اسلاف کے یوم پیدائش و وفات پر
خراج عقیدت پیش کرنا کوئی نئی رسم نہیں ، ماضی میںبھی اس کا رواج ملتا ہے ،
آج بھی انتہائی تز ک و احتشام سے مختلف مذاہب وملل کے پرستار اپنے اپنے
اسلاف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ، ان کاذکرخیر کرتے ہیں ، چراغاں کرتے
ہیں ، ان کے ناموں سے موسوم فلاحی تنظیم و سوسائٹی کی داغ بیل ڈالتے ہیں ۔عیسائیوں
میں تو 25ستمبر ایک مذہبی تہوار ہے ۔ ان کے خیا ل میں اسی تاریخ کو سید نا
عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ بہت سی ایسی شخصیا ت ہوتی ہیں جو کسی مکتبہ فکر کی
صرف مذہبی رہنما ہوتی اور نہ ہی کسی خا ص طبقہ کی قائد ، بلکہ ان کے
کارنامے پورے ملک و ملت کے لئے باعث صد افتخار ہو تے ہیں ، قوم وملت کے
افراد ا ن پر نازاں وفرحاں ہوتے ہیں، بلا تفریق مذاہب و ملل کے یہاںان کی
برسی کی ایک خاص اہمیت ہو تی ہے۔
عام طور سے ا ن کی بر سی کے موقع پر تقریبات منعقد کرنے میں دوخیا ل یا دو
مقاصد شامل ہوتے ہیں۔ اول،انہیں قبروں میں سکون ہوگا ، ان کی روحوں کو خوشی
ہو گی ، اس خیا ل کے حامل یہ یاد رکھیں کہ ہمارے چراغاں کرنے ، ان کی یا د
میں تقریبا ت منعقد کرنے سے ان کی روحوں کو ذرا بھی فرحت و مسرت نہیں ہو تی
، یہ تو محض خام خیال ہے ، کسی نے ایسے افراد کے تعلق سے کیا خوب کہاہے
اس درد ِ دل کو زمانہ کیا جانے
کوئی بے وفا عشق نباہنا کیا جانے
قبر کے اندر خوشی یا درد ہو تا ہے کتنا
یہ اس پر پھو ل چڑھانے والے کیا جانے
دو م، اس غرض سے اسلاف کا ذکر خیر کیا جاتا ہے کہ نئی نسلیں ان کے کارنامے
کو جانیں ، ان کی خدمات سے روشناس ہوں، انہیں آئیڈیل و نمونہ مان کر ان کی
طرح ہی ملک و ملت اور سماج و معاشرہ کے لئے جانثاری کا ثبو ت دینے کو اٹھ
کھڑی ہو ں ۔ یہی وہ مقصد ہے جو حق بہ جانب اور قابل فہم ہے ،اسی غرض سے
اسلاف کے یو م پیدائش و وفات پر تقریبا ت منعقد کرنے کا کوئی فائدہ ہے ،
تاہم آج رسمی طور پر سال میں ایک دفعہ انہیں یا دکر کے بقیہ دنوں کے لئے
فراموش کردیا جاتا ہے ، ان کے حالاتِ زندگی سے واقف کرانے کے لئے کوئی موثر
طریقہ اپنا یا نہیں جاتاہے ، سب سے بڑی ستم ظریفی کہ برسی وغیرہ کے موقع پر
بھی ان کی حیات و خدمات پر کم اور لغویات یعنی ان سے ذاتی تعلقات و مراسم
پر زیا دہ گفتگو ہو تی ہے کہ ان سے (جن کی یا د میں یہ تقریب منعقدہے)فلاں
رشتہ داری ہے،حالانکہ ذاتی تعلقات و مراسم کو ایسے موقعوں سے سامنے لانے سے
نئی نسل کا اتنا فائدہ نہیں جتناکہ ان کے خدمات اور صاف وشفاف کردار کے
اجاگر کرنے میں ہے ، برسی جو ایک خالص رواج بنتا جارہاہے، کے ضمن میں رسول
اللہﷺ کے تعلق سے مسلمانوں کا جائزہ لیں تو وہ بھی آپ ﷺ کی برسی بڑے ہی تز
ک واحتشام سے مناتے ہیں،اسی موقع سے انہیں یاد کرتے ہیں اورپورے بر س کے
لئے ان کے ارشادات وفرمودات کو فراموش کرکے غیر اسلامی زندگی گزارنے میں
فخر محسوس کرتے ہیں ، سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ اسلام سے کنارہ کش ہوکر یہ
برسی منانے والے مسلمانوں کو فخر کہ ہم ہی ہیں اصل دیندار ،ہم ہی ہیں اسلام
کے پا سباں ! اسلام جو لاثانی مذہب ، انہیں جیسوں کی کرتوت اور غلط رویوں
سے بد نا م ہے ۔
بہر کیف ! چند سطور قبل یہ عر ض کیا گیا کہ بے شمار ایسی شخصیات ہو تی ہیں
جو محض کسی مکتبہ فکر کی مذہبی رہنما ہو تی ہیں اور نہ کسی خاص طبقہ کی
قائد ،بلکہ وہ ہمہ جہت ہو تی ہیں،پہلودا رہوتی ہیں کہ پورے ملک وقوم کو ان
پر نازہوتاہے ، ان جیسی مایہ ناز ہستیوں میںمولانا ابوالکلام آزادؒ کی
شخصیت انتہائی نمایاں ہیں، وہ کیا تھے ،مدبر تھے ، مفکر تھے ، مصلح تھے ،
قائد تھے ، مذہبی رہنما تھے ،دور اندیش بالغ نظر اور بے باک صحافی تھے یا
ایک ماہر اور عظیم سیاستداں ؟بلامبالغہ ایک طرف وہ علم کے سمندر کے شناور
تھے تودوسری طرف سیاست کے بحر عمیق کے غواص ! صحافتی افق پر محو پر واز تھے
تو ملی وسماجی بے لوث خدمت گا ر ! افکار ونظر یا ت کے بادشاہ گر تھے تو ایک
ادیب زماں ! الغرض اپنی مثال آپ تھے ، آپ منفرد زمانہ اور یکتا ئے روزگار
تھے،یہی وجہ ہے کہ اس ہمہ جہت وعظیم ہستی کے کارناموں کا آزاد ہند کا ہر
فرد معترف ہے اور ان کے احسان عظیم سے گرابا ر بھی ، باوجو د ان سب حقیقتوں
کے ان کے یو م پیدا ئش پر رسماً انہیں یا د کرلیا جاتاتھا مگر گزشتہ برس سے
ان کا یوم پید ائش 11) نومبر 1888)بطور قومی یوم تعلیم منایا جارہاہے ،
جوکہ انتہائی منا سب ہے اور دیر آید درست آید کے مصداق بھی ۔
اسی کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس مولانا کی بر سی پر یہ آواز بھی سنائی دی کہ
قومی سطح پر آپ کی حیات و خدمات پر مشتمل کوئی سبق داخل نصاب ہو تاکہ اس
گوہر نایا ب کی زندگی کی ایک جھلک سے ہی نئی نسل کے دلوں میں ملک وقوم اور
سماج وملت کے خدمات کے تئیں ایک جذبہ پیدا ہو ۔فی الواقع یہ آواز انتہائی
توجہ کی حامل ہے ۔ اس آواز کے توجہ کے حامل اور قابل قدر ہو نے کے متعدد
وجوہات ہو سکتے ہیں :
مولانا کی پو ری زند گی سے قطع نظر لڑ کپن اوررنوجوانی بلکہ ابتدائی بیس
برسوں پر ہی نگاہ ڈالیں کہ اس میں ہی وہ کس قدر فعال و متحرک تھے ، اتنی
چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے کیا کرشمہ کردکھا یا ، کوئی تیر ہ بر سی کی عمر
رہے ہو گی کہ لائبریری ،ریڈنگ روم ، بحث ومباحثہ اور تحقیق و تفتیش کے لئے
ایک سوسائٹی قائم کرلی تھی ، طفلی کے ایام ختم ہی ہوئے تھے کہ اپنی عمر سے
دوگنی عمر کے طلبا ءکو پڑھانے لگے تھے ، کوئی بیس بر س کی عمر تھی کہ کئی
قابل ذکر رسالوں کی ادارت کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھوں تھی ، اسی زمانہ کی با ت
ہے کہ علم کے بحر زخار ، تحقیق و جستجو کے سکندر علامہ شبلی نعمانی ؒ نے
انہیں”الندوہ“کی ادارت سنبھالنے کو کہا۔اس موقر عملی رسالہ کی ادارت کی
دعوت وہ بھی علامہ کی زبانی کوئی معمولی بات نہیں ، بلکہ یہ تو ان کے تبحر
علمی پر ایک مہر ہے ۔
متعدد وجوہات میں یہ بھی ہے کہ وہ علم دوست ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک جدا
گانہ محب وطن تھے، ان کے سراپا میں وطن دوستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر اتھا
، اسی کا اثر تھا کہ ملک عزیر کی آزادی میں انہوں نے وہ کرشمہ کردکھا یا جو
ہندوستان کے افق دنیا پر رہنے تک با قی رہے گا ،گویا اس تعلق سے انمٹ نقوش
چھوڑگئے ۔ یہی تو وہ آزا د ہیں جنہوں نے ”الہلال ، البلاغ“کے صفحوں پر وطن
دوستی کے قلم سے ”آزادی“ کو قوت گو یا ئی دی کہ اس کی للکار سے دلوں میںایک
جذبہ پیدا ہو گیا ، ہر ایک کی سرد انگیٹھیوں کو گرم کردیا ، یہ آزادؒ تو
وہی ہیں جو آزادی کے جذبہ سے سرشار ہو کر جیل کی صعوبتوں کو بر داشت کیا ،یہ
تو وہی آزاد ہیں جنہوں نے یہ دکھا یا کہ ایک عالم ملک و قوم کی خدمت کے لئے
کیا کیا کرسکتا ہے ، وطن دوستی نے ہی انہیں سیا سی افق پر محوِ پر واز ہونے
پر مجبور کیا اورایک مذہبی رہنما ہو کربھی سیاست میں وہ مقام بنا یا جو
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،ان کے ان ہی جذبوں کو دیکھ کر دانشوروں نے کا
نگر یس کی باگ دوڑ دومرتبہ 1923اور1940میں ان کے ہا تھوں دیں۔
مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد یعنی متحدہ قوم کے تئیں جو خواب دیکھا تھا
وہ بھی ایک توجہ طلب ہے ۔ آزادی کے قبل مخالف ماحول میں ایسا خواب دیکھنا
کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ آج حالا ت نہایت نا گفتہ بہ ہے ، مذہبی تناؤ کا
دوردورہ ہے ، اسی کشمکش میں معاشرہ گھر اہے ، ایسے ماحو ل میں اگرآزادکے اس
خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم اس آزادہندوستان میں آزاد
ی کی سانس لے سکتے ہیں ، ہندو مسلم اتحاد کی فضا قائم کرسکتے ہیں ،کا ش !
جوہو کوئی اسے سمجھے !!
امام الہند کو داخل نصاب کرنا اس وجہ کر بھی مناسب ہے کہ وہ آزاد ہند کے
پہلے وزیر تعلیم تھے اور تا دم زندگی یعنی 22فروری1958 تک اس پر فائز رہیں
، انتہائی تندہی سے ادائے فرض منصبی میں مصروف رہیں ، تعلیم کوفروغ دینا
گویا ان کا مشن تھا ، ان کی زندگی تھی۔ اگر مختصراً ان کی رودادِ زندگی
داخل نصاب ہو گی تو ہر طلبہ کی نظرمیں ان کی زندگی ہوگی اور یہ پڑ ھیں گہ
وہ کیسے فعال تھے ، متحرک تھے ، دوراندیش اور نکتہ سنج تھے ،لا محالہ ان کے
دلوں میں بھی کچھ کرگزر نے کا جذبہ پید ا ہوگا ، جس سے کوئی بعید نہیں کہ
ملک وملت کے بے شمار فائدہ ہوں ۔
اس لحاظ سے بھی ایسی جامع وعبقری شخصیت کو داخل نصاب کرنا مناسب ہی
نہیںبلکہ ضروری معلوم ہو تاہے کہ عموماً مطالعہ کا رجحان کم ہو تا جارہا ہے
، خصوصاً نوجوان نسلوں میں تو اس کا فقدان ہے ، وہ اپنے اوقات بجائے مطالعہ
کے ٹیوی دیکھنے اور نیٹ پر بیہودہ حرکتوں کے ارتکاب میں گزارتے ہیں ، جس کا
لازمی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ وہ جامع اور عظیم شخصیتوں کے کا رنا موں سے
بھی نا واقف ہو تے ہیں ۔
ان تما م حقیقتوں اور کا رنا موں کو سامنے رکھتے ہوئے دل کا بھی فیصلہ ہو
تا ہے کہ واقعی امام الہند کو داخل نصاب کیا جاناچاہئے ۔ |