کو حاصل
ہے۔ دنیا یہ جانتی ہے کہ صہیونیوں کے یہ ناپاک کرتوت مغربی سازش کا نتیجہ
ہیں جن کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 1917ء میں اعلانِ بالفور کا گھناؤنا اقدام
کیا گیا۔ پھر اس وقت سے لے کر اب تک ان غاصبوں کی براہِ راست اور بالواسطہ،
کھلے اور چھپے، قانونی اور غیر قانونی ہر طرح سے عسکری، اقتصادی، سیاسی اور
سماجی ہر میدان میں بلکہ کھیل کود ........ کے میدان میں بھی حمایت و مدد
جاری ہے۔ قوموں کی یادداشت کمزور پڑسکتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی، تاریخ سست
ہو سکتی ہے لیکن بھول نہیں جاتی، اگر تمہارے پاس تھوڑی بھی عقل ہوتی تو تم
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے اعلانیہ غصّہ یا دلی غیظ و غضب کے باوجود چند لاکھ کی
تعداد کی حمایت نہ کرتے، تمہاری اس حمایت کے پیچھے نہ کوئی عقلی دلیل ہے
اور نہ ہی کوئی درست پالیسی، تم نے اپنے مستقبل کے مفاد کی خاطر اخلاقی
قدروں اور بین الاقوامی اصولوں کو نیلام کر کرے ان کے تعاون کا گھناؤنا قدم
اٹھایا ہے۔
دوم : عرب اور اسلامی حکومتوں سے :
تم سے میری ایک تمنّا ہے کہ کہ کم از کم ایک بار ہمارے اندر یہ یقین پیدا
ہونا چاہئے کہ اللہ ہی ناصر اور مددگار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ
الرَّحْمَنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ" [الملك : 20] ﴿بتاؤ،
آخر وہ کونسا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمان کے مقابلے میں تمہاری مدد کر
سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ﴾ہم اس یقین کے
ساتھ اللہ کی طرف پلٹیں کہ ان صہیونی ظالموں کے مقابلہ میں ہمیں اللہ کی
نصرت حاصل ہوگی، ہمیں غلبہ حاصل ہوگا۔ دیکھو فلسطین اور لبنان کے اندر
مزاحمت کار جماعتوں نے صہیونیوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو ناکوں
چنے چبوادیے ہیں۔ صہیونیوں کے ظلم و قہر تلے دبی کمزور امّت کے اس معرکے
میں تمہاری جگہ کہاں ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ صہیونی کسی دوسری مملکت سے جنگ
کر رہےہیں یا کسی پڑوسی ملک کی سرحد کے اندر گھس گئے ہیں بلکہ زمیں مختلف
حصّوں سے انہیں جمع کرکے انہیں ان کے اور ہمارے حلق کا کانٹا بنا دیا گیا
ہے۔ تم نے اپنے اور اپنی ملّت کے دشمن کے سامنے ذلّت کے کیسے کڑوے گھونٹ
پیے ہیں۔ کم ازکم ایک بار اپنے ضمیر کو زندہ کرو، ہمیں اس وقت احساس ہوگا
کہ ہماری وحدت میں کیسی قوّت ہے۔ قدس، اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کے لئے
فلسیطینیوں اور امتِ مسلمہ کی مدد کے لئے آگے آؤ۔ اس مدد سے کنارہ کش ہونے
سے تمہیں عالمی ممالک اور صہیونی نظام کی رضامندی نہیں مل جائے گی۔ اور نہ
ہی تمہاری عوام کی خوشی حاصل ہوگی، تم اللہ سے اس حال میں ملوگے کہ تم اس
کے غضب اور غصّہ کے مستحق ہوگے۔ جس دن یہ منصب، یہ مال اور یہ فوجیں نہ ہوں
گی اس دن تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دوگے " وَاسْتَفْتَحُواْ
وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ . مِّن وَرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِن
مَّاء صَدِيدٍ . يَتَجَرَّعُهُ وَلاَ يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ
الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ وَمِن وَرَآئِهِ عَذَابٌ
غَلِيظٌ "[إبراهيم : 15 -17] ﴿اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں اُن کا
فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی پھر اس کے بعد آگے اس کے
لیے جہنم ہے وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا جسے وہ
زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا موت ہر
طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس
کی جان کا لاگو رہے گا ﴾ .
سوم : اسلامی جماعتوں سے:
کوئی بھی جماعت جو ان مجرم غٰاصبین کے مقابلہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے
تعاون کو اپنے مقصد میں شامل نہیں کرتی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ صحیح
اسلامی عمل کے مفہوم سے نا آشنا اور روشن حق کے اظہار سے خاموش ہے۔ اس نے
کمزور باطل سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور ایسے موقع پر اس نے بزدلی کا اظہار
کیا ہے جب کہ بہادری و مردانگی کا تقاضہ تھا۔ مردانگی جس وقت آگے بڑھنے کی
دعوت دے رہی ہے ایسے وقت انہوں نے پیٹھ دکھائی ہے۔ وہ جماعتیں ان شاء اللہ
کامیابی اور رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں گی جنہوں نے قدس اور اپنا عنوان اور
اس کی آزادی کو اپنے لائحہٴ عمل کا بنیادہ حصّہ قرار دیا ہے۔ یہ صورتِ حال
اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہر جماعت قدس اور اقصیٰ کو اپنی ترجیحات میں
شامل کرے۔ اور اس فیصلہ کن قضیّہ کی بھر پور مدد کے لئے اپنے تمام عملی اور
طاقت سے بھر پور وسائل استعمال میں لائے ورنہ ہم امام شاطبی کے بقول ترکی
بدعت کے مرتکب ہوں گے، جماعت کی داخلی قوت ختم ہو جائے گی، اور کمزور امّت
کے درمیان یہ قوت ختم ہو جائے گی، ذلت، رسوائی، فقر اور عار ہمارے حصّے میں
آئے گا۔
چہارم : امّتِ مسلمہ کے افراد سے :
عربی کا مقولہ ہے :"مچّھر شیر کی آنکھ کو بھی خون رلاتی ہے " نیند میں مست
شیر کے بجائے ہم کام کرنے والا مچّھر بنیں تو یہ بہتر ہے۔ الحمد للہ ہم
مچّھر نہیں ہیں، ہماری یہی خواہش ہے کہ ہم شیر بن کر جئیں، ہمارے درمیان
ایسے مردانِ کار ہوں جو امانت کا حق ادا کرنے والے، دوسروں تک پیغامِ حق
پہونچانے والے ہوں، جن کی منال اللہ کی رضا اور جنّت ہو، جو شہادت کی تمنّا
رکھتے ہوں، جو قدس کے لئے جان و مال نچھاور کرنے کی آرزو رکھتے ہوں۔ میں آپ
سے جو سب سے پہلا مطالبہ کرتا ہوں وہ یہ کہ آپ اپنے بارے میں یہ اعتماد
زندہ کریں کہ آپ مچھر نہیں ہیں اور اللہ کی قسم آپ کے لئے یہ ممکن ہے کہ
بڑے بڑے کام کر جائیں، تاریخ کے دھارے کو بدل دیں، ٹیڑھی راہ کو سیدھی
کریں، دشمن کو پیٹھ دکھانے پر مجبو ر کردیں، اور شر پسندوں کے پیچھے چلنے
والوں کا تعاقب کریں تاکہ پاکیزہ نفس، اور حوصلہ مند لوگوں کے ہاتھوں، ان
لوگوں کے ہاتھوں جو شب و روز قیام ، صوم، ذکر، خدائے جبّار سے دعاء اور
ہمّت کی یکجائی میں مصروف رہتے ہیں، ہمارا گھر واپس ملے۔ ہم دعائے سحر
گاہی، خدا کے غضب اورغیرت مند شہسواروں کی بہادری سے یہ امید رکھتے ہیں کہ
عنقریب فتح و نصرت کی بہاریں دیکھیں گے۔ ساتھیو تم ایسوں کی صف میں شامل ہو
جاؤ ، عزّت ، شرف، اور خود داری کی نعمت سے لطف اندوز ہونے کے دن نصیب ہوں
گے۔
ہر اس شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں جس نے قدس، اقصیٰ، اور
فلسطین کو اپنی آنکھ، دل اور کلیجے میں سجایا ہے، اپنی اصلاح کی ہے اور
دوسروں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ ہم با برکت سرزمین اور ناحق بہائے جانے
والے خون پر فدا ہو جائیں۔ اور خونچکاں جسم اور بے پناہ تکلیف کے باوجود ہم
امید و یقین کا دامن تھامے رہیں۔ ہم اس بات کا بھی عہد کریں کہ جہد و عمل
سے جی نہ چرائیں گے یہاں تک کہ ہمارے لئے فتح و نصرت یا شہادت میں سے کوئی
بھی اچھا انجام سامنے آجائے۔ ساتھیو موت آنی ہے آؤ اس سے پہلے ہی ہم تیّاری
کر لیں۔ |