مسلمانوں کی آمد سے قبل اس پورے ملک کا
کوئی ایک نام نہ تھا، اھل فارس نے جب اس کے صوبہ پر قبضہ کیا جس میں دریائے
سندھ تھاتو اس کا نام "سندہو" رکھا، پرانی ایرانی زبان اور سنسکرت میں س
اور ہ آپس میں بدلا کرتے ہیں، اس لیے فارس نے اسے ھندہو کہہ پر پکارا اور
اس سے ھند پڑگیا، عرب نے سندھ کو سندھ ہی کہا مگر دیگر علاقوں کو ھند کہا۔
موجودہ سادات خاندانوں کا بڑا حصہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے
حضرت امام زین العابدین کی نسل سے ہے، حضرت زین العابدین کی ماں عرب نہ تھی
بلکہ ایرانی یا سندھی تھیں، اگرقول ثانی درست ہوتوعرب واسلام کے سب سے شریف
ومقدس خاندان کے پیدا کرنے میں ھندوستان کا بھی حصہ ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بمبئی کی بندرگاہ پر 15ہجری [636ء]
عربوں نے بحرین کے گورنر کے حکم سے پہلا حملہ کیا، اس کے بعد بہروچ [بروص]
پر فوج کشی کی، اسی زمانہ میں ایک مغیرہ نامی عرب نے دبیل پر جو سندھ کی
بندرگاہ تھی اور ٹھٹھہ جو موجودہ کراچی کے قریب ہے پر حملہ کیا، پھر حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک دستہ ان بندرگاہوں کی دیکھ بھال کرکے
واپس چلا گیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں 39 ہجری [660ء] سے ایک
عرب سردار باقاعدہ ان اطراف کی نگرانی کرنے لگا، ولید اموی کے دور میں جب
حجاج عراق' ایران'مکران 'بلوچستان یعنی مشرقی مقبوضات کا نگران مقررہوا اس
نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی ھند بھیجا، 93ہجری میں محمد بن قاسم سندھ
پہنچا، تین برس کے عرصہ میں چھوٹے کشمیر کی سرحد ملتان [عرب پنجاب کو چھوٹا
کشمیر کہتے تھے]تک کو فتح کرلیا۔
133ہجری [715ء]میں عرب حکومت میں تبدیلی آئی، امویوں کی جگہ عباسیوں نے لے
لی اور شام کے بجائے عراق سلطنت کا صوبہ بن گیا، اور حکومت کا مرکز دمشق سے
ھٹ کر بغداد چلا گیا، اس انقلاب نے ھندوستان کو مرکز عرب کے زیادہ قریب
کردیا۔
عرب سیاح:
عربی زبان میں جغرافیہ کی سب سے پہلی کتاب جس میں ھندوستان کا کچھ حال ملتا
ہے وہ ابن خردازبہ کی کتاب "کتاب المسالک والممالک" ہے۔
سلمان تاجر: یہ ایک سوداگر تھا، جو عراق سے چین کی بندرگاہ تک پورے ساحل کا
چکر لگاتا تھا، اس نے ایک کتاب 237ہجری میں لکھی۔
ابوزید حسن سیرافی 264ہجری: اس نے سلمان تاجر کا سفر نامہ پڑھا اور 25، 30
سال بعد اس کا تکملہ لکھا۔اس طرح ابودلف مسعر بن مہلہل یزعومی 331 ہجری،
بزرگ بن شہریار300 ہجری، مسعودی303ہجری، اسطخری 340ہجری، ابن حوقل، بشاری
375ہجری، البیرونی 400 ہجری، ابن بطوطہ 779 ہجری، وغیرہ نے اپنی تصانیف میں
ھندوستان کا تذکرہ اور جغرافیہ لکھا ہے۔
علاقائی وتجارتی تعلقات:حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بھی تجارتی
قافلے ھندوستان سے گزرتے تھے، بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر لے جانے
والے قافلے کا گزر بھی اسی جگہ سے ہوا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ
سے مارکوپولو اور واسکوڈی گاما کے زمانہ تک ھندوستان کی تجارت پر عرب مالک
رہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرب سیاح سے ھندوستان کے متعلق پوچھا تو اس نے
جواب دیا: "بحرھا درر، وجبلھا یاقوت، وشجرھا عطر"۔ عراق کی فتح کے بعد حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے ابلہ بندرگاہ پر حملہ کا حکم دیا اور اسے تجارتی شہر
بنانےکاکہا، لہذا اس وقت سے لیکر256ہجری تک یہ بندرگاہ قائم رہی، پہلی صدری
ہجری کے آخر میں سندھ پر عربوں کے قبضہ ہونے کے سبب سے یہ ھندوستان کی آمد
ورفت کا مرکز بن گئی، کشتیوں اور جہازوں کا محصول اس قدربڑھ گے کہ وہ بغداد
کا بڑا مالیہ ہوگیا، آخر میں 306 ہجری میں مقتدرباللہ کے زمانے میں اس کی
سالانہ میزان 22575دینار رہ گئی تھی۔
عربوں کے نزدیک خلیج فارس کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کی بندرگاہ تیز، پھر
سندھ کی بندرگاہ دبیل اور گجرات میں تھانہ تھی۔تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا
ہے کہ عربوں اور ھندوستان کے تجارتی تعلقات مسیح سے کم ازکم 2ہزار برس پہلے
سے ہیں۔
عربی میں جہاز رانی کے بعض ہندی الفاظ:عربوں کی ہندوستانی سواحل پر دریائی
آمدورفت کا اثر یہ ہوا کہ عربی کے سفرناموں اور جغرافیوں میں اور عرب
وفارسی ملاحوں کی زبانوں پرجہاز اور متعلقات جہاز کے ہندی نام چڑھ گئے،
مثلا: بارجہ[بیڑہ، ہندی]، دونیج [ڈونگی، ہندی]، ہوری [ہوڑی، ہندی] وغیرہ۔
ہندوستانی پیدوار:ابن خردازبہ [220ہجری]یہ فہرست ظاہر کرتاہے: خوشبو،
لکڑیاں، صندل، کافور، لونگ، جوزبائے، ناریل۔ سراندیپ سے ہر قسم کے یاقوت،
موتی، بلور اور سنباذج وغیرہ۔ ابن الفقیہ ہمدانی[330]نے مزید گینڈا، ہاتھی،
عود، عنبر، لونگ، سنبل، دار چینی، توتیا، صندل، ساگون، اورسیاہ مرچ وغیرہ
گنوائی ہیں۔
چونکہ ان اشیاءکی عرب آمد اور ان کا تعارف عربوں کو اہل ہند سے ہوا تھا۔ اس
لیے اہل عرب نے ہندی ناموں اپنے زبان کے موافق تبدیل کرکے استعمال کیا، ذیل
ہندی الاصل چند الفاظ کی فہرست دی جاتی ہے۔
عربی نام ہندی اردو عربی نام ہندی اردو
صندل چندن صندل مسک موشکا مشک
تنبول تامبول پان [تنبول] کافور کپور کافور
قرنفل کنک پھل لونگ فلفل پیلی، پیلا گول مرچ
فوفل کوبل سپار، ڈلی زنجبیل زرنجابیرا سونٹھ، ادرک
ھیل ایل ایلائچی، الائچی نیلوفر نیلوپھل نیلوفر
موز موشہ کیلا نارجیل ناریل ناریل
انبج آم آم لیمون لیمو لیمو
قرآن میں ہندی الفاظ:کیا قرآن میں غیرزبان کے الفاظ موجود ہیں؟ فیصلہ یہی
ہے کہ ایسے الفاظ موجود ہیں جو عربوں کی زبان میں آکر مستعمل ہوگئے تھے،
اور وہ عربی زبان کے لفظ بن گئے۔چناچہ قرآن میں ھندی کے تین الفاظ
ہیں۔۱۔مسک[مشک،ھندی]، ۲۔ زنجبیل[ادرک، ھندی]، ۳۔ کافور[کپور، ھندی]۔
پان [تنبول]کا مفصل تعارف عربوں میں مسعودی نے کیا ہے جو تقریبا آج سے نو
سوبرس پہلے کاہے۔
علمی تعلقات:771ء میں سندھ کے ایک وفد کے ساتھ ھیئت اور ریاضیات کا فاضل
پنڈت سنسکرت کی سدھانت لے کر بغداد پہنچا اور خلیفہ کے حکم سے ابرھیم فرازی
ریاضی دان کی مدد سے عربی میں ترجمہ کیا، اس کے بعد علم نجوم، ھیئت، طب اور
اد ب واخلاق کی کتابوں کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوا۔
خلیفہ منصور اور ہارون الرشید کی فیاضی کی بدولت ھندوستان کے بیسیوں پنڈت
بغداد پہنچے اور سلطنت کے طبی اور علمی محکموں میں مصروف ہوئے اور حساب،
نجوم، ھیئت، وید اور ادب اخلاق کی بہت سی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا۔
اہل عرب کا صریح بیان ہے کہ انہوں نے 1سے9 تک کا ہندسہ لکھنے کا طریقہ اہل
ھند سے سیکھا، اس لیے عرب اس کو حساب ھندی یا ارقام ھندیہ کہتے ہیں،
پھراندلس کے راستہ یورپ نے یہ حساب سیکھا، وہ اس کو اعداد عربیہ [عربک
فیگرز] کہتے ہیں۔
کلیلہ دمنہ[عربی ادب کی مشہور کتاب] اصل میں سنسکرت میں تھی، بیرونی کے
مطابق اس کا نام"پنچ تنتر"ہے، یہ کتاب قبل از اسلام ایران کے ساسانی
بادشاہوں کے زمانہ میں فارسی میں ترجمہ ہوئی، پھر عبداللہ ابن مقفع نے
دوسری صدی ہجری کے وسط میں اس کا عربی ترجمہ کیا، پھر عربی زبان سے اس کے
ترجمے دنیا بھر میں شائع ہوئے۔
حصول علم کےلے عرب کی ھندوستان آمد:دوایسے فاضل مسلمان گزرے ہیں جو
ھندوستان سیر وتفریح کرنے نہیں بلکہ علوم ومعارف کے لیے آئے اور اس میں
کامیاب لوٹے
۱۔ تنوخی: اس کا زمانہ تیسری صدی ہجری تھا، یہ نجوم ہ ھیئت کا مشہور عالم،
بہت سے نادر معلومات لے کر واپس گیا۔
۲۔ ابوریحان البیرونی: 408ہجری میں ھندوستان آیا اوریہیں 423 ہجری میں کتاب
الھند ختم کی، اس نے ھندوستان کے مذاھب، اعتقادات، رسوم، اقوام اور علوم کا
تعارف کروایا، بیرونی کا بڑا کارنامہ یہ کہ اس نے ھندووں اور مسلمانوں کے
درمیان علمی سفارت کا کام انجام دیاہے، اس نے عربوں اور ایرانیوں کو ھندووں
کے علوم سے اور ھندووں کو عربوں اور ایرانیوں کی تحقیقات سےآگاہ کیا۔ اس نے
عربی سے سنسکرت اور سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کا عظیم کارنامہ زمین
کا دور ناپنا ہے، بیرونی کو اس کا بڑا شوق تھا ایسے موقع کا میدان اس کو
ھندوستان میں ملا، چناچہ اس نے[پاکستان]ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادن خان کے
ایک قصبے نندنا کے قعلہ میں اپنے ھندی قاعدہ کے مطابق زمین کی پیمائش کی۔
عربوں میں ھندوستان کی وقعت:جاحظ[255ہجری] لکھتا ہے:"ھندوستان کے باشندے
حساب اور طب میں آگے ہیں اور طب کے بعض عجیب بھید ان کو معلوم ہیں، سخت
بیماریوں کی دوائیں خاص طور پر ان کے پاس ہیں۔۔۔رنگوں سے
تصویربنانےاورتعمیر میں ان کو کمال ہے۔۔۔ [عراق ]جتنے صراف ہیں سب کے ہاں
خرانچی خاص سندھی ہوگا یا سندھی کا لڑکا کیونکہ ان کو حسب وکتاب سے فطری
مناسبت ہے اور یہ ایماندار اور وفدار ملازم ہوتے ہیں"۔
یعقوبی [احمد بن یعقوب جعفر، یہ عباسی دور میں دفتر انشاء کا افسر
تھا]لکھتا ہے: "ھندوستان کے لوگ عقل اور غور والے ہوتے ہیں۔۔۔طب میں ان کا
فیصلہ سےآگے ہے"۔
عرب وھند کا متحدہ مقدس مقام:سراندیپ کی ایک پہاڑکی چٹان پر پاؤں کا ایک
نشان ہے ، مسلمان اسے حضرت آدم علیہ السلام کا نقش قدم، بودھ اس کو شاکیہ
مونی کے قدم کا نشان اور ھندوو اسے شیر کے پاؤں کا نشان سمجھتے ہیں، اور سب
اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی تعظیم کرتے ہیں، یہ وہ چیز ہے جس کی مثال
ددوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔
بہرحال ان مختلف تجارتی، معاشرتی اور سیاسی تعلقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ،
گجرات، مالدیب، سراندیپ اور جاوہ وغیرہ میں اسلام نے اپنے قدم آہستہ آہستہ
بڑھنا شروع کردیے، صدبصدی کے جغرافیوں اور سفرناموں کے مطالعہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ لڑائی بھٹرائی کے بغیر پورے امن وچین کے ساتھ اسلام کے اثرات
بڑھتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب وہند کے تعلقات، مولانا سید سلمان ندوی کی یہ کتاب ان خطبات کا مجموعہ
ہے جو انہوں نے ہندوستانی اکیڈمی الہ اباد کے جلسہ 1929میں دیے، احقر نے اس
تاریخی دستاویز سے تلخیصی مضمون تیار کیا ہے، امید ہے اہل ذوق کے لیے سامان
تسکین ہوگا۔ |