سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکوں
کے ٹھیک پانچ سال بعداندور سے سنگھ کے ایک نوجوان کارکن کمل چوہان کی
گرفتاری اور اعتراف جرم کے بعد سنگھ پریوار کی پریشانی بڑھنا فطری بات ہے۔
کمل کم عمری سے ہی بڑی پاپندی سے سنگھ کی شاکھاﺅں میں جاتا رہا۔ چنانچہ
انسانیت دشمنی میں اس کا ذہن اس قدر پختہ ہوگیا کہ جب اس سے پوچھا گیاکہ
کیا اس کو اپنے اس فعل کے لئے کوئی پچھتاوا ہے جس میں کم از کم 68 افراد
مارے گئے ، جن میں کچھ غیرمسلم ہندستانی بھی تھے جو ٹرین میں ڈیوٹی پر تھے،
تو اس نے دوٹوک کہہ دیا ہرگز نہیں۔ چوہان نے جرم کا اعتراف اس طرح کیا گویا
یہ کوئی جرم نہیں تھا بلکہ بہادری کا کام تھا۔اس نے ٹرین میں بم رکھے جانے
کی تفصیل پوری طرح بیان کردی اور بتا دیا جرم کے ارتکاب میں کس نے کیا رول
ادا کیا اور ان کی تربیت کب اور کیسے ہوئی؟اس نے بتایا کہ اس گروہ کا سرغنہ
سنیل جوشی تھا جو سنگھ کا ضلع پرچارک رہا اور قتل کردیا گیا۔ اس کے قتل میں
بھی اسی سنگھی گروہ کے لوگوں پر شک کیا جاتا ہے۔ اس کاروائی میں شریک افراد
سنگھی ذہنیت والے اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے جس کے سرپرستوں میں سوامی
اسیمانند کا نام اہم ہے۔ سنیل جوشی ہی مالیگاﺅں، مکہ مسجد، درگاہ اجمیر
شریف ، موڈاسا اور متعدد دیگر دہشت گرد حملوں کا اصل ذمہ دارتھا، حالانکہ
پولیس ان واقعات میں مسلم نوجوانوں اور غیر ملکی گروہوں کے ملوّث کرتی رہی۔
اس سے قبل سوامی اسیمانند بھی اقبالیہ بیان میںیہ راز کھول چکے تھے۔
کمل چوہان کے اعتراف جرم پر بھاجپا کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے شک ظاہر کیا
ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اقبال جرم زور
زبردستی سے کرایا گیا ۔ اس سے قبل سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کے بعد
بھی یہی کہا گیا تھا کہ اقبال جرم دباﺅ ڈال کر کرایا گیا ہے۔یہ بات صحیح ہے
کہ ہندستانی پولیس جرم کی تہہ تک پہنچنے کے سائنسی طریقوں کے بجائے بدنیتی
سے یا کسی مفروضے اور شک کی بنیا د پر گرفتارشدگان کو اذیتیں دے کر اقبال
جرم کراتی ہے۔ اگریہ اقبال جرم مار کوٹ کراقلیتی فرقہ کے کسی فرد سے کرایا
گیا ہے تو سنگھی لیڈراور اس کے ہم نوا میڈیا والے اس کو قطعی ثبوت کے طور
پر پیش کرکے اس کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اور اگر ملزم کوئی سنگھی ہوتا ہے
توکھلے شواہد کے باجود اس کو بے قصور قرار دیکر سرکار کو کوستے ہیں اورخطا
کار کی پشت پناہی پر اترآتے ہیں۔یہ کوئی ایسا معمہ نہیں جس کو سمجھنا دشوار
ہو۔ دارصل فتنہ و فساد اور دہشت گردانہ حملوں کے ان سارے حربوں کو سنگھ
پریوار اپنے لئے جائز اور قوم پرستی تصور کرتا ہے اور ان کا الزام پولیس ،
انتظامیہ اور میڈیا میں اپنے لوگوں کی مدد سے اقلیت کے سر ڈالنے کواصل
کامیابی سمجھتا ہے، کیونکہ اس طرح ہندستانی سماج میں وہ فرقہ ورانہ کھائی
پیدا ہوتی ہے جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش میں رنگ بھرنے میں
معاون ہوسکتی ہے۔
لیکن آر ایس ایس کے تربیت یافتہ کارکنوں کے بارے میں یہ عذر کہ انہوں نے
جرم کا اقبال پولیس کی مار سے کرلیا ،ورنہ وہ تو بے قصورتھے ، خود آر ایس
ایس کے دعوؤں کی پول کھولتا ہے۔ اس کا دعوا ہے کہ شاکھاﺅں میں نوجوانوں کی
ایسی کردا رسازی ہوتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی آزمائش کاڈٹ کا مقابلہ کرسکیں۔
لیکن یہ کیسا مضبوط کردار ہے کہ پولیس کی گرفت میں آتے ہی ساری چوکڑی بھول
جاتے ہیں اورایسے ایسے راز اگل دیتے ہیں جس سے وہی سنگٹھن بے نقاب ہوتا ہے
جس سے وفاداری کا ان کوہر روز سبق پڑھایا جاتا ہے؟ایسے ڈرپوک اور کمزور
کردار کے کارکن جو اپنی تنظیم کی ڈھال نہیں بن سکتے وہ وقت پڑنے پر ملک کے
لئے کیا قربانی دیں گے؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سنگھ رہنماﺅں نے اپنے کارندوں کے دہشت گردانہ
سرگرمیوں میں ملوّث پائے جانے پر بوکھلاہٹ کا اظہار کیا ہے۔ جب بڑے پختہ
ثبوتوں کی بنیاد پر سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو مالیگاﺅں بم دھماکہ 2006 کے
کیس میں گرفتار کیا گیا تب بھی آڈوانی جی، راج ناتھ سنگھ ،سشماسوراج، اوما
بھارتی ، رام دیو اورسادھوی رتمبھرا سمیت پورا پریوار سڑکوں پر نکل آیا
تھا۔ و ی ایچ پی نے گرفتاری کے خلاف مہم چلائی تھی اور سنگھ کے ایک ذمہ دار
نے ذرا گھما پھرا کر کہا تھا کہ لوگ نادان ہیں، سمجھتے نہیں، سنگھیوں کی یہ
سرگرمیاں دہشت گردی نہیں بلکہ عین قوم پرستی ہیں۔ دراصل سنگھ کی نگاہ میں
قوم پرستی کا مطلب ہے ملک میں ایک ایسا ماحول بنانا جس میں برہمنیت کا بول
بالا ہو اور ہندﺅو ں کے علاوہ باقی ساری اقوام دست نگر بن کررہیں اور پڑوسی
مسلم اکثریتی ملکوں کو نکو بنایا جاتا رہے۔
مسٹر جاوڈیکر نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جس کیس میں پہلے سیمی، حوجی، آئی
ایس آئی وغیرہ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا اسی میں اب ہندوتووانظریہ کے
لوگوں کو کیوں گرفتار کیا جارہا ہے؟ اس اعتراض میں وزن ہوتا بشرطیکہ سیمی
اور دیگر تنظیموں پر یہ الزام کسی تحقیق اور ثبوت کی بنیاد پر لگایا
گیاہوتا۔ وہ الزام تو دھماکہ ہوتے ہی کسی سوچی سمجھی گہری سازش کے تحت یا
محض شک کی بنیاد پرلگائے گئے تھے۔جس طرح دہلی میں مقناطیس کار بم دھماکے کے
فوراً بعد اسرائیل نے ایران پر الزام عاید کردیا ہے ، حالانکہ اس کا کوئی
ادنیٰ سا بھی ثبوت نہیں،اسی طرح آئی بی کی ایماءپر سمجھوتہ دھماکہ کے لئے
سیمی اورآئی ایس آئی وغیرہ پر الزام عاید کیا گیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ
جن تنظیموں پر عموماًالزام دھرا جاتا ہے وہ دودھ میں دھلی ہیں۔ لیکن دہشت
گردی جیسے سنگین معاملہ میں کسی کو ماخوذ کرنے کے لئے محض شک اورگمان کی
بنیاد کافی نہیں،کچھ ثبوت اور شواہد بھی درکار ہیں۔پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سوامی
اسیمانند ، کمل چوہان اور اس سنگھی دہشت گرد گروہ کے جتنے بھی لوگوں کو بعد
میں گرفتار کیا گیا ہے ان سب کے خلاف شواہد اور ثبوت پہلے سے موجود تھے، اب
مزید مل رہے ہیں۔ ان سب کی کڑیاں جڑتی جارہی ہیں۔ مکہ مسجد، مالیگاﺅں،
درگاہ اجمیر شریف اوردیگر متعدد معاملات میں یہ ثابت ہوچکا ہے پولیس نے جو
کہانیاں بیرونی دہشت گرد گروہوں کے ملوّث ہونے کی گھڑی تھیں وہ سب جھوٹی
تھیں چنانچہ ان میں جو گرفتاریاں اقلیتی فرقہ کے لوگوں کی ہوئی تھیں وہ سب
پولیس و انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے سنگھ نواز افسران کی ملی بھگت کا نتیجہ
تھیں ۔
یہ کہنا بجا ہے کہ سمجھوتہ ایکپریس بم دھماکوں کے اصل مجرموں کے چہروں سے
پردہ اٹھنے میں بڑی تاخیر ہوئی ۔ مگر اس میں کم از کم ہریانہ پولیس کا قصور
نہیں ہے۔ ہریانہ پولیس نے اپنی جانچ پیشہ ورانہ طریقے سے شروع کی اور چند
ہی روز میں اس کی جانچ ٹیم اندور کی ان دوکانوں تک پہنچ گئی جہاں سے بم
رکھنے کے لئے سوٹ کیس ، ان کے غلاف اور بم سازی کا سامان خریدا گیا
تھا۔دوکانداروں سے پوچھ تاچھ کے نتیجہ میں ہریانہ پولیس کا ہاتھ اصل مجرموں
کی گردن تک پہنچنے ہی والا تھا کہ مدھیہ پردیش پولیس نے تعاون سے ہاتھ
کھینچ لیا۔ یہ سوال اہم ہے ہریانہ پولیس کو آخر وہ کیا سراغ ملے تھے جن
پرمدھیہ پردیش پولیس آگے کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی؟ خیال رہے کہ مدھیہ
پردیش میں دسمبر 2003سے اب تک بھاجپا کی سرکار ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں
کہ اس سرکارنے کس کے گناہوں کو چھپانے کی کوشش کی ہوگی؟
سوامی اسیمانند یا کمل چوہان کی گرفتاریوں اوراقبالیہ بیانوں سے بہت پہلے
یہ راز کھل چکا تھا کہ یہ کرتوت بھی سنگھی دہشت گردوں کا ہے۔ یہ اطلاعات
مالیگاﺅں بم دھماکہ میں سادھوی پرگیہ سنگھ، سوامی امرت آنند عرف دیانند
پانڈے اور لفٹیننٹ کرنل پر ساد پروہت وغیرہ کی گرفتاری کے بعد ہی ملنے لگی
تھیں۔ 9نومبر2008کوپروہت کا نار کو ٹیسٹ ہوا تھا جس کے بعد اس گروہ کے
سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں بھی ملوث ہونے کے بارے میں خبریں آنے لگی
تھیں۔ پروہت نے یہ بھی بتایا تھا کہ وی ایچ پی لیڈر ڈاکٹر پروین تو گڑیاکا
بھی اس دہشت گرد حملے میں رول تھا۔ مگر مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت
کرکرے کے قتل کے بعد نئے سربراہ مسٹر رگھوونشی اور موجودہ سربراہ مسٹر
ماریہ نے اس الزام کی تفتیش کو آگے نہیں بڑھایا۔نومبر2008میں اے ٹی ایس
مہاراشٹرانے ملزم پروہت کی پولیس تحویل میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے
ناسک کی عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم نے سمجھوتہ ایکسپریس میں استعمال بموں
کے لئے آرڈی ایکس سپلائی کی تھی ۔لیکن آئی بی فوراً حرکت میں آگئی اور اس
نے مرکز کو خبر دار کیا کہ اس دہشت گرد حملہ کے لئے ہم پاکستان کی خفیہ
ایجنسی آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرا چکے ہیں، چنانچہ اب اس موقف کو
بدلا گیااور اصل ملزموں کو نشاندہی کی گئی تو اس سے بین الاقوامی سطح پر
مرکزی سرکار کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔گویا مرکز کی نظر میں یہ بات زیادہ
اہم تھی کہ اس جرم کو سفارتی مقصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اصل مجرموں
کی پکڑ نہ کی جائے، جن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے۔ اس سے خفیہ ایجنسیوں پر
سنگھ کی گرفت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ تما م رپورٹیں قومی میڈیا میں شائع ہوئی ہیں،جن کا احاطہ مسٹر ایس ایم
مشرف نے اپنی مشہور کتاب’کرکرے کے قاتل کون؟‘ میں کیا ہے۔اس پس منظر میں
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اصل ملزم ناگوری اور ان کے ساتھی نہیں تھے ، جیسا
کہ مسٹر جاوڈیکر نے کہا ہے بلکہ وہ لوگ تھے جو مرکز ی وزارت داخلہ سے مسٹر
شوراج پاٹل کے رخصت ہوجانے کے بعد بے نقاب ہوئے ہیں ۔ چوہان کے بیان کے بعد
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیا سراغ تھے جن پر مدھیہ پردیش آگے کارروائی
پر آمادہ نہیں ہوئی اور کس کے کہنے پر اس نے ہریانہ پولیس کو مزید تفتیش سے
روک دیا، حالانکہ ہریانہ پولیس نے مارچ 2007 میں ہی معاملہ کو تقریباً حل
کرلیا تھا؟
دہشت گردی کے معاملات میں یو پی اے کے پہلے دورمیںحکومت کا رویہ بڑا ہی غیر
منصفانہ رہا ہے۔ ان واقعات میں ملوّث اصل خطاکاروں تک پہنچنے کے بجائے
مرکزی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر کچھ مفروضوں کو بنیاد بنا کر بلا جواز و
ثبوت مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں اور ملک بھر میں اقلیتی طبقہ کو
مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کام کیا گیا۔ لیکن 2009کے پارلیمانی الیکشن
کے وقت جب بھا جپا نے اعلان کیا کہ اس کا ایک انتخابی موضوع دہشت گردی بھی
ہوگا اور اس معاملے میں اس نے یو پی اے سرکار کو گھیرنا شروع کیا، تب کہیں
جاکر مرکز کو یہ فکر ہوئی کہ اگر اصل مجرموں کو بے نقاب نہیں کیا گیا تو
ملک بھی تباہ ہوگا اور اقتدار بھی اس کے لئے خواب و خیال ہوجائیگا۔ چنانچہ
اس نے اصل خطاکاروں کے چہروں پر پڑی ہوئی دبیز نقابیں اتارنی شروع کردیں تو
وہ سنگھی سامنے آنے لگے جو اصل قوم پرست ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ مرکز کو ان
کوششوں سے باز رکھنے کے لئے ہی بھاجپا مختلف عنوانات سے وزیر داخلہ پی
چدمبرم کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ سبرامنیم سوامی نے ان کے خلاف جو محاذ کھول
رکھا ہے وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اب یہ قیاس لگایا جارہا ہے کہ
عنقریب اندریش کمار جیسے کچھ بڑے لوگوں کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی۔ اس کا
بہت کچھ انحصار رواں اسمبلی انتخابات کے نتائج پر بھی ہے جس میں سنگھ
پریوار کے لئے کوئی خوش خبری نظر نہیں آرہی ۔ مسٹر جاوڈیکر کا مذکورہ بیان
اور اس گرفتاری پر دیگر لیڈروں کی خاموشی میں کچھ پیغام ہے، جس کو سمجھنے
کی ضرورت ہے۔(ختم) |