حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران
تین مرکزی وزیروں سلمان خورشید، بینی پرساد ورما اور سری پرکاش جائسوال کو
انتخابی ضابطہ اخلاق کی پامالی پر چناﺅ کمیشن کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیر قانون سلمان خورشید کا معاملہ تو صدر جمہوریہ تک پہنچا۔ جس کے بعد
وزیراعظم کی ہدایت پر انہوں نے اظہار معذرت کرلیا تاکہ معاملہ رفع دفع
ہوجائے۔ مگراسی دوران ی خبر آئی کہ وزیر قانون کے کہنے پر مرکزی حکومت چناؤ
کمیشن کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کو قانونی شکل دینے پر غور کررہی ہے تاکہ
خلاف ورزی پرتادیبی کاروائی کمیشن کے دائرہ اختیارمیں نہ رہے بلکہ عدالتوں
کے دائرہ اختیار میں آجائے۔جیسے ہی یہ خبر آئی کئی مرکزی وزیروں نے اس کی
تردید کردی اور کہا کہ ایسی کوئی تجویز سرکار کے زیر غور نہیں ہے ۔ان
تردیدی بیانات کے دوسرے ہی دن (بدھ22فروری) انگریزی روزنامہ’ انڈین
ایکسپریس‘ نے صفحہ اول پر گروپ آف منسٹرس (جی او ایم) کی میٹنگ کے ایجنڈے
کا عکس شائع کردیا ،جس سے مذکورہ خبر کی تصدیق اور سرکاری تردید کی تکذیب
ہوگئی۔
اس ایجنڈے میں صاف کہا گیا ہے:” چیرمین کی بھی یہی رائے تھی کہ ترقیاتی
کاموں میں انتخابی ضابطہ اخلاق کا بہانا ہوجاتا ہے اور اس طرح انہوں نے
وزیر قانون کی اس رائے سے اتفاق کرلیا کہ اس مسئلہ کواہم نشان زد کرکے
ایجنڈے میں شامل کرلیا جائے۔ تجویز یہ کیا گیا تھا کہ قانون سازی کا شعبہ
اس پہلوکو بھی دیکھے کہ الیکشن کمیشن کے کن کن انتظامی احکامات کو قانونی
صورت دینے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سیکریٹری شعبہ قانون ساز سے درخواست کی گئی
ہے کہ وہ جی او ایم کی میٹنگ کو اس معاملہ میں پیش رفت سے باخبر کرائیں۔“
اس نوٹ سے ظاہر ہے کہ محترم وزیر قانون چاہتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق کے تحت
الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات کو اس طرح کند کردیاجائے کہ خلاف ورزی پر نہ
تو وہ کسی جانبدار افسر کو ہٹا سکے اور نہ کسی وزیر یا سیاست داں کی سرزنش
کرسکے بلکہ شکایت عدالت میں جائے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاملہ مدتوں
لٹکا رہے گا اور مار پیچھے پکار ہوتی رہے گی۔ جب کہ موجودہ نظام کے تحت نہ
صرف یہ کہ کمیشن فوراً کاروائی شروع کردیتا ہے بلکہ اس کو یہ بھی اختیار ہے
کہ اہم سیاسی پارٹیوں کے مشورے سے ضابطہ اخلاق میں اصلاحات بھی کرلے۔
قانونی شکل دئے جانے پر یہ اختیار مقننہ کا ہوگا اور اصلاح کا عمل پیچیدہ
ہوجائیگا۔
ظاہر ہے یہ کمیشن کو بے دست و پا کرنے کی تجویز ہے۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی
تردد نہیں کہ صاف ،شفاف، منصفانہ چناﺅ ہماری جمہوریت کی جان اور شان ہیں۔
ایسا کوئی اقدام جس سے کمیشن کے اختیارات پر زد پڑے اور برسر اقتدار پارٹی
کو یہ موقع مل جائے کہ وہ عین چناﺅ کے وقت رائے دہندگان کو لبھانے کےلئے
ترقیاتی کاموں کے نام پر نئے نئے منصوبوں کا اعلان کردے، ہرگز مناسب نہیں ۔
عام طور پر انتخابی عمل ایک ڈیڑھ ماہ میں پورا ہوجاتا ہے جس کے دوران ضابطہ
اخلاق کی وجہ سے نئی اسکیموں کا اعلان نہیں کیا جاسکتا، البتہ جن اسکیموں
پر کام ہورہا ہے ان میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑتی۔ دیکھا یہ گیا ہے سرکاریں
اپنی پانچ سال کی مدت کار کے دوران سوتی رہتی ہیں اور چناﺅ سر پر آتے ہی ان
کو ترقیاتی کام یادآنے لگتے ہیں اور ان کے اعلان میں ضابطہ اخلاق روڑا
دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ اندا ز فکرفاسد ہے۔ اقتدار کا یہ خاصہ ہوتاہے کہ
وہ زیادہ سے زیادہ اختیارات کواپنی مٹھی میں کرلینا چاہتا ہے۔ چناﺅ کمیشن
کی اختیار میں شب خون کی یہ تجویز اسی رجحان کا مظہر ہے۔
ریزرویشن اور بھاجپا سلمان خورشید صاحب نے فرخ آباد کی اسمبلی سیٹ پر
انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کر ڈالا کہ یو پی میں کانگریس کی سرکار بنی
تو بے روزگار نوجوانوں کو بھتہ اوراقلیتی پسماندہ طبقات کو داخلوں اور
سرکاری ملازمتوں میں 9% ریزرویشن دیا جائیگا۔ یہ بات تو دیگر ہے کہ مسلم
اقلیت نے اس وعدے کا کتنااثرقبول کیا، مگران کے وعدے سے اپوزیشن تلملا گئی۔
بھاجپا کی شکایت پر چناﺅکمیشن نے اس کا سخت نوٹس لیا۔چنانچہ چھوٹی سی خبر
بڑی بن گئی۔ بھاجپا کو لگا کہ اس وعدے کی مشتہری سے اس کو اپنا فرقہ ورانہ
ایجنڈہ آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔وزیرا عظ خورشید صاحب کے اظہار معذرت کے
بعد کمیشن نے تو معاملہ ختم کردیا، مگر بھاجپا اب تک اس کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی
ہے۔26 فروری کواخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران آڈوانی جی دیر تک اس کا ذکر
کرتے رہے۔ اسی کو کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
سلمان خورشید کی مجبوری:مسٹر خورشید کےلئے فرخ آباد کا نتیجہ کس قدر اہم
ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سیٹ ان کے اپنے پارلیمانی حلقہ میں ہے۔ وہ
مرکز میں صرف وزیر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک کلیدی وزارت پرفائز ہیں۔ برے دنوں
میں ریاستی کانگریس کے صدربھی رہے۔چنانچہ اس پارلیمانی حلقہ کی سبھی اسمبلی
سیٹوں کے نتائج ان کےلئے اہم ہیں۔ان کےلئے اس سیٹ کی اہمیت اس لئے اور
زیادہ ہے کہ اس پر ان کی اہلیہ محترمہ لوئیس چناﺅ لڑ رہی ہیں۔چنانچہ سیٹ
نکالنے کےلئے اگر ضابطہءاخلاق کی خلاف ورزی ہوجائے اور بعد میں معافی
مانگنی پڑجائے تو اخلاقی قدروں کی پامالی کے اس دور میں ان پر کیا فرق پڑتا
ہے؟
تیرے وعدے پر جئے ہم....: خبریہ ہے کہ ریزرویشن کے وعدے کا مسلم رائے
دہندگان نے خاص اثر قبول نہیں کیا۔وجہ شاید یہ ہے کہ وہ ابھی یہ نہیں بھولے
کہ یہی وہ سلمان خورشید تھے جنہوں نے 2009کے پارلیمانی انتخابات کے بعد
اقلیتی امور کے وزیر کا منصب سنبھالتے ہی ریزرویشن کے کانگریس کے انتخابی
وعدے کو درکنار کردیا تھا۔ انہوں نے ایک انٹر ویو (انڈین ایکسپریس
،8جون)میں کہا تھا کہ مسلم اقلیت کےلئے کوٹا ”دو دھاری تلوار“ ہے، جس سے
نزاع اور مخاصمت میں اضافہ ہوگا۔البتہ مثبت اقدام کے ذریعہ ان کی مدد کی
جائیگی۔ اپنا یہ نظریہ انہوں نے کئی بار دوہرایا ۔ 25جون 2011 کو چنئی میں
ایک سیمینار میں سچر کمیٹی رپورٹ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے کہہ دیا
کہ یہ کوئی آسمانی صحیفہ یامستند دستاویز تو ہے نہیں کہ آنکھ بند کرکے اس
پر عمل کیا جائے‘۔بیشک یہ رپورٹ آسمانی صحیفہ نہیں لیکن دنیا جانتی ہے یہ
کسی کے تخیل کی پرواز کانتیجہ بھی نہیں بلکہ حقائق کا آئینہ ہے اور سارے
اعداد شمار سرکاری طور پر فراہم کئے ہوئے ہیں۔ ان کے ان نظریات کی بدولت ان
کے اس وعدہ کوایک جھانسہ تصور کیا جارہا ہے۔ مسٹر خورشید کا اصرار تھا کہ
سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذسے مسلمان کوزہ میں بند ہوجائیں گے اور الگ
تھلگ پڑ جائیں گے۔گویاموجودہ مفلوک الحالی میں وہ ان کی نظر میں باقی قوم
سے ساتھ شیر و شکر اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم سر وہم سفرہیں۔
خورشید صاحب کے بعد بینی پرساد ورمانے بھی اسی طرح کا وعدہ کیا۔ کانگریس نے
2009 کے پارلیمانی انتخابی منشورمیں ملک گیر سطح پر اقلیت کوکیرلہ ، کرناٹک
اور اندھرا پردیش کے طرز پر کوٹا دینے کا وعدہ کیا تھاجسے بھلادیا گیا۔
امید یہ ہے کہ یوپی میں جو سرکار بنے گی اس میں کانگریس کارول ہوگا۔اس نئے
وعدہ کا حشر بھی سامنے آجائے گا۔ اتنا ضرور ہے:
تیرے وعدے پر جئے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
این سی ڈبلیو کی سربراہ: :قومی کمیشن برائے خواتین کی سابق چیرپرسن ڈاکٹر
گرجا ویاس کے سبکدوشی (8اپریل2011) کے بعد سے یہ منصب خالی پڑا تھا، جس پر
حال میں ممتا شرما کی تقرری ہوئی ہے۔ یہ کمیشن خواتین کی عزت آبرو اور ان
کے حقوق کے نگراں کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن غالباً نئی چیرمین کو اس منصب کی
نزاکتوں کا ادراک نہیںیا ملک میں روز افزوں جنسی جرائم سے ان کی طبیعت مکدر
نہیں ہوتی۔شاید اسی لئے یہ موٹی سے بات ان کی گرفت سے باہر ہے کہ ان جرائم
پر قابو پانے کےلئے جنسی ترغیبات ، تحریصات اور پیش قدمیوں پر قابو پانا
کتنا اہم ہے۔خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ایک جرم ہے۔ چھیڑ چھاڑ کبھی اشاروں
کنایوں سے ہوتی ہے ، کبھی کسی جسمانی حرکت سے اور اکثر جملے بازی سے۔
بدطینت لوگ خواتین کو احتراماً ’سیکسی‘نہیں کہتے ۔ سیکسی کا مطلب ہرگز
مجردحسن نہیں بلکہ ہندی میں’کامُک‘ اور اردو میں ’پر شہوت ‘ ہوتا ہے۔ سیکسی
اس کو کہتے ہیں جو شہوانی جذبات برانگیختہ کردے۔ مگر محترمہ شرما فرماتی
ہیں کہ لڑکیوں کو سیکسی کے ریمارک کا برا نہیں ماننا چاہئے۔ استغفراللہ۔
شاید مرکز کو اس کمیشن کےلئے ایسی ہی سربراہ کی تلاش تھی جو جنسی بے راہ
روی کی بے ضرر تاویلات کرسکیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح خودمرکزنے ہم جنس پرستی
اور بغیر شادی ساتھ رہنے کی بیہودگی کےلئے نکال لی ہیں اور ان بیہودگیوں کی
روک تھام کونارواسمجھ لیا ہے۔ چنانچہ گزشتہ ہفتہ جب ہم جنسی کے معاملہ میں
سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی تھی اور سرکاری وکیل پی پی ملہوترہ نے یہ
کہاکہ ہم جنس پرستی انتہائی غیر اخلاقی فعل ہے اور یہ کہ ہندستانی معاشرے
کو دیگر ممالک کے معاشرے جیسا نہیں سمجھنا چاہئے تو وزارت داخلہ کے حکام
فوراً حرکت میں آگئے ۔ ابھی عدالت میں بحث چل ہی رہی تھی کہ آناً فاناً
بیان آگیا کہ حکومت ایسا کچھ نہیں سمجھتی۔اب ایڈوکیٹ ملہوترہ کو بدلا جارہا
ہے۔ ہم جنس پرستی کی پیروی میں مستعدی سے وزارت داخلہ نے جو اشارہ دیا ہے
محترمہ شرما اس کو سمجھے ہوئے ہیں۔جب سرکار ہم جنسی کو برا نہیں سمجھتی اس
کی نامزد چیرپرسن ’سیکسی‘ کہہ دینے بھر کو بھلا کیسے ناروا قرار دے سکتی
ہیں؟ ان کا ذہن و فکر پوری طرح اس نظریہ سے ہم آہنگ نظر آتا ہے جس میں جنس
زدگی میں کوئی برائی نہیں۔ایسی صورت میں ان کے استعفے کا مطالبہ کیا معنی
رکھتا ہے؟
کجریوال کی کڑوی باتیں: :ٹیم انا کو گردش میں رکھنے والے اروند کجریوال نے
یہ کیا کہہ دیا ؟’ قانون ساز اداروں میں بدکار، لٹیرے ، جھوٹے لوگ بیٹھے
ہیں‘اور یہ کہ ’ پارلیمنٹ کے 163ممبر مجرمانہ معاملات میں ملوّث ہیں‘۔ حد
تو یہ ہے کہ نام لئے بغیر کرناٹک کے ان بھاجپائی وزیروں پر بھی لعنت ملامت
کردی جو اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے موبائل پر فحش کلپنگ دیکھتے نہیں شرماتے۔
ان کی ان تلخ باتوں پر سبھی سیاسی پارٹیوں نے سخت ردّعمل ظاہر کیا ہے۔
بھاجپا بھی چراغ پا ہوگئی حالانکہ سنگھ نے ہی ٹیم انا کا رتبہ بڑھایا۔ ان
قائدین میں سے کسی کی یہ ہمت تو نہیں ہوئی کہ کجریوال کے بیان کوغلط قرار
دے دیتا،البتہ ان پر پارلیمنٹ کے وقار کومجروح کرنے کا الزام
ضرورعایدکردیا۔ شاید یہ حربہ نریندر مودی سے سیکھا گیاہے۔ جب بھی ان کے
گناہوں پرانگلی اٹھتی ہے وہ فوراً شور مچانے لگتے ہیں کہ دیکھو گجرات کی
آبرو پر حملہ ہورہا ہے۔ آئینہ دکھانے والے پر جھپٹ پڑنے کے بجائے ہونا یہ
چاہئے تھا کہ یہ سیاسی قائدین قوم سے وعدہ کرتے کہ اس داغ کو دھو ڈالیں گے
اور قانون ساز اداروں میں جنس زدہ اورمشکوک کردار کے لوگوں کا داخلہ روک
دیں گے۔ پارلیمنٹ کا وقارجرائم میں ملوّث ممبران کی نشاندہی سے نہیں بلکہ
ایوان میں ان کی موجودگی سے مجروح ہوتا ہے ۔ مگر اس حمام میں تو سبھی ننگے
ہیں۔
یوپی کے چناﺅ: یوپی میں سات میںسے چھ مرحلوں کی پولنگ ختم ہوچکی ہے۔ اس بار
کی پولنگ کئی اعتبار سے خاص رہی۔ رائے دہندگان بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے
اور پرسکون انداز میں ووٹ ڈالے۔ بعض علاقوں میں شرح 70 فیصد سے اوپر رہی۔یہ
زبردست اضافہ حیرت انگیز بھی ہے اور مسرت خیز بھی۔ دیکھئے اس کا کیا اثر
نتائج پر پڑتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ رہی کہ بھاجپا کی فرقہ ورانہ سیاست کا
زور پوری طرح ٹوٹ گیا چنانچہ کہیں بھی فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا نہیں کی
جاسکی۔اس کا سہرہ بڑی حد تک مایاوتی کے سر ہے۔ ذات برادری کاکارڈ تو چلا
مگر پہلے کے مقابلے کم۔تعلیم، ترقی، روزگار ، کرپشن اور قانون کی حکمرانی
اہم موضوع رہے۔ نہ کہیں دولت کی ریل پیل نظر آئی اور نہ کوئی ناخوشگوار
واقعہ پیش آیا۔پولیس نے گاڑیوں کی تلاشیوں کے دوران بڑی بڑی رقمیں ضبط کیں
جن کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔ گویا یہ سارا کالا دھن ہے۔
خاص بات یہ کہ اس مہم میں پرانے چہروں کے بجائے نئے چہرے چھائے رہے۔اکھلیش
کا انداز بھی لوگوں کو پسندآیا لیکن راہل گاندھی کو مرکزی حیثیت حاصل
رہی۔گزشتہ چند سالوں سے جس طرح انہوں نے یوپی میں کانگریس کو کھڑا کرنے کی
جدوجہد کی ہے اور کسی منصب کی چاہ نہیں کی اس کی بدولت انہوں نے بہت سے
دلوں کو جیتا ہے۔ ظاہرہے کہ رام کے اس دیس میں تیاگ کی اب بھی قدر ہے۔ہر
طبقے نے ان کے سدھے ہوئے ،صاف، ستھرے اور سیدھے انداز کی تعریف و تحسین کی
ہے۔جینت چودھری نے بھی اپنی پارٹی لوک دل کی مہم کو اچھے انداز میں چلایا۔
خاص بات یہ ہے ٹکٹ اہل امیدواروں کو دئے گئے ۔ اس بار پیسے کے کھیل کا
الزام کسی نے نہیں لگایا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تین نوجوان چہرے راہل ،
اکھلیش اور جینت چودھری یوپی کی تقدیر کو بدل پائیں گے؟ان تینوں میں اچھی
سمجھ بوجھ ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ یاس پر آس کی فتح ہوگی۔ (ختم) |