یادوں کے چراغ ۔۔۔۔ مولانا قاری محمد اسماعیل رحمة اللہ علیہ

(یوم وفات :24فروری 1980)

ایسے نفوس قدسیہ کے دینی ،علمی اور عملی کارنامے جان کرآج بھی ہزاروں بار سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے خطہ برصغیر کے غبار آلود ماحول اور مشکلات کی مختلف جہات کے باوجود میں بھی اشاعت اسلام کی شمعیں روشن رکھیں او ر اپنے اسی روشن کردارو سیرت کے بدولت تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ کے لیے”امر “ ہو گئے ، انہی میں سے ایک نام نامی، اسم گرامی مولانا قاری محمد اسماعیل ؒ کا ہے ،آج ہم اسی مرد درویش اور نیک ہستی کے حالات زندگی ا خبار کے ان صفحات کی تنگ دامنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختصر طور پر قلمبند کرنے کی کوشش کریں گے ۔اس مرد ِ دوریش نے 1908ءمیں ضلع صوابی کی تحصیل چھوٹا لاہو رمیں محمد گل کے آنگن میں آنکھ کھولی، علاقہ بھر میں اس خاندان کی علمی و جاہت اور دینی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اسی خانوادہ کے چشم و چراغ ، بزرگ مجاہد عبد الرحیم بابا گزرے ہیں جنہو ں نے ”تحریک شہیدین “میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا اور اسی تحریک کی خاطر کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے شہادت کے رتبے پر سرفراز ہوئے اور ”شہید بابا“کہلائے ۔ شہید بابا کا مزار قصبہ کنڈہ ضلع صوابی میں آج بھی مرجع خلائق ہے اور لوگ اب بھی جوق درجوق ان کی مرقد پر کھنچے چلے آتے ہیں، اسی پاک اور معزز گھرانے میں مولانا قاری محمد اسماعیل ؒ کی پرورش ہوئی ، آپ کو طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطاء ہوئی تھی ، مولانا مرحوم نے ہمہ جہت مسائل سے نبرد آزما ہو کر اپنی شبانہ روز ریاضتوں سے دین حق کی تجدید فرمائی اور احیائے اسلام کی خاطر خود کو وقف کیے رکھا، ابتدائی تعلیم علاقہ کی ہی مایہ ناز شخصیت مولانا منیر احمدؒ سے حاصل کی ، ان دنوں علاقہ چھچھ کے گاﺅں غورغشتی کے علم وحکمت کا ڈنکا چہار اطراف میں بج رہا تھا چنانچہ مولانا نے بھی اسی جانب رخت سفر باندھا اور یہاں سے قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد امرتسر کی جانب چل دیے، وہاں موری گنج کے علاقہ میں مولانا کریم بخش شاہجہانپوری ؒ ، قاری خدا بخش کانٹھویؒ ، مولانا نظر محمد امروہوی جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، بعد ازاں جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہہتم حضرت مولانا مفتی محمد حسن ؒ امرتسری کے ہاں دورہ تفسیر کی تکمیل ہوئی ، حضرت مفتی صاحب ؒسے ہی ارادت کا تعلق رہا ۔ درس نظامی سے فراغت کے بعد جامع مسجد موری گنج امرتسر ، جامعہ مسجد چینیانوالی رنگ محل لاہور میں 1953سے 1957تک درس وتدریس کے فرائض انجام دیے ، اس کے بعد آپ مدرسہ مرکزی دارالتجوید والقر ات چوک شاہ عالم سرکلر روڈلاہو رمیں تشریف لے گئے اور دم آخریں1981ءتک اسی سے وابستہ رہے ۔ حضرت مر حوم تمام عمر مسجد و مدرسے کے نورانی ماحول سے وابستہ ر ہے اور علمائے حقہ کا دامن تھامے رہے ، مولانا شمس الحق افغانیؒ ، حضرت مولانا احمد علی لاہور ی ؒ ، علامہ علاﺅ الدین صدیقی ؒ ، پیر طریقت حضرت خواجہ خان محمد ؒ اور مولانا خلیل احمد قادریؒ جیسی برگزیدہ ہستیوں کا ساتھ آپ کو ہمیشہ میسر رہا جس سے آپ کے ایمانی جو ش و جذبے کو ایک نئی جلا میسر آتی رہی ۔ مولانا مرحوم نے بے پناہ اور خداداد صلاحیتوں سے ایک عالم کو اپنے فیوض و برکات سے منور فرمایا اور قرآنی درس وتدریس کو ہنگامی بنیادوں پر استوار کر کے اس کے آفاقی پیغام کو ہر ایک کی دہلیز تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ، مولانا کی محنتیں خوب رنگ لائیں اور آپ کی انتھک مساعی جمیلہ سے خطہ لاہور کے گلی کوچے جگمگا اٹھے ، جب آپ لحن داﺅدی میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو لوگ جھوم جھوم جاتے ، آپ کے ادارے مدرسہ مرکزی دارالتجوید والقر ات کی خوب دھوم مچی اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کا چرچا ملک بھر میں ہونے لگا ، مولانا کی گرانقدر دینی خدمات کے پیش نظر 1980ءمیں عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریب میں انہیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ آپ نے علم تجوید اور علم وقف کے عنوان پر متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جن میں کئی سوصفحات پر مشتمل تفہیم التجوید ، تفہیم الوقوف ، حروف القرآن ، قواعد التجوید اور عربی زبان میں الاقوال الامدادیہ علی المقدمة الجزریہ، احسن الاقوال علی تحفة الاطفال ، قاعدة النبین ،مشہور زمانہ کتب ہیں۔ راقم الحروف جوں جوں مولانا قاری محمد اسماعیل ؒ کے صاحبزادگان اور روزنامہ اسلام لاہور کے ساتھی محترم فیصل عزیزصاحب سے ان کی حیات کے روشن پہلوﺅں کے متعلق جانتا گیا حیران ا ورششد ر ہوتا گیا اور قلم بے اختیار سا ہوکر ان کی یاد کے قصے رقم کرتاچلا گیا، اس عاجز نے ضروری جانا کہ ایسی گمنام علمی و دینی شخصیت کے متعلق نسل نو کو آگاہ کر دیا جائے ۔ بے شک اس متبحر عالم دین کی تمام خدمات کو صحیح طور سپرد قلم کیا جائے تو یقینا ایک ضخیم کتاب وجود میں آسکتی ہے ، امید ہے اہل قلم اس جانب ضرور توجہ مبذول فرمائیں گے ۔ مولانا قاری محمد اسماعیل رحمة اللہ علیہ 24فروری 1984ءکو ہم سے جدا ہوئے ، آپ کی نماز جنازہ مولانا عبد الرحمن اشرفی رحمة اللہ علیہ نے پڑھائی اور یہ عالم ربانی ضلع صوابی کے ایک مضافاتی گاﺅں چھوٹا لاہو رکے شہر خموشاں میں پیوند خاک ہے ۔ جس ادارے کی آپؒ نے بنیاد رکھی تھی آج بھی اس کی شناخت اسی طرح قائم و دائم ہے اور مولاناکے حق سچ کے مشن کو آپ کے صاحبزادگان بہ حسن و خوبی آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ کی گمنام شخصیت اور کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے شاعر کا یہ تخیل ذہن میں انگڑائی لینے لگتا ہے ۔
وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر اسلام کو رونق بخشی ہے
دو چار سے دنیا سے واقف ہے ، گمنام نہ جانے کتنے ہیں
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 11 Articles with 10506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.