شہد کی مٹھاس

اگرچہ کالم لکھتے لکھتے اور ایڈیٹوریل کا پیٹ بھرنے یہ سلسلہ احقر نے1997سے شروع کیا ہواہے مگردیکھا یہی گیا ہے کہ جمہوری اور فوجی حکومتوں میں نقصان محض عوام کا ہی ہوا ہے۔جو بھی حکمران یہاں براجمان ہوا ہے اس نے عوام کا بھرکس نکالنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی۔مہنگائی، بے روزگاری،لوٹ مار،افراتفری،لاقانونیت اورپھر کئی سالوں سے دہشت گردی نے اس ملک کو بہت زیادہ پہنچایا ہے۔ہماری تمام حکومتوں نے کبھی سوچا ہے کہ ہندوستان کو تجارتی حیثیت سے پسندیدہ یا نا پسندیدہ ملک کادرجہ دینا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا کہ عوام کو گیس ،پٹرول اور بجلی دینا ضروری ہے۔امریکہ کی اتنی ہمت ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک کے اندرونی معاملات کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر انہیں اپنی اسمبلیوں میں طے کرنا شروع ہو گیا ہے۔ہمارے حکمران اپنی حکمرانی اور اس کی طاقت میں ایسے گم ہیں کہ انہیں کچھ بھی تو یاد نہیں۔

اس پر تو ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ جب کسی جنگل میں ایک شخص کے پیچھے شیر لگ جاتا ہے۔وہ جان بچانے کے لئے کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور رسی سے لٹک جاتا ہے۔جب نیچے دیکھتا ہے تو کنویں کی گہرائی میں ایک اژدھاہوتاہے۔اتنے میں دو چوہے (کالے اور سفیدرنگ کے)کنویں کی رسی کو کترنے لگ جاتے ہیں۔اچانک اسے کنویں میں شہدکا چھتا نظر آتا ہے اور وہ شہد کو انگلی پرلگاتا ہے۔اس شہد کی مٹھاس اسے کنویں کے باہر موجود شیر، کنویں میں موجود اژدھے اوررسی کاٹنے والے دونوں چوہے بھلا دیتی ہے۔وہ بھول جاتا ہے کہ آخر اسے کنویں ہی میں گرنا ہے۔امام غزالی صاحب اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ شیر موت ہے جو ہر وقت انسان کا پیچھا کرتی ہے۔اژدھا قبر ہے جس میں انسان کو ہر حال میں جانا ہے۔دو چوہے دراصل رات اور دن ہیں جو انسانی زندگی (رسی) کو کتر رہے ہیں اور شہد (دنیا) کی لذت ہے جس میں مگن ہو کر انسان اپنی فنا کو بھول جاتا ہے اور اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔

حکمران بھی عوام سے ہی سلیکٹ ہوتے ہیں اور ہم عوام بھی اپنی ذات میں اس قدر گم ہوتے ہیں کہ ہمیں محض اپنا فائدہ ہی عزیز ہوتا ہے۔ہم اپنے پڑوسی کی بھوک ،پیاس ،خوشی اور غمی کا احوال تک نہیں جانتے اور نہ ہی ہمارے پڑوسیوں کو ہماری کوئی فکر ہوتی ہے۔دیکھا جائے تو عوام کے منتخب حکمرانوں نے عوام کا جینا تنگ کر دیا ہے۔لوگوں کا اس طرح دھڑن تختہ کیا ہے کہ مہنگائی میں لوگ بے حال ہیں۔بجلی ہو گی تو فیکٹریاں ،دکانیں اور کاروبارچلے گا اور جب یہ لوگ ہمیں بجلی ہی نہیں دیتے تو پھر کونسا کاروبار زندگی۔مزدور،دکاندار اور کاروباری لوگ حکومت سے نہ صرف مایوس ہیں بلکہ نالاں بھی ہیں۔جب کوئی مزدور شام کو بغیر مزدوری یا پیسوں کے گھر پہنچتا ہو گا سوچیں وہ خود کتنا پریشان حال ہوگا۔

شہر اور گاﺅں کی چھوٹی مثالیں ہیں جن پر ہمارے حکمرانوں کو نہایت توجہ کی ضرورت ہے۔یقین کریں جن گھروں میں غریب رہتے ہیں ان کے جینے مرنے کی شاید ہی کوئی خبر لیتاہو۔ایسے گھروں میں اگر کوئی فوت بھی ہو جائے تو نعوذباللہ انہیں کفن دفن کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ کئی گھروں میں بچے بھوکے پیاسے سو جاتے ہیں۔کئی افراد پھٹے پرانے کپڑے پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔شہر میں کئی غریب آٹھ آٹھ افراد پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کرائے کی بیٹھک میں رہنے پر مجبور ہیں۔کئی غریب لڑکیاں جوانی کی دہلیز پر جہیز اکٹھا نہ ہونے پر اپنے والدین کے گھر ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔کئی غریب لڑکے بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کا شکار ہو جاتے ہیں یا غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں اور دہشت گردی یا ڈکیتی جیسی وارداتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ گاﺅں میں کئی چھوٹے زمیندار مالی مسائل کا شکار ہو کر اپنی زمینیں کوڑی کوڑی میں بیچ دیتے ہیں اور شہر میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔گاﺅں میں غریب عوام کو جھوٹے کیس میں پھنسوا دیا جاتا ہے یا انہیں کسی لڑائی جھگڑے کے چکر میں ڈال کر ان کا مستقبل تباہ کیا جاتا ہے اور اپنی اجارہ داری کو نمایاں کیا جاتا ہے۔

عوام کی حالت زار کو سدھارنامنتخب نمائندوں اور حکمرانوں کا اولین فرض ہے۔اگر کسی کو پتہ ہے کہ اس کے علاقے میں چور ڈکیت، قبضہ مافیا،فراڈیا یونٹ،کرپٹ طبقہ یا کوئی اور نوسر باز ہے تو اسے دیر لگائے بغیر اس کے خلاف کاروائی کرنے میں قانونی قدم ضرور اٹھانا چاہیئے۔اگر تھوڑی سی دیر ہو جائے تو غریب عورتوں کی عزت کو خطرہ ہوتا ہے،حق پر چلنے والے غریبوں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے،یتیم ولاوارث افراد کی زمینوں پر قبضہ کا چانس نکل آتا ہے یا کسی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوتا ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ ہی لے لیں اس میں ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی غلفلت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ایک مثال ہے کہ اگر کسی گھر میں کسی میاں بیوی کی لڑائی ہو جائے اور اس کو حل کرنے میں یا تو وہ خود اہم اہم ہو سکتے ہیں یا ان کے خاندان کا کوئی قریبی فرد مطلب مرد یا عورت کے والدین۔جب یہ کسی دوسرے شخص یا فیملی کو اس لڑائی میں ثالث بنائیں گے تو مسائل کے الجھنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔بلوچستان کے مسئلہ میں اگرچہ صدر مشرف کی طرف سے بہت زیادتیاں ہوئیں تو اس کا حل یہ ہے کہ موجودہ حکومت یا بعد میں آنیوالی کوئی بھی حکومت بلوچستان اور اہل بلوچستان کے اعتماد میں اضافہ کرے او ر وہاں انتشار پھیلانے والے کسی بھی عنصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرے بلکہ اس کو اپنی گرفت میں لے۔سانحہ بنگلہ دیش کسی بھی پاکستانی کو پسند نہیں آیا اور اب امریکہ سمیت کئی ملک دشمن عناصر اس مسئلے کو الجھانا چاہتے ہیں۔بے شک یہ دفاعی یا سیاسی مسئلہ ہے اس میں ہر پاکستانی اور ہر سیاستدان کو اپنا ذاتی کردار ادا کرنا ہو گا۔اگر ہمارے حکمرانی اپنی حکمرانی کی لذتوں میں کنویں میں شہد چاٹنے والے کی طرح مگن رہے تو عوام اور ملک کو خدانخواستہ بہت خطرہ لاحق ہے۔
mumtazamirranjha
About the Author: mumtazamirranjha Read More Articles by mumtazamirranjha: 35 Articles with 35472 views I am writting column since 1997. I am not working as journalist but i think better than a professional journalist. I love Pakistan, I love islam, I lo.. View More