بھارتی ریاست مَدھیہ پردیش کی
ایک نوبیاہتا دُلہن نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انیتا کی شادی رتن پور
گاؤں کے شِو رام سے ہوئی۔ شِو رام کے گھر میں ٹوائلیٹ نہیں تھا۔ انیتا کا
خیال تھا کہ شادی تک ٹوائلیٹ بنالیا جائے گا۔ شادی کے بعد جب اُس نے سُسرال
میں قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ ”فِطرت کی پُکار“ پر کھیتوں میں جانا پڑے گا!
انیتا بی اے کی طالبہ تھی۔ اُس سے یہ گوارا نہ ہوا اور فطرت کی ہر پکار کا
جواب دینے کے لیے وہ اپنے گھر چلی گئی۔ واپسی کے لیے اُس نے ٹوائلیٹ تعمیر
کرنے کی شرط رکھی۔ بے چارے شِو رام کے لیے ٹوائلیٹ کی تعمیر کے سِوا چارہ
نہ رہا۔ اُس نے گاؤں کی پنچایت سے بات کی تو 501 روپے کی امداد ملی۔ دو
ہزار روپے گھر والوں نے دیئے۔ اور ایک ہفتے بعد جب ٹوائلیٹ تیار ہوا تو
انیتا بھی واپس آگئی۔
خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم سُلابھ انٹرنیشنل نے انیتا کو
”اِنقلابی“ قدم اُٹھانے پر پانچ لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
سُلابھ کے ڈائریکٹر بندیشور پاٹھک کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی تمام لڑکیاں
ایسی ہی شُجاعت دِکھائیں تو بھارت کے ہر گھر میں ٹوائلیٹ بن جائے اور
”فِطرت کی پُکار“ کا جواب دینے کے لیے گھر سے دور نہ جانا پڑے!
غور فرمائیے، جو مُلک خطے کا چودھری بننے کے خبط میں مبتلا ہے اُس کے تمام
باشندوں کو گھر میں ٹوائلیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں! دِلّی سرکار خِطّے پر
حکمرانی کا خواب دیکھے اور بصد شوق سے دیکھے، مگر پہلے اپنے مُلک کی نو
بیاہتا دُلہنوں کو حوائج ضروریہ سے فراغت کی بہتر سہولت تو فراہم کرے!
شادیاں پاکستانی معاشرے میں بھی ہوتی ہیں۔ مگر فِطرت کی پُکار پر ایسا
”انقلابی“ قدم اٹھانے والیاں خال خال ہیں۔ بات یہ ہے کہ غریب کا بچہ شادی
کرتا ہے تو پھر اُسے یہ فکر ہی لاحق نہیں رہتی کہ گھر میں ٹوائلیٹ ہے یا
نہیں۔ دو تین کمیٹیوں (ماہانہ بیسیوں) کی رقم پیشگی وصول کرکے شادی کے
انتظامات کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ تھوڑا بہت قرضہ بھی ہو ہی جاتا ہے۔ پھر
دو تین سال تک گھر کا بجٹ اور دولہا کا پیٹ قبض کا شکار رہتا ہے! ایسے میں
کِسے یہ دھیان رہتا ہے کہ گھر میں ٹوائلیٹ ہے بھی یا نہیں!
ہمیں ترقی یافتہ معاشروں اور ان کے ماہرین سے بہت پہلے معلوم تھا کہ اِنسان
کے لیے ٹوائلیٹ بنیادی ضرورت کی چیز ہے اور یہ نہ ہو تو بڑے بڑے کام رُک
جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی کے بعد دلہنیں ٹوائلیٹ کے اِشو پر ناراض نہیں ہوا
کرتیں۔ ناراض ہونے اور بات بات پر ٹُھنک کر بات منوانے کے لیے اور بہت سے
اِشوز ہیں! شادی کے فوراً بعد کے حسین ترین ہفتوں بلکہ مہینوں میں تو
دُولہا میاں دُلہن کی ہر بات ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں! انیتا بے
چاری نادان تھی، چند کلیوں بلکہ ایک ہی کلی یعنی ٹوائلیٹ پر قناعت کرگئی۔
اگر وہ فرمائش کرتی تو شِو رام شاید چاند پر بھی ٹوائلیٹ بنوا دیتا!
شِو رام ایک امیر ملک کا غریب شہری ہے۔ اُس بے چارے کو کیا معلوم کہ شادی
سے پہلے ہی ٹوائلیٹ بنالینا دانش مندی کی علامت ہے۔ شادی کے بعد ٹوائلیٹ
کئی مقاصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر وہ کسی ترقی یافتہ
معاشرے میں پیدا ہوا ہوتا تو ٹوائلیٹ کی اہمیت اُس پر منکشف ہوئی ہوتی۔
برطانیہ میں ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بیشتر شادی شدہ مرد ہفتہ
وار تعطیل کے دن بیوی کی فرمائش، ڈانٹ ڈپٹ اور تشدد سے بچنے کے لیے بیشتر
وقت ٹوائلیٹ میں گزارتے ہیں!
1993 میں ہم نے ایک فلمی جریدے کے لیے شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب کا
انٹرویو کیا جو تین نشستوں پر مشتمل تھا۔ اِس انٹرویو سے ہمیں خاں صاحب کے
فن کے بارے میں تو کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا (کیونکہ ہم اُن کی فنی عظمت
سے، اہل خانہ کے لیے دردِ سر بننے کی حد تک، پہلے ہی واقف تھے) مگر ہاں،
ٹوائلیٹ کے اِضافی فوائد سے ضرور آگاہ ہوئے! ایک دن ہم خاں صاحب کے گھر
پہنچے تو وہ کرتا اُتارے پلنگ پر بیٹھے تھے۔ چہرے پر کرب کے آثار نمایاں
تھے۔ یہ کرب اُس تکلیف سے خاصا مختلف تھا جو غزل گانے کے دوران اُن کے چہرے
سے مستقل عیاں رہتی ہے! ہم نے پوچھا خیریت تو ہے، کہاں کے ارادے ہیں؟ جواب
ملا ”پیٹ میں گڑبڑ تھی۔ ہری ہڑ کھاکر بیٹھا ہوں، بس اب ’آمد‘ کا انتظار
ہے!“
ہم بچپن سے شِعر سُنتے اور اوائل شباب سے کہتے آئے ہیں۔ اِس حوالے سے ”آمد“
کا سُنا تھا اور کبھی کبھار آمد محسوس بھی کی تھی مگر شہنشاہِ غزل نے ہم پر
یہ راز فاش کیا کہ آمد کئی اقسام کی ہوتی ہے بلکہ کسی بھی قسم کی ہوسکتی
ہے!
جب ہم نے مہدی حسن خاں کے کمرے کا شاندار ٹوائلیٹ دیکھا تو حیران رہ گئے۔
اُن کے کمرے میں کچھ بھی ترتیب سے نہیں تھا۔ پوتے پوتیاں اُن سے لپٹے رہتے
تھے اِس لیے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیتے تھے۔ کمرے کی حالت جتنی گئی گزری
تھی، ٹوائلیٹ اُتنا ہی شاندار تھا۔ اندر داخل ہوکر ایسا لگا جیسے فائیو
اسٹار ہوٹل میں قدم رکھا ہے! ایسا شاندار ٹوائلیٹ دیکھ کر اور اُس سے
”مُستفید“ ہوکر ہم شہنشاہِ غزل سے اُس کے بارے میں کچھ نہ کہتے، یہ کیسے
ممکن تھا؟ جب ہم نے مہدی حسن خاں صاحب سے اُن کے شاندار ٹوائلیٹ کا ذکر کیا
اور دوسری طرف کمرے کے حال زار کی طرف توجہ دلائی تو اُنہوں نے وضاحتی
سُروں میں فرمایا ”میاں! بات یہ ہے کہ ٹوائلیٹ میں ہم سُکون سے بیٹھتے اور
غور و فکر کرتے ہیں۔ بیشتر غزلوں کی دُھنیں ہم نے ٹوائلیٹ میں فراغت کی
حالت میں بیٹھ کر ترتیب دی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’آمد‘ وہیں ہوتی ہے!“
ٹوائلیٹ میں بیٹھ کر مہدی حسن خاں صاحب کی فنکارانہ مشکلات حل ہوتی ہوں گی
اور دُھنیں آسانی سے ترتیب پا جاتی ہوں گی مگر یقین کیجیے کہ اُن کی بہت سی
غزلیں سُن کر نئی نسل پر ”قبض“ کی سی کیفیت کا طاری ہو جانا اب ہمیں حیرت
انگیز نہیں لگتا! سچ تو یہ ہے کہ پاپ سنگرز کا دُھوم دھڑاکا سُننے کے بہت
سے شوقین نوجوانوں کو خاں صاحب کی دو تین غزلیں سُننا پڑیں تو ”آمد“ اُن تک
پہنچنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی اور وہ پہلی فُرصت میں ٹوائلیٹ کی طرف دوڑتے
ہیں!
ٹوائلیٹ میں گانے کی روایت نے ہمیں کئی گلوکار دیئے ہیں جو، شالا نظر نا
لگے، اب سنگیت کی جنگ میں ہراول دستے کے سپاہیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں!
شِو رام کو انیتا جیسی بیوی کی شکل میں بھگوان نے سَنگیت کا وَردان دیا ہے۔
اب شِو رام کو گانے کے لیے کسی ویرانے کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ بیوی کو
مَنانے کے لیے جو ٹوائلیٹ اُس نے بنوایا ہے اُسے گائیکی کے لیے بھی استعمال
کیا جاسکتا ہے!
ٹوائلیٹ بنوانے کے مَطالبے پر قائم رہنے کا خیال انیتا کے ذہن میں ”آمد“ کی
طرح وارد ہوا۔ سُلابھ انٹرنیشنل نے انیتا کو ٹوائلیٹ بنوانے کا ”انقلابی“
قدم اٹھانے پر جو پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے اُن سے انیتا ایک
شاندار، فائیو اسٹار ٹوائلیٹ بنواکر اپنے پتی دیو کو شہنشاہِ غزل بننے کی
راہ پر گامزن ہونے کا موقع بھی فراہم کرسکتی ہے! مغرب کا ترقی یافتہ معاشرہ
شاندار ٹوائلیٹ کو بیوی کی مار سے بچنے کے لیے استعمال کرنے میں عظمت محسوس
کرتا ہے۔ ہم فن شناس ہیں، ٹوائلیٹ کی چار دیواری سے ہم فن کی دنیا کو مزید
شاندار بنانے کا کام لیتے ہیں اور غزلوں کی دُھنیں تک کشید کرتے ہیں! |