افغانستان میں موجود امریکی فوج
کے اہلکاروں کی جانب سے بگرام ائیربیس پر قرآن مجید کے کئی نسخے شہید کرنے
کے بعد افغانستان کے غیورعوام قابض فوجوں کے خلاف سخت احتجاج کر رہے
ہیں،اور احتجاج کے دوران اب تک تقریبا ایک درجن مظاہرین شہید جبکہ درجنوں
دیگرزخمی ہوچکے ہیں-گوکہ افغان عوام کے غیض و غضب دیکھنے کے بعد افغانستان
میں تعینات نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن اور اسکے بعد امریکی
وزیر دفاع لیون پنیٹا اور وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے بھی افغان عوام
سے مذکورہ اقدام پر معافی مانگی ہے۔ لیکن افغان عوام اورافغان اراکین
پارلیمنٹ نے نہ صرف امریکی معافی کو مسترد کردیا ہے بلکہ افغان اراکین
پارلیمان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ھے کہ وہ امریکہ کے خلاف اعلان جہاد
کرے اور اس ضمن میں انہوں نے ایک قرارداد بھی جمع کرادی ہے جس میں کہا گیا
ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کیا جائے-
قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر وہ کیا
وجہ تھی کہ جسکی وجہ سے امریکی فوج نے مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کے کئی
نسخے جلا ڈالے۔۔۔۔۔۔؟؟؟قارئین محترم! امریکہ نے جس وقت افغانستان پر حملہ
کیا تھا تو امریکہ کا خیال یہ تھا کہ بس چند ہفتوں میں ہم افغانستان کے
سیاہ و سفید کے مالک ہوجائینگے،یہ خیال نہ صرف امریکہ کا تھا بلکہ بلکہ
دنیا کے کئی ممالک باالخصوص مسلم ممالک بھی یہی سوچ رکھتے تھے کہ نہتے
افغان کہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس امریکہ
کا مقابلہ کرسکیں گے۔ اور اسی زعم میں مبتلا ہو کر امریکہ نے ٤١ حواریوں کو
ساتھ ملاکر افغانستان پر حملہ کردیا۔اور اس حملے کے لیے پاکستان کے اس وقت
کے صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کو ہر طریقے سے بھر پور سپورٹ دیا-امریکہ
نے حملہ تو کردیا لیکن یہ نا سوچا کہ دنیا کے دیگر مسلم ممالک کی طرح افغان
عوام اپنے دین سے بے خبر نہیں بلکہ وہ تو آج بھی قرآنی احکامات پر جان دینا
اپنے لئیے قابل فخر بات سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔لہذا امریکی حملے کے بعد افغان
عوام نے قرآن پاک کو اپنے لئیے مشعل راہ بناتے ہوئے سپرپاور امریکہ کے خلاف
مزاحمت شروع کردیا-اور رفتہ رفتہ امریکہ اور اسکے حواریوں کے قدم افغانستان
میں ڈگمگانے لگے اور آج دس سال کے بعد دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ آج انہی
طالبان سے مذاکرات کے بھیک مانگ رہا ہے جنہیں کل تک وہ انسان بھی تسلیم
کرنے کو تیار نہ تھا-قارئین کرام! آج یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہے سرو سامانی کے
عالم میں لڑنے والےطالبان عالم کفر کے مقابلے میں کامیاب کیسے ہوئے؟تو اسکا
جواب نہایت آسان اور سیدھا سا ہے کہ طالبان نے ہر قسم کے لالچ اور دھمکیوں
کے باوجود جب احکام قرآنی کو ترجیح دی تو ہھر اللہ پاک رب العزت نے بھی
قرآن میں کیے ہوئے اپنے وعدے کو پورا کیا اور ظالم امریکہ اور اسکے ساتھیوں
کو ذلیل و خوار کردیا۔۔۔۔۔امریکہ نے جب دیکھا قرآن میں آج سے چودہ سو سال
قبل اللہ پاک نے اپنے وعدے کو پورا کیا اور ہماری جدید ٹیکنالوجی مکمل طور
پر نا کام ہوئی۔تو انہوں نے قرآن شریف سے بدلہ لینے کی کوشش کی اور قرآن
پاک کو شہید کر ڈالا-
قارئین گرامی! امریکیوں کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا یہ کوئی پہلا
واقعہ نہیں بلکہ بد بخت امریکیوں نے اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ
افغانستان،عراق،گوانتاموبے اور خود امریکہ کے اندر قرآن مجید کی بے حرمتی
کی ہے-گوکہ امریکی بدمعاشیوں کے جواب افغان عوام خوب دے رہے ہیں لیکن
مسلمانوں! یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ قرآن کا حفاظت صرف افغانوں کے ذمے
نہیں بلکہ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی قرآن کی حفاظت کے لئیے
میدان میں نکلے۔ لہذا مسلمانوں! اور باالخصوص مسلم جوانوں! آئیں قرآن پاک
سیکھیں اور سمھجیں اوراس پر عمل کرکے اسکا پیغام دنیا بھر میں پہنچائیں
تاکہ دنیا سے امریکہ سمیت تمام ظالم قوتوں کا خاتمہ ہو جاے اور دنیا میں
اسلام کا بول بالا ھو جائے-اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو- |