سماع موتی کا عقیدہ

ضبط مولانا محمد امیر بجلی گھر

۱۹۵۶ء مقام غورغشتی ضلع اٹک احقر اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زین العابدین  (فاضل دیوبند) دن کو برکة العصر، عمدة المحدثین، زینة المحدثین، شیخ المشائخ، زبدة الصالحین، عارف باللہ، ابوذرِ زمانہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتوی کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ رات کو عشاء کی نماز ہم نے حضرت شیخ الحدیث  کی اقتداء میں پڑھی اور نماز کے بعد حضرت اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور احقر اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زین العابدین اور تین چار مہمان علماء کرام جوکہ یارحسین ضلع صوابی کے تھے اور حضرت شیخ الحدیث  کے شاگرد تھے ، ہم بھی کمرے میں داخل ہوئے، حضرت نے درج ذیل باتیں ارشاد فرمائیں۔

ان علماء کرام میں سے ایک مولانا صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! ہمارے علاقہ صوابی میں ایک مولوی صاحب درسِ قرآن میں یہ کہتے ہیں کہ: سماع موتیٰ کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے، قرآن میں سماع موتیٰ ثابت نہیں ہے۔ اور دلیل میں یہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں کہ:”إِنَّکَ لاَتُسْمِعُ الْمَوْتٰی“ کہ اے پیغمبر! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! ان لوگوں کی باتیں میرے ساتھ مت کرو، انہوں نے ہمارے پیر ومرشد کو بدنام کردیا ہے، ہم نے اپنے پیر ومرشد سے کبھی بھی ایسی باتیں نہیں سنی ہیں… باقی ان کا یہ استدلال غلط ہے، آیتِ کریمہ میں نفی مطلق سماع کی نہیں ہے، بلکہ سماعِ نافع ومفیدکی ہے۔ پھر اس مولانا صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! وہ مولوی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا کوئی علم نہیں ہے اور قبر میں روح کا تعلق بدن سے نہیں ہوتا، لہذا ثواب اور عذاب صرف روح کو ہوتا ہے، بدن کو نہیں۔ اس کے متعلق ارشاد فرمائیں۔

قبر کا عذاب وثواب برحق ہے
ارشاد فرمایاکہ: اہلِ حق کا عقیدہ یہ ہے کہ قبر کا عذاب وثواب برحق ہے، کافروں اور بعض گناہگار اہلِ ایمان کو قبر میں عذاب ہونا اور قبر میں اہلِ اطاعت کو نعمت وثواب کا ملنا اور منکر ونکیر کا سوال کرنا، یہ تمام امور برحق ہیں اور دلائل سے ثابت ہیں۔ اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ قبر میں عذاب یا ثواب اس شخص کو ہوگا جو اس کا مستحق ہو اور منکر ونکیر قبر میں میت سے سوال کرتے ہیں، اس کے رب کے بارے میں، اس کے دین کے بارے میں اور اس کے نبی ا کے بارے میں، جیساکہ جناب رسول اللہ ا اور صحابہ کرام سے اس پر احادیث وارد ہیں اور قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔

قبر کے عذاب پر قرآن کی آیات اور احادیثِ متواترہ وارد ہیں:
ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! قبرکے عذاب پر قرآن کریم کی آیات اور جناب رسول اللہ ا کی احادیثِ متواترہ وارد ہوئی ہیں اور سلف صالحین صحابہ کرام وتابعین کا اس پر اجماع ہے۔اور حضرت شیخ الحدیث نے مولانا زین العابدین سے فرمایا کہ: مولوی صاحب! سامنے الماری سے شرح عقائد کو اٹھالاؤ۔ مولوی صاحب نے لاکر حضرت کے سامنے رکھ دی، حضرت نے کھول کر عربی عبارت پڑھی، پھر اس کا ترجمہ کیا اور فرمایا کہ: حاصل یہ کہ عذاب وثوابِ قبر اور بہت سے احوالِ آخرت میں احادیث متواتر ہیں، اگرچہ فرداً فرداً آحاد ہیں۔

نبر اس شرح” شرح عقائد“:
ارشاد فرمایا کہ:یہ شرح عقائدکی شرح نبراس ہے اور پھر اس کی عربی عبارت پڑھ کراس کا ترجمہ کیا کہ شارح  فرماتے ہیں کہ:
قبر کے عذاب وثواب اور سوال کی احادیث صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہیں، جن میں یہ حضرات بھی شامل ہیں۔حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان، حضرت انس، حضرت براء، حضرت تمیم داری، حضرت ثوبان، حضرت جابر، حضرت حذیفہ، حضرت عبادہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمرو بن عاص، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوامامہ، حضرت ابودرداء، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ ۔پھر ان سے اتنی قوموں نے روایت کی ہے، جن کی تعداد کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
صحیح بخاری شریف:

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! حضرت امام بخاری نے صحیح بخاری میں عذابِ قبر کے باب میں قرآن کریم کی تین آیات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ احادیث ذکر کی ہیں، جو ان پانچ صحابہ کرام سے مروی ہیں، حضرت براء بن عازب، حضرت عمر، حضرت عائشہ ، حضرت اسماء اور حضرت انس بن مالک۔ فتح الباری:

ارشاد فرمایا :پھر حضرت شیخ الحدیث  نے فتح الباری شرح صحیح بخاری کو کھول کر اس کی عربی عبارت پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ: جبل العلم حافظ ابن حجر عسقلانی ارشاد فرماتے ہیں کہ:عذابِ قبر میں ان مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ اور احادیث بھی وارد ہیں، چنانچہ ان میں سے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت سعد، حضرت زید بن ارقم اورحضرت ام خالد کی احادیث تو صحیحین میں یا ان میں سے ایک میں موجود ہیں اور حضرت جابر  کی حدیث ابن ماجہ میں ہے اور حضرت ابوسعید کی حدیث ابن مردویہ نے روایت کی ہے اور حضرت عمر، حضرت عبد الرحمن بن حسنہ اور حضرت عبد اللہ عمرو کی ابوداؤد میں ہیں اور حضرت ابوبکر اور اسماء بنت یزید کی احادیث نسائی میں ہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث طحاوی میں ہے اور حضرت ام بشریٰ کی حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی احادیث مروی ہیں“۔
ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! یہ قریباً تیس صحابہ کرام کے اسمائے گرامی ہیں، جن سے عذابِ قبر کی احادیث مروی ہیں، اس لئے قبر کے عذاب وثواب کے متواتر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔

حضرت شیخ الحدیث کی اس تقریر کے بعد اُس مولانا صاحب نے پھر عرض کیا کہ حضرت! جب یہ ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب وثواب برحق ہے اور یہ اہلِ حق کا اجماعی عقیدہ ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ قبر کا یہ عذاب وثواب صرف روح سے تعلق رکھتا ہے یا میت کے جسم عنصری کی بھی اس میں مشارکت ہے؟ اور یہ کہ اس عذاب وثواب کا محل آیا یہی حسّی گڑھا ہے جس کو عرفِ عام میں قبر کہتے ہیں یا برزخ میں کوئی جگہ ہے جہاں میت کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور اسی کو عذابِ قبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؟

قبر کا عذاب وثواب جسم وروح دونوں کو ہوتا ہے:
ارشاد فرمایا کہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ کے تتبع وتلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب صرف روح کو نہیں ہوتا، بلکہ میت کے جسم وروح دونوں کو ہوتا ہے اور یہ کہ عذاب وثواب کا محل یہی حسّی قبر ہے، جس میں مردہ کو دفن کیا جاتا ہے، پھر فرمایا کہ: چونکہ یہ عذاب وثواب دوسرے عالم کی چیز ہے، اس لئے میت پر جو حالات قبر میں گزرتے ہیں، زندوں کو ان کا ادراک وشعور عام طور پر نہیں ہوتا۔

قبر کا عذاب:
ارشاد فرمایا کہ: چونکہ عذاب وثواب اسی حسّی قبر میں ہوتا ہے اور یہ کہ میت کا بدن بھی عذاب وثواب سے متأثر ہوتا ہے اور احادیث نبویہ سے بہت سے شواہد پیش کئے جاسکتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ا نے دوآدمیوں کی آواز سنی، جن کو قبر میں عذاب ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نہیں ہورہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو) ان میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کوبیچ سے آدھوں آدھ چیرا، انہیں ایک ایک کرکے دونوں قبروں پر گاڑ دیا، صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ شاید اس عمل سے ان کے عذاب میں اس وقت تک کے لئے تخفیف ہوجائے، جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! اس نوعیت کا ایک اور واقعہ حضرت جابر سے صحیح مسلم میں بھی منقول ہے۔

ارشاد فرمایا کہ: اس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے عذابِ قبرکو محسوس فرمانا اور جن دو شخصوں کو عذاب قبر ہورہا تھا ، ان کی آواز سننا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں قبروں پر شاخِ خرما کا گاڑنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرنے پر یہ فرمانا کہ: شاید ان کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوجائے جب تک کہ یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔

ارشاد فرمایا کہ: اگر یہ گڑھا جس کو قبر کہا جاتا ہے، عذابِ قبر کا محل نہ ہوتا تو ان شاخوں کو قبروں پر نصب نہ فرمایا جاتا اور اگر میت کے بدن کو عذاب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دوشخصوں کی آواز نہ سنتے، اور نہ قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے عذابِ قبر کا احساس ہوتا۔

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! ہمارا اور ہمارے پیر ومرشد امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی صاحب قدس سرہ اور ہمارے اساتذہٴ کرام کا اور تمام اکابرین کا یہ عقیدہ ہے کہ متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قبر میں جسم کی طرف روح لوٹائی جاتی ہے اور جسم سے تعلق قائم کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو ادراک وشعور حاصل ہوتا ہے اور اسی تعلق اور ادراک وشعور کی وجہ سے مردہ سلام وکلام وغیرہ سنتا ہے اور سماعِ موتیٰ کی حدیثیں صحیح ہیں اور اپنی حقیقت پر محمول ہیں۔ یہی جمہور شراحِ حدیث کی بھی رائے ہے۔

ایک مہمان مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! ہمارے علاقے میں ایک آدمی فوت ہوا اور لوگ اس کے لئے قبر کھود رہے تھے، ایک آدمی نے جب جبل دیوار پر مارا تو اس دیوار میں سوراخ ہوگیا، جب ان لوگوں نے سوراخ کو ذرا اور زیادہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک قبر ہے اور اس میں مردہ پڑا ہے اور اس کا کفن بالکل سفید ہے، میلا تک نہیں ہے، جب انہوں نے کفن کو ذرا کھولا تو وہ ایک سفید ریش آدمی ہے اور اس کی داڑھی میں پانی کی بوندیں موجود ہیں تو لوگوں نے جلدی جلدی اس سوراخ کو مٹی گارے سے بند کردیا۔

ارشاد فرمایا کہ: عزیزو! اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں، اپنی قدرت کی نشانیاں اپنے بندوں کو کبھی کبھی دکھا دیتے ہیں۔احقر نے عرض کیا کہ حضرت! میں ایک واقعہ سنادوں؟

ارشاد فرمایا کہ بالکل سنادو۔ احقر نے عرض کیا کہ حضرت! دو سال پہلے ۱۹۵۴ء میں افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ خان نے سنگِ مرمر کی دو قبریں پاکستان کی حکومت کو بھیجیں کہ ان کو مشہور شاعر خوشحال خان خٹک اور حضرت عبد الرحمن بابا کی قبروں پر لگادیں۔ تو عبد الرحمن بابا کی قبر کو جو مستری بنارہا تھا، وہ ہمارے محلے ساربانان را مداس بازار میں رہتا تھا،اس نے مجھے عشاء کی نماز کے بعد بتایا کہ صبح کو ہم ان شاء اللہ تعالیٰ عبد الرحمن بابا کی قبر کو بنائیں گے، تم بھی آجاؤ۔ میں دارالعلوم سرحد میں مدرس ہوں۔ گیارہ بجے جب میں سبق سے فارغ ہوا تو ایک طالب علم سعید احمد بنوری کو اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھایا اور دونوں عبد الرحمن بابا کے مزار پر چلے گئے، جب ہم دونوں وہاں پہنچے تو مزدور قبر مبارک کے ساتھ لحد کو کھودرہے تھے، میں نیچے اترا اور اس طالب علم اور ایک مزدور کو بھی لیا اور قبلہ کی طرف لحد میں سوراخ کرلیا، پھر میں نے اس سوراخ کو ذرا بڑا کردیا،اندر جب میں نے دیکھا تو اندر مردہ پڑا تھا۔میں نے اس طالب علم او رمزدور کو کہا، تم دونوں میرا ایک ہاتھ اور پاؤں پکڑ لو اور میں نے ہاتھ اندر کیا، چہرے پر ہاتھ پھیرا، آنکھوں کو کھولا، ہاتھ پر ہاتھ پھیرا ،سینے پر ہاتھ مارا ،داڑھی میں ہاتھ پھیرا، ہونٹوں کو کھولا، دانتوں کو دبا یا، بالکل تروتازہ بدن تھا، زلفوں کا ایک گچھا ایک کاندھے پر پڑا تھا اور دوسرا دوسرے کاندھے پر۔ تقریباً دس بارہ منٹ میں نے یہ نظارہ کیا اور پھر باہر نکلا، اوپر جب میں چڑھا اور سن دیکھا تو کتبہ پر سن وفات جو لکھا ہوا تھا ،اس کے مطابق وفات کو (۳۱۶) تین سو سولہ سال ہوچکے تھے۔

ارشاد فرمایا: اللہ اکبر! یہ نیک لوگوں کی شان ہوتی ہے۔ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! یہ قصہ جو آپ صاحبان نے سنا کہ حضرت عبد الرحمن بابا اپنی قبر مبارک میں تین سو سولہ سال بعد ان کا بدن بالکل صحیح سالم تھا اور ان کے جسم کو مٹی نے نہیں کھایا، حالانکہ وہ نبی نہیں تھے، بلکہ امتی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے، تو انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی شان تو بہت اونچی ہے۔

قبور میں حیاتِ انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام:

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! تمام اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام قبر اور برزخ میں زندہ ہیں اور ان کی زندگی حضرات شہداء کی زندگی سے بھی اعلیٰ اور ارفع ہے۔

انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کی حیات قرآن کریم کی روشنی میں:
ارشاد فرمایا کہ: قرآن کریم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء علیہم السلام کا ثبوت اشارةً، دلالةًور اقتضاءًً ملتا ہے، ہم ان میں سے صرف چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں: ”وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتَابَ فَلاَتَکُنْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآئِہ“۔ (الم سجدہ:۲۳)
ترجمہ:۔”اور ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تھی، سو آپ اس کے ملنے میں شک نہ کیجئے!“۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ معراج کی رات ان سے کئی بار ملے تھے اور ملاقات بغیر حیات کے ممکن نہیں، لہذا اس آیت میں اقتضاء النص سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت ہوتا ہے
ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! اصولِ فقہ کا مشہور مسئلہ ہے، جوکہ اصولِ فقہ کی بڑی بڑی کتابوں میں موجود ہے کہ جو حکم اقتضاء النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد، قوت واستدلال میں عبارت النص کے مثل ہوتا ہے۔

تفسیر روح المعانی:
ارشاد فرمایا کہ: علامہ آلوسی حنفی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں، حضرت شیخ الحدیث  نے روح المعانی کو کھول کر عربی عبارت پڑھی، پھر اس کا ترجمہ کیا۔
ترجمہ: اس سے مرادیہ ہے کہ معراج کی رات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی، جیساکہ صحیحین وغیرہ میں ہے اور اسی طرح کی ایک اور روایت حضرت قتادہ اور سلف کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد:سو آپ اس کے ملنے کی“ ایک جماعت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ا کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا وعدہ فرمایا۔اس اعتبار سے یہ آیت واقعہٴ معراج سے پہلے نازل ہوئی ہے۔
۳:۔”وَلاَتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ، بَلْ أَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّتَشْعُرُوْنَ“۔ (البقرة:۱۵۴)
ترجمہ:۔”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں، ان کی نسبت یوں نہ کہو کہ وہ مردے ہیں، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، لیکن تم حواس سے ادراک نہیں کرسکتے“۔
۴:۔”بَلْ أَحْیآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ، فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتَاہُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہ“ (آل عمران:۱۶۹،۱۷۰)
ترجمہ:۔”بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے، وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے“۔

علامہ ابن حجر عسقلانی:
ارشاد فرمایا کہ ان دو آیتوں کے متعلق علامہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ: جب نقل کے اعتبار سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ شہداء زندہ ہیں، تو عقل کے اعتبار سے بھی یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام زندہ ہیں اور حضرات انبیائے کرام علیہم السلام تو شہداء سے ہر حال میں افضل ہیں، اس لئے آیت سے ان کی حیات بطریقِ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔

ارشاد فرمایاکہ: میرے عزیزو! آپ صاحبان غور فرمائیں کہ حافظ ابن حجر کس قدر قوت کے ساتھ آیت کریمہ سے بدلالة النص ، بلکہ بدرجہ اولویت حیات الانبیاء علیہم السلام کو ثابت کرتے ہیں۔
۵:۔”فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہ إِلاَّ دَآبَّةُ الْأَرْضِ تَأْکُلُ مِنْسَأَتَہُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ…“ (سباء:۱۴)
ترجمہ:۔”پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کردیا تو کسی چیز نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتلایا، مگر گھن کے کیڑے نے کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عصا کو کھاتا تھا، سو جب وہ گر پڑے، تب جنات کو حقیقت معلوم ہوئی۔

ارشاد فرمایا کہ: اس آیت سے بھی بطریقِ دلالة النص حیات الانبیاء علیہم السلام کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ جب کیڑوں نے مضبوط اور سخت ترین عصائے سلیمانی کو کھالیا تو جسم عنصری کا کھانا تو اس سے کہیں زیادہ آسان اور سہل تھا، مگر اس کے باوجود جسم کا ٹکا رہنا ،بلکہ محفوظ ہونا حیات کی صریح دلیل ہے۔ارشاد فرمایا کہ: یہاں یہ نقطہ بھی یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے جسدِ اطہر کے زمین پر آجانے کو” خر “کے لفظ کے ساتھ تعبیر فرمایا مگر اس کو” سقط “سے تعبیر نہیں فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ”خر “کا لفظ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جہاں کہیں بھی ذکر ہوا ہے تو وہ زندہ انسان کے جھک جانے یا گرجانے کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے۔
۶:۔”وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَہُمْ جآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماً“۔ (النساء:۶۴)
ترجمہ:۔”اور اگر جس وقت اپنا نقصان کر بیٹھے تھے، اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے، پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول ا بھی ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے تو ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا، رحمت کرنے والا پاتے“۔
ارشاد فرمایا: حضرت شیخ الحدیث نے مولانا زین العابدین سے فرمایا کہ: مولوی صاحب! سامنے الماری سے تفسیر ابن کثیر پہلی جلد اٹھا کر لاؤ! مولانا نے تفسیر ابن کثیر کی پہلی جلد لاکر حضرت کے سامنے رکھ دی تو حضرت شیخ الحدیث  نے کھول کرفرمایا کہ: حافظ ابن کثیر  اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں، پھر حضرت نے پہلے عربی عبارت پڑھی، پھر ترجمہ کیا کہ: ایک جماعت نے عتبی سے یہ مشہور حکایت نقل کی ہے، جس جماعت میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی ہیں، یہ واقعہ انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں بیان کیا ہے۔ عتبی فرماتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا: السلام علیک یا رسول الله! میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے ”اور اگر بیشک وہ لوگ جب کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ،تیرے پاس آتے ، پس وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور ان کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے“۔ اس لئے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش پیش کرنے آیا ہوں اور یہ شعر پڑھا:
نَفْسِیْ الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُہ
فِیْہِ الْعَفَافُ وَفِیْہِ الْجُوْدُ وَالْکَرَم
ترجمہ:۔”میری جان اس قبر پر قربان ہوجائے، جس میں آپ آرام فرماہیں کہ اس میں پاکدامنی ہے اور اس میں سخاوت اور بخشش ہے“۔

اس کے بعد وہ دیہاتی مسلمان چلا گیا۔ عتبی فرماتے ہیں کہ میری آنکھ لگ گئی تو میں جناب رسول اللہ ا کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے عتبی! اس اعرابی کو جاکر بشارت دے دے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے تین روز بعد ایک دیہاتی نے روضہٴ اقدس پر حاضر ہوکر اس آیتِ کریمہ کے حوالہ سے مغفرت طلب کی۔ روایت میں ہے کہ قبر مبارک سے آواز آئی: ”إنہ قد غفرلک“ بیشک تیری مغفرت کردی گئی۔

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کے مطابق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس عالم دنیا کی حیاتِ ظاہری ختم ہونے کے بعد بھی حاضری دینے والے امتی کوالسلام علیکم کے جواب سے نوازتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کا پیغام پہنچانے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔ یہ بھی آپ کی حیات جاودانی اور اسی مدینہ منورہ والی قبر میں حیات پر قرآنی دلیل اور واضح ثبوت ہے۔

حدیث کی روشنی میں حیات الانبیاء علیہم السلام:
ارشاد فرمایا کہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں:”الأنبیاء أحیاء فی قبورہم یصلون“۔ارشاد فرمایاکہ: حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ: اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

اور حضرت انس ہی سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرا معراج کی رات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر گزر ہوا تو وہ سرخ ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس حدیث کو روایت کیا ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں۔

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! تمام اکابرین اور ہمارے اساتذہ کرام کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کی قبر کی حیات ان کی دنیاوی حیات کی مانند ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے، کیونکہ نماز پڑھنا زندہ جسم کا تقاضا کرتا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ: ہمارے حضرت مجدد الف ثانی مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں (حضرت شیخ الحدیث نے مکتوبات شریف کھول کر پہلے خود فارسی عبارت پڑھی، پھر اس کا ترجمہ کیا)

ترجمہ: چھوٹا برزخ (یعنی قبر) جب ایک وجہ سے دنیوی جگہوں میں سے ہے تو یہ ترقی کی گنجائش رکھتا ہے اور مختلف اشخاص کے اعتبار سے اس جگہ کے حالات خاصے متفاوت ہیں۔ آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔

ارشاد فرمایاکہ: مشکوٰة شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ :”من صلی علیَّ عند قبری سمعتہ ومن صلی علیَّ نائیاً ابلغتہ“۔ کہ جس نے میری قبر کے پاس مجھ پر درود شریف پڑھا، میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے، وہ مجھے پہنچادیاجاتا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ: حضرت ملا علی قاری مرقات میں فرماتے ہیں کہ:” جس شخص نے مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں خود اس کو سنتا ہوں، یعنی حقیقی طور پر فرشتوں کے توسط کے بغیر خود سنتاہوں“ ۔اور ہم نے بھی اپنے حاشیہ مشکوٰة میں صاف طور پر لکھ دیا ہے” سمعتہ “کی شرح میں کہ” سمعاًحقیقةً بلاواسطةٍ“ اور لفظ” نائیاً“کی شرح میں ”ای بعیداً“۔ارشاد فرمایا کہ: ہم نے اپنے استاد شیخ المشائخ حضرت مولانا قاضی قمر الدین چکڑالوی سے سنا تھا کہ ہم نے استاد الکل ،شیخ المشائخ، حضرت مولانا احمد علی  سے بخاری شریف پڑھتے وقت سنا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ: بہتر بات یہ ہے کہ کہا جائے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ایسی ہے کہ اس کے بعد موت وارد نہیں ہوتی، بلکہ دوامی حیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور باقی انبیائے کرام علیہم السلام بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔

ارشاد فرمایا کہ: حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بھی مشکوٰة کی شرح” أشعّة اللمعات“ میں اس حدیث مبارک کی شرح میں لکھا ہے کہ آپ ا کا ارشاد مبارک انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات سے کنایہ ہے، اس لئے کہ:”والمذہب أن الأنبیاء أحیاء حیوةً حقیقیةً دنیاویةً“۔․․․اور صحیح مذہب یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام زندہ ہیں، حقیقت دنیاوی زندگی کے ساتھ“۔

ارشاد فرمایا کہ: میرے عزیزو! جب یہ روایت اپنے بڑے بڑے محدثین عظام اور ائمہ حدیث کے ہاں بالکل صحیح ہے، تو اب اس کو صحیح نہ کہنا دانشمندی نہیں ہے۔

منکرین حیات کا حکم:
ارشاد فرمایا کہ: عزیزو! قرآن وسنت اور اکابر علمائے امت کی تصریحات کی روشنی میں یہ عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کا بنیادی عقیدہ ہے اور یہی اہلِ حق کا عقیدہ ہے، پس جو لوگ اس مسئلے کا انکار کرتے ہیں، میں ان کو اہلِ حق میں سے نہیں سمجھتا اور وہ تمام اکابرین کے نزدیک گمراہ ہیں، ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق روا نہیں۔

ایک مولانا صاحب نے حضرت شیخ الحدیث کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت! قصیدہ بردہ کے پڑھنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔

ارشاد فرمایا کہ: قصیدہ بردہ کے مصنف کا نام حضرت محمد بن سعید بوصیری ہے، اس نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بہت سارے قصائد لکھے ہیں، جس وقت انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تو اس وقت ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا، جس نے ان کے بدن کے نچلے حصے کو بالکل شل کردیا تھا اور یہ سخت معذور اور لاچار ہوگئے تھے، جب انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تو اپنے متعلقین سے فرمایا کہ مجھے مدینہ منورہ لے چلو، متعلقین نے آپ کو چار پائی پر ڈالا اور مدینہ منورہ لے چلے، جب مدینہ منورہ پہنچے، اپنے دوستوں سے فرمایا کہ مجھے روضہٴ اقدس کے سامنے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں زمین پر لٹا دو اور آپ سب چلے جاؤ، انہوں نے آپ کو زمین پر لٹا دیا اور خود دور جاکر بیٹھ گئے، تو آپ نے نہایت ادب واحترام کے ساتھ قصیدہ زبانی سنانا شروع کیا، آپ اس شعر پر پہنچے کہ: ”فمبلغ العلم فیہ أنہ بشر“ تو دوسرا بیت آپ بھول گئے تو روضہٴ مبارک سے آواز آئی۔ ”وأنہ خیر خلق الله کلہم“۔
اتنے میں جب آپ نے قصیدہ سنایا تو آپ پر نیم خوابی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ نے دیکھا کہ سردارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے بدن پر ایک چادر ڈال دی، جب آپ نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ وہی چادر آپ کے بدن پرپڑی تھی اور آپ کا بدن بالکل صحیح تھا اور آپ بالکل تندرست تھے۔ جب آپ کے متعلقین نے آپ کو بالکل تندرست پایا تو حیران ہوگئے، پھر آپ اپنے وطن آگئے اورصبح کو جب گھر سے نکلے تو ایک مجذوب قسم کے بزرگ نے آپ سے کہا کہ میں آپ سے اس قصیدہ کو سننا چاہتاہوں، جو آپ نے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتعریف میں لکھاہے، تو آپ نے اس سے کہا کہ میں نے تو بہت سے قصائد لکھے ہیں، آپ کون سے قصیدہ کے متعلق فرماتے ہیں؟ اس پر اس بزرگ نے فرمایا کہ وہ قصیدہ جس کا ابتدائی شعر یہ ہے:امن تذکر جیران بذی سلم
آپ کو یہ بات سن کر بہت تعجب ہوا،اس لئے کہ آپ نے ابھی تک کسی کو یہ قصیدہ نہیں سنایا تھا تو آپ نے اس بزرگ سے فرمایا کہ اس قصیدہ کا علم آپ کو کس طرح ہوا؟ تو اس بزرگ نے کہا کہ جب آپ قصیدہ کو سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پڑھ رہے تھے تو میں موجود تھا، اس وقت میں نے سنا اور میں نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرسبز ٹہنی کی طرح جھوم رہے تھے۔

ارشاد فرمایاکہ: ان جیسے واقعات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے یہ اور قسم کی باتیں ہیں، یہ ان خشک مزاج قسم کے مولویوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ پھر اس مولوی صاحب اور مجلس میں موجود تمام علمائے کرام کو قصیدہ بردہ کی اجازت عنایت فرمائی۔ (بندہ اپنے بیٹے نورچشمی مفتی محمد قاسم سلمہ کو اس قصیدہ کی عام اجازت دیتا ہے) پھر حضرت شیخ الحدیث نے دعا فرمائی اور مجلس ختم کی اور فرمایا کہ تہجد کے لئے وضو بنالو۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 121006 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.