مجھے آج سابق برطانوی وزیراعظم
ٹونی بلئیر کی خواہر نسبتی محترمہ لورین بوتھ کے قبول اسلام پر اظہار خیا ل
کرنا تھا جنھوں نے اپنے دورہ ایران کے موقع پر اسلام قبول کرنے کا تاریخی
فیصلہ کیا۔ کالم کے لیے کئی دنوں سے مواد جمع کر رہا تھا اور آج اس موضوع
پر اظہار خیال کی تیاری تھی لیکن سانحہ کوہستان نے سارے منصوبے پر پانی
پھیر دیا۔ اہل پاکستان کی طرح مجھے بھی بے چین اور مضطرب کردیا ، میں ہفتوں
پر محیط اپنی محنت کو موخر کرتے ہوئے اس سانحہ پر کچھ عرض کروں گا۔
پاکستان بحرانوں کا شکار ہے اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ کراچی
سے خضدار اور خضدار سے ہنزہ تک اہل پاکستان زخموں سے چُور چُور ہیں۔ کہیں
کوئی محفوظ نہیں، صرف صدر اور وزیراعظم ہاؤس اور اس کے مکین آرام کی نیند
سوتے ہیں۔ بلوچستان کا چپہ، چپہ زخم خردہ ہے، کراچی کا ہر گھر چھلنی ہے،
خیبر پختون خواہ میں ہرروز دھماکے ہورہے ہیں گلگت بلتستان میں فرقہ واریت
کو ہوا دینے کے لیے کہیں سنی اور کہیں شعیہ بھائیوں کا قتل عام کیا جا رہا
ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ اہل پاکستان فرقوں،
زبانوں، علاقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں اور
پاکستان غیر مستحکم اور منقسم ہو جائے۔ ہمیں پہلے پاکستانیت سے بیگانہ کیا
گیا، صوبائیت اورلسانیت کو ہوا دی گئی، صوبوں کو مفادات کی نام پرلڑایا گیا
پھر لسانیت کی بنیاد ہر اہل پاکستان کی وحدت اور بھائی چارے کو پارہ، پارہ
کیا گیا۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر میدان جنگ برپا کیا گیا، مسجدوں، امام
بارگاہوں اور خانقاہوں کو لہو لہان کیا گیا، معصوم انسانوں کو لقمہ اجل
بنایا گیا۔ اسلام جو پوری دنیا کے انسانوں کو محبت، یگانگت اور بھائی چارے
کا درس دیتا ہے، جو غیر مسلموں کو مکمل تحفظ اور عزت کی ضمانت دیتا ہے،
اسلام جو خونخوار درندوں کو بھی زندگی کا حق دیتا ہے، اس اسلام کے نام پر
مسلمان، مسلمان کو واجب القتل قرار دے رہا ہے۔ اس طرح کاشرانگیز لٹریچر
شائع کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کی روٹیاں لگی ہوئی ہیں اور ہزاروں لوگ لقمہ
اجل بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ کرنے والے نہ اسلام کے داعی ہیں اور نہ پاکستان کے ہمدرد ہیں۔ یہ
پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا ہے اور اس پر عمل کرنے والے وطن دشمنوں کے آلہ
کار ہیں۔ ہمارے مقتدر اداروں کو کچھ نظر نہیں آتا یا وہ خاموش ہیں ورنہ وطن
دشمنوں کو اس طرح کھلے عام قتل و غارت گری کی ہمت کبھی نہ ہوتی۔ ہماری
بدقسمتی ہے کہ فرقہ واریت ، نفرت انگیزی اور تفرقہ بازی کو ہمارا میڈیا
بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اتحاد واتفاق کی بات کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔
ہمارے اداروں نے فرقہ واریت کو پنپنے کا خود موقع فراہم کیا ورنہ ایک ریاست
کے اندر مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے اور انہیں پروان چڑھنے کا
عمل راتوں رات تو نہیں ہوگیا ، یہ سب کچھ مدتوں سے جاری تھا۔ ہمارے حکمران
مذہبی قوتوں کو لڑانے اور خود حکومت کرنے میں مصروف رہے۔ ان کا خیال تھا کہ
یہ مولوی لڑتے رہیں گے تو انہیں تنگ نہیں کریں گے۔ یوں ہمارے حکمرانوں نے
خود مذہبی دہشت گرد پیدا کیے، پھر انہیں بیرون ملک سے وسائل ملنے لگے اور
اب یہ منہ زور گھوڑا بے قابو ہو چکا ہے۔ بھارت ، اسرائیل اور امریکہ اب
متحرب گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ عوام میں نفرت بھری ہوئی ہے۔ لوگ
عدم برداشت کی خطرناک سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے دشمنوں کا منصوبہ ہے کہ
فرقہ واریت کو ہوا دی جائے لسانیت کو پروآن چڑھایا جائے اور صوبائیت میں
جان ڈالی جائے تاکہ پاکستان سے وحدت امت اور واحدت ملت کا تصور ختم کرکے اس
کے ٹکڑے، ٹکڑے کر دئیے جائیں۔
ہمارے حکمران کبھی بھی عوام کے ووٹوں سے نہیں بنے، ہمارے الیکشن نے بہت
پہلے بیرون ملک تقسیم کار مکمل کر لی جاتی ہے۔ کچھ اندرون ملک ادارے بھی اس
میں شامل ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کا انتخاب پہلے کر دیا جاتا ہے اور پھر الیکشن
کا ڈرامہ رچا کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔بیرونی طاقتوں اور پس پردہ
اداروں کی مداخلت سے وجود میں آنےو الے حکمران ہمیشہ اپنے آقاؤں کے اشاروں
پر ناچتے ہیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مذموم سازشوں میں رنگ
بھرتے رہتے ہیں۔ ان اغیار کے آلہ کاروں سے نجات حاصل کرنے اور حقیقی آزادی
سے ہمکنار ہونے میں وقت لگے گا تاہم ہمدردان وطن اور اسلام سے محبت رکھنے
والوں کا فرض ہے کہ وہ باہر نکلیں اور پیار و محبت کو فضاءپیدا کریں۔ سنی،
شیعہ، اہل حدیث اور بریلوی سب ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک کعبہ
اللہ کو ماننے والے ہیں۔ ان کے درمیان نفرت کی دیواریں مٹا دیں اور باہم
بھائی بھائی بن جائیں، یہ کام علماءکرام کریں گے۔ آج وقت ہے کہ وہ حجروں،
خانقاہوں، مسجدوں اور آرام گاہوں سے باہر نکل آئیں۔جب تمام مکاتب فکر کے
قائدین مل بیٹھیں گے، ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں گے اور باہمی نفرتوں
کو ختم کرکے محبت کے چراغ جلائیں گے تو عوام میں یکجہتی پیدا ہو گی۔ ہم پھر
سے ایک ہو جائیں گے۔ یہ وقت کی ضرورت اور علمائے کرام کا فرض ہے۔ اگر وہ نہ
اٹھے تو قوم یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ اس نفرت انگیزی میں یہی لوگ پیش
، پیش ہیں۔ مذہب کو دہشت گردوں کے سپرد نہیں ہونا چاہیے، یہ امن اور سلامتی
کا مذہب ہے، اسے اصل حالت میں باقی رہنے دیں۔ اسے لہو آلودہ نہ کریں۔
فرقہ واریت کی تازہ واردات سانحہ کوہستان نے پورے پاکستان کو غمزدہ کر دیا
ہے۔ کوئی نہیں جو اس سے سکون پائے، سارے پاکستانی خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
یہ گولیاں کسی ایک مسلک کے بھائیوں پر نہیں مسلمانوں کے سینوں پر لگی ہیں،
پورے پاکستان کے سینے کو چھلنی، چھلنی کیا گیا ہے۔ اسلام کی چادر اخوت و
محبت کو دہشت گردوں نے آلودہ کیا ہے۔ ہم حق کے علمبرداروں کی راہ کھوٹی کی
گئی ہے، اسلام کو پوری دنیاء کے سامنے بے آبرو کیا گیا ہے۔ اسلام کا چہرہ
مسخ کیا گیا ، کلمہ گو مسلمانوں کو قتل کرکے اسلام کا قتل عام کیا گیا ہے۔
یہ کام مسلمان نہیں کر سکتا، یہ کسی غیر مسلم کا ہی ہوسکتا ہے یا اسلام
دشمنوں کے ایجنٹ ہی اس طرح کی قیامت برپا کر سکتے ہیں۔ پوری قوم اہل گلگت
کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ خدا راہ اسے سنی شیعہ مسئلہ نہ بنایا جائے۔ یہ
پاکستان اور اسلام کا مسئلہ ہے۔ اسے ہم سب نے مل جل کر حل کرنا ہے اور اپنے
مشترکہ دشمنوں کا باہمی اتحاد و اتفاق اور جامع حکمت عملی سے مقابلہ کرنا
ہے۔ میں پرامید ہوں کہ علمائے کرام وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بلا
تاخیر اپنا فرض ادا کرنے میدان میں نکلیں گے اور نفرتوں کو محبتوں میں بدل
دیں گے۔ ماضی میں ملی یکجئتی کونسل نے اس مسئلے پر تاریخی کردار ادا کیا
تھا۔ اب بھی قاضی حسین احمد صاحب کی صحت اجازت دے تو انہیں تمام مکاتب فکر
کے علماءکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہیے تاکہ اس قومی مسئلے کا دیرپا
اور مستقل حل تلاش کیا جائے۔ |