1936 کی بات ہے جب پال جوزف
گوئبلز نے ایک اصول وضع کیا " جھوٹ اس قدر عام کردو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے
لگیں یا کم از کم سچی بات میں شک کرنے لگیں ۔"یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ
تھا ہٹلر نے پال جوزف گوئبلز کو اپنا وزیر اطلاعات ونشریات متعین کردیا ۔اس
کےبعد گوئبلز کے وضع کردہ اصول پرعوام وحکمران چل پڑے اور نسلا بعد نسل آج
بھی اس کے متبعین موجود ہیں ۔آپ پوچھے گیں کہ وہ کہاں ہیں ؟تو آئیے ان کو
تلاش کرنے چلتےہیں ۔
*****
منبر ومحراب بہت مبارک مقامات ہیں اور ان کا تقدس بہت ہی زیادہ ہے ۔افسوس
کہ ان پر براجمان بعض وہ لوگ بھی ہیں جو اس کے بالکل اہل نہیں اور ان کے
تقدس کو پامال کر نے کے ساتھ ساتھ ان کی قدرومنزلت سے عاری ہیں ۔انہیں میں
ایک شخص کا تذکرہ آپ کے سامنے کرنے چلا ہوں ۔اللہ مجھے ذاتی عداوتوں
کدورتوں اور شکررنجیوں سے محفوظ رکھے ۔آمین
جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کے ایک نوجوان خطیب مولانا خضر حیات بھکروی ۔۔کچھ
دنوں سے اسٹیج پر نمودار ہوئے ہیں ۔۔ موصوف اپنی سلاست زبان کی وجہ سے اپنی
عوام میں کافی مقبول سمجھے جاتے ہیں ۔خاموش ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سنجیدہ
طبیعت کے مالک ہوں گے ۔۔عمر کے اعتبار سے ابھی اس مقام پر نہیں ہیں جہاں
پہنچ کر مزاج میں شوریدگی پیدا ہوتی ہے ۔یا آدمی پاگل پن کا شکار ہوجاتا ہے
۔یہ بھی سننے میں آیا ہےکہ علوم نبوت ؛موصوف نے پڑھ رکھا ہے بلکہ پڑھا بھی
رہے ہیں ۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔ان سب کے باوجود ان میں وہ خوبیاں نظر نہیں آتیں جو ایک عالم
دین میں ہونی چاہئیں ۔زبان سے سنجیدگی ومتانت کی گفتگو کے بجائے اول فول ہی
نکلتا رہتا ہے جبکہ جسم کا انداز’’ خسروانہ” مسلسل غیر اطمینانی کا شکار
رہتا ہے ۔علوم نبوت پڑھانے والے سے یہ امید تو نہیں کی جاسکتی کہ ان کو
لعنۃ اللہ علی الکاذبین کا قرآنی حکم معلوم نہیں ہوگا ۔لیکن اندر کا معاملہ
خدا جانے ۔
راقم نے موصوف کا ایک بیان سنا جو مورخہ 5 فروری 2012 کو تلہ گنگ شہر میں
ایک کانفرنس پر موقع پر کیا ۔پہلے پہل تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی
“عالم دین”بات کر رہا ہے یا بھانڈ ؟پھر جب سر پہ عمامہ ودستار اور چہرے پر
داڑھی کو دیکھا تو یقین آیا کہ ہیں تو مولوی صاحب۔۔۔۔ چونکہ راقم نے اپنے
استاتذہ کو دیکھا تھا جو عمامہ ودستار بھی رکھتے تھے اور علم وتقویٰ ،ورع
وخشیت بھی کوثر وسلسبیل سے دھلی زبان اور پروقار چال ڈھال بھی ۔حیات مستعار
کے تقریبا 10 سال انہی کے دستر خوان علم کا خوشہ چیں رہا ہوں اور تاحال
انہی کے حکم پر دینی خدمت پر مامور ہوں ۔۔اس لیے میں تو تصور بھی نہیں
کرسکتا تھا کہ ایسی شکل والے لوگ بھی اپنے منہ میں کالی زبان رکھتے ہوں گے
۔بلکہ دل و دماغ کی کالک اور پراگندگی ان چہرے سے ٹپکتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
یادش بخیر !موصوف نے اپنی زبان سے جیسے بے ہودہ الفاظ جوش خطابت میں نکالے
ہیں ان سب کو یہاں اس لیے ذکر نہیں کرتا کہیں وہ قارئین کے لیے اضمحلال کا
باعث بنیں گے ۔صرف چند ایک الفاظ کی جھلک تھوڑی دیر بعد ذکر کرتا ہوں ۔ اس
سے پہلے یہ معروض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ راقم 05 فروری 2012 کو تلہ گنگ
پہنچا اور سالانہ سیرت امام المجاہدین کانفرنس میں حاضری کی سعادت حاصل کی
کانفرنس میں علمائے کرام کے عشق رسالت اور محبت رسول سے لبریز بیانات کا
سلسلہ جاری تھا ۔۔۔
قاری سعید احمد منتظم جامعہ علویہ حیدریہ نے کانفرنس کے آخری خطیب کو پرجوش
انداز میں دعوت خطاب دی ۔اور وہ تھے فاتح مماتیت ،محقق اہل السنت ،مولانا
محمد عبداللہ عابد وڑائچ حفظہ اللہ امیر اتحاد اہل السنت والجماعت پنجاب
۔مولانا موصوف نے اپنے بیان میں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
قائلین کا تاریخی پس منظر بیان کیا اور بادلائل یہ ثابت کیا کہ اہل السنت
والجماعت کا شروع دن سے یہ تواتر سے عقیدہ چلا آرہا ہے کہ انبیاء علیہم
السلام اپنی اپنی قبور مبارکہ زندہ ہیں ۔1965سے پہلے اس کے منکرین کا دنیا
میں کہیں وجود نہیں ہے مولانا نے کہا کہ خضر حیات صاحب نے فرمایا ہے کہ ان
کے مقابلے میں ہم میدان میں نہیں آتے اوربھاگ جاتے ہیں آج میں اور مولوی
خضر صاحب دونوں ایک ہی علاقےمیں موجود ہیں وہ تشریف لائیں ہم ان سے گفتگو
کرنےکو تیار ہیں۔مجھے ان کا چیلنج قبول ہے وہ تشریف لائیں ہم ان شاء اللہ
علمی ماحول میں اس مسئلہ کو حل کر لیں گے مزید میں عشاء تک ان کا انتظار
کرتا ہوں ۔دریں اثنا مولانا خضر حیات کے تربیت یافتہ دو شاگرد ۔۔ملا مقصود
شاہین اور محمد رمضان ۔۔۔مجمعے میں کھڑے ہوئے اور اپنے استاد کو گفتگو کرنے
پر آمادگی کا اظہار کیا ۔ محترم جناب قاری سعید احمد کے حکم پر مذکورہ دو
ساتھیو ں کو پرامن طریقے سے جانے کا راستہ دیا گیا اور جلسہ بدستور جاری
رہا ۔
*****
راقم نےجلسے کےاختتام پر عوامی تاثرات معلوم کرنے کی غرض سے وہاں پر موجود
لوگوں سے سوال کیا : مولانا خضر حیات مماتی نے چیلنج دیا تھا جس کو مولانا
عبداللہ عابد صاحب نے قبول بھی کر لیا ہے مزید خضر حیات کے شاگردوں نے بھی
یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کو یہاں مناظرے کے لیے ابھی لے آتے ہیں تو آپ
لوگوں کا کیا خیال ہے کہ مولوی خضرحیات آج واقعی تشریف لائیں گے ؟لوگوں نے
بیک زبان ہوکر کہا کہ وہ ہرگز نہیں آئیں گے ۔اس پر راقم نے ایک اور سوال
داغا کہ “کیوں ؟” بعض پختہ عمر لوگوں نے کہا کہ یہ ہمارا تجربہ رہا ہے وہ
چیلنج تو دے سکتے ہیں لیکن مناظرانہ گفتگو کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتے ۔
بعد ازاں ملامقصود شاہین اور محمد رمضان سے راقم نے انٹر ویو لیا کہ کیا تم
واقعی آج اپنے استاد محترم مولانا خضر حیات صاحب کو مولانا عبداللہ عابد کے
سامنے لاؤ گے ابھی تک تمہارا یہی موقف ہے تو شاگردوں کے تلوں کا تیل بھی
ختم ہوگیا اور کہنے لگے :مولانا عبداللہ عابد ہمارے ساتھ گفتگو کرے ۔راقم
نے ان کے اترے ہوئے چہروں سےاندازہ لگا لیا کہ بے چارے ناسمجھ بچے ہیں جن
کو اپنے استاد کی علمی کمزوری کا پتہ نہیں اور کنویں کے مینڈک کی طرح ساری
علم کی کائنات اپنے استاد کے پندار میں سمجھ بیٹھے ہیں ۔اگر ان کو معلوم
ہوجائے کہ ہمارے استاد نے زندگی میں جب کبھی بھی عقیدہ حیات النبی پر
مناظرہ کیا ان کے علم وتحقیق کا برج اسی دن زمین بوس ہوجائے گا ۔
دوسری طرف ۔۔۔۔۔۔۔ اسی شہر تلہ گنگ میں مولانا خضرحیات کا بیان تھا ۔انہوں
نے اپنے بیان ۔۔جو کہ بقول قاری محمد سلیمان )لیٹی والا( آپ وہ جلسے کی
ریکارڈنگ سنیں میں خدا کی قسم آپ کو کوئی ایک لفظ بھی نہیں ملے گا خالصتاً
اللہ کی توحید ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور رسالت بیان ہوئی ہے
۔۔۔میں عالم اسلام کی معروف دینی شخصیت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
حفظہ اللہ اور ان کی جماعت کے علماء کرام کے بارے میں جو یاوہ گوئیاں کی
ہیں ان کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیں : کتورے ،پستے )کتیا کے چھوٹے چھوٹے
بچے (سبائی ، ایرانی النسل ، چوہے ،نہ منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا او ویہہ
سور دابچہ ۔ٹائوں ٹائوں کی آوازیں بھی مولانا خضر حیات صاحب نکالتے رہے
۔۔۔۔ نامعلوم کیا بننےکا ارادہ تھا ۔
جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کے علماء کا جم غفیر اسٹیج پر رونق افروز تھا
لیکن کسی کی عقل میں بھی یہ بات نہ آئی کہ وہ اپنےمناظر کی لگام کھینچ کر
سمجھائیں کہ یہ منبر اس لیے نہیں ہوتے بلکہ خالصتاً اللہ کی توحید اور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور رسالت بیان کرنے کےلیے ہوتے ہیں
۔۔۔فالی اللہ المشتکیٰ
5 فروری کو عصر کی نماز کے بعد جامعہ علویہ حیدریہ میں اشاعت التوحید
والسنۃ کے نمائندگان کا وفد تشریف لایا ۔تقریبا پون گھنٹے کی گفتگو میں
مناظرین کا اور موضوع کا تعین ہوا ۔موضوع عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ
وسلم جبکہ اہل السنت والجماعت کی طرف سےمناظر مولانا عبداللہ عابد وڑائچ
حفظہ اللہ اور اشاعت التوحید کی طرف سےمولانا خضر حیات کے نام تجویز کیے
گئے۔
6 فروری صبح 10 بجے جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کی طرف سے قاری شیر محمد
ارشد ،قاری محمد سلیمان ،محمد ابراہیم توحیدی شیشے والا ، امیر حسین کپڑے
والا اور دیگر افراد کا وفد جامعہ علویہ حیدریہ آئے جہاں اہل السنت
والجماعت کی طرف سے قاری سعید احمد ،مولانا عبید الرحمن انور ،مولانا فیض
الرحمان ،مولانا نور محمد آصف ،مولانا غازی عباس ،مولانا فضل محمود اور
دیگر افراد پہلے سے ہی موجود تھے ۔اجلاس میں فریقین کی رضامندی سے درج ذیل
قرار داد منظور پائی ۔
آج مورخہ 6فروری بروز پیر صبح 10بجے ایک مشترکہ اجلاس زیر صدارت مولانا نور
محمد آصف بمقام جامعہ علویہ حیدریہ تلہ گنگ میں منعقد ہوا جس میں جمعیت
اشاعت التوحید والسنہ کی طرف سے شرکاء اجلاس حضرت مولانا شیر محمد ارشد
صاحب ناظم اعلٰی جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ ضلع چکوال اور قاری محمد
سلیمان صاحب مبلغ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ اور بھائی محمد ابراھیم صاحب
اور بھائی امیر حسین صاحب اور بھائی میراں بخش صاحب اور اھلسنت والجماعت
دیوبند کی نمائندہ تنظیم بزم شیخ الھند کی طرف سے مولانا نور محمد آصف صاحب
اور قاری فضل محمود صاحب اور مولانا عبید الرحمن انور صاحب اور قاری سعید
احمد صاحب اور مولانا فیض الرحمن صاحب اور مولانا عبد الرحمن نظام صاحب اور
نور محمد اعوان یہ تمام حضرات اس اجلاس میں موجود تھے اس اجلاس میں مناظرہ
کے متعلق یہ شرائط طے ہوئیں۔
1-مناظرہ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو گا ۔
2۔مناظرہ (اہل السنت والجماعت۔۔۔ اشاعتی علماء کے پرزور اصرار پر اس لیے
لکھا گیا یعنی بقول ان کے یہ اہل السنت والجماعت ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
منکرین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل السنت والجماعت سے خارج ہیں
ملاحظہ فرمائیں علماء دیوبند کے معبتر اور مستند جامعات کے فتاوی جات۔۔۔ از
راقم ) اشاعت التوحید والسنۃ کی طرف سے مولانا خضر حیات بھکروی اور اہل
السنت والجماعت دیوبند کی مقامی نمائندہ تنظیم بزم شیخ الہند کی طرف سے
مولانا عبد اللہ عابد وڑائچ ہوں گے۔
3۔مناظرہ حکیم محمد اعجاز کے مکان پر ہو گا متبادل جگہ مولانا شیر محمد
ارشد کے پاس چکوال میں ہو گا ۔
4۔مناظرہ میں دونوں اطرف سے پچاس پچاس آدمی ہوں گے اور شرکاء مناظرہ کو
کارڈ جاری کیے جائیں گے اور فریقین اپنے افراد کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
5۔مناظرہ 18فروری بروز ہفتہ بوقت صبح 10بجے ہوگا ۔
6۔دوران مناظرہ دونوں اطراف سے کوئی بھی نعرے بازی نہیں کرے گا ۔
7۔مناظرے سے قبل دعوی تحریر کیا جائے گا اور مناظرین دعوی کی تنقیح خود طے
کریں گے ۔
6فروری کو ہی 3 بجے تلہ گنگ انتظامیہ نے فریقین کے سرکردہ افراد کو طلب کیا
اور اپنے خدشات کا اظہار کیا فریقین نے انتظامیہ کو اعتماد میں لیا اور اس
بات کا اطمینان دلایا کہ کسی طرح کا کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوگا چنانچہ
انتظامیہ نے اجازت دی اور ساتھ ہی یہ شرط عائد کی دس دس افراد فریقین لائیں
گے ۔جس کی نقل ہمارے پاس محفوظ ہے ۔بوقت ضرورت دکھلایا جاسکتا ہے ۔
اس مشترکہ اجلاس کی شق نمبر تین کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں مقام مناظرہ میں
حکیم محمد اعجاز کا مکان تجویز ہوا تھا لیکن غالبا 14 فروری کوتلہ گنگ
انتظامیہ نے بعض ناگزیر وجوہ کی بناء پر اسے منسوخ کردیا ۔حکیم محمد اعجاز
صاحب نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس کی وضاحت کی ہے وہ بھی ہمارے پاس ریکارڈ
میں موجود ہے ۔چنانچہ 16 فروری کو جامع مسجد الحبیب تلہ گنگ میں فریقین کی
ایک میٹنگ طے ہوئی اس میں علمائے اہل السنت والجماعت کی طرف سے مولانا نور
محمد آصف ،قاری سعید احمد اور مولانا عیبد الرحمن انور جبکہ اشاعت التوحید
کی طرف سے قاری شیر محمد ارشد ،محمد ابراہیم توحیدی شیشے والا اور امیر
حسین کپڑے والے نے شرکت کی اس میں ایک متبادل مقام مناظرہ طے کیا اس خفیہ
میٹنگ میں حلفا ً فریقین نے اقرار کیا کہ اس کا 18 فروری تک کسی کو نہیں
بتلائیں گے اور یہ بات صیغہ راز ہی میں رہے گی ۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہوا جس کا ڈرتھا فریق مخالف اپنے حلف پر باقی نہ رہا
اور شام کو المدد المد د یا پولیس یا پولیس کی صدا لگائی انتظامیہ کو
متبادل طے شدہ مقام مناظرہ کی مخبری کردی ۔شاید یہ سوچ کر کہ اب انتظامیہ
کی رکاوٹ کی وجہ سے اہل السنت والجماعت بزدلی کی چادر اوڑھ لیں گے اور مقام
مناظرہ پر ایفائے عہد کی بجائے نقض عہد کریں گے ۔ جبکہ اہل السنت والجماعت
نے طے شدہ مقام پر وقت مقررہ پر پہنچ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ اس مسئلے کا
مثبت حل چاہتے ہیں ۔میرے خیال میں تلہ گنگ انتظامیہ بھی ہمارے اس موقف سے
ضرور متفق ہوگی کیونکہ جبتک اس کا علمی حل تلاش نہیں کر لیا جاتا فریق
مخالف کی طرف سے اس میں یک طرفہ شدت سے اہل السنت والجماعت سے وابستہ افراد
کی کھلم کھلا دل آزاری ہے ۔
*******
17 فروری کی شب جب دنیائے مماتیت سہم کر سو چکی تھی اس وقت اہل حق کا قافلہ
۔۔مولانا عبداللہ عابد وڑائچ ،مولانا مفتی محمد آصف ،قاری سعید احمد
،مولانا غازی عباس ،مولانا محمد بلال اور راقم ایفائے عہد کی داستان رقم
کرنے کےلیے طے شدہ مقام مناظرہ کی طرف سرک رہا تھا ۔تقریبا صبح 6 بجے ہم
لوگ مقام مناظرہ جاپہنچے اوروقت موعود ۔۔ 10 بجنے۔۔۔کا شدت سے انتظار کرنے
لگے ۔
راقم کے دل میں نجانے خیالات اٹھ رہے تھے کہ کیا واقعی مناظرہ ہوگا ؟ کیا
آج باطل پرست فرقہ ،عصر ہذا کے معتزلہ واقعی نبی پاک کی حیات کا انکار قرآن
وسنت سے کریں گے ؟؟ خضر حیات صاحب جو اسٹیج پر اپنی عوام کو طفل تسلیاں دے
رہے ہوتے ہیں وہ آج واقعی دلیری کا مظاہرہ کریں گے ؟ ہائے بسا آرزو کہ خاک
شدہ
10 بھی بج گئے لیکن طے شدہ مقام مناظرہ ملک یعقوب صاحب کا ڈیرہ ڈھوک گورایہ
پر اشاعت التوحید کی طرف سے فریق ثانی کا کوئی فرد بشر نہیں دکھائی دیا
۔مولانا عبداللہ عابد وڑائچ ان کے ساتھ قاری سعید احمد ،مفتی محمد آصف
،غازی عباس اور مالک مکان ملک یعقوب صاحب نے بھی اپنا اپنا بیان ریکارڈ
کرایا ۔عین اسی وقت ahnafmedia.com پر براہ راست عابد جمشید نے فون لائن
پرلیا تازہ ترین صورت حال سے ہم نے ان کو تفصیلاً آگاہ کیا اور موقع پر
ریکارڈنگ بھی کی ۔المختصر ۔۔۔۔پون گھنٹے کے قریب گزرنے پر بھی جب اشاعتی
علماء مناظرین تشریف نہ لائے تو ہم بھی آگے چل دیے ۔
***********
ادھر کیا ہورہا تھا اشاعتی لوگ جھوٹے میسجز ،جھوٹی کالیں افواہیں اور من
گھڑت خبریں پھیلائی جارہی تھیں جھوٹ کو اس قدر عام کیا جارہا تھا کہ لوگ اس
کو سچ سمجھ لیں یا کم از کم سچ میں شک ضرور کر لیں وہی بات جس کا ذکر میں
شروع مضمون میں کر دیا تھا کہ گوئبلز کے متبعین اس کے نقش قدم پر تھے ۔عین
اسی وقت مجھے گوئبلز کا انجام بھی یاد آنےلگا جب وہ یکم مئی 1945 کو خود
سوزی کر کے مرنے لگا تو اس نے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا’’میں آج اس
نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سچ ؛ سچ ہوتا ہے اور جھوٹ ؛ جھوٹ ہوتا ہے ۔۔۔۔ بلکہ
یہ بھی کہا کہ ۔آپ سچ کو کچھ وقت کے لیے جھوٹ اور جھوٹ کو کچھ وقت کے لیے
سچ کر سکتے ہیں مگر سچ عمر بھر کے لیے جھوٹ اور جھوٹ عمر بھر کے لیے سچ
نہیں کرسکتے ۔”
گوئبلز تو چل بسا ۔مگر اس کے متبعین )مماتی (آج بھی اس کے غلط وضع کردہ
اصول پر کاربند نظر آتے ہیں ۔آئے کاش متبعین کا یہ گروہ گوئبلز کی آخری
نصیحت کو مان لیتا ۔لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ گروہ آج بھی شکست خوردہ قوم
کی عادات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔ ناداں کہیں کے ۔
خیر چھوڑیے قارئین!جن کو آپ تلاش کرنے نکلے تھے وہ آپ کو مل گئے یا نہیں
؟بتائیے گا ضرور۔۔۔۔!. |